نئے مالیاتی دور کا آغاز

یہ ایک سال پہلے کی بات ہے کہ صدر چین نے نئے عالمی بنک کی تجویز پیش کی تھی۔اور اب24۔اکتوبرکو گریٹ پیپلز ہال میں چین کے ساتھ20اور ایشیائی ممالک نے مجوزہ بنک کے ابتدائی کاغذات پر دستخط کردیئے ہیں۔چین اب سنجیدگی سے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔بنک ابتدائی طورپر50۔ارب ڈالر(جسے بڑھا کر100۔ارب ڈالر تک لایا جا سکے گا) سے کام شروع کردے گا۔2015ء میں قرضوں کا لین دین شروع ہوجائے گا۔نیا بنک جسے(AIIB)کہاجائے گا۔یہ شرح سود کے لہاظ س ے عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کی پیروی کرے گا۔ایشیائی بنک(ADB) 2.5فیصد تا4.5فیصد شرح سے قرض دیتا ہے۔1966ء میں قائم ہونے والا ایشیائی ترقیاتی بنک اب تک ایشیاء میں کافی اہم رول اداکرچکا ہے۔لیکن بنک کے زیادہ حصے امریکہ اور اس کے اتحادی جاپان کے پاس ہیں۔لہذا کوئی بھی قرض ان کی رضامندی کے بغیر نہیں مل سکتا۔ایشیائی ترقیاتی بنک نے نئے بنک کاخیر مقدم کیا ہے۔اور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ADBنے کچھ عرصہ پیشتر یہ کہاتھا۔کہ ایشیاء کو ترقی کے لئے کئی ٹریلین ڈالرز کی سالانہ ضرورت ہے۔دنیاکی آبادی سب سے زیادہ چونکہ ایشیاء میں ہے۔لہذا یہاں غربت میں بڑاDentڈالنے کے لئے بڑے سرمائے کی ضرورت ہے۔نیا بنک اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر بنایا جارہا ہے۔اگر نئے بنک کے پاس 100۔ارب ڈالر آجاتے ہیں تو وہADBکا تقریباً2/3ہوگا۔کیونکہADBکا ترقیاتی فنڈ175۔ارب ڈالر کے برابر ہے۔دنیا بدل رہی ہے۔اب تک دنیا پر مالیاتی حکمرانی امریکہ کی رہی ہے۔تینوں مالیاتی ادارے جو1944ء کی بریٹن ووڈ کانفرنس کے بعد تشکیل دیئے گئے تھے۔مالیاتی کنڑول انہیں کے پاس تھا۔ان تینوں اداروں میں امریکہ نمبر ایک کی پوزیشن رکھتا ہے۔اس کے حصص زیادہ ہونے کی وجہ سے اسکے ووٹ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔لہذا قرض میں امریکی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔امریکہ دیکھتا ہے کہ جس ملک کو قرض دیاجارہا ہے۔وہ امریکہ مخالف تو نہیں ہے۔عالمی سطح پر امریکی پالیسیوں کی حمایت کرنے والوں کو ہی عالمی مالیاتی اداروں سے سہولیات ملتی رہی ہیں۔امریکہ اپنا معاشی حکم نامہ انہیں مالیاتی اداروں کے ذریعے چلاتا رہا ہے۔1944ء سے اب2014ء آگیا ہے۔دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ایشیاء میں بڑے طاقتور ملک ابھر چکے ہیں۔چین معاشی نقطہ نظر سے اب عالمی سپر پاوربن گیا ہے۔اس کے محفوظ سرمائے کی مقدار ہرروز بڑھتی رہتی ہے۔اس سرمائے سے یورپ اور امریکہ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔لیکن تینوں بڑے مالیاتی عالمی ادارے اب بھی پرانے ڈھانچے کے مطابق چل رہے ہیں۔اور یہ ڈھانچہ امریکہ نے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل دیا تھا۔چین نے ان اداروں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش تو کی۔لیکن اسے بات بنتی نظر نہیں آرہی تھی۔ایشیاء میں چین کے ساتھ بھارت بھی ایک بڑا صنعتی اور تجارتی ملک بنتا جارہا ہے۔سنگاپور۔تائیوان اور شمالی کوریا چینی نسل کے لوگوں پر مشتمل ریاستیں ہیں۔یہ بھی کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔ایشیاء میں گزشتہ 30سالوں میں بڑی تبدیلیاں آچکی ہیں۔چین،پاکستان کو بھی بڑی اہمیت دیتا ہے۔چینی لیڈر شپ نے بڑی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اسے اپنے پڑوسیوں کو شامل کرکے ایک بڑا بنک بنانا چاہیئے۔ایشیاء میں تحتی ڈھانچہ کے بڑے مسائل ہیں۔ریلوے،روڈ،بجلی اور گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مختلف ممالک کو سرمائے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔لیکن پرانے عالمی اداروں سے انہیں ضرورت کے مطابق سرمایہ دستیاب نہیں ہوتا۔نئے بنک کی ضرورت انہیں وجوہات کی وجہ سے تھی۔چین نے نئے بنک کا عارضی سیکرٹری جنرل طے کردیا ہے۔ابھی بہت سی تفصیلات طے ہورہی ہیں۔بنک میں بنیادی حصہ داریG.D.Pسے ہی طے ہوگی۔زیادہG.D.Pوالے ملک کا بنیادی حصہ بھی زیادہ ہوگا۔یوں چین اور بھارت ہی بڑے حصے دار ہونگے۔ابھی امریکہ نے آسڑیلیا،جاپان،جنوبی کوریا اور انڈونیشیاء کو بنک میں شامل ہونے سے روک رہا ہے۔جان کیری وزیر خارجہ امریکہ نے آسڑیلیا کے وزیراعظم کو کھلا پیغام دے دیا ہے۔کہ آپ ابھی نئے بنک کے قریب نہ جائیں۔باقی تینوں ممالک نے بھی ابتدائی میٹنگ جو24اکتوبر2014ء کو ہوئی۔اس میں شمولیت نہیں کی۔لیکن ان ممالک نے چین کو کہا ہے کہ ہم نئے ادارے کے بارے سوچ بچار کررہے ہیں۔اپنا فیصلہ بعد میں بتائیں گے۔امید ہے کہ یہ چاروں ممالک امریکی مخالفت کے باوجودAIIBمیں حصہ دار بننا شروع کردیں گے۔ایشیاء میں بستے ہوئے ایشیاء میں ہونے والی بڑی Activityسے دور رہنا چاروں ممالک کے لئے مشکل ہوگا۔پہلے یہ تجویز آئی تھی کہ چین اپنا حصہ50۔فیصد کے برابر رکھنا چاہتا ہے۔لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ چین اپنے بڑے حصے پر زور نہیں دے گا۔جب آسڑیلیا اور جاپان جیسے بڑے ملک حصہ دار بن جائیں گے۔تو چین کا حصہ لازمی طورپر کم ہوجائے گا۔بھارت اپنا حصہ بڑا رکھنا چاہے گا۔تاکہ اسے اپنے ملک کے تحتی ڈھانچہ کو بہتر کرنے کے لئے فنڈز مہیا ہوتے رہیں۔پاکستان کو بھی بنیادی حصے کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہیئے۔اسی حصے کی بنا پر ہم آئندہ بنک کے وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔جب بنک کام شروع کردے گااور ضرورت مندوں کو وسائل ملنا شروع ہونگے تو اسکی افادیت بھی بڑھنا شروع ہوجائے گی۔یورپین اور امریکی اقوام بھی اس بنک سے کسی نہ کسی وقت فائدہ اٹھا سکیں گی۔لہذا امریکہ کو بنک کی بہت زیادہ مخالفت نہیں کرنی چاہیئے۔بدلتے ہوئے حالات میں نئے اداروں کا قیام عالمی ضرورت ہے۔آخر صرف امریکہ کے زیر اثر ادارے ہی کیوں ہوں؟ایشیاء کی معیشتیں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔اگر یہ بھی کوئی مالیاتی ادارہ بنا لیتے ہیں تو اس سے کرۂ ارض پر موجودانسانوں کو فائدہ ہی ہوگا۔امریکہ ویسے بھی ابClimaxسے نیچے آرہا ہے۔دوسری اقوام ابھر رہی ہیں۔ان بدلتے ہوئے عالمی حالات میں ادارے بھی نئے بننے چاہیئے۔چینی وزیر خزانہ لو جیوی (Lou Jiwei)نے بنک پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا بنک اونچے معیار اور محفوظ پالیسیوں کی بنا پر بنایا جارہا ہے۔بنک اصولوں کی بنا پر کام کرے گا۔بیوروکریسی کی پسند نا پسند کا تعلق نہیں ہوگا۔ایسا لگتا ہے کہ اب کرۂ ارض انگڑائی لے رہا ہے۔صدیوں سے قائم مغربی اداروں کی اجارہ داری ختم ہورہی ہے۔ایشیاء تیزی سے ابھر رہا ہے۔ایشیائی ممالک پر مشتمل بنک کا قیام روشن صبح کا آغاز ہے۔سورج کے ساتھ ساتھ مشرق سے ابھرتے ہوئے مالیاتی ادارے ایشیائی اور عالمی ترقی میں اہم رول اداکریں گے۔جوں جوں یہ مالیاتی ادارہ آگے بڑھے گا۔ایشیاء میں امریکی اثرورسوخ بھی کم ہوتا چلاجائے گا۔بنک میں آسڑیلیا،جاپان اور انڈونیشیاء جیسے بڑے ملکوں کی شرکت بہت ضروری ہے۔چینی اس پر کام کرتے رہیں گے۔اور ایک دن آئے گا کہ یہ بڑے ممالک بھی بنک کے بنیادی ممبروں میں شامل ہوجائیں گے۔مغرب اب استعمارانہ مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے کافی بدنام ہوچکا ہے۔ایشیاء کی مالیاتی آزادی کے لئے ایسے بنک کا قیام ایک خوش آئند کام شمار ہوگا۔
 

Prof.Ch.Jamil
About the Author: Prof.Ch.Jamil Read More Articles by Prof.Ch.Jamil: 18 Articles with 10801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.