کیا واقعی سونامی کراچی کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے ؟

ستمبر 2014 کو قومی اخبارات میں شائع ہونے والی ان شہ سرخیوں نے کراچی کے شہریوں پر ایک سکتہ کی سی کیفیت طاری کر دی کہ پاکستان کے سب سے بڑے معاشی حب کو سونامی کا سامنا ہے جس کے نتیجے میںتقریباً 2کروڑ آبادی والا یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے۔ رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ ا قوام متحدہ کی جانب سے بحر ہند میں ایک فرضی مشق کی گئی تھی جس کا مقصد سونامی کے بارے میں پہلے سے آگاہی دینے والے نظام کی جانچ پڑتال تھا۔دراصل2004 میں انڈونیشیا میں سونامی سے ہونے والی زبردست تباہی کے بعد اس نظام کو نصب کیا گیا تھااور جب اس نظام کیلئے فرضی مشق کی گئی تو معلوم ہوا کہ مکران کے سمندر میں اگر 9کی شدت کا زلزلہ آیا تو سونامی کی تین سے23 فٹ اونچی لہریں ڈیڑھ گھنٹے میں کراچی تک پہنچ جائیں گی۔ رپورٹ کے مطابق مکران میں تحقیق اور تجربات کے بعد اقوام متحدہ کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ فالٹ لائن پر واقع مکران کا ساحلی علاقہ مستقبل میں بدترین زلزلے کا شکار ہو سکتا ہے۔ علاقے میں نو اعشاریہ کی شدت کا زلزلہ آیا تو بدترین سونامی ملک کی قومی پیداوار میںتقریباً 50فیصد کے حصہ دار کراچی کو نگل جائے گا۔ ماہرین نے ماضی کا حوالہ بھی دیا جب 1945 میں کراچی سے سونامی ٹکراگیا تھاجس میں 4ہزار افراد ہلاک ہو ئے۔اس وقت شہر کی آبادی کم تھی۔ خدشہ ہے کہ اب اگر سونامی ا ٓ یا تو بڑی تباہی ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں سونامی کب آئے گا اس بارے میں کوئی پیش گوئی مشکل ہے تاہم پیشگی اطلاع کیلئے انڈونیشیا، آسٹریلیا اور بھارتی سینٹرز پاک میٹ آفس کو پیشگی ڈیٹا بھجوائیں گے۔چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم اقوام متحدہ کی اس مشق کے سربراہ تھے، انہوںنے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کراچی میں اس نوعیت کا سونامی آ سکتا ہے کہ جس سے پورا شہر صفحہ ہستی سے مٹ جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد شہریوں کو کسی بھی خطرے سے قبل اس سے بچاو ¿ کی ترغیب دینا اور باہمی تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کراچی کو سونامی سے بچانے کا کوئی منصوبہ ہے بھی یا نہیں۔ تاہم مصدقہ اطلاعات کے بعد ہی حتمی سونامی الرٹ جاری کی جائے گی ۔

ان خبروں کی اشاعت کے بعد سے ہی شہری حلقوں میں یہ سوال زیر گردش ہے کہ کیا واقعی شہر کراچی زلزلہ سے پیدا ہونے والی سونامی کے باعث صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر جو رائے دی اس میں اکثر کا کہنا تھا کہ ساحل کراچی پر بعض روحانی شخصیات کی موجودگی کے باعث سمندر کی جانب سے کسی سونامی یا طوفانی لہروں کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس طبقہ کی دلیل یہ ہے کہ شہر سطح سمندر سے 20فٹ نیچے ہونے کے باوجود خطہ میں آنے والے سمندری طوفانوں سے ہمیشہ محفوظ رہا ہے۔اوہام پرستی یا مذہبی و روحانی احساسات کے بر عکس زمینی حقائق ہم پر بہر صورت اثر اندوز ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خوش گمانی رکھنے کے باوجود سائنسی بنیادوں پر عمل میں آنے والی تبدیلیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے احتیاطی اقدامات کئے جائیں۔ گو کہ کوالالمپور میں ملائشین محکمہ موسمیات نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں پر کان نہ دھریں اور فی الوقت سونامی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میٹ ملائشیاکے مطابق9ستمبر کو خطہ کے20ممالک نے سونامی کے خدشہ سے نمٹنے کے لئے ایک ” فرضی سونامی ڈرل “ (Indian Ocean wave 2014)کی تھی۔ اس ڈرل کا مقصد خطہ میں سونامی کی آمد پر پیشگی اطلاع دینے والے سسٹم ” انڈین اوشین سونامی وارننگ اینڈ میٹٹیگیشن سسٹم “ کو چیک کرنا تھا ۔

ملائشیا کے علاوہ دیگر کئی ممالک نے سونامی کے خدشات کو نظر انداز نہ کرنے اور احتیاطی اقدامات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔دوسری جانب جاپان نے تین عشروں قبل زلزلے اور سونامی کے نتیجے میں 20,000 سے زائد شہریوں کی ہلاکت کے بعد سونامی سے بچاﺅ کے لئے خصوصی کیپسول(tsunami survival capsules) تیار کرنے کے منصوبے پر کا م تیز کر دیا ہے۔ امریکن کمپنی ” سروائیول کیپسول ایل ایل سی “ نے جو کیپسول ڈیزائن کئے ہیں انہیں مکانات کی چھتوں پر رکھا جا ئے گا تاکہ سمندری لہریں ساحل سے ٹکرانے اور پانی مکانات میں داخل ہونے کی صورت میں ان کیپسول میں داخل ہو کر خود کو دیو ہیکل سمندری لہروں سے بچا جا سکے گا۔ اس کیپسول میں10افراد پناہ لے سکتے ہیں اور اس وقت تک کے لئے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں جب تک کہ لہروں کا زور ٹوٹ جائے اور پانی واپس چلا جائے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ سونامی کے دوران انسانی جانوں کو پانی سے زیادہ نقصان پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والے ملبہ اور تیز دھار اشیاءسے پہنچتا ہے۔ اسی حقیقت کو دیکھتے ہوئے یہ کیپسول اس طرح ڈیزائن کئے گئے ہیں کہ اس میں پناہ لینے والے افراد بھاری ملبے اور تیز دھار اشیاءسے بھی محفوظ رہیں گے۔

ارضیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ زیر زمین تبدیلیوںکے نتیجے میں زمین کے بہت سے حصّے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور بہت سے نئے جزائر سطح سمندر پر ابھر آتے ہیں۔ زمین کی یہ تبدیلیاں زلزلوں کی اس خفیف لہروںسے پیداہوتی ہیں جن کا سبب زمین کی اندرونی چٹانوں کے ارتعاش ہیں۔ سطح زمین پر آنے والے زلزلے تو ہزاروں مکانات اور بلند و بالا عمارتوں کو زمین بوس کرنے کا سبب بنتے ہیں مگر زیرِآب زلزلے ان سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اےسے زلزلوں کے نتیجے میں سمندر کی لہریں بے قابو ہوجاتی ہیں اور کئی کئی سو فٹ اونچی سمندری لہریں ساحل کی جانب حملہ آورہوتی ہیں۔ جاپانیوں نے ان بلند وبالا لہروں کو سونامی کا نام دیا۔ سونامی جاپانی زبان کا لفظ ہے جو کہ دوحصوں پر مشتمل ہے۔ سو( Tsu)کے معنی ساحل یا بندرگاہ کے ہیں جبکہ نامی Nami جاپانی زبان میں بلند اور طویل القامت موجوں کو کہتے ہیں۔

ہماری ساحلی پٹی 1046 کلو میٹر طویل ہے جبکہ مکران کی ساحلی پٹی جہاں زلزلے کے خدشات ظاہر کئے گئے ہیں وہ 400 کلو میٹر لمبی اور 250 کلو میٹر چوڑی ہے۔مکران سے تقریباً 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک سبڈکشن ریجن (subduction region)واقع ہے جس کے باعث 1945 میں یہ سونامی آیا۔یونیسکو کے ایک کمیشن کے مطابق 1945 کا سونامی اس خطے کا اب تک ریکارڈ ہونے والا سب سے بڑا سونامی تھا۔ہمارے ملک میں زلزلے عموماً شمالی اور مغربی علاقوں میں آتے ہیں جہاں زمین کی سطح کے نیچے موجود غیر یکساں تہیں یعنی انڈین ٹیکٹونک پلیٹ ایرانی اور افغانی یوریشین ٹیکٹونک پلیٹوں کے ساتھ ملتی ہے۔زیر زمین تہہ جسے انڈین پلیٹ کہا جاتا ہے وہ بھارت، پاکستان اور نیپال کے نیچے سے گزرتی ہے۔پاکستان کے جن علاقوں میں زلزلہ آنے کا سب سے زیادہ امکان ہے وہ کوئٹہ سے افغانستان کی سرحد تک پھیلا ہوا علاقہ اور مکران کا ساحل ہے جو ایرانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کوہ ہندوکش میں آنے والے زلزلے شمالی علاقہ جات اور صوبہ سرحد کو متاثر کرتے ہیں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں کے نیچے سے گزرنے والی متحرک فالٹ لائنز کو دیکھتے ہوئے ماہرین ارضیات نے ملک کو زلزلے کے اعتبار سے 19 زونز میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے سات ایسے زون ہیں جہاں کسی بھی وقت زلزلے کے شدید جھٹکے آ سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ خطرناک زون میں شمالی علاقے، مکران، کوئٹہ ریجن اور آزادکشمیر کے اکثر علاقے شامل ہیں۔ان زونز کے بڑے شہروں میں کراچی، پشاور، ایبٹ آباد، کوئٹہ گلگت اور چترال شامل ہیں۔ چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم کا کہنا ہے کہ پاکستانی علاقے یوریشین اور انڈین پلیٹس کی حدود میں بھی آتے ہیں جس کے باعث ان علاقوں میں زلزلہ آتا رہتا ہے ۔ 8 اکتوبر 2005 کو 7.6 کی شدت کے زلزلے سے آزاد کشمیر میں 73 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ دسمبر 2004 میں بحر ہند میں آنے والے سونامی سے انڈونیشیا، سری لنکا، بھارت اور دیگر ممالک میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل ہوگئے تھے۔

28 نومبر، 1945 کی صبح 4 بجکر چھ منٹ پر کراچی پر یلغار کرنے والی سونامی کے ایک عینی شاہد نے ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو میں بتایا کہ ’جب لہریں کنارے سے ٹکرائیں تو سمندر پر پتھر اس طرح اڑنے لگے جیسے ہوا میں ذرات۔ دیہاتی چڑھتے پانی سے خوفزدہ ہوکر درختوں پر چڑھ گئے۔ لہریں علی الصبح ساحل سے ٹکرائیں جبکہ اندھیرے نے خوف اور الجھن میں مزید اضافہ کیا۔اس سونامی کی وجہ 8.1 شدت سے آنے والازلزلہ تھا جو کہ مکران کے قریب شمالی بحیرہ عرب میں آیا۔ اس زلزلہ کے نتیجے میں کراچی بلدیہ کی عمارت پر نصب گھڑی رک گئی جبکہ زمین تقریباً 30 سیکنڈ تک ہلتی رہی۔زلزلے کی شدت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے کلکتہ تک محسوس کیا گیا ۔ زلزلے کا مرکز کراچی سے تقریبا 408 کلو میٹر دور تھا۔ لوگ اپنے بستروں سے اچھل گئے، کھڑکیاں دروازے ٹوٹ گئیں۔ اس کے علاوہ کراچی سے مسقط تک کیبل کے ذریعے رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔مکران کے ساحل کے قریب آنے والے اس زلزلے سے جنم لینے والی سونامی نے پورے بحیرہ عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔کراچی سے 48 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع خدی نامی بستی کی تمام آبادی صفحہ ہستی سے مٹ گئی جبکہ پسنی اور اورماڑہ کے ساحلوں پر بھی 15 فٹ اونچی لہریںاچھلتی رہیں۔مکران کے ساحل پر اس سونامی کے باعث 40 فٹ اونچی لہریں دیکھی گئیں جن کے باعث مچھیروں کے دیہاتوں اور بندرگاہ کو شدید نقصان پہنچا۔ کراچی سے کیٹی بندر کے درمیان واقع 100 کلو میٹر کی ساحلی پٹی کے متعدد دیہات غائب ہوگئے۔کراچی میں کم از کم تین دو میٹر اونچی لہروں نے بندرگاہ کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ متعدد قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ لہروں کی واپسی کے سفر میں بھی بڑا نقصان ہوا جس کا خمیازہ کیٹی بندر نے بھگتا۔

ویکی پیڈیا کے مطابق26 دسمبر 2004ءکو جنوبی ایشیا میں آنے والا سونامی انڈونیشیا کی ریاست سماٹرا میں آچے صوبے کے دارالحکومت بنداآچے کے جنوب مشرقی سمت 155 میل دور بحرہند کی سطح سمندر سے 6 میل نیچے پیدا ہونے والے زلزلہ کے باعث وجود میں آیا۔ بحر ہند میں کرئہ ارض کی دو پلیٹوں ”برما پلیٹ“ اور ”انڈین پلیٹ“ کی حرکت عام طور پر 6 سینٹی میٹر سالانہ ہوتی ہے۔ زیرِ زمین موجود آتشی لاوے ” میگما“ کی غیر معمولی طغیانی کے باعث یہ پلیٹیں اچانک 15 میٹر آگے بڑھ گئیں۔ اس ٹکراﺅ سے زبردست توانائی خارج ہوئی جوصرف 3منٹ کے اندر دائروں کی صورت میں زمین کی سطح تک پہنچی اور زلزلہ کی صورت اختیار کرگئی۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 9.1 ڈگری بتائی گئی۔ اس زلزلے کی شدت نے پانی کے توازن کو بگاڑ دیاا ور سمندر کی لہریں بلند و بالا موجوں کی صورت میں ساحل کی جانب بڑھنے لگیں۔یہ سونامی لہریں 600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بندا آچے کے ساحل پر پہنچیں ، اس شہر کو تقریباً پوری طرح برباد کرڈالا۔ یہ سونامی لہریں دائرے کی صورت میں ملائشیا، تھائی لینڈ، برما اور بنگلہ دیش ہوتی ہوئی ایک سے دو گھنٹے میں سری لنکا اور بھارت تک پہنچ گئیں۔ 4 گھنٹے میںمالدیپ اور سات سے آٹھ گھنٹے میں صومالیہ اور تنزانیہ پہنچ کرسیکڑوں افراد کی ہلاکت کا سبب بنیں۔ انڈونیشیا میں ان لہروں کی اونچائی 35 فٹ سے زیادہ بلند تھی۔ مالدیپ ، بھارت اور سری لنکا میں 18 سے 34 فٹ تک، ملائشیا میں 16 سے 20 فٹ، تھائی لینڈ میں 16 سے 35 فٹ، بنگلہیش میں 4 سے 7 فٹ اونچی لہریں تھیں اور جنوب مغربی افریقہ کے ساحلوں پر ان لہروں کی اونچائی 6 سے 7 فٹ بلند تھی۔

توقع ہے کہ پاکستان میں محکمہ موسمیات اورارضیاتی ماہرین اب سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور زمینی حقائق کی موجودگی میں درپیش خدشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے احتیاطی اقدامات اختیار کئے جائیں گے۔اس ضمن میں ہمیں جاپان، انڈونیشیا، ملائشیا،فلپائن، بھارت اور سونامی کا کئی بار سامنا کرنے والے ممالک کے تجربات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قدرتی آفات سے زیادہ نقصانات ہمیشہ بے خبری کے باعث ہوتے ہیں۔ سائنس نے جدید دور میں اب اتنی ترقی کر لی ہے کہ زلزلے کی پیشگی اطلاع بھی ممکن ہو گئی ہے جبکہ سونامی کی اصل وجہ زلزلے ہی ہوتے ہیں۔جاپان کی بڑی الیکٹرونک اینڈ انجینئرنگ کمپنیوں میں سے ایک ہٹاچی لمیٹڈ نے حال ہی میں ایک ایسے واٹر پروف پینل کو امریکی پیٹنٹ اینڈ ٹریڈ مارک آفس میں پیٹنٹ کرایا ہے جو عمارات کو سونامی سے تحفظ فراہم کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ہمارے ماہرین بھی عالمی سطح پر سونامی سے بچا ﺅ کے لئے ہونے والی ترقی سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 70664 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More