مرادِ رسول ؐ حضرت عمر فاروق ؓ

۱۳ ہجری زمانہ ہے، مکے کے کافروں کے ظلم و ستم سے تنگ مسلمان رسول اﷲ ؐ کے حکم کے مطابق دو دو چار چار کی ٹولیوں میں چھپ چھپا کر مکہ سے یثرب ہجرت کرتے جارہے ہیں، وہ مکہ سے نکلنے میں احتیاط کررہے کہ کہیں کفارِ مکہ کو اُ ن کے ارادے کا علم نہ ہوجائے اور وہ ان کو روک نہ لیں۔ لیکن آج تو ایک عجیب و غریب اور معمول سے ہٹ کر واقعہ رونما ہوا ہے۔آج ایک صحابیٔ رسول اپنی کمر سے تلوار باندھے، کاندھے پر کمان اور گلے میں تیروں کا ترکش لٹکائے، نیزہ ہاتھ میں لیے بیت اﷲ پہنچ گئے، انہوں نے پہلے نہایت اطمینان سے طواف کیا، نوافل ادا کیے، اس کے بعد بہ آوازؓ بلند فرمایا’’ اس شخص کا بھلا نہ ہو جو پتھروں کے ٹکڑوں کو اپنا خدا سمجھے۔‘‘ اس وقت بیت اﷲ میں بہت سے کافر جمع تھے، آپؓ نے ان کو مخاطب کرکے اعلان کیا کہ ’’ آج میں مکہ سے جارہا ہوں، میرے ساتھ میرے بھائی، بہنوئی ، داماد اور خاندان کے دوسرے لوگ ہیں، جس کو اپنے بیٹوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ کرنا ہو ، وہ مکہ سے نکل کر میرا مقابلہ کرے ۔‘‘ ان کی یہ بات سُن کر کافروں کو سانپ سونگھ گیا اور کسی کو بھی ان کے مقابلے میں اپنے دست و بازو آزمانے کی جرأت نہ ہوئی۔ یہ جری اور دلیر صحابی جو علی الاعلان مکہ سے ہجرت کررہے تھے اور کفار جن سے خوفزدہ رہتے تھے، دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق ؓ تھے۔

حضرت عمر فاروقؓ ہجرتِ مدینہ سے تقریباً چالیس سال قبل مکے میں پیدا ہوئے۔ آپ ؓکا نام عمر، کنیت ابو حفص تھی لیکن ابن خطاب اور عمر کے نام سے زیادہ مشہور تھے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو عدی سے تھا، آپ کے والد کا خطاب بن نُفیل جبکہ والدہ کا نام حنتمہ بن ہاشم تھا۔ آٹھویں پشت پر آپؓ کا سلسلہ نسب پیارے نبی ﷺ سے مل جاتا ہے۔

آپؓ عرب کے ان چند گنے چنے افراد میں شامل تھے جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے، اس کے علاوہ آپ کو علم الانساب میں بھی مہارت حاصل تھی۔ حضرت عمر فاروق ؓ بہت طاقتور اور طویل القامت انسان تھے، آپؓ نے اس زمانے میں رائج تمام جنگی اور جسمانی علوم مثلاً شمشیر زنی، نیزہ بازی، تیر اندازی ، گھُڑ سواری اور پہلوانی میں کمال مہارت حاصل کرلی تھی اور آپ نے اس دور کے کئی نامی گرامی پہلوانوں کو کشتی میں پچھاڑا تھا۔

حضرت عمر فاروق ؓ کو مراد رسو لؐ بھی کہا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبوت کے چھٹے سال جب مکے میں کافروں کے ظلم وستم بہت زیادہ بڑھ گئے اور انہوں نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنا شروع کیا تو ایک دن نبی اکرم ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ ’’ اِلٰہی ! عمرو بن ہشام ( ابو جہل ) یا عمر ابن خطاب کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما۔‘‘ پیارے نبی ﷺ کی یہ دعا حضرت عمر فاروق ؐ کے حق میں قبول ہوئی اور اس دعا کے اگلے ہی روزیاچند روز بعد آپؓ کو اﷲ تعالیٰ نے دولتِ ایمان سے نواز دیا۔اس وقت حضرت عمر فاروق ؓ کی عمر تقریباً پینتیس برس تھی۔

جمادی الآخر ۲۲ھ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے انتقال کے بعد خلافت کی ذمہ داریوں کا بوجھ آپ ؓ کے کاندھوں پر ڈالا گیا اور تاریخ گواہ ہے کہ ان کا دورِ خلافت نہ صرف مسلمانوں کی تاریخ کا سنہرا دور ہے بلکہ ان کا طرزِ حکمرانی اپنی مثال آپ ہے، اور ان کے دورِ خلافت نے جدید مدنیت کی بنیاد بھی رکھی ، آج دنیا میں جتنی بھی فلاحی ریاستیں ہیں اور جو حکومتیں بھی عوامی فلاح و بہبود کے کام کرتی ہیں اور مدنیت کے جو اصول اپناتی ہیں ان کا بڑا حصہ اسی دور سے اخذ کیا گیا ہے۔ان کا طرزِ حکمرانی تمام مسلم حکمرانوں کے لیے ایک مثال ہے، ہم یہاں ان کے دورِ خلافت کی کچھ باتوں کا تذکرہ کریں گے۔

حضرت عمر فاروق ؓ نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے، خلیفہ بننے کے بعد آپؓ کی سادگی میں مزید اضافہ ہوا، آپؓ نے کبھی نرم ، ریشمی اور باریک کپڑے نہیں پہنے، ہمیشہ موٹے کھدّر کا کرتا پہنتے، کپڑے اگر پرانے ہوکر پھٹنے لگتے تو اس میں چمڑے کا پیوند لگا لیتے۔ ایک دفعہ آپ ؓ خطبے دینے منبر پر آئے تو آپؓ نے جو چادر اوڑھی ہوئی تھی اس میں ۱۲ پیوند لگے ہوئے تھے،حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے آپؓ کے تہبند کے پیوند گنے تو وہ ۲۲ تھے۔شام کی فتح کے بعد جب آپ وہاں پہنچے تو سفر کے دوران آپؓ کا کرتا اونٹ کے کجاوے میں الجھ کر پھٹ گیا، آپؓ نے وہ کرتا ایک پادری کو مرمت کے لیے دیا، اس نے آپؓ کے کرتے کی مرمت کے ساتھ ساتھ ایک نیا کرتا بھی سی کر انہیں پیش کیا ، آپؓ نے اپنا پرانا کرتا ہی لیا اور کہا کہ ’’ اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔

آپؓ کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت میں توسیع ہوئی ، کئی ممالک فتح ہوئے۔ چند صحابہ کرامؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ مختلف ممالک کے سفئر اور سردار آپؓ سے ملنے آتے ہیں، اس لیے آپؓ نئے اور اچھے کپڑے پہن لیا کریں۔ آپؓ نے اس تجویز کو رد کردیا اور فرمایا ’’ اﷲ نے ہمیں جو عزت اور شان و شوکت عطا فرمائی ہے وہ قیمتی کپڑوں عالی شان مکانات کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سے ہے۔‘‘ آپؓ کا یہ جواب اور طرزِ حکمرانی ہمارے آج کے ان حکمرانوں کے لیے ایک مثال ہے جو قیمتی سوٹ اور کپڑوں کو ہی عزت و وقار کا باعث سمجھتے ہیں اور ایک دن میں کئی کئی بار سوٹ تبدیل کرتے ہیں۔

خلیفہ بننے کے بعد بھی آپؓ کا یہ حال تھا کہ آپ ؓ عام سے کپڑے پہنے بازاروں میں گشت کرتے رہتے، نہ کوئی محل، نہ دفتر، نہ دربان نہ ہٹو بچو کا شور۔ راتوں کو آپؓ مدینہ کی گلیوں میں گشت کرتے اورلوگوں کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کرتے۔ایک دفعہ ملک روم کا سفیر اپنے بادشاہ کا پیغام لیکر مدینہ آیا، اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ ’’تمہارے بادشاہ کا محل کہاں ہے؟ ‘‘ لوگ اس کی بات سن کر ہنسنے لگے اور کہا ’’ کون سا بادشاہ ـ، کیسا محل؟ ہم نے اپنے ہی لوگوں میں سے ایک شخص کو خلیفہ بنایا ہے ، وہ سامنے اس کا گھر ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر لوگوں نے حضرت عمر فاروقؓ کے گھر کی جانب اشارہ کیا، سفیر ان کا عام سے مکان دیکھ کر حیران رہ گیا ، اس نے پوچھا کیا وہ اس وقت گھر پر موجود ہونگے؟ لوگوں نے کہا نہیں وہ وقت شہر سے باہر کی جانب گئے ہیں، تم اس طرف جاکر دیکھووہ مل جائیں گے،سفیر نے حیرانی سے پوچھا لیکن میں انہیں پہچانوں گا کیسے؟ جواب ملا، انہیں آسانی سے پہچان لوگے، ان کے ہاتھ میں دُرہ ہوگا اور وہ بہت طویل قامت ہیں۔ سفیر ، لوگوں کے بتائے گئے راستے پر چل پڑا، کچھ دور جاکر اس نے دیکھا کہ حضرت عمر فاروق ایک درخت کے نیچے ، ایک اینٹ پر سر ٹکائے سور رہے ہیں، ان کا دُرہ ان کے قریب پڑا ہے اور آس پاس کوئی دربان، کوئی گارڈ ، کوئی پولیس نہیں، کوئی ہٹو بچو کا شور نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر اس پر ہیبت طاری ہوگئی ، وہ کانپنے لگا اور اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے’’ اے عمر تم اپنی رعایا کے سچے خیر خواہ ہو، اسی لیے تم لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہو، اور تمہیں کسی پہرے دار اور سپاہی کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ہمارا بادشاہ ہے کہ بلند دیواروں والے شاندار محل کے اندر بھی آرام کی نیند نہیں سو سکتا، حالانکہ محل کے اندر اور باہر ہزاروں پہرے دار ہوتے ہیں۔‘‘

ایک بار کسی نے ان کو بتایا کہ آپ کے ایک گورنر عیاض بن غنیمؓ باریک کپڑے پہنتا ہے اور اس کے دروازے پر دربان مقرر ہے۔ حضرت عمر ؓ نے اس کی تحقیقات کرائیں تو یہ بات سچ ثابت ہوئی، آپ ؓ نے ان کو مدینہ بلالیا، جب عیاض بن غنیمؓ مدینہ پہنچے تو ان کا قیمتی لباس اتروا کر بالوں سے بنے کمبل کا کرتا پہنایا اور ان کو جنگل میں بکریاں چَرانے کے کام پر لگا دیا اور جب تک انہوں نے اپنے اس طرزِ عمل سے توبہ نہ کرلی انہیں ان کے عہدے پر بحال نہ کیا۔ان واقعات کو سامنے رکھیں اور پھر آج کے حکمرانوں کے طرزِ عمل کو دیکھیں،ا یک واضح فرق نظر آتا ہے۔ آج جب ہمارے حکمران اپنے عالی شان محلات سے باہر نکلتے ہیں تو محافظین کا ایک جمِ غفیر اُن کے ساتھ ہوتاہے، اس کے باجود عوام کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اس لیے ان کی آمد سے گھنٹوں پہلے ہی شاہراہوں کو عوام کے لیے بند کردیا جاتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ یہ قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی عموماً فضائی کرتے ہیں۔

حضرت عمر فاروق ؓ سرکاری مراعات اور بیت المال کی اشیا کے استعمال میں انتہائی محتاط رویہ اپناتے تھے۔ وہ پوری کوشش کرتے تھے کہ وہ خود اور ان کے اہل خانہ بلا جواز کوئی سرکاری چیز استعمال نہ کریں۔ایک بار آپؓ بازار میں گشت کررہے تھے ، دیکھا کہ ایک انتہائی موٹا تازہ ، صحت مند اونٹ فروخت کے لیے آیا ہے، انہوں نے دریافت کیا کہ یہ اونٹ کس کا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ وہ ان کے صاحبزادے حضرت عبد اﷲ ابن عمر ؓ کا ہے۔ انہوں نے اپنے صاحبزادے کو بلا کر پوچھا کہ یہ اونٹ کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابا جان یہ اونٹ میں نے اپنی ذات ی رقم سے خریدا تھا، اس کے بعد میں نے اس کو سرکاری چراگاہ میں چھوڑ دیا تھا، وہاں پل کر یہ خوب تگڑا ہوگیا ہے، اب میں اس کو فروخت کررہا ہوں تاکہ اچھا منافع مل سکے۔ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ بیٹا یہ اونٹ سرکاری چراگاہ میں پل کر بڑا ہوا ہے، اس لیے اس کو فروخت کرکے تم صرف اپنی اصل رقم لے اور باقی سارا منافع بیت المال میں جمع کرادو۔

ایک دفعہ مالِ غنیمت میں قیمتی خوشبوئیں مشک و عنبر بھی تھیں، ان کو تقسیم کرنے کے ایسے فرد کی ضرورت محسوس ہوئی جو کہ اس کام کو بخوبی انجام دے سکے، حضرت عمر ؓ کی زوجہ حضرت عاتکہ ؓ نے اس کام کے لیے اپنی خدمات پیش کیں، لیکن حضرت عمر ؓنے اس کو منع فرما دیا اور کہا کہ ’’ مجھے ڈر ہے کہ اس کی تقسیم کے دوران تمہاری انگلیوں پر بھی کچھ خوشبو لگ جائے گی ،اور یہ عام مسلمانوں سے زیادہ حصہ ہوجائے گا ۔‘‘ ایک دفعہ بیت المال کا ایک اونٹ کھو گیا ، اس کو ڈھونڈنے کے لیے آپ چلچلاتی دھوپ میں پریشان حال ، مدینہ سے باہر بھاگے جارہے تھے، حضرت علی ؓ نے یہ کیفیت دیکھی تو فرمایا’’ آپ نے اپنے بعد آنے والوں کو تھکا دیا‘‘۔ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری جانب آج کے حکمرانوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو بیت المال کو شِیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرتے رہتے ہیں، سرکاری خرچ پر حج و عمر ہ کیا جاتا ہے، غیر ملکی سرکاری دوروں پر اپنے اہل خانہ اور دوستوں کو بھی سرکاری خرچ پر سیر کرائی جاتی ہے۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک ہالی ووڈ ایکٹریس اقوام متحدہ کی جانب سے سیلاب زدگان کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے آئی تو اس وقت کے وزیر اعظم صاحب نے سرکاری خرچ پر بذریعہ ہوائی جہاز اپنے گھر والوں کو وفاقی دارلحکومت میں بلا لیا کہ چلو اس اداکرہ سے مل لو ، بعد میں موقع ملے یا نہ ملے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا طرزِ حکمرانی ایسے حکمرانوں منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

آپ ؓنے شرعی مسائل پر فیصلے دینے کے لیے پہلی بار باقاعدہ دالافتاء قائم کیا، یہ ادارہ شرعی مسائل اور عدالتوں کے مقدمات میں قاضیوں کی مدد کرتا تھا اور فتوے جاری کرتا تھا۔

ملک میں امن امان قائم رکھنے اور لوگوں کو برائیوں سے روکنے کے لیے پویس کا محکمہ قائم کیا، یہ محکمہ بازاروں میں ناپ تو ل کے نظام کو درست رکھتا ، شراب نوشی کی بیخ کنی کرتا، سڑکوں کو تجاوزات سے پاک رکھتا ۔سب سے پہلے جیل خانے بھی آپؓ کے دور میں بنائے گئے۔

آپؓ پہلے خلیفہ تھے جنہوں نے قوموں اور قبیلوں کی درست تعداد معلوم کرنے کے لیے مردم شماری کرائی اور اس کا ریکارڈ سنبھالنے کا بھی انتظام کیا۔

اسلامی سکہ بھی سب سے پہلے حضرت عمر فاروق ؓ نے ہی جاری کیا۔اس سے پہلے رومی اور ایرانی سکہ رائج تھے، آپ ؓ نے ۱۸ ہجری میں ان کی جگہ اسلامی سکہ رائج کیا۔

سن ہجری بھی حضرت عمر فاروق ؓ نے جاری کیا۔آپ ؓ نے صحابہ کرام ؓسے مشاورت کے بعد پیارے نبی ﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت سے اسلامی سال کا آغاز کیا، ہجرت ربیع الاول میں ہوئی تھی، صحابہ سے مشورے کے بعد اس سے تقریباً دو ماہ پہلے محرم سے اس کو شروع کیا گیا اور محرم کو ہجری سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔

فوج کا باقاعدہ نظام قائم کیا۔ آپ ؓ نے باقاعدہ فوجیوں کی باقاعدہ تنخواہیں مقرر کیں۔ان کا ریکارڈ مرتب کیا گیا، فوجیوں کی بیویوں اور بچوں کا وظیفہ مقرر کیا گیا۔ملک میں جگہ جگہ سینکڑوں چھاؤنیاں قائم کی گئیں، چھاؤنیوں کے ساتھ بڑے بڑے اصطبل قائم کیے جہاں چار چار ہزار گھوڑے ہر وقت تیار رکھے جاتے۔ہر فوجی کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ہر چار ہنے بعد چھٹی لے کر اہل خانہ سے مل کر آجائے۔فوج میں خزانچی، طبیب اور جراح بھی بھرتی کیے جاتے۔فوجیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا اور فوجیوں کے لیے قرآن کی تعلیم لازمی قرار دی گئی، فوجیوں کے لیے تعلیمی وظیفہ بھی جاری کیا گیا۔

عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہر منزل پر چوکیاں اور سرائے قائم کیں، مختلف شہروں میں سرکاری مہمان خانے تعمیر کرائے۔

ملک میں جگہ جگہ نہریں تعمیر کھدوائیں، آبپاشی کے نظام کو بہتر بنایا گا جس سے زراعت نے ترقی کی۔

ملک بے شمار سڑکیں اور پل بنوائے ۔نئے شہر بسائے،تقریباً چار ہزار نئی مساجد تعمیر کرائیں، ان کے ساتھ ساتھ مدارس بھی قائم کیے، امامو ں کی باقاعدہ تنخواہیں مقرر کی گئیں۔ مسجدِ نبوی اور حرم کعبہ کو وسیع کیا گیا۔

تعلیم کو عام کرنے اور مسلمانوں میں علمی شعور بیدار کرنے کے لیے جگہ جگہ مدرسے قائم کیے، تعلیم و تربیت کے لیے باقاعدہ اساتذہ مقرر کیے اور ان کی تنخواہیں رکھی گئیں۔آپؓ نے فرمان جاری کیا تھا کہ ہر مسلمان کے لیے سورۃ البقرہ، النساء، المائدہ، الحج اور النور کی تعلیم اور ان کا سیکھنالازمی ہے۔

۲۳ ہجری ۲۷ ذی الحج کو ایک مجوسی غلام ابو لؤ لو فیروز نے ذاتی رنجش کی بِنا پر نماز ِ فجر کے وقت ان پر خنجر سے حملہ کرکے آپ ؓ کو شدید زخمی کردیا ،شہادت سے پہلے آپؓ نے اپنے صاحبزادے سے کہا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے جاکر کہو کہ عمر ؓ آپ کو سلام کہتا ہے اور اپنے دونوں ساتھیوں کے پاس دفن ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے۔حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ یہ جگہ میں اپنے لیے رکھی تھی لیکن آج میں عمرؓ کو اپنے سے زیادہ اس جگہ کا حقدار سمجھتی ہوں، حضرت عمر ؓ کا معلوم ہوا تو آپ ؓ نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔ لیکن اس حالت میں آپ ؓ کو یہ گمان ہوا کہ ایسا نہ کہ انہوں نے مجھے خلیفہ ہونے کی بنیاد پر یہ اجازت دی ہے اس لیے بیٹے سے کہا جب میں مرجاؤں تو میرا جنازہ اٹھا کر وہاں لے جانا اور حضرت عائشہ کو سلام کرنا اور کہنا کہ عمر ؓ بن خطاب آپ سے اجازت طلب کرتا ہے، اگر وہ اجازت دیں تو مجھے اند رجاکر دفن کرنا ورنہ عام قبرستان میں دفن کردینا۔ تین دن بعد یکم محرم ۲۴ہجری کو ان زخموں کے باعث آپ کی شہادت واقع ہوگئی۔شہادت کے وقت آپ ؓ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی۔آپؓ کی قبر نبی اکرمﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کی قبر مبارک کے ساتھ بنائی گئی ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1448904 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More