اَوَّلِّیا تِ فاروقی کا اجمالی جائزہ

 سیرت سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ سے منتخب وہ درخشاں امورجن کی بنا آپ نے ڈالی

شاہکارِ دست قدرت مصطفی جان رحمت ﷺ نے مدینۂ منورہ میں مسلم معاشرے کے لئے جو سیاسی نظم ونسق بنایا تھااور جن خطوط پر نوتشکیل اسلامی ریاست کی تنظیم کی تھی،حضور رحمت عالم ﷺ کے بعدآپ کے جانشینوں(خلفائے راشدین)نے انہیں خطوط پرمعاشرے اور ریاست کوآگے بڑھایا۔حالات اور تقاضوں کی رعایت کرتے ہوئے خلفائے راشدین نے انتظامیہ سے متعلق مختلف شعبہ جات اور محکمے قائم کیے۔خلافت راشدہ کے پورے زمانے میں مرکزی انتظامیہ اکابرصحابہ پر مشتمل رہی جو رسول گرامی وقار ﷺکی تربیت کے نتیجے میں شورائی مزاج کی حامل تھی۔

نظام خلافت کا آغازیار غارِمصطفی سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے ہوا۔خلافت کو سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں استحکام حاصل ہوا۔آپ کے زمانہ ٔخلافت میں حکومت کے تمام ضروری شعبوں کاباقاعدہ وجودعمل میں آیا۔خلافت فاروقی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اسلامی جمہوری حکومت تھی جس میں ملک وقوم کے مسائل مجلسِ شوریٰ میں حل ہوتے تھے۔مجلس شوریٰ میں انصارومہاجرین میں سے منتخب اکابر شامل تھے۔مجلسِ شوریٰ کے ممتازاراکین میں حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت معاذ بن جبل،حضرت ابی بن کعب اور حضرت زیدبن ثابت رضی اﷲ عنہم وغیرہ شامل تھے۔

سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے صرف ساڑھے دس سال کی قلیل مدت میں وہ عظیم الشان حکومت قائم کی جو اپنے وقت کی سب سے بڑی اورطاقت ورحکومت تو تھی ہی،اس حکومت میں ہر طرف امن وامان کابول بالابھی تھا۔اس لئے بعض جہاں دیدہ مفکرین نے کہا ہے کہ اگر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ چندسال اور حکومت کرتے تومملکت اسلامیہ کانقشہ جداہوتااور بعض نے یہاں تک کہاں ہے کہ سیاست سیکھناہوتوفاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی نظام سیاست کاجائزہ لو۔حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے بہت سی مالی وملکی،سیاسی وانتظامی ، معاشرتی وتمدنی باتیں تجویز وایجاد فرمائی۔انتظام حکومت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے جو بھی اقدامات کئے یا جو اصلاحات نافذ کیں انہیں اسلامی تاریخ میں’’اولّیات عمر‘‘یا’’اولّیات فاروقی‘‘کے نام سے یاد کیا جاتاہے،یعنی وہ کام جو سب سے پہلے سید نافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے کیے۔ان میں بعض کی فہرست درج ذیل ہے۔

(۱)محکمۂ ڈاک:ڈاک کا محکمہ ابتدائی طور پر خلافت راشدہ کے زمانے میں سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے قائم کیا۔اس محکمے کاکام یہ ہوتا تھا کہ سرکاری فرامین اورخطوط وغیرہ کوصوبائی گورنروں اور دیگر افسران تک پہنچایاجائے اور ان کے جوابات حاصل کیے جائیں۔ اس کام کے لئے مختلف مقامات تک جانے والی سڑکوں پر چوکیاں قائم تھیں جہاں ہر وقت تازہ دم گھوڑے اور کارکن موجود رہتے تھے اور کوئی بھی خط یافرمان ملتے ہی اسے دوسری چوکی تک پہنچادیتے تھے۔اس طرح کم مدت میں خطوط اور فرامین متعلقہ حکام تک پہنچ جاتے تھے۔گویا ایک طرح سے یہ انٹرنل میڈیا سسٹم INTERNAL MEDIA SYSTEM تھا۔
(۲)محکمۂ بیت المال:رسول گرامی وقار ﷺکے زمانے میں اورحضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں زکوٰۃوصدقات اور خراج کی صورت میں جوبھی مال آتا تھافوراًضرورت مندوں اور مستحقین میں تقسیم کردیا جاتاتھا۔لیکن دور فاروقی میں فتوحات کی کثرت کے سبب مال غنیمت،خراج اورصدقات وغیرہ کی آمدنی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔ لہٰذا ضرورت مندوں اور مستحقین میں مال کی تقسیم کے بعد اضافی مال کومحفوظ کرنے کے لئے سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے بیت المال کی باضابطہ عمارت تعمیر کرائی۔یہ محکمہ مال کی آمدوخرچ کا حساب رکھنے کے علاوہ اس پربھی نظر رکھتا کہ خلیفۂ وقت مال کو اصول وضوابط کے مطابق خرچ کرتا ہے یا نہیں۔اس کی نگرانی کے لئے بیت المال کے افسر کاتقرر ہوتا تھا۔
(۳)محکمۂ پولس:اسلامی مملکت کے حدود میں ہر سطح پر امن و امان بحال رہے اس مقصد کے حصول کے لئے سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے پولس کا محکمہ قائم کیا۔پولس کے محکمے کانام’’احداث‘‘تھا اوراس کا افسرِ اعلیٰ’’صاحب الاحداث‘‘ کہلاتاتھا۔حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کے زمانہ ٔخلافت میں اس محکمے کو مزیدترقی دی گئی اور اس کانام’’شرطہ‘‘قرار پایا جو اب تک عرب دنیا میں رائج ہے۔
(۴)محکمۂ جیل:سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں ہی اسلامی دنیا میں پہلی جیل قائم ہوئی۔انہوں نے مکہ مکرمہ میں حضرت صفوان بن امیہ رضی اﷲ عنہ کے مکان کو خرید کر پہلاجیل خانہ بنایا،بعد میں دیگر مقامات خاص طور پر صوبائی دارالحکومتوں میں بھی جیل خانے تعمیر کیے گئے۔
(۵)محکمۂ فوج:اسلامی حکومت کی فوجی ضروریات کے پیش نظرسیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے باضابطہ فوج کا محکمہ قائم کیا۔فوج سے متعلق تمام امور اور معاملات کی دیکھ بھال اور نگرانی اس محکمے کی ذمہ داری تھی۔
(۶)محکمۂ مالیات:سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے اسلامی حکومت کے مالی امور کی دیکھ ریکھ کے لئے باضابطہ مالیات کامحکمہ قائم کیا۔یہ محکمہ مسلمانوں اور مملکت کی دیگر رعایا سے ٹیکسوں کی وصولی کرتا تھااور ان کی تقسیم کاکام بھی اسی محکمے کے ذمہ تھا۔
(۷)محکمۂ احتساب:سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے خالص جمہوری حکومت کی بنا ڈالی جس میں ریاست کا ہر شہری اعلانیہ اپنی رائے کا اظہار کرسکتا تھا،خلیفۂ وقت کے کسی بھی طرز عمل پر دریافت کر سکتا تھااور آزادی کے ساتھ اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتا تھا۔آپ نے اپنے حکام کی نگرانی کے لئے احتساب کا شعبہ قائم کیاتھا۔آپ جسے بھی کوئی ذمہ داری دیتے تو اس سے یہ عہد لیتے کہ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا،نفیس کپڑے نہیں پہنے گا،چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا،دروازے پر دربان نہیں رکھے گا اور ضرورت مندوں کے لئے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے گا ۔آپ کی کوشش یہ تھی کہ حاکم بھی عام لوگوں کی طرح رہے اور ان پر اقتدار کا نشہ نہ چڑھنے پائے۔حج کے دنوں میں سرکاری حکام اور افسروں کو ہدایت ہوتی تھی کہ مکۂ مکرمہ میں حاضر رہیں،اسی طرح عام لوگوں کو بھی ہدایت تھی اگر انہیں کسی حاکم یا افسر سے کسی بھی قسم کی شکایت ہوتو وہاں پیش کریں تاکہ وہیں اس کا ازالہ بھی کیاجاسکے۔
(۸)اسلامی کیلنڈر:آپ نے اسلامی کیلنڈر سنہ ہجری کاآغاز کیا۔یہ نبی اکرم نور مجسم ﷺ کی ہجرت کے سال سے شروع ہوتا ہے۔اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ محرم ہے۔اس سے قبل دوسرے کیلنڈروں سے اسلامی حکومت کاکام چلتا تھا۔ اسلامی کیلنڈرکاآغاز۱۷؍ھ، ۶۳۷ ؁․ء سے ہوا۔
(۹)محکمۂ عدالت:پوری مملکت میں عدل وانصاف کو یقینی بنانے کے لئے سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے تمام صوبائی وضلعی مراکز میں عدالتیں قائم کیں اوران میں فیصلے کرنے کے لئے قاضی مقرر کئے۔یوں تو خلیفہ ہی قاضی القضاۃ(چیف جسٹس)ہوتا تھالیکن حدود مملکت بڑھ جانے کی وجہ سے وہ تمام مقدمات کی سماعت اور فیصلے خود نہیں کر سکتا تھا اس لئے مملکت کے مختلف شہروں میں باصلاحیت لوگوں کوقاضی مقرر کیا گیا۔
(۱۰)مردم شماری:وظائف کے نظام کو بہتر اور درست رکھنے کے لئیسیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے پہلی مرتبہ مردم شماری کرائی تاکہ رعایا کے حالات پورے طور پر حکومت کے سامنے رہیں۔آج بھی مردم شماری کی جاتی ہے مگرمقصد تعدادمعلوم کرنایاافزائش نسل پر روک تھام لگاناہوتاہے،جبکہ اسلامی حکومت میں مردم شماری کامقصدغرباء پروری،مفلسی اور مسکینی کاخاتمہ ہوتاہے۔
(۱۱)محکمۂ پرچہ نویس:مملکت کی پوری پوری خبر رکھنے کے لئے آپ نے تمام علاقوں میں وہاں کی خبریں حاصل کرنے کے لئے پرچہ نویس مقرر کیے ۔معلوم ہواکہ میڈیا کی اہمیت وافادیت سے سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی دور بین ودور اندیش نگاہیں واقف تھی۔
(۱۲)محکمۂ تعلیم:مملکت اسلامیہ میں تعلیم کو عام کرنے کے لئے مکتب اور مدرسے قائم کیے اور تعلیم دینے والے اساتذہ کے لئے تنخواہیں مقرر کیں۔
(۱۳)سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے اپنی حکومت کے نظام کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لئے اور حکومت کے انتظامی امور کو چلانے کے لئے اسلامی ریاست کوصوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا۔ان کے زمانۂ خلافت میں درج ذیل گیارہ صوبے تھے:(۱)مکۂ معظمہ(۲)مدینۂ منورہ(۳)شام(۴)جزیرہ(۵)بصرہ (۶)کوفہ (۷)مصر (۸)فلسطین (۹)خراسان (۱۰)آذربائیجان (۱۱) فارس۔ہر صوبے میں درج ذیل عہدہ دار ہوتے تھے۔(۱)والی یعنی صوبے کا حاکم(۲)کاتب یعنی صوبے کا چیف سکریٹری(۳)کاتب دیوان یعنی محکمۂ فوج کا سکریٹری(۴)صاحب الخراج یعنی ٹیکس کلکٹر(۵)صاحب الاحداث یعنی پولس افسر (۶)صاحب بیت المال یعنی افسر خزانہ(۷)قاضی یعنی جج۔مذکورہ عہدہ داروں کاتقرر مجلسِ شوریٰ کے ذریعے ہوتا تھا۔جس کا طریقہ کار یہ ہوتا تھاکہ سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کسی موزوں فرد کانام پیش کرتے اور مجلس شوریٰ کے ارکان بحث ومباحثے کے بعداس کی تصدیق کر دیتے۔
(۱۴)آپ نے خلیفۂ اسلامیہ کے لئے امیر المومنین کا لقب اختیار کیا۔یہ لقب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے بعدہمیشہ کے لئے جاری ہوگیا۔
(۱۵)مملکتِ اسلامیہ میں زراعت کی ترقی اور عشر(ایک طرح کا زرعی ٹیکس)اور خراج کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے زمین کی پیمائش کرائی۔
(۱۶)نماز تراویح با جماعت پڑھنے کا اہتمام کیا۔
(۱۷)تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔
(۱۸)نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر سب کا اجماع کیا۔
(۱۹)رفاہی مملکت بنانے کے لئے سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے مملکت اسلامیہ کے ہر مسلم شہری کے لیے وظیفہ مقرر کیا جو اس زمانے میں بہت بڑاانقلابی قدم تھا۔
(۲۰)مساجد کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے آپ نے مسجدوں میں امام اور موذن مقرر کیے اور ان کی تنخواہیں بھی مقرر کیں۔
(۲۱)حج،تجارتی اور دیگرقافلوں کی آمدورفت کو آسان اور محفوظ بنانے کے لیے شاہ راہوں پر چوکیاں قائم کیں،سرائیں بنوائیں اور کنویں کھدوائیں۔
(۲۲)زراعت کی ترقی کے لیے نہریں کھدوائیں۔
(۲۳)سڑکیں تعمیر کرائیں۔
(۲۴)غیر مسلموں(حربی تاجروں)کو عرب علاقوں میں تجارت کرنے کی اجازت دی۔
(۲۵)عربوں کو غلام نہ بنائے جانے کا قاعدہ مقرر کیا جو حدیث رسول ﷺ سے استنباط پر مبنی تھا۔
(۲۶)وقف کے طریقے کو منضبط کیا،جس میں وقف کے مصرف اور اس پر تولیت اور متولی کے اختیارات کو واضح فرمایا۔اس پہلو سے آپ کو وقف کے طریقہ کا بانی قرار دیا جاتاہے۔
(۲۷)لوگوں میں اصلاح وتبلیغ کے لیے مسجدوں میں وعظ اور تقریر کا طریقہ جاری کیا۔
(۲۸)مسجدوں میں روشنی کا انتظام کیا۔
(۲۹)شہر آباد کرائے مثلاًکوفہ،بصرہ،جیزہ،فسطاط(قاہرہ)وغیرہ
(۳۰)درّہ کا استعمال کیا۔
(۳۱)راتوں کو گشت کرکے رعایاکے حال سے باخبر رہنے کا طریقہ نکالا۔اس طرح کے کئی اصلاحی ورفاعی کاموں کی آپ نے بنا ڈالی۔ہرایک پر تبصرہ پیش کرنے کی بجائے بخوفِ طوالت صرف طائرانہ جائزہ پیش کیاگیااہل عمل ودانش پر ان امور کی اہمیت وافادیت روشن ہیں۔اﷲ پاک آپ کے درجات میں اضافہ کرے اورامت مسلمہ کو آپ کے نقوش پاپرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 669887 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More