میری ادھوری محبت !!

بھارتی اداکار عامرخان کی ایک فلم گجنی کی ادھوری محبت پر کافی اعتراضات ہوئے کہ فلم کے کلائمکس میں عامر خان نے فلم کہانی میں ہیروئین کو اپنی اصل حقیقت کیوں نہیں بتائی کہ وہ غریب نہیں بلکہ بہت امیر کبیر بزنس ٹائیکون ہے ۔ عامر خان نے فلم کا سیوئیکل بنانے سے بھی انکار کردیا کہ وہ ’گجنی‘ فلم کا دوسرا حصہ نہیں بنائے گا ۔شائد آپ سوچ رہے ہوں کہ میں بھی کسی ایسی محبت کی ادھوری کہانی کے ذکر کروں گا تو بالکل ایسی کوئی بات نہیں ہے ، محبت ایک بار ہوتی ہے اور آخری بار ہوتی ہے کیونکہ اس کے بعد انسان محبت کرنے کے قابل نہیں رہ جاتا بلکہ اپنے پیچھے بہت سارے محبت کرنے والے چھوڑ جاتا ہے اگر اس نے اپنے کھاتے میں کوئی بنک بیلنس نہیں چھوڑا تو پھر چہلم بھی چندہ لیکر کرایا جاتا ہے۔دراصل اس تمہید کا ایک مقصد تھا کہ ہر انسان محبت ، پیار کا طلبگار ہوتا ہے ، با حیثیت انسان مجھے بھی بچپن سے محبت کا بہت شوق تھا ، اپنی گوری رنگت ، وحیدد مراد جیسے بال لمبے چوڑا قد ، دبلا پتلا اندام ، بڑی بڑی آنکھوں میں سُرما لگا کر میں ، راستے میں سر جھکائے ہوئے گھر سے پیدل ہی نزدیکی اسکول جاتا تھا عمومی خیال یہی آتا تھا کہ ابھی کوئی آواز دے گی اور میری آرزو پوری ہوجائے گی ، پھر ایک دن مجھے آواز سنائی دی ، اوئے اندھے ،روڈ کے کنارے چل ، مر جائے گا ، دراصل خیال ہی نہیں رہا کہ بے خیالی میں اپنی خیالی دنیا میں جاتے وقت فٹ پاتھ سے روڈ پر آگیا تھا ، گھر اور اسکول کے راستے میں آغا خانی جماعت خانہ اور ابراہیم علی بھائی اسکول آتا تھا ، اس وقت سوچتا تھا کہ کتنی خوب صورت ہیں یہ لڑکیاں ، کاش میں بھی لڑکی ہوتا تو اُن کے ساتھ اسکول جاتا ، پھریکدم خیال آیا کہ میں تو لڑکا ہوں ، ہفتمکلاس میں پڑھ رہا ہوں ، اگر لڑکی ہوتا تولڑکے مجھے چھیڑتے اور میں روتے ہوئے گھر جاتا ، پھر ہماری پختون روایات کے مطابق میرا اسکول جانا بند ہوجاتا ، اچھا ہوا کہ لڑکی نہیں ہوں لیکن’ دودھ میں ملائی ، کیا ہوتی ہے مجھے اس وقت بھی سمجھ نہیں آیا تھا کہ آخر میرے ہم جھولے ، اُن لڑکیوں کو دیکھکر ایسا جملہ کستے کیو ں ہیں۔ پھر اسکول میں ، کو ایجوکیشن نہیں تھی ، جلدی جلدی پاس ہو کر کالج جانا چاہتا تھا ، ویسے صبح گرلز کیلئے اسکولز مختص تھے ، لیکن اتنی ساری لڑکیاں ہوتیں تھیں کہ سوچتا رہ جاتا کہ کیسے پسند کروں ، اتنے میں سب چلی جاتیں اور میں آلو چھولے کھانے چلا جاتا کہ چلو کل دیکھیں گے ۔یاد آیا ، ہمارے اسکول میں پڑھانے والی ٹیچرز میں دو ٹیچرز بہت ہی زیادہ خوبصورت ہواکرتی تھیں ، سب لڑکے ان کی کلاس میں سب سے آگے بیٹھنے کی کوشش کرتے تھے ، لیکن میں سب سے پچھلی والی نشست پر بیٹھا کرتا ، اک دن انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم آگے کیوں نہیں بیٹھتے تو میں کہتا کہ مجھے ’ دور سے بورڈ صحیح دکھائی دیتا ہے ‘ ۔ اس بات پر پتہ نہیں انھوں نے کیا مطلب لیا اور میری شکایت بڑی مس سے جا کر کردی و ہ بہت اچھی ٹیچر تھیں ، جب میری شکایت ان کے پاس گئی تو وہ ہنس پڑیں کہ خداکا شکر ہے کہ تمھاری بھی کوئی شکایت سننے کو ملی ، میں اس وقت اس بات کو نہیں سمجھا اور مس کے کہنے پر معافی مانگ کر آگیا ، مجھے آج بھی نہیں معلوم کہ وہ ناراض کس بات پر ہوئی تھیں۔ہمارے اسکول میں ایک ٹیچر اسٹوڈنس کوبہت مارا کرتے تھے ، لیکن مجھے کبھی نہیں مارا کیونکہ میں ان کی ہر بات پر عمل کرتا تھا ۔پھر ایک دن سر نے مجھے ، کئی چھڑیاں بلا وجہ دے ماریں، میں نے وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا کہ تم نے بتا یا کیوں نہیں کہ فلاں مس کی شادی ہوگئی ہے اور اب وہ اسکول نہیں آئیں گی۔کمال کی بات تھی کہ مجھے آج بھی نہیں معلوم کہ مس کی شادی کیوں اور کب اور کس سے ہوئی ۔کالج یونیورسٹی میں بھی میرا کوئی اسیکنڈل نہیں بن سکا ، حسرت ہی رہی کہ کاش کوئی مجھ سے محبت کر لیتی ، کبھی پارکوں میں کبھی سنیماؤں میں کبھی تھیٹرز میں اکیلا ہی جاتا کہ شائد آنکھوں آنکھوں میں پیار ہوجائے لیکن میرے ساتھ مصیبت یہ تھی کہ میں چشموں کے بغیر دیکھ نہیں پاتا تھا ، اب محسوس ہوتا ہے کہ نہ جانے کتنوں کے دل ٹوٹے ہونگے ، لیکن دل ٹوٹنے کی آواز جو نہیں آتی اس لئے نوجوانی کے بعد جوانی بھی گذر گئی ، عشق کی بازی ہے یہ تم ہی ہارو گے کی طرح ، ہر یکطرفہ عشق کی بازی ہارتا چلا گیا اور آخر کار عشق کو ہی خیر باد کہہ دیا ۔ انٹر نیٹ سے دوستی کرلی تو بہت سارے لڑکے ، لڑکیاں بنی ہوتی ، تو لڑکیاں لڑکے ، کچھ عرصہ تو وقت خراب کیا ، لیکن ایک ناری کو میں پسند آگیا ، ا میں نے بوسکی قیمض اور سفید شلوار پہنی اور سیدھا کے ایف سی جا پہنچا ، بعد میں اندازہ ہوا کہ میں کسی پنجابی فلم کا کردار لگ رہا ہوں ، اب کیا ، کیا جا سکتا تھا اس لئے آرام سے برگر کھایا اور واپس آگیا ۔تھوڑا سا بالغ ہوا تو سوچا کہ چھوڑو یار، کس جھنجٹ میں پڑ گئے ہو ساری عمر اسی طرح گذار دی ، تم میں کوئی کشش نہیں ہے اس لئے یہ کوشش چھوڑ دو ،میں نے اس عمل کو ترک کردیا کہ کوئی مجھے پسند کرے ، دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کبھی کبھی ہسپتال چلا جاتا ، نہیں دل کی، اﷲ کا شکر ہے کوئی بیماری نہیں ہے ، بس ایسے ہی ، بیمار بن جاتا ، خوب صورت نرس آتی ، مجھ سے میرا منہ کھلواتی ، لیکن وہ تھرما میٹر منہ میں رکھ چپ کرادیتی ، تھوڑی دیر بعد پھر ایک سسٹر آتی کہ اپنا ہاتھ دو ، میں فورا ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ پکڑ لیتا، انگوٹھی ہر سائز کی جیب میں ہوتی تھی تو وہ مسکرا کر کہتی کہ بلڈپریشر چیک کرنا ہے ، میری مسکراہٹ غائب اور اسکی گہری ہوجاتی ، لیکن نرم نرم گورے گورے ہاتھوں کے لمس کے بعد اچانک ایک تیز چبھن کا احساس ہوتا ، پتہ چلا کہ مجھے انجکشن لگا دیا گیا ہے ۔ اگلے دن وزٹ پر بہت سارے ڈاکٹرز ، جو ہاؤس جاب تھے یا طلبا طالبات تھے وہ آتے اور مجھ سے میری بیماری پوچھتے ،میں سب سے خوب صورت ڈاکٹر کی جانب دیکھ کر کہتا کہ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ محبت کرلوں ، تو سب ہنس پڑتے ،سنجیدگی سے ایک ہٹلر ٹائپ پروفیسر آگے بڑھتا اور چیک اپ شروع کرتا تو میں ان سے کہتا کہ اُن سے کہو نا ۔ کہ وہ چیک اپ کریں ، وہ شپ اپ کہہ دیتے تو میں اچک کر بیڈپر بیٹھ جاتا کہ ہر وزٹ کی فیس دیتا ہوں ، عالمگیر میں مفت علاج نہیں کروا رہا ، تم لوگوں سے اچھے تو سرکاری ہسپتال کا اسٹاف ہے کم از کم رات رات بھر باتیں تو کرتا ہے۔ پروفیسر ایڈوئس کرتا کہ اس کے ساتھ نفسیاتی مسئلہ ہے ، طبی علاج کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں بھی خاموشی سے اٹھتااور ہاسپٹل سے چلا آتا اور سیدھا سرکاری ہسپتال جا پہنچتا ۔ایمرجنسی میں سب ہی واقف کار بن گئے تھے ، مجھے دیکھتے ہی کہتے کہ بھائی صاحب دوبارہ آگئے ہیں ، انھیں داخل کردو ،بس پھر سکون کے ساتھ کچھ دن ہسپتال میں گذارتا ، بھاگتے لال بیگ ، اچھلتی کودتی بلیوں ، بد بو دار راہ داریوں کی پرواہ کئے بغیر گندے سڑیلے بیڈ ،جب جی چاہتا ، اسٹاف روم چلاجاتا اور دل کھول کر ڈرافٹ ، لڈو کی بازی لگاتاکولڈ ڈرنک پیتے اور کوئی مریض بلاتا تو اس سے کہتے کہ صبر کرو ، مریض آئی سی یو میں ہے ۔ پھر ایک دن اخبار میں گم شدگی کی خبر پڑھتے ہی ان سے کہتا کہ مجھے گھر پہنچا دو ، لیکن جو انعام ملے ، آدھا میرا ، آدھا تمھارا ہوگا ۔لیکن وہ مجھے بلیک میل کرتے کہ سچ بتا دیں گے، جس پر میں خاموش ہوجاتا کہ اگلی بار آکر سب حساب برابر کردوں گا ۔گھر پہنچ کر امی گلے سے لگا لیتی کہ میرے لال ، میرے بچے ، کہاں چلا گیا تھا ، میں نے تو قمیض کی پیچھے فون نمبر بھی لکھا ہوا تھا پھر بھی کسی نے تمھیں گھر نہیں پہنچایا ظالم لوگ،ہائے میرے معصوم بچہ میرے لال،کتنا کمزور ہوگیا-
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 658022 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.