کیا آج بھی پاکستانی عوام کو 12اکتوبر کا انتظار ہے

” وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کو آزادی ملے56سال گزر چکے ہیں مگر ہم اب تک معاشی آزادی حاصل نہیں کرسکے ، یہ آزادی ہمیں اس وقت ملے گی جب ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو ملک سے نکال دینگے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ملک کی ۵۹ فیصد دولت پر قابض پانچ فیصد امیر طبقے سے دولت لے کر 95 فیصد غریبوں میں تقسیم کر یں ۔ “ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار” ہم مالیاتی اداروں کی چھٹی کرادیں گے ۔ “ وزیر اعظم میاں نواز شریف ”ہم نے ملک کو اسلام کا قلعہ بنانے کا عہد کیا ہوا ہے ۔ “ یہ اور اس جیسے بے شمار بیانات سے1997ءسے لے کر 1999ءتک کے اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں ۔ ان شخصیات کے ناموں اور عہدوں کے ساتھ آج کے تناظر میں یہ بیان بازی پڑھی جائے تو کچھ بدلا ہوا محسوس نہیں ہوگا گو کہ اس درمیان میں پندرہ سال کا ایک طویل عرصہ موجود ہے مگر یوں لگتا ہے کہ اقتدار ، شخصیات اور عہدوں کی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔ ملک کی سیاسی ، معاشی، سماجی اور امن و امان کی صورتحال بالکل یہ ہی تھی جب 12اکتوبر1999ءکی شام غروب ہونے والا سورج اپنے ساتھ میاں نواز شریف کی حکومت کا سور ج بھی لے ڈوبا ۔نواز شریف نے اپنے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ صرف دوسال سات ماہ 23 دن حکمرانی کی انہوں نے 27 فروری 1997 ءکو اقتدار سنبھالا اور12اکتوبر1999ءکو اقتدار گنوا دیا ۔ اس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ حکومت کیسے جائے گی ؟ اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہے ۔ آٹھویں ترمیم ختم ہو چکی ہے اور مقتددر اداروں کے بارے میں یہ کہا جاتا کہ وہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ہیں لیکن پھر بھی ہوا کا ایک جھونکا آیا اور تبدیلی کا پر چم لہرانے لگا ۔میاں صاحب کی اقتدار سے علیحدگی کے بے شمار اسباب ہیں اگر ان کا سرسری بھی جائزہ لیا جائے تو دفتر درکار ہیں ہم یہاں صرف ان کمزوریوں اور غلطیوں کی جانب مختصراََ روشنی ڈالیں گے جو آج بھی میاں صاحب کے ہم رکاب ہیں جن پر قابو پانے یا ان سے بچنے کے بجائے میاں نواز شریف کے لیے گو نواز گو ایک استعارہ بن گیا ہے ۔

میاں نواز شریف نے جب دوسری بار زمام اقتدار سنبھالا تھا تو بڑی شدمد سے یہ مہم چلا ئی تھی کہ
وہ قومی بینکوں کے ڈیفالٹر ز سے ان پھنسی ہوئی رقوم کو بر آمد کریں گے اور ملک کو ٹیکس چوروں اور قرض خوروں سے نجات دلائیں گے مگر میاں صاحب نے دوسرے دور حکومت میں اپنے اختیارات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے اور خود کو عقل کل سمجھ کر سارے فیصلے خود کرنے کی روش پر چلتے ہوئے ٹیکس چوروں اور قرض خوروں کا ساتھ دیا ۔ کیا آج بھی یہ ہی صورتحال نہیں ؟ وزیر اعظم نے ملک کی 95فیصد وہ دولت جس کے متعلق میاں شہباز شریف یہ کہتے رہے کہ ملک میں واپس لائیں گے ، لیکن موجودہ دور حکومت میں وہ سارے جاگیردار،وڈیرے ، کرپٹ سیاستدان اور ٹیکس چور اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھے مزے کر رہے ہیں ۔

ستانوے سے لے کر ننانوے تک وفاقی ملازمتوں سمیت ملک کے اہم اداروں میں ملازمتیں اور عہدوں پر میرٹ کے بجائے اقرباپروری کی بدترین مثالیںقائم کی گئیں ، یہ صورتحال آج بھی ویسی ہی ہے کچھ نہیں بدلا چہرے ،رشتے اور عہدے بدلے ہوئے ہیں ۔ممنون حسین اس وقت گورنر تھے تو آج یہ صدارت کی کرسی پر براجمان ہیں ۔ نواز شریف کے سارے بیٹے ، بیٹی ، داماد ، بیوی کے رشتے دار سمیت اقتدار اور دولت کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔ عرفان صدیقی صاحب ہوں یا پرویز رشید میاں صاحب کی ناک کا بال بنے خود بھی حکومت سے فیضیاب ہو رہے ہیں اور اپنے بھائی بندوں کے لیے بھی ھذامن فضل ربی ہے ۔ ( حال ہی میں عرفان صدیقی کے بھائی کی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے تقرری اس کی صرف ایک مثال ہے )

کارگل کا بحران میاں نواز شریف کی دوسری حکومت اور مسلح افواج کے درمیان کشیدگی کا سبب بنا ، میاں نواز شریف نے امریکہ کی ایما پر جس طرح ملک اور فوج کو کنارے لگانے کی کوشش کرتے ہوئے بھارت کے مذموم عزائم کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کرنا چاہی وہ پاکستان مسلح افواج کے لیے ناقابل قبول تھی ۔ کارگل ، بٹالک اور دراس سیکٹروں میں اپنی جان قربان کرنے والے مجاہدین اور فوجیوں سے محض امریکہ کی خواہش پر دفاعی اہمیت کی چو ٹیاں خالی کرا لینا اتنا تباہ کن قدم تھا جس نے پاکستان کی عزت اور حرمت کو سارے زمانے میں سوالیہ نشان بنا دیا ۔ اب ز را ا ٓج کے حالات میں میاں نوازشریف اور پاک افواج کے تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو جمہوریت کی سلامتی اور بقاء کے لیے میاں صاحب سے زیادہ پاک افواج چوکس دکھائی دیتی ہے میاں نواز شریف کے تو وہی انداز دلبرانہ ہیں ، چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کے وقت ان کی نظر انتخاب راحیل شریف ہوئے اس طرح شریف فیملی نے اپنی جانب سے ایک مستحسن فیصلہ کر کے اپنا قتدار محفوظ کر لیا ، یہ ہی وجہ ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف سے متعلق شریف فیملی کے رشتے داری کی خبریں زبان زد عام ہیں ان میں
کتنی حقیقت اور کتنی سچائی ہے اس کے
بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے

اکتوبر1999ءکی شام رونما ہونے والی ملکی قیادت کی تبدیلی کو پورے ملک میں اطمنان بخش خوشی کے ساتھ قبول کیا گیا ، اس وقت ہر ایک کا خیال تھا کہ ملک و قوم کو بحران سے نکالنے اوراس کی بقا و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ کیا آج یہ صورتحال نہیں ہے ؟ ؟؟ پوری قوم نے12 اکتوبر1999ءکو نواز شریف کو مسترد کر کے جنرل مشرف کے اقدامات کی بھر پور تائید کی تھی ۔ اس وقت بھی امریکہ اور برطانیہ نے جمہوریت کی حمایت میں پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں اور براہ راست امداد منجمد کردی تھی ۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے قوم کے نام اپنی نشری خطاب میں بہت مختصر طور پر نواز شریف حکومت کے غلط فیصلوں اور اقدامات کا ذکر کیا اور بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے قوم کو یقین دلایا کہ مسلح افواج پوری طرح ان کے ساتھ ہیں اور وہ خون کے آخری قطرے تک اپنے وطن کی سلامتی اور خود مختاری کا تحفظ کریں گے ۔ اس طرح آئین ، عدلیہ ، انتظامیہ اور فوج میں توڑ پھوڑ ، انتشار اور اختلاف پیدا کرنے کا جو سلسلہ میاں نواز شریف نے شروع کیا تھا فوری طور پر روک دیا گیا ۔

اس وقت مسلم لیگ ن نے پاک افواج میں اختلافات اور انتشار کی جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلائی گئیں لیکن پاکستانی عوام تو عوام پاکستان کے دشمن ملک بھارت کے ایک ٹی وی پروگرام میں ایک بھارتی مبصر نے اس وقت پاکستانی فوج کو خراج تحسین پیش کیا جب ایک ٹی وی کمپئر نے مبصرین سے سوال کیا کہ اسلام آباد میں فائرنگ کی آوازیں بھی آرہی تھیں کیا آ پ سمجھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف کے حامی فوجی یونٹوں کے درمیان لڑائی ہو رہی ہے تو ایک مبصر نے جواب دیا کہ” میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا کیو نکہ مجھے معلوم ہے کہ پاکستانی فوج کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ نظم و ضبط اور ڈسپلن کی سخت پابند ہے وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ فوج کا کنٹرول اور پاور کس کے پاس ہے چاہے وہ الف ، ب، ج، کوئی بھی ہو وہ صرف اسی کا حکم مانتی ہے پاکستانی فوج کی تاریخ ہے کہ اس کے مختلف یونٹ آپس میں کبھی نہیں لڑے وہ تو صرف اپنے سربراہ کا حکم مانتی ہے ۔ “

دلچسپ بات یہ ہے کہ آج اسی فوج کے خلاف سیاستدان اور سیاسی جماعتیں مخالفت میں اپنی حدود بھی کراس کر جاتے ہیں ۔

نوازشریف کی پالیسیوں تنقید کی جائے تو اسے جمہوریت کے خلاف لیا جاتا ہے ۔ کیا ہمارے ملک کے سیاستدان اتنے بھولے ہیں کہ جمہوریت کے مطلب و معنی نہیں سمجھتے یا جمہوریت کا مطلب ان کی اپنی لغت میں بدلا ہوا ہے ۔ ملک میں بد امنی وافراتفری کا راج ہے ، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے ، سرحدوں پر بھارتی جارحیت نے کتنی انسانی جانوں کو نگل لیا ہے ۔ بھارت کو اس جارحیت کا جواب دینا پاک افواج اچھی طرح جانتی ہے مگر سیاسی حکومتی پالیسیوں نے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں مگر کب تک ؟

چاند کو روٹی سمجھنے والے کسی بھوکے شخص کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں جمہوریت آتی ہےیانہیں ، جمہوریت کے نام پر سیاسی مداریوں کا کھیل دیکھتے دیکھتے پاکستانی بوڑھا ہوچکا ہے اب اسے میٹرو بس یا ٹرین کے بجائے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دو وقت کی روٹی چاہیے اور اس روٹی کو سکون سے کھانے کے لیے ملک میں امن کی فضا ، رہنے کے لیے مکان ، تعلیم اور صحت چاہئے ۔

ملکہ افروز روہیلہ
About the Author: ملکہ افروز روہیلہ Read More Articles by ملکہ افروز روہیلہ : 11 Articles with 7563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.