شاہ جی

 ’ ’رعد کی گونج، بادل کی گرج، ہواکا فراٹا، فضاکاسناٹا، صبح کااجالا، چاندنی کا جھالا، ریشم کی جھلملاہٹ، ہواکی سرسراہٹ، گلاب کی مہک، سبزے کی لہک، آبشار کابہاؤ، شاخوں کا جھکاؤ، طوفان کی کڑک ، سمندروں کا خروش، پہاڑوں کی سنجیدگی، صبا کی چال، اور اس کا نم، چنبیلی کا پیراہن، تلوار کا لہجہ، بانسری کی دہن، عشق کا بانکپن، حسن کا اغماض اور کہکشاں کی مسجع و مقطع عبارتیں انسانی آواز میں ڈھلتے ہی خطابت کی جو صورت اختیار کرتی ہیں اس کا جیتا جاگتامرقع شاہ جی تھے‘‘۔شاہ جی مولاناسید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ کانام زبان پر آتے ہی خطابت کا بے تاج بادشاہ تخت پر براجمان نظر آتا ہے۔ ان کے عہد کے تمام علمی حضرات اپنے بیگانے سب اس بات پر متفق ہیں کہ شاہ جی جیسا خطیب لاثانی پہلے پیدا ہواہے نہ مستقبل میں امید ہے۔ ان کی تقریر سننے مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی جلسہ میں شریک ہوتے۔تقریر میں قرآن مجید اس لحن سے پڑھتے کہ سب دم بخود ہمہ تن گوش ہوتے، چار چار، چھ چھ گھنٹے بلاتوقف تقریر جاری رکھتے اور شرکاء اٹھنے کا تصور تک بھول جاتے۔

خطابت کے لیے ایسے علاقوں کا دورہ بھی کیاجہاں نام کے مسلمان آباد تھے، السلام علیکم اورکلمہ طیبہ کا صحیح تلفظ اداکرنے سے بھی قاصر ہوتے، وہ ایسے علاقوں میں جاکر دین متین کی شمعیں روشن کرتے ، دور دراز گاؤ ں کا سفر بھی خندہ پیشانی سے کرتے جہاں پہنچنا بھی دل گردے کاکام ہوتا، جہاں تک ریل گاڑی، لاری اور دودوسری کوئی گاڑی جاتی وہاں تک سواری پر سفر کرتے آگے پیدل ہی ایڑھے ٹیڑھے کیچڑ زدہ راستہ طے کرکے منزل مقصود پہنچتے۔ جس گاؤں کی بولی بولنے سے قاصر ہوتے وہاں جلسے کی تاریخ سے کچھ دن پہلے جاتے، لوگوں میں گھل ملتے،ان کی زبان، لب ولہجہ اور گاؤں کے مخصوص الفاظ سیکھتے پھر تقریر میں انھیں کے انداز میں ان کو مخاطب کرتے تو دیہاتی اپنا سمجھ کر بات غور سے سنتے اور جلد سمجھ جاتے، تقریر سے گھنٹہ دو گھنٹہ قبل تخلیہ میں آرام کرتے بس یہی تقریرکی تیاری ہوتی، اور پھر جو بولتے تو اﷲ دے اور بندہ لے، ایک دریا اپنے تیز بہاؤ میں بہہ رہاہوتا، کبھی موجوں میں ٹھہراؤ آتا، ہنسی مزاح اور پھلجھڑیاں چھوڑی جارہی ہوتیں، لوگ قہقہے مارتے ہنستے اور کبھی طغیانی آتی، دریاجوش مارتا، لوگوں کی آہیں نکل جاتیں، الفاظ دست بستہ کھڑے ہوتے کہ وہ انھیں کب باریابی کا شرف بخشتے ہیں، سطحی الفاظ بھی وہ ایسے موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرتے کہ وہ بھی شائستہ دکھائی دینے لگتے، دیکھنے والوں کا کہنا ہے قرآن کریم اس لے میں پڑھتے یوں معلوم ہوتاابھی نازل ہورہاہے، ان کا کہناتھالگاتار چوالیس برس لوگوں کو قرآن سنایا،پہاڑوں کو سناتاتوعجب نہ تھاکہ ان کی سنگینی کے دل چھوٹ جاتے، غاروں سے ہم کلام ہوتاتوجھوم اٹھتے، چٹانوں کوجھنجھوڑتاتوچلنے لگتیں، سمندروں سے مخاطب ہوتاتوہمیشہ کے لیے طوفان بکنار ہوجاتے، درختوں کو پکارتاتووہ دوڑنے لگتے، کنکریوں سے کہتاتووہ لبیک کہہ اٹھتیں، صرصر سے گویاہوتاتووہ صباہوجاتی، دھرتی کوسناتاتو اس کے سینے میں بڑے بڑے شگاف پڑجاتے، جنگل لہرانے لگتے، صحراسبز ہوجاتے۔ افسوس میں نے ان لوگوں میں معروفات کا بیج بویاجن کی زمینیں ہمیشہ کے لیے بنجر ہوچکی تھیں، جن کے ضمیر قتل ہوچکے تھے۔

انجمن خدام الدین کے سالانہ جلسہ میں ایسی والہانہ اور درد دل میں ڈوبی تقریر کی کہ علامہ انور شاہ کشمیریؒ (جو پہلے سے موقع کی تلاش میں تھے )کی تحریک پر امیر شریعت کے خطاب سے نوازے گئے، پانچ سو علماء نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی جن میں مولانا ظفر علی خانؒ جیسے عالم بھی تھے، اسی وقت سے امیر شریعت کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے۔

امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ خود حضرت سید پیر مہر علی شاہؒ سے بیعت ارشاد تھے، حضرت شیخ عبدالقادر رائے پوریؒ سے بیعت جہاد تھے، وہ اولیاء اﷲ کے علاوہ کسی سے مرغوب نہ ہوتے، استغنا اور بے نیازی کی صفت سے مالا مال تھے،صدر اسکندر مرزانے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، آپ نے ملنے سے معذرت کردی، فرمایافقیر کو دربارِسرکار سے کیا سروکار، عمدہ عطراور خوبصورت آواز ان کی کمزوری تھی، شعرو شاعری کا ذوق وشوق رکھتے تھے، تکلفات روا نہ رکھتے، انواع واقسام کے کھانوں کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، غیبت وچغلی سے سخت نفرت تھی، خود کرتے نہ کسی کو کرنے دیتے، حب جاہ کو برائیوں کی چڑھ سمجھتے، یہی وجہ تھی کہ صحافتی حلقوں سے کنی کتراتے، طیش میں آتے تو میڈیا کو جہنم کی آگ کہتے، کوئی انٹرویو کے لیے زیادہ اصرار کرتا تو فرماتے بابو!میں اس میدان کا کھلاڑی نہیں ہوں۔

شاہ جی تقسیم ہند کے مخالف تھے، اپنی تقریروں میں اس کی بھرپور مخالفت کی، لیکن قیام پاکستان کے بعد برملا اظہار کیاکہ مسلمانوں نے ہماری سیاسی رائے کو مسترد کردیاہے، ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ پاکستان کوجو مسائل درپیش ہیں ممکن ہوتو انفرادی طور پر مسلم لیگ کی لیڈر شپ کا ہاتھ بٹائیں ورنہ خاموش رہیں، پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور اب یہاں مسلمان حکومت قائم ہوچکی ہے۔ ہمارے لیے اب یہی بہتر ہے کہ سیاست سے الگ ہوجائیں اور کوئی ایسی بات نہ کریں جو اس نوزائیدہ ملک کے لیے کسی عنوان سے پریشانی کا باعث ہو۔ سیاست سے کنارہ کش ہوکر اپنے آپ کو ختم نبوت کے عظیم کاز کے لیے وقف کردیا، مسلمانوں میں ختم نبوت کی روح پھونکی، ختم نبوت کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، جانی مالی ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ ایک مرتبہ پولیس ان کے گھر والوں سے گستاخی سے پیش آئیں تو اپنے بیٹے سید ابوذربخاری کو مخاطب کرتے ہوئے ایسی نصیحت فرمائی جو ختم نبوت کے ہر کارکن کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے’’آخر ہوا ہی کیا ہے؟یہی کہ تمہاری اماں اور بہن کے سامنے پولیس والوں نے بدزبانی کی اور گالیاں بکیں۔ نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اس سے بھی زیادہ بدسلوکی کی ہوتی تو ہماری سعادت ہوتی۔ اگر تمہاری اماں اور بہن کو گھسیٹ کر لاتے اور ان کو مارتے تو میں سمجھتا کہ تحفظ ختم نبوت کا کچھ حق ادا ہوا۔ اﷲ کے دین کے کاموں میں سختیاں اور امتحانت نہ آئیں اور مار نہ پڑے یہ ہونہیں سکتا۔‘‘

تیئس ستمبر 1892ء کو صوبہ بہار (انڈیا)کے علاقہ پٹنہ میں پیدا ہونے والے سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری اکیس مارچ 1981ء کو فالج کے شدید حملہ سے اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ شاہ جی کی بے مثال خطابت سے ایک اقتباس نقل کرکے قلم کو روکتے ہیں’’جاؤ میری اس ٹوپی کو خواجہ ناظم الدین کے پاس لے جاؤ، میری یہ ٹوپی کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکی،اسے خواجہ ناظم الدین کے قدموں میں ڈال دو، اس سے کہوکہ ہم تیرے سیاسی حریف ورقیب نہیں ہیں، ہم الیکشن نہیں لڑیں گے، تجھ سے اقتدار نہیں چھینیں گے۔۔۔۔ہاں ہاں۔۔۔۔جاؤ میری یہ ٹوپی اس کے قدموں میں ڈال کر یہ بھی کہوکہ اگر پاکستان کے بیت المال میں کوئی سور ہیں تو عطاء اﷲ شاہ بخاری تیرے وہ ریوڑ بھی چرانے کے لیے تیار ہے مگر شرط صرف یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺفداہ ابی وامی کی ختم رسالت کی حفاظت کا قانون بنادے، کوئی آقا کی توہین نہ کرے،آپ کی دستار ختم نبوت پر ہاتھ نہ ڈالے‘‘۔
Ibrahim Hussain Abdi
About the Author: Ibrahim Hussain Abdi Read More Articles by Ibrahim Hussain Abdi: 60 Articles with 57630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.