وقت کے چور

زندگی، وقت کے نامحسوس طریقے سے گذر جانے کا نام ہے؛ کیونکہ ہمارا ہر سانس زندگی کے لمحات کو رقم کرتا ہے اور سانسوں کی انتہا پر زندگی کا سفر بھی اپنے اختتام کو جا پہنچتا ہے۔ یہاں سے وقت کی قیمت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ تاہم ہمارے اندر موجود کچھ خامیاں یا کمزوریاں جنہیں مجبوریوں کا نام بھی دیا جا سکتا ہے،ایک لحاظ سے وقت چوری کا کام کرتی ہیں اور یوں وقت چوروں کے ہاتھوں زندگی کا سرمایہ لوٹ لیا جاتا ہے اور ہم لوگ کسی بے بس بت کی مانند لوٹ مار کے گرما گرم بازار میں خاموش تماشائی بنے کھڑے رہتے ہیں، اور کامیابیوں کی وہ منزلیں جو خداوند متعال نے ہماری صلاحیتوں بھری زندگی کی صورت ہمیں عطا کی ہیں ہم سے کوسوں دور رہ جاتی ہیں، لہذا وقت کے ان چوروں کو تلاش کر کے ان سے دامن چھڑانے کی اشد ضرورت ہے۔ آئیے ان چوروں سے آپ کا تعارف کرواتے ہیں:

۱۔احساساتی چور:
ہماری زندگی کا ایک بہت بڑا وقت ان ناخواستہ کاموں میں چلا جاتا ہے جہاں ہم نہ چاہتے ہوئے ''ہاں'' کہہ بیٹھتے ہیں اور پھر کڑھ کڑھ کر اس کام میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ اس چور سے بچنے کا علاج ''نہ '' کہنے کی جرات پیدا کرنا ہے۔

۲۔ موبائل یا ٹیلیفون :
مواصلاتی روابط وقت کی اہم ضرورت ہیں اور اس حقیقت سے انکار نہیں کہ یہ ایک اہم ترین سہولت ہے جس سے بہت سا وقت بچایا جا سکتا ہے، تاہم اگر اس کا درست استعمال نہ کیا جائے تو یہی موبائل وقت کا بہت بڑا چور بن جاتا ہے۔ لمبی لمبی گفتگوئیں، بے جا باتیں، کالز پیکیج کا بے تحاشا استعمال نہ فقط ضیاع وقت کا باعث بنتا ہے بلکہ بہت سے دیگر نقصانات جن میں اعصابی تھکاوٹ، نفسیاتی تناو ، ضروری کاموں میں رکاوٹ وغیرہ شامل ہیں، بھی اپنے ہمراہ لاتا ہے۔

۳۔ملاقاتی :
گھر ہو یا آفس، پارک ہو یا کوئی بھی دوسرا عوامی اجتماع، ہم سب دوسروں کے ساتھ روابط اور تعلقات عامہ کی بنیاد پر زندگی کی گاڑی چلا رہے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے مردہ اوقات Dead periods ہمارے ساتھ ملاقات کے لیے اختیار کرتے ہیں ، چہ بسا وہ اوقات ہمارے لیے سب سے اہم مشغلے کا وقت ہو، اور ہمیں تمرکز concentrationکی اشد ضرورت ہو۔ ایسی ملاقاتیں سوائے وقت کشی کے اور کوئی نتیجہ نہیں دیتیں اور یوں وقت کے چوروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

۴۔ خود محوری:
اپنے آپ کو ہر کام کے لیے موزوں سمجھنا اور دوسروں پر بے اعتمادی کا مظاہرہ کرناوقت چوری کا ایک اہم سبب ہے، خود محوری وقت چور ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے اعصاب کے لیے حد درجہ مضر ہے۔ منیجمنٹ سپیشلیسٹ لوگوں کا یہ کہنا ہے:
"اپنے آپ کو ایسے کاموں میں نہ الجھاو جو دوسرے لوگ کر سکتے ہوں یا جنہیں انجام دینا دوسروں کی ذمہ داری ہو"

۵۔جسمانی طاقت [انرجی] کو تقسیم نہ کرنا:
ہم لوگ ایک محدود مقدار میں جسمانی طاقت رکھتے ہیں اور روزانہ اسی محدود مقدار ہی کا استعمال ہم سے مقدور ہے؛ اس لیے اگر بر فرض مثال صبح ۸ بجے سے ۱۱ بجے تک فوق العادہ طور پر انرجی خرچ کر ڈالیں تو باقی ماندہ دن نہایت تھکاوٹ اور درماندگی کی حالت میں گزارنا پڑے گا۔ لہذا کام اور وقت دونوں کو مد نظر رکھ کر اور کام کی نوعیت کو دیکھ کر اپنی طاقت کا استعمال عمل میں لانا چاہیے، دوسری صورت میں ہمارا بقیہ وقت تلف ہو نے پر ختم ہو گا۔

۶۔ترجیحات کو ملحوظ خاطر نہ رکھنا :
وقت چوری کا ایک اہم سبب اپنے ترجیحی کاموں کی فہرست تیار نہ کرنا ہے۔ روز مرہ میں ہمارے سامنے تین طرح کے کام پیش آتے ہیں ، کچھ ایمرجنسی نوعیت کے ہوتے ہیں جنہیں بر وقت انجام دینا نہایت ہی اہم ہوتا ہے، دوسرے :روز مرہ کے ضروری کام اور تیسرے : چھوٹے موٹے معمولی کام ، ایسے میں اگر ہم معمولی کاموں میں اپنا زیادہ وقت خرچ کر دیں تو ضروری کام دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔

۷۔ وقت کی نسبت ہمارا طرز فکر:
ہم لوگ اپنے وقت کو سالوں ، مہینوں ، ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ دنوں میں حساب کرتے ہیں، یہ وقت چوری کا مخفیانہ طریقہ ہے؛ کیونکہ یہ طرز فکر خود ہی وقت چوری کا باعث بنتا ہے، ایک ادھ گھنٹا تو وقت ہی شمار نہیں ہوتا جسے ہاتھ سے دے بیٹھنے پر ہمیں افسوس ہو۔ لیکن اگر وقت پر ہماری نظر گھنٹوں ، بلکہ منٹوں اور سیکنڈوں کے حساب سے ہو تو ان کے ہاتھ سے جانے کا احساس بھی ہو گا اور یوں زندگی کی فرصتوں سے فائدہ اٹھانے اک موقع ملے گا جس کے چند ایک فوائد یہ ہیں: اپنے اہم کاموں کو بر وقت انجام دینا، منظم زندگی گذارنا اور شخصیت کی ترقی اور تعمیر کرنا اور ہر دن کے اختتام پر مثبت احساس کا ہاتھ آنا وغیرہ ۔

۸۔ اہداف و مقاصد میں ابہام :
مارک ٹوائن لکھتا ہے: اگر اہداف واضح نہ ہوں تو دگنا وقت خرچ کرنا پڑتا ہے اور دگنی محنت کرنی پڑتی ہے۔
وقت کو کنٹرول کرنے کا راستہ اپنے اہداف اور مشاغل کو ترسیم کرنے سے طے ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ اہداف ہی ہیں جو افراد کو جد وجہد مسلسل کی دعوت اور مشقتیں برداشت کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ لیکن اگر اہداف مبہم رہ جائیں تو وقت کے باقاعدہ استعمال کی ضرورت ہی سامنے نہیں آتی ، ایسے میں منٹ اور گھنٹے تو کیا ، عمریں بھی ضائع ہو جاتی ہیں اور کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔

Gohar murad
About the Author: Gohar murad Read More Articles by Gohar murad: 3 Articles with 1819 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.