آرایس ایس مجلس کی فنڈنگ کررہی ہے :حقیقت یا فسانہ

ہندوستان میں مسلم سیاسی جماعتوں کو بدنام کرنے کی روایت کوئی نہیں ہے ۔جب بھی مسلمانوں نے اپنی پارٹی بنائی ہے ان پر الزاما ت لگائے گئے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کی کامیابی اور سیکولر پارٹیوں کی شکست کاٹھیکرا انہیں مسلم رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کے سرپر پھوڑا گیا ہے ۔چناں چہ ایک زمانہ میں میں سید شہاب الدین کو مسلم پارٹی بنانے کی وجہ سے مورد الزام ٹھہراگیا تھا ۔گذشتہ دنوں میں ڈاکٹر ایوب سرجن کی پیس پارٹی پربعض مسلم رہنماؤں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا ، کہ یوپی میں وہ بی جے پی کو مضبوط کررہے ہیں ، بی جے پی ان کی فنڈنگ کررہی ہے ، ان الزامات کے باوجود انہیں 2012 کے یوپی اسمبلی انتخاب میں چار سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی ایے یو ڈی ایف پر مختلف طرح کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ کبھی انہیں بے جی پی کا حصہ کہا گیا تو کبھی مسلم ووٹوں کی تقسیم کا ذمہ دار انہیں ٹھہرایا گیا لیکن ان الزامات کے باوجود ان کا سفر جاری رہا ، آج مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہورہا ہے کہ آسام کشمیر کو چھوڑ کر ہندوستان میں واحد ریاست ہے جہاں ایک مسلم جماعت یوڈی ایف اپوزیشن میں ہے ۔اور اس کے تین ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ حالیہ دنوں میں اسی طرح کے الزامات مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کے نتائج سلسلے میں مجلس اتحاد المسلمین پر لگائے جارہے ہیں۔مجلس اتحاد لمسلمین اب تک حیدر آباد میں محدوو تھی ۔تلنگانہ میں اس کے سات ممبران اسمبلی ہیں ۔مجلس نے پہلی مرتبہ حیدر آباد کے باہر قدم رکھا اور مہاراشٹر میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔

15 اکتوبر کو مہاراشٹر میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں مجلس نے شاندار تاریخ رقم کی ہے۔288 ارکان والی اسمبلی میں اس نے اپنے 24 امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں سے دو امیدواروں کو شاندارکامبابی ملی ہے۔ممبئی کے بھائی کلا سے ایم آئی ایم کے وارث یوسف پٹھان نے 25314 ووٹ حاصل کرکے جیت درج کیا ہے۔انہوں نے اپنے قریب ترین حریف بی جے پی کے مدھوکر جی چوان اور آل انڈیا فوج کی گیتا گولی کوشکست دیا ہے۔اورنگ آباد سے مجلس کے امیدوار صحافی امتیاز جلیل نے اپنے قریب ترین حریف شیوسینا کے پردیپ جیسوال کو 30 ہزار ووٹوں سے شکست دیا ہے ۔جبکہ مجلس کے تین امیدوار دوسرے نمبر پر تھے جنہیں انتہائی کم ووٹوں سے شکست ملی ہے۔

دوسری طرف شمالی ہندوستانیوں کے خلاف ہر وقت بولنے والے راج ٹھاکرے کی قیادت والی مہاراشٹر نونرمان سینا ہے جو ذلیل ترین شکست سے دوچارہوئی ہے۔راج ٹھاکرے بڑی امیدوں کے ساتھ میدان میں اترے تھے۔بی جے پی-شیوسینا اور کانگریس این سی پی اتحاد کے ٹوٹنے سے ایم این ایس کو کافی تعداد میں سیٹیں جیتنے کی امیدیں تھیں۔ لیکن ایم این ایس کو ساری امید یں دھری کی دھری رہ گئیں۔ مہاراشٹر میں ایم این ایس کو محض ایک سیٹ پر کامیابی ملی ہے جبکہ اس پارٹی نے اپنے کل 219 امید وار میدان میں اتارے تھے۔ 2009 کے الیکشن میں اسے 13 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔

مجلس اتحاد المسلیمن کے صدر اسدالدین اویسی اور ان کے بھائی اکبرالدین نے اپنی خدما ت کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک نئی شناخت قائم کی ہے ،پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنے والوں میں آج صرف اسدالدین کانام ہے جو بے باکی ساتھ پارلیمنٹ میں مسلم مسائل پر بحث کرتے ہیں۔حیدر آباد میں اسدالدین اویسی مسلمانوں کی دلوں کی ڈھر کن مانے جاتے ہیں ، وہاں ان کے علاوہ کسی کی دال نہیں گلتی ہے ، وہ تین مرتبہ سے مسلسل ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوتے آرے ہیں ۔ دسیوں تعلیمی اور رفاہی ادارے چلاتے ہیں۔مسلمانوں کی فلاح وبہبود میں میں ہمیشہ وہ سرگرم رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر میں انہوں نے پہلی مرتبہ قدم رکھا اور ایک نئی تاریخ رقم کردی ۔اب ان پر بعض مسلم رہنماؤں کی جانب سے یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ مہاراشٹر میں سیکولر پارٹیوں کی شکست اور فرقہ پرستوں کی جیت کے لئے اسدالدین اویسی اور مجلس ذمہ دار ہے۔جن کی وجہ سے مسلم ووٹوں کی تقسیم ہوئی ہے۔ان پر یہ بھی الزام لگایا جارہا ہے کہ آرایس ایس مجلس کی فنڈنگ کررہی ہے۔کانگریس اور این سی پی کے اثر کو ختم کرنے اسے بی جے پی میدان میں لے کر آئی تھی ۔ جن لوگوں کایہ الزام ہے وہ سراسر غلط او رحقیقت سے بہت دور ہے۔ مجلس نے صرف 24 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ان سیٹوں پر ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے کانگریس کو شکست ملی ہے تو اسے شامل کرنے کے بعد بھی کانگریس کی فہرست میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا ہے۔

حقیقت یہ ہے مسلمانوں کو ان لوگوں کا شدت سے انتظار ہے جو ان کے حقوق کے جنگ لڑتے ہیں۔ مسلم مسائل کے لئے جد وجہد کرتے ہیں ، مسلمانوں کا استحصال کرنے کے بجائے ان کے لئے کام کرتے ہیں۔ایسے سیاست دانوں کا مسلمانوں نے ہمیشہ استقبال کیا ہے ۔جب بھی انہوں نے سیاست میں قدم رکھاہے مسلمانوں نے ان کے قدم سے قدم ملایا ہے ۔ آج اسدالدین اویسی کی قیادت والی پارٹی کو اگر کامیابی ملی ہے تو اس کے پس پردہ یہی امور ہیں کچھ اور نہیں ۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163505 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More