آ خر کب تک

آج کس قدر خا مو شی ہے ثنا ء نے ا کتا تے ہو ئے کہا ہا ں کہیں پر قبر وں کی سی خا مو شی ہے تو کہیں مد ر سے میدا ن کر بلا بنے ہو ئے ہیں یہ ہی تو ا لمیہ ہے ہما رے ملک کا طا لب علمو ں کو متوا ز ن ما حول میسر ہو جا ئے تو یقینا یہ ملک و معا شر ہ سنو ر سکتا ہے ہمیشہ کی طر ح اس نے ا پنا فلسفہ جھا ڑ نا شر و ع کر دیا۔۔۔ا فوبھئی! تم ہمیشہ ا لجھی ا لجھی با تیں کر تی ر ہتی ہو آخر تمہا رے سا تھ مسئلہ کیا ہے ؟ ثنا ء ا سکے سا تھ ا لجھنے لگی مگر ا سے فضو ل بحث کر نے کی عا دت ہی نہ تھی بس وہ ا پنی با ت کہ کر خا مو ش ہو جا تی اور گھنٹوں کچھ سو چتی ر ہتی وہ یو نیو ر سٹی میں سب سے ا نو کھی لڑ کی تھی یا تو با ت ہی نہیں کر تی تھی یا پھر بو لتی تھی تو جیسے تڑپ ر ہی ہو ا چھا چلو لنچ کے لیئے چلتے ہیں ثناء نے ا چھلتے ہو ئے کہا وہ خا مو شی سے ثنا ء کے ہمر ا ہ ہو لی ثنا ء یو نیو ر سٹی میں اسکی وا حد دو ست تھی با قی لڑ کیو ں سے تو بس اسکی د عا سلا م ہی تھی وہ خا مو ش طبعیت اور نا سمجھ میں آ نے وا لی تھی وہ اکثر ثنا ء سے کہتی جب ا سا تذہ پیشہ ور ہو جا ئیں گے تو جا نتی ہو کیا ہو گا ثنا ء لا پر وا ہی سے پو چھتی ہا ں بتا و کیا ہو گا تب تعلیم بھی ایک پیشہ ہی بن کر رہ جا ئے گی جسے بیچا اور خر یدا جا سکے گا آ ج ہما رے معا شر ے میں ا سکی جھلک د یکھی جا سکتی ہے کس طر ح سے ڈ گر یا ں بٹتی ہیں صر ف چند رو پوں کیخا طر علم کی تو ہین کی جا تی ہے علم کو نیلا م کر د یا جا تا ہے ثنا ء نے کچھ د یر سو چا پھر کند ھے ا چکا تے ہو ئے بو لی او ہو یار تم بھی کیا کیا سو چتی ر ہتی ہو یہ ہما رے سو چنے کی با تیں نہیں ہیں ہم جر نلز م کی طا لبا ت ہیں ہما را کام ایک کان سے سن کر دو سرے کا ن سے نکا ل د ینا ہے اور و یسے بھی لڑ کیوں کو ز یا دہ سو چنا نہیں چا ہیئے میر ی نا نی کہتی ہیں ثنا ء اسے ہمیشہ ا پنی نا نی کے ا قوا ل سنا تی ر ہتی اور وہ مسکرا کر خا مو ش ہو جا تی وہ بڑوں بز ر گو ں کا بہت ا حترا م کر تی تھی خا ص طور پر ا پنی ٹیچر ز کا ا سی لیئے تما م ٹیچر ز ا سکی گر و ید ہ ہو جا تی تھیں اس میں کچھ ا یسی با ت تھی جو دو سر و ں کو متا ثر کر جا تی ا یک بار جو کو ئی اس سے ملتا بار با ر ملنے کی خوا ہش کر نے لگتا وہ سکوت زا دی سب سے ملنے سے کترا تی اور ا پنی د نیا میں گم ر ہتی وہ پڑھا ئی میں بھی خو ب ا چھی تھی خوب دل لگا کر پڑ ھتی سوا ئے ا یک شخص کے اس پو ری یو نیو ر سٹی میں اسے کو ئی بھی متا ثر نہ کر سکا تھا اور وہ شخص تھا بھی متا ثر کن شخصیت کا ما لک وہ اس لیئے کہ سحر کے خا لا ت بھی سر ا حمد کے خیا لات سے ملتے تھے وہ سب کو بیٹا کہ کر بلا تے صا ف ز با ن میں ا ردو بو لتے ا نکے لہجے میں ٹھہرا و تھا اور با توں سے سچا ئی ٹپکتی تھی وہ ا کثر ا یک مخلص با پ کی طر ح ہمیں نصیحتیں کر تے ر ہتے ا نکے لیکچر ز سٹا ر پلس کے ڈرا مو ں کیطر ح طو یل اور گھما د ینے وا لے ہو تے مگر ا کتا د ینے وا لا عنصر نہ پا یا جا تا تھا پھر بھی کچھ طا لب علمو ں کو شکا ئیت ر ہتی کہ ا نکے لیکچر ز سمجھ میں نہیں آ تے ا ور کچھ انکی با ت کو تو جہ سے سنتے جن میں سے سحر سر فہر ست تھی آج سر ا حمد کا دو گھنٹے کا لیکچر ہو گا کل جو کلا س نہیں ہو ئی تھی میر ا مو ڈ نہیں ہے کلا س لینے کا کیو ں نہ آ ج ہم کلا س بنک کر لیں کلا سسز بنک کر نے کا مطلب ہے ہم ا پنے وا لد ین کو د ھو کہ دے ر ہے ہیں اور د ھو کہ د ہی سے ہی وا لد ین کا اپنی ا ولا د پر سے ا عتما د ختم ہو تا جا ر ہا ہے ہم کلا س ضر و ر لیں گے د یکھتے ہیں آ ج کس مو ضو ع پر لیکچر ہو گا اور وہ دو نو ں کلا س لینے چل د یں ا بھی کلا س شر و ع ہو نے میں پا نچ منٹ تھے سر ا حمد و قت کے پا بند تھے ہمیشہ و قت پر کلا س میں آ تے اور و قت پر کلا س ختم کر د یتے یہ عا د ت بھی ا نکی بہت ا چھی تھی جو کہتے ا پنے عمل سے ثا بت کر کے د کھا تے ہمیشہ کی طر ح اس دن بھی ا نھو ں نے ایک ا چھے مو ضو ع کا انتخا ب کیا تھا “معلم کی ا ہمیت“ اور کہنا شرو ع کیا معلم کو ا پنے شا گر دو ں پر اس طر ح فو قیت حا صل ہو تی ہے جیسے چا ند کو ستا رو ں پر ا سلا م میں ا سا تذ ہ و ا لد ین کے بر ا بر ہو تے ہیں ا سا تذہ کا و قت بہت قیمتی ہو تا ہے جسکی قیمت کبھی کو ئی شا گر د نہیں چکا سکتا آ جکل ا سا تذہ بھی بک جا تے ہیں حا لا نکہ ا سا تذہ کو کسی قیمت پر بھی بکنا نہیں چا ہیئے پیشہ ور ا سا تذہ کبھی بھی ایک ا چھے معا شر ے کی تعمیر نہیں کر سکتے ان کی با تیں سن کر ہما رے د ل میں ا سا تذہ کی قدر اور ز یا دہ بڑ ھ گئی وہ ہمیشہ مد ہم لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بو لتے اسی لیئے ان کی با تیں دل میں ا تر جا تیں لہذا جلد ہی ا نکی کلا س میں طا لب علموں کا ا ضا فہ ہو نا شر و ع ہو گیا اب کو ئی بھی ا نکی کلا س بنک نہیں کر تا تھا کیو نکہ ا نکا لیکچر معلو ما ت سے بھر پو ر ہو تا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ا یک دن ہم لیکچر لینے کلا س میں دا خل ہی ہو یئں تھیں کہ ا یک چیختی ہو ئی آواز نے ہمیں گھا ئل کر کے ر کھ د یا تھا “ نکل جا و کلا س سے تم یہا ں پر یہ مضمو ن پڑ ھنے کے قا بل نہیں ہو تم جیسی لڑ کیا ں ہو تیں ہیں جو مر دو ں کو اپنی ا دا ئیں د کھا کر ا پنے جا ل میں پھنسا لیتی ہیں یہ جملے اس سکو ت زا دی کے لیئے کہے جا ر ہے تھے جو کسی غیر مر د کو آ نکھ ا ٹھا کر بھی نہ د یکھتی تھی جسکے گھر کا ما حول مکمل مذ ہبی تھا جو پو را و قت با پر دہ ر ہتی تھی سوا ئے کسی مجبو ری کے اور اس یو نیو ر سٹی میں پڑ ھنا بھی اسکی مجبو ری تھی کیو نکہ پا کستان میں یو نیو ر سٹیا ں نہ ہو نے کے بر ا بر ہیں وہ ا بھی ا سی سکتے سے نہ نکل سکی تھی کہ ا یک مہذ ب نظر آ نے وا لی معمر پرو فیسر ا سقد ر با زار ی ز با ن میں ا تنے گھٹیا ا لزا ما ت کسی بے گنا ہ اور معصوم لڑ کی پر لگا سکتی ہے ا یسا کچھ نہیں ہے میم اس نے سہمے ہو ئے لہجے میں کچھ کہنے کی کو شش کی مگر ا یک زور سے کہے جا نے وا لے شٹ اپ نے ا سے و ہیں رو ک د یا ا گلے ہی لمحے اس نے ایک نظر کلا س پر ڈا لی اس نے محسو س کیا جیسے تمام کی تما م کلا س کی نظر یں اس پر گڑ یں ہو ئیں ہیں وہ شر م سے پا نی پا نی ہو ر ہی تھی اور خو ف سے کا نپ ر ہی تھی اسی حا لت میں وہ دو نوں کلاس سے با ہر نکل آ ئیں اس نے کلا سسز بنک کر نا شر و ع کر د یں پر و فیسر کے ان ا لفا ظ سے نہ صر ف اس کی تعلیم پر بلکہ اسکی ز ند گی پر بھی منفی ا ثرا ت مر تب ہو نا شرو ع ہو گئے تھے تما م طا لب علم ا سے ایک غلط قسم کی لڑ کی سمجھنا شرو ع ہو گئے تھے ا کثر تو اس پر جملے بھی کستے کہتے ہیں ز بان کا گھا و تلوار کے گھاو سے ز یا دہ خطر ناک ہو تا ہے اس نے میم کی با تیں ا پنے دل پر لے لیں تھیں اور با تیں تھیں بھی دل پر لینے وا لی وہ سا را دن یو نیو ر سٹی میں رو تی ر ہتی اسے ا پنے ر شتے دا رو ں تک با ت کے پہنچ جا نے کا خو ف تھا ا سی خو ف کے با عث اس نے ا پنی تعلیم کو خیر با د کہہ د یا مگر با ت جب نکلتی ہے تو دور تک جا تی ہے اس میں کو ئی سچا ئی ہو یا نہ ہو وہ ایک پرو فیسر تھیں اور سحر ایک طا لب علم تھی اور ظا ہر ہے ا یسی صو ر تحا ل میں او لیت ا سا تذہ ہی کی با ت کو دی جا تی ہے اور طا لب علمو ں کو ہمیشہ غلط ہی سمجھا جا تا ہے خوا ہ وہ ٹھیک ہی کہ ر ہے ہو ں لہذا اس پر ا لزا م لگ چکا تھا با ت ر شتہ دا رو ں تک پہنچ چکی تھی اسکی اسکے چچا زاد سے منگنی ٹوٹ جا نے کے بعد سحر رات میں بدل چکی تھی اور سا را دن ا پنے کمر ے میں بند د یوا رو ں سے با تیں کر تی ر ہتی ہما را پا نچ سا ل بعد اس سے را بطہ ہو ا تو وہ ہمیں ایک پا گل خا نے کے کمر ے میں ملی ا ب وہ ایک خا مو ش پا گل لڑ کی تھی سوا ل صر ف ا تنا سا ہے کہ آ خر کب تک طا لب علمو ں پر کبھی جسما نی تو کبھی نفسیا تی تشدد ہو تا رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
naila rani riasat ali
About the Author: naila rani riasat ali Read More Articles by naila rani riasat ali: 104 Articles with 150040 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.