پہیہ…… ایک معاشرتی مجبوری

گاڑی پارک کرنا ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ پارکنگ سڑک پر ہی تھی مگر سڑک کے دونوں طرف ضرورت سے بہت زیادہ گاڑیاں کھڑی تھیں جس سے ٹریفک کی روانی میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے منظور شدہ اس سٹینڈ کی مقررہ حد سے بھی آگے اکا دکا گاڑیاں کھڑی تھیں۔ میں نے دو چکر لگائے اس امید پر کہ شاید کوئی گاڑی نکل رہی ہو اور مجھے جگہ مل جائے مگر میرے جیسے کئی لوگ چکر لگا رہے تھے اور کوئی گاڑی نکلنے کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ چنانچہ سب ناکام تھے۔ گاڑی پارک کرنے کو کوئی جگہ بھی خالی نہ تھی اور نہ ہو رہی تھی۔ تنگ آ کر میں نے پارکنگ کی حد سے پرے جہاں پہلے بھی دو گاڑیاں کھڑی تھیں، اپنی گاڑی کھڑی کر دی اور لگا ہارن بجانے۔ میرا خیال تھا کہ ہارن سن کر ٹوکن دینے والا لڑکا جو قریب ہی کھڑا تھا متوجہ ہو گا مگر وہ لا تعلق کھڑا رہا۔ میں نے گاڑی بند کی، چلتا ہوا اس کے پاس پہنچا اور بتایا کہ وہ میری گاڑی ہے جو میں نے غلط جگہ پارک کی ہے تمھیں خیال رکھنا ہے اور ٹوکن بھی دینا ہے ۔ میں ٹوکن نہیں دے سکتا وہ گاڑی میری حد سے باہر ہے۔ خیال تو رکھا جا سکتا ہے مگر لفٹر والے کو کون روک سکتا ہے ابھی آئے گا اور آپ کی گاڑی اٹھا کر لے جائے گا۔ میں لفٹر کا ذمہ کیسے لے سکتا ہوں۔ ویسے کوئی ایسی بات نہیں بس تھوڑا سا رسک ہے۔ آپ کام کر کے جلدی آنے کی کوشش کریں تاکہ لفٹر والے سے پہلے واپس آ جائیں۔ پارکنگ فیس بھی دینا نہیں پڑے گی۔ ہاں البتہ لفٹر والا جلدی آ گیا تو آپ کو صرف دو سو روپے جرمانہ ہو گا۔ معمولی رقم ہے یا تھوڑا سا رکشے کا کرایہ ہے جو یہاں سے تھانے تک جانے کے لئے آپ کو دینا ہو گا۔ ویسے تھانہ زیادہ دور نہیں دو تین کلومیٹر ہے۔ ہمت کر کے پیدل بھی جایا جا سکتا ہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اس طرح کی باتوں سے مجھے کسی خاص ڈگر پر ڈالنا چاہتا ہے۔ میں نے اس کی بات سمجھتے ہوئے اسے پھر کہا کہ بھائی تمہارا فائدہ تو یہی ہے کہ میرے لئے گاڑی پارک کرنے کے لئے کوئی جگہ بناؤ یا پھر بتاؤ کہ کوئی دوسرا حل کیا ہے۔ اس نے مجھے مطمئن کرنے کے لئے دائیں بائیں نظر دوڑائی اور کہا کہ پارکنگ کے لئے کوئی جگہ نظر نہیں آ رہی کچھ نہیں ہو سکتا…… پھر بھی کوئی اور حل ہو گا، کچھ تو کرو۔۔۔۔۔ تھوڑا سوچ کر ایک وقفے سے اس نے کہا ہاں ایک حل ہے۔ آپ مجھے ایڈوانس سو روپے دے دیں۔ میں آپ کو ٹوکن دے دیتا ہوں۔ گاڑی وہیں رہنے دیں۔ لفٹر والے کو وہاں جانے ہی نہیں دوں گا۔ سو روپے میں سے پچاس روپے اسے دے دوں گا اور پچاس میرے۔ جس شخص نے بھی اس جگہ پارکنگ کا ٹھیکہ لیا ہو گا یہ شخص اس کا ملازم تھا اور ملازمت کے ساتھ ساتھ یہ ذاتی کاروبار بھی ٹریفک والوں سے مل کر کر رہا تھا۔ میں نے احتجاج کیا کہ سو روپے تو بہت زیادہ رقم ہے۔ سن کر کہنے لگا کہ آج کل تو یہ معمولی رقم ہے آپ جیسی گاڑیوں والے لوگ تو والٹ پارکنگ والوں کو سو دو سو ٹپ دے دیتے ہیں۔ آپ دیکھیں پارکنگ ایریا سے باہر جتنی بھی گاڑیاں کھڑی ہیں سب سو روپیہ دے رہے ہیں۔ آپ کو وارہ نہیں کھاتا تو بہتر ہے گاڑی وہاں سے لے جائیں لفٹر والا آتا ہو گا۔ میں مڑا ،گاڑی تک واپس آیا۔ سٹارٹ کی اور تقریباً آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک محفوظ جگہ کھڑی کر کے پیدل منزلِ مقصود تک آ گیا۔

میں ایک استاد ہوں اور کاروباری لوگوں کے نزدیک ایک انتہائی ناکام شخص۔ بہت دفعہ غور کیا کہ وہ لوگ مجھے ناکام کیوں سمجھتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ میں وقتی طور پر اپنا کام نکالنے کے لئے سودے بازی نہ کرتا ہوں اور نہ قبول کرتا ہوں۔ وقت پر ناجائز سو روپے کسی کو دینے کی بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میں کیا کوئی بھی شخص اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم فضول کسی کو دینا پسند نہیں کرتا بلکہ اس طرح رقم ضائع کرتے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ ناجائز ذرائع سے دولت حاصل کرنے والیاور اسے بے دریغ خرچ کرنے والے میرے جیسوں کو ہمیشہ ناکام ہی قرار دیتے ہیں مگر میں ایسی ناکامی کو اپنی جیت سمجھتا ہوں اور مجھے فخر ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ میں نے سو فیصد ذاتی محنت سے کمایا ہے۔جس میں حرام کا کوئی ذرا بھی شامل نہیں۔

ایک کاروباری آدمی سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ ہنس کر اس نے جواب دیا مجھے ہر کام کوپہیےے لگانا آ گیا ہے۔ پہیے لگ جائیں تو کام رکتانہیں بلکہ بہت تیز دوڑتا ہے۔ پوچھا کوئی جگہ تو ایسی ہو گی جہاں پہیے لگانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ہو۔ معاشرے میں آخر اچھے لوگ بھی ہیں۔وہ پھر ہنسا اور بولا آپ کو سمجھ نہیں آئے گی۔ وقت بدل گیا ہے قدریں بدل گئی ہیں۔ جائز کام بھی وقت اور ٹھیک انداز میں انجام تک پہنچانے کے لئے پہیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس پتہ ہونا چاہیے کہ کونسا پہیہ کہاں اور کس طرح فٹ کرنا ہے۔ مزید یہ بھی کہ کس وقت پہیے کو لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی جانکاری ہونا بہت ضروری ہے کہ کس بوجھ کے لئے کیسا پہیہ کس وقت درکار ہے۔ جہاں بہت راست بازی اور ایمانداری کی باتیں ہوتی ہیں وہاں میں اپنا پہلا کام ہو جانے کے بعد پہیے لگاتا ہوں تاکہ میرے مستقبل کی گاڑی ان پہیوں پر تیزی سے چلتی جائے لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کیونکہ اب تو زیادہ تر لوگ کام دیکھ کر پہیے کا سائز اور سٹائل بھی بتا دیتے ہیں جس سے آپ کو سوچنے کی زحمت بھی گنوارہ نہیں کرنا پڑتی۔ حد تو یہ ہے کہ بہت سے معمولی کاموں کے لئے بھی پیسہ اس معاشرے کی ضرورت بن گیا ہے۔ چاہے وہ ٹرائی سائیکل کا پہیہ ہی کیوں نہ ہو۔

پاکستان میں اصلاح کا عمل شروع کرنے کے لئے بہت سے لوگ اور بہت سی قوتیں برسرِ پیکار ہیں مگر اصلاح کی کوئی صورت مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہی جس کی وجہ جوڑ توڑ اور مک مکا کا عمل اس معاشرے میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ جس سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان کام نہیں۔ پہیہ اب ہماری معاشرتی مجبوری ہے اس کے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ وہ سیاسی پارٹیاں اور وہ لوگ جو تبدیلی کی بات کرتے ہیں انہیں بھی شدید مزاحمت کا سامنا ہو گا۔ اس لئے کہ ان کی صفوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن کی فطرت میں یہ انداز رچ بس گیا ہے اور انھیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ ایک برائی ہے جو چاہے چھوٹے پیمانے پر ہو چاہے بڑے پیمانے پر اسے ہر صورت روکنے کی ضرورت ہے۔ اﷲ کرے کہ وہ لیڈر یا سیاسی جماعتیں جو اس مقصد کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اپنے ہی کارکنوں کے ہاتھوں پسپا نہ ہو جائیں کیونکہ یہ ایک مشکل عمل ہے اور شاید اس کے لئے ایک لمبی جدوجہد درکار ہو گی۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 441281 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More