لڑاکا بیوی

بیوی کیسی بھی ہو بیوی ہوتی ہے، اس کے ساتھ اور اس کے بغیر، دونوں صورتوں میں رہنا آسان نہیں ہوتا۔بیوی کا لفظ انگریزی لفظ بیوٹی کے کس قدر قریب ہے کہ رشک آتا ہے۔یہ بات دنیا کی پچانویں فیصد بیویوں کے متعلق کہی جا سکتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے بہت ہی حسین ہوتی ہیں اور شادی کے بعد شاید ہی کوئی بیوی خوبصورت رہ جاتی ہے چاہے جتنا مرضی میک اپ کرتی پھرے۔ یہبات شوہروں کو بطورِ مشورہ کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے سامنے کسی بھی دوسری خاتون کی تعریف، خاص طور پراسکی خوبصورتی کی تعریف کرنے کے شرکیہ جرم کا ارتکاب کبھی نہ کریں ورنہ شرک کی سزا سوائے جہنم کے اور کچھ نہ ہو گی۔ یہ بات نامدار شوہروں کے متعلق اس لئے نہیں کہی جا سکتی کہ وہ حسین ہوتے ہی نہیں ۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ شادی کے بعد وہ بہت زیادہ نا پسندیدہ ہو جاتے ہیں۔بیوی کا لفظ جس دوسرے لفظ سے زیادہ قریب ہے وہ ’بیوہ‘ ہے جو کہ ایک خوفناک لفظ ہے۔ خدا کسی بیوی کو بیوہ نہ کرے، ہاں اگر خاوند رنڈوا ہو جائے تو خیر ہے۔مرتی دونوں صورتوں میں عورت ہی ہے۔بیوی کا لفظ جس تیسرے لفظ کے زیادہ قریب ہے وہ’ بیوفا‘ ہے۔ کیونکہ بیوی کے لفظ میں بیوفا کا آدھا لفظ شامل ہے۔ہم اس بات سے متفق نہیں لیکن ویسے دنیا میں زیادہ تر عورتوں یعنی بیویوں کو بیوفا ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔انگریزی زبان وادب کا باوا آدم چاسر ہویا انگریزی زبان کے سر کا تاج شیکسپیئرہو، وہ اردو شاعری کے امام و استاد میرؔ ہو یا اردو کی آبرو غالبؔ ہو، یا پنجابی زبان کے محسن وارث شاہ ہو ، اس معاملے میں یک زبان لگتے ہیں کہ عورت بے وفا ہوتی ہے۔ بیوی کا لفظ جس دوسرے لفظ کے زیادہ قریب نظر آتا ہے وہ بھی انگریزی کا لفظ ’ہیوی‘ ہے۔بیویوں کے ہیوی ہونے سے کوئی تابع دار شوہر سرِ مو انکار کرنے کی مجال نہیں رکھتا ۔بیوی کا لفظ جن اور الفاظ سے قریبی رشتہ داری رکھتا ہے وہ ہیں ’ٹی وی ‘اور ’ٹی بی‘۔ ٹی وی اور بیوی کے درمیان مشابہت اور مناسبت کے متعلق زیادہ گفتگو کی ویسے ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ یہ بات از خود ہی عیاں ہے۔ ٹی وی پر پروگرام بدلتے رہتے ہیں ایسے ہے بیوی کے موڈ بدلتے رہتے ہیں۔کبھی مزاحیہ، کبھی تباہیہ، کبھی فجائیہ، کبھی رسوائیہ۔ الغرض بیوی گھر میں لے آنے یا بیوی کے گھر میں چلے جانے کے بعد ٹی وی رکھنے یا دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ٹی وی انسان کو دنیا کی حقیقتوں سے متعارف کراتا ہے اور یہی فریضہ ایک دانش مند بیوی بھی بہ حسن و خوبی ادا کرتی ہے۔

جہاں تک ٹی بی کا تعلق ہے تو یہ لفظ بھی بیوی کے لفظ کا ہمسایہ ہی محسوس ہوتا ہے اور ہمسایوں کے اثرات کا پڑجانا صدیوں پرانی حقیقت ہے ۔بعض صورتوں میں بیوی اگر ٹی وی ہے تو ان سے متضاد صورتوں میں وہ ٹی بی بھی ہے۔ٹی بی صدیوں سے لا علاج مرض رہا ہے، لیکن آج کل اس کا بھی علاج نکل آیا ہے،لیکن ابھی علاج طوالت میں ہے۔لیکن اگر بی وی بگڑ کر ٹی بی بن جائے تو اس کا علاق سقراط جیسے فلسفی سے بھی نہ ہو سکا،آج کل کے زن زدہ نیم مَردوں کے پاس کہاں سے آئے گا۔ میں نے مَردوں کے لفظ پر احتیاط سے زبر لگائی ہے کہ کہیں یہاں کوئی غلطی سے پیش ہی نہ پڑھ لے اور معاملہ کہاں سے کہاں پہنج جائے۔

نہ جانے کیوں یہ فطرت تضاد پسند واقع ہوئی ہے۔اکثر شریف آدمیوں کو لڑاکا بیویوں سے طبع آزمائی کرنی پڑتی ہے اور اکثرلڑاکے آدمیوں کی بیویاں بہت شریف اور خوبصورت ہوتی ہیں۔شاید فطرت اپنے توازن کو ہر صورت برقرار رکھنا چاہتی ہے۔اگردونوں ایک جیسے ہو جاتے تو دنیا کا نظام توازن کھو بیٹھتا۔

یہ تو خیر لفاظی گری تھی جس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔لیکن اگر سنجیدگی سے سوچا جائے کہ اتنی اچھی مخلوق جو کہ مرد کے بعد تخلیق پزیر ہوئی اتنی لڑاکا کیسے ہو جاتی ہے۔حضرت سقراط کا مسئلہ تو سمجھ آتا ہے کہ محترم سارا دن گھر کی چاردواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے گھر سے باہر گذارتے اور بے چاری بیوی کو اپنی تنہائیوں اور ہمسائیوں کے سپرد کر کے چاگردوں کے حصار میں اپنے فلسفے جھاڑنے کا مزا لیتے رہتے۔ایسی صورت میں اگر محترمہ کو غصہ آجاتا اور وہ بچاری ، بچارے سقراط پر نہ نکالتی تو اور کیا کرتی۔سقراط بلا مبالغہ ایک عظیم ہستی کا نام ہے لیکن ہماری ناقص رائے ہے کہ وہ فلسفہ میں اس قدر آگے جا چکاتھا کہ توازن کے فلسفہ سے دور ہو گیا تھا اور یہی اس کی گھریلو بدحالی کا سبب تھا۔

عورتوں کے لڑاکا ہونے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک ان کے آگے اپنی عقلی، علمی، شعوری یا زبانی برتری جتانا یا دیکھانا بھی ہے۔جو عالم فاضل لوگ اپنی بیویوں کے شاگرد ، نوکر یا غلام بن کر زندگی گذارتے ہیں ان کے گھروں میں کبھی لڑائی جھگڑا نہیں تو ہوتا۔آدمیوں کو بچاری عورتوں پر برتری جتانے کی بری عادت غالباً ان کے مورثِ اعلیٰ سے وراثت میں ملی ہے جسے وہ بہت کم ہی چھوڑ پاتے ہیں۔اور اسی برتری کو کمتری میں بدلنے کے لئے بچاری عورت میدانِ عمل میں اورکبھی کبھی میدانِ کارزار میں اترتی ہے اور پھر مردحضرات دوستوں میں بیٹھ کے سارا دن اپنی بچاری بیویوں کی اتنی غیبت کرتے ہیں کہ ان کی آئندہ ہونے والی نیکیاں بھی ان کی معصوم بیویوں کے اعمال نامے میں لکھ دی جاتی ہیں اور ان کو خبر بھی نہیں ہو پاتی۔

بیوییوں کے لڑاکا ہونے کی ایک وجہ ان کو منہ مانگے پیسے نہ دینا ہے۔بیوی کو منہ لگانا ہو یا بیوی کا منہ بننے سے بچانا ہو تو شوہروں یا مردوں کو اس بات کا خاص دہیان رکھنا چاہئے کہ بیوی کو منہ مانگی رقم دینا کم از کم دو ہفتوں کے لئے ردِ بلا صدقہ ادا کرنے کے مترادف سمجھنا چاہئے۔ورنہ آپ کو ناداروں ، مساجد یا درباروں کو صدقہ بھی ادا کرنا پڑے گا اور گھر کی خوش الحانی کی دعائیں بھی منگوانی پڑیں گی۔

بیوییوں کے لڑاکا ہونے کی ایک اور عام وجہ ان کو میکے جانے سے روکنا ہے۔بیوی کا میکے جانا ایسا ہی ہے جیسے کسی قیدی کا رہا ہونا یا کسی سیر گا ہ میں جانا ۔اس معاملے میں رکاوٹ ڈالنا اپنی نیند بلا وجہ خراب کرنے والی بات ہے۔ بازار جانے سے چاہے کبھی کبھار روک لیں لیکن میکے جانے سے کبھی نہ روکیں ورنہ آپ کا باہر جانا بھی روکا جا سکتا ہے۔

بیوی کے لڑاکا ہونے کی ایک اور وجہ بیوی اور بچوں کے معاملے میں بچوں کا ساتھ دینا ہے۔ جب بیوی بچوں کو جھاڑ پلا رہی ہو تو کبھی بچوں کا ساتھ نہ دیں بلکہ ان کو مذید جھڑکیں ، اس کے برعکس کرنے سے وہ جھاڑ جو بچوں کو پلائی جا رہی ہے آپ کو بھی پینی پڑ سکتی ہے اور پھر آپ شکوہ کرتے بھلے نہیں لگتے، کس نے کہا تھا کہ چلتی کلاشنکوف کے سامنے آؤ۔خود ہی تو کہا تھا آ بیل مجھے مار۔

بیوی کے لڑاکا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے میکے سے آنے والے مہمانوں کی اس کی خواہش کے مطابق خاطر مدارات نہ کی جائے۔ اس بات کا خاص رکھا جانا چاہئے کہ اور کسی مہمان کو جو چاہے پیش کرو یا نہ کرو لیکن بیوی کے میکے کے مہمانوں کو اپنا سب کچھ پیش کردو، اسی میں دو جہانوں کا سکون اور عزت ہے ورنہ گھر میں کیسے رہ سکو گے۔

بیوی کے لڑاکا ہونے کی ایک اور عام وجہ اس کی موجودگی میں کسی اور عورت کی جائز یا نا جائز تعریف کرنا ہے۔ اس بات کو پلے باندھ لینا چاہئے کہ چاہے محترمہ خودکسی عورت کی جتنی مرضی تعریف کرے، شوہر کو زیب نہیں دیتا کہ اپنی جنت کی حور کی موجودگی میں کسی اور عورت کے حق میں تعریفی جملے ادا کرے۔یہ نا شکری والی بات ہو گی اور نا شکری خدا کو بالکل پسند نہیں ہے۔ اس نا شکری کا مرتکب ہو جانے پر سزا کو مستوجب تو ہونا ہی ہوتا ہے اور پھر شکوے کرنا کہ بیوی لڑتی ہے۔پہلے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ہی کیوں تھا۔

بیوی کے لڑاکا ہونے کی ایک اور عام وجہ اس کے بہن بھائیوں یا والدین کی کسی خامی، چاہے وہ واقعی ہو بھی، کی طرف اشارہ کرنا یا اس پر تنقید کرنا ہے،۔ جہاں تک ہو سکے بیوی، اس کے بہن بھائی، والدین اور باقی رشتہ دارں کے حق میں جھوٹے سچے ، چھوٹے بڑے قصیدے کہتے رہیں۔ اس سے گھر کی فزا میں ایسا نکھار آئے گا کہ شاید آپ خود بھی انگشت بدنداں رہ جائیں کہ آپ نے ایسا کون سا نیک عمل کر لیا ہے جس کی جزا آخرت میں ملنے کی بجائے دنیا میں ہی ملنے لگی ہے۔

بیوی لے لڑاکا ہونے کی ایک اور عام وجہ اس کو گھر کی تنگ چاردواری میں قید رکھنا ہے۔ اسے کبھی کبھی خود بھی بازار سے ہو آنے کو کہ دیا کریں۔ بازار جانا اس کے لئے آؤٹنگ کا درجہ رکھتا ہے۔وہ دکانداروں سے بحث کر آئے گی اس کا غبار نکل جائے گا آپ کا جان بچ جائے بھی۔ سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی بچ جائے گی۔یا یوں کہہ لیں آم کے آم گٹلیوں کے دام۔

یقین کریں برِ صغیری متوسط طبقے کی عورتیں گھر کی چار دواری میں جس قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی ہیں اگر یہ کام مردانِ نامدار کو کرنا پڑجائے تو زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کے اندر اندر تمام سماجی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی،تمام سماجی بساط لپیٹ کے ایک طرف رکھ دی جاتی اور مردوں اور عورتوں کے برابری کے حقوق کو راتوں رات شرفِ عملیت مل چکا ہوتا۔یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ بچاری عورت زاد کا ہی حوصلہ اور برداشت ہے کہ نا معلوم وقتوں سے اس ظلم اور مردانہ بربریت کی چکی میں پیس رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی وہ بھی اس چکی کو اپنے حق میں گھمانے میں کامران ہو جاتی ہے۔

مشورہ ہے کہ لڑائی جھگڑے کا کاموں اور باتوں سے اجتناب کیا جائے، اور گھروں کو جنت کی کیاریوں میں سے کیاریاں بنایا جائے۔لیکن اس طرح کے امن پسند اور مفت مشورے لڑاکے لوگ کب مانتے یا سنتے ہیں۔ان کی مرضی لیکن : میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 283238 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More