میں نے دیکھی ہیں اک گُل کی آنکھیں پُر نم

جب دعاؤں بھرے ہاتھ آنسوؤں کے چہرے لئے بارگاہ رب العزت میں گڑگڑاتے ہیں تو رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے اور مانگنے سے پہلے مل جایا کرتاہے، وہ جو، جس کے لئے پرندے چہچہاتے ہیں، درخت پتوں کی سرسراہٹ کے ذریعے گنگناتے ہیں اور جانور اپنی اپنی زبان بے زبانی کے ذریعے کچھ بیان کرتے ہیں کیونکہ اُنہیں رحمت خداوندی کی جلوہ نظر آرہا ہوتا ہے۔ وہ جلوہ جو کسی کو خِرد سے بیگانہ اور کسی کو جلا کر راکھ کر دیا کرتا ہے۔ وہ جلوہ جو ایک عیسائی کو نظر آتا ہے تو وہ کہتا ہے۔

Whose dwelling is the light of setting sun

In the round ocean; the living air

In the blue sky; in the mid of man

یہی جلوہ تھا جس نے شاعر کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ:-
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

جو، جب مل جائے تو بھی آنسو، نہ ملے تب بھی آنسو، کبھی اُمید ، کبھی قرار، کبھی بے چینی کے سانپ ڈستے ہوئے ،کبھی خوشی کے لمحے لرزتے ہوئے، کبھی بہار کا جشن، کبھی خزاں کی لمبی رات، ایک لمحہ قبول بس وہی حاصل زندگی یا مقصود خاطر، جب ایک گل کو ملا تو اُسکے صبیح و ملیح چہرے پر بہار کا جشن آنسو لے آیا، اُسکی صبح تو اب ہوئی ہے، ابھی تو دُنیا کی رنگینی، چاشت کی چاشنی، خوشی کا رنگ لئے طلوع ہو رہی ہے۔ اب ظلمت نے اپنے پنگھوڑے سے چھلانگ لگا کر اپنی راہ لی۔ کیونکہ ابھی کوئی اور ہے، کسی اور نے اُسکی جگہ سنبھالنی ہے گُل کی دعائیں رنگ لائیں اُسکی محنتوں کا پھل اُسے ملا، ورنہ کچھ دیر پہلے اُسکے جذبات کی ترجمانی اُمید کے رنگوں کے ساتھ کسی شاعر نے کیا خوب کی ہے:-
یہ بجا ہے کہ اب تو اندھیر ہے ذرا رُت بدلنے کی دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خُشک ہے وہی شاخ لائے گی برگ و بر

یہ اُمید بھی کیا خوب ہے ہر کوئی اُمیدوں کے چراغ جلائے ہوئے کسی نہ کسی انتظار میں ہوتا ہے۔کہیں یہ سپھل ہوتی ہے۔کہیں یہ آگے بڑھنے کا، پہاڑوں سے ٹکرانے کا، اور چٹانوں سے لڑ جانے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ اُمید ہی سے جس نے نئی دُنیائیں کھوج ڈالنےکو صحرا روند ڈالے، کسی نے سمندر کو کھنگالا اور کسی نے پہاڑوں سے دودھ کی نہریں بہا دیں۔ یہ اُمید ہی تھی جس نے 17 بار حملے کروائے۔ یہ اُمید تھی جس نے ایک نیا مُلک وجود میں لانے کی ہمت دی۔ اب گُل کو قرار آیا لیکن اُمید بھری ہر صبح ایک بہار ِنو کا پتہ دیتی ہے، سورج جو کہ زندگی اور موت دونوں کی علامت ہے اور جذبات سے بے بہرہ اور گُنگ ہےیہ ہر اُمید کو قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گُل کے آنسو خشک کر کے بظاہر تو نیکی کی ہے، لیکن کون جانے شائدکوئی اور دُکھ دینے کے لئے، پُرانا دُکھ بُھلوانے میں مدد بھی دینی پڑتی ہے، یا پھر پچھلی خوشیاں پس ِپُشت ڈالنی پڑتی ہیں۔ ابھی گُل نے خار خار انسان کو دیکھنا ہے اور ابھی تو اُس نے نس نس سے رِستا ہو ایہ انسانیت کا لہو دیکھنا ہے ابھی تو سانپوں کی دُنیا کا کھیل شروع ہونیوالا ہے۔ کون کس کو ڈسے گا اب کس کی باری ہے شائد یہ سوچ کر کہ -:
موت سے کس کو خواستگاری ہے آج میں کل تمہاری باری ہے

آج یہ بوند بوند رِستا ہوا خون یہ لہو لہو انسانیت کہیں اسطرح دھوکہ کہ اپنے غلط عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کچھ بھی کہنے اور کرنے کو تیار۔اور کہیں کسی کے صحیح عمل کو غلط ثابت کرنے کو پور پور رضامند۔

یہ اُمیدوں کی بہار اور خزاں دونو ں کا علمبردار اور طلبگار سورج اپنے نہاں خانے سے کچھ اور دکھانے کے لئے نا رضامند ابھی تو دُنیا کچھ بھی کرنے کے لئے تیار نہیں ابھی تو پانے کا دکھ اور نہ ہونے کی خوشی کی موزونیت اور ناموزوں کے بارے میں خبر ہی نہ ہوئی، ابھی تو پوچھنے کا دُکھ شروع ہی نہیں ہوا، ابھی تو رنگ مکمل کِھلے ہی نہیں، خوشیوں کی برسات ہوا ہی چاہتی ہے جو کہ اس دُکھ کے مہیب ، لرزتے ہوئے سائے کو ، بھوک بڑھاتی ہوئی منزل کی طرف لے کر رواں دواں ہو گی شائد یہی سوچ کر گُل کی آنکھ پھر نم ہوا چاہتی ہے۔
Azhar Bhatti
About the Author: Azhar Bhatti Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.