میاں مٹھو اور پنکچر والا

میاں مٹھو آج بہت پر جوش نظر آرہا تھا۔ وہ آج سیاست کے ایک بہت بڑے ستون سے "غیر سیاسی" انٹرویو لینے کے لیے جا رہا تھا۔آج تو اُس نے خود نہانے دھونے کے ساتھ ساتھ اپنے سکوٹر کو بھی چمکا دیا تھا۔وہ بے حد خوش تھا کیونکہ یہ اُس کے صحافتی کیریئر کا بہت اہم انٹرویو تھا۔اُسے اس انٹرویو کے لیے بڑی محنت اور کوششوں کے بعد موقع ملا تھا ۔اُسے یقین تھا کہ جیسے ہی یہ انٹرویو آن ایئر ہو گااُس کی قسمت کاتو ستارہ ہی چمک اُٹھے گا۔ پھر تو بڑے بڑے چینلوں سے آفرز آئیں گی۔ اچھی سیلری ہوگی۔ اپنا گھر ہو گا۔ بچے اچھے سکول میں پڑھیں گے۔ گاڑی ہو گی۔ اپنی تو لائف ہی ۔۔۔۔۔۔وہ ابھی انہیں سوچوں میں گم تھا کہ ٹھس کی آواز آئی جس نے میاں مٹھو کو شیخ چلی کی دنیا سے باہر نکالا۔اور اُس نے خود کواپنے اُسی ورثے میں ملے ہوئے پرانے اور پھٹیچر سکوٹر پر بیٹھے ہوئے پایا۔سکوٹر کا پچھلا ٹائر پنکچر ہو چکا تھا۔اُسے لگا کہ یہ ٹائر نہیں پھٹا بلکہ اُس کی۔۔۔۔۔قسمت پھٹی ہے۔اُس کے سارے کے سارے خواب بیچ شاہراہ پر ہی بکھر چکے تھے۔کیونکہ انٹرویو کے لیے لیا گیا ٹائم ایک منٹ کے لیے بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتا تھا اوردور دور تک کوئی پنکچر کی دوکان بھی نظر نہیں آرہی تھی۔میاں مٹھو کے سارے ارمان اُن چمکتی دمکتی گاڑیوں کے چرچراتے ہوئے ٹائروں کے نیچے روندے جا رہے تھے جو بڑی تیزی سے اُس کے پاس سے گذر رہی تھیں۔وہ اپنے بد قسمت سکوٹر کو گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔آخر کار دس پندرہ منٹ کی مشقت کے بعد اُسے دور ایک دوکان کے باہر کچھ پرانے ٹائر لٹکے ہوئے نظر آگئے۔

ٹائم دیکھنے کے لیے اُس نے اپنی جیب سے موبائل نکالا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کیمرہ مین کی دس مس کالز آچکی تھیں۔کیمرہ مین جو کہ پہلے ہی سیاست دان کے محل پر پہنچ چکا تھا۔ اُس نے میسج کر کے بتا دیا تھا کہ اب زحمت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ جن کا انٹرویو کرنا تھا وہ موصوف نئے پل کا افتتاح کرنے کے لیے جا چکے ہیں۔ میاں مٹھو نے دکھ بھرا میسج پڑھا اور اپنی قسمت کوکو ستے ہوئے موبائل دوبارہ جیب میں ڈال لیا۔اپنے قیمتی اثاثے کو پنکچروالے کے حوالے کیااور ایک طرف رکھے ہوئے لکڑی کے بینچ پر جا کر بیٹھ گیا۔اُس کے ذہن میں یک دم ایک خیال آیا ۔ اُس نے فوراً موبائل نکالا اور کیمرہ مین کو اپنے پاس بلا لیا۔اُس نے سوچا کیوں نہ آج اس پنکچر والے کا ہی انٹرویو لے لیا جائے۔تو آئیے ناظرین ہم بھی دیکھتے ہیں کہ میاں مٹھو کا غیر سیاسی کارنامہ کیسا رہا۔

میاں مٹھو۔۔۔ (اپنے مخصوص انداز میں ) آپ کا نام کیا ہے؟
پنکچر والا۔۔۔ (ٹائر سے ٹیوب باہر نکالتے ہوئے ) نجم سیٹھی ۔

میاں مٹھو۔۔۔ (حیران ہو کر) کیا۔۔۔؟ میں نے آپ کا نام پوچھا ہے۔
پنکچر والا۔۔۔ ( لا پرواہی سے) میں نے بھی اپنا ہی بتایا ہے۔
میاں مٹھو۔۔۔ (غیر یقینی انداز سے) آپ مذاق کر رہے ہیں ناں۔
پنکچر والا۔۔۔ (ٹیوب چیک کرتے ہوئے) میرا آپ سے کیا مذاق ہے باؤ جی۔
میاں مٹھو۔۔۔ (زور دیتے ہوئے) وہ نام جو آپ کے والدین نے رکھا تھا۔۔۔ وہ بتائیں۔
پنکچر والا۔۔۔ (جیب سے شناختی کارڈ نکال کر) یہ لیں۔۔۔ غور سے دیکھ لیں۔
میاں مٹھو۔۔۔ (غور سے شناختی کارڈ دیکھتے ہوئے) تو آپ کا پیشہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟
پنکچر والا۔۔۔ (چڑ کر) ٹی وی پر اینکری کرتا ہوں۔۔۔ دیکھ نہیں رہے پنکچر لگا رہا ہوں۔
میاں مٹھو۔۔۔ (شرمندہ ہو کر) میرا کہنے کا مطلب تھا کہ یہ آپ کا خاندانی پیشہ ہے؟
پنکچر والا۔۔۔ (ٹیوب پر رگڑا پھیرتے ہوئے) نہیں۔۔۔ میرے والد صاحب صحافی تھے۔
میاں مٹھو۔۔۔ (حیرت سے) تو آپ کیوں نہیں صحافی بنے ؟
پنکچر والا۔۔۔ (طنز کرتے ہوئے) صحافی بھی تو پنکچر ہی لگاتے ہیں۔
میاں مٹھو۔۔۔ (گڑبڑا کر) ص۔ صحافی اور پنکچر کا کیا تعلق۔۔۔؟
پنکچر والا۔۔۔ (ٹیوب پر شلوشن لگاتے ہوئے) وہی۔۔۔ جو "چڑیا" اور "شیر" کا ہوتا ہے۔
میاں مٹھو۔۔۔ (مذاق اُڑاتے ہوئے) یہ کیسی بے تکی سی مثال ہے۔۔۔اچھا کب سے یہ کام کر رہیں آپ؟
پنکچر والا۔۔۔ (سلوشن پر پھونکیں مارتے ہوئے) بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔
میاں مٹھو۔۔۔ (داد دیتے ہوئے) بیس سال کافی عرصہ ہوتا ہے۔ کافی تجربہ ہو گیا ہے اس کام میں۔
پنکچر والا۔۔۔ (اترا کر) اﷲ کا شکر ہے۔۔۔ کبھی غرور نہیں کیا۔
میاں مٹھو۔۔۔ (حیرانی سے) آپ نے ٹیوب کو پانی میں نہیں ڈبو یا۔ میرا مطلب ہے وہ بلبلے۔۔۔
پنکچر والا ۔۔۔ (قہقہہ لگا کر) میں دیکھتے ہی جان جاتا ہوں کہ کہاں سے پھٹی ہے۔
میاں مٹھو۔۔۔ (اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے) اچھا یہ بتائیں کہ ایک دن میں کتنے پنکچر لگا لیتے ہیں۔
پنکچر والا ۔۔۔ (ٹیوب کو شکنجے میں کستے ہوئے) پینتیس (35)۔۔۔!
میاں مٹھو۔۔۔ (حیرانی سے) صرف پینتیس (35) ۔۔۔؟
پنکچر والا ۔۔۔ (مسکرا کر) ذرہ اُن سے پوچھیں جن کو لگے ہیں۔۔۔ وہ تو ایک ایک پنکچر کو رو رہے ہیں۔
میاں مٹھو۔۔۔ (حیرانی سے) میں سمجھا نہیں۔کس کی بات کر رہے ہو؟
پنکچر والا ۔۔۔ (ٹیوب کو ٹائر میں فٹ کرتے ہوئے) چھوڑیں جی اس بات کو۔۔۔اب آپ اپنی ٹیوب بدل ہی لیں۔
میاں مٹھو۔۔۔ (حیرانی سے) کیوں۔۔۔؟؟؟ اس ٹیوب میں کیا خامی ہے۔
پنکچر والا ۔۔۔ (سنجیدگی سے) وہی جو نظام میں ہے۔اب اس میں مزید پنکچر لگانے کی گنجائش نہیں رہی۔
میاں مٹھو۔۔۔ (پریشانی سے) یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔۔۔ نئی ٹیوب کافی مہنگی ہو تی ہے۔
پنکچر والا ۔۔۔ (سمجھاتے ہوئے) نہیں بدلو گے تو اسی طرح خوار ہوتے رہو گے۔
میاں مٹھو۔۔۔ (کچھ دیر سوچ کر) پرانی بھی تو مل جاتی ہو گی ۔سستے میں۔
پنکچر والا ۔۔۔ (غصے سے) آپ کو صرف ٹیوب بدلنے کی نہیں ۔ سوچ بدلنے کی بھی ضرورت ہے۔
میاں مٹھو ۔۔۔ (چڑ کر) اب ٹیوب اور سوچ کا آپس میں کیا تعلق۔۔۔؟
پنکچروالا ۔۔۔ (فکر مندی سے) بہت گہرا تعلق ہے باؤ جی۔ لیکن ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔۔۔ دو سو روپے نکالیں پنکچر کے۔
میاں مٹھو۔۔۔ (پریشان ہو کر) دو ۔۔۔دو سو روپے۔۔۔۔!!!
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100043 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.