طاہر القادری کا دھرنا ختم ہو گیا

عوامی تحریک نے انقلاب لانے کا اعلان یوں تو کئی برسوں سے کر رکھا ہے اور پوری عوامی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں سے ٹکرانے کا یہ دوسرا مرحلہ تھا جو بغیر کسی نتیجے کے انجام کو پہنچا تاہم دو درجن کے قریب لوگ جانوں سے گئے اور ’’انقلاب‘‘ سے جڑے مختلف واقعات میں 500 سے زائد زخمی ہوئے ۔جون 2014 ء میں عوامی تحریک کے قائد نے پاکستان آنے کا اعلان کیا ریلیوں اور مظاہروں سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پر چڑھائی کی، پولیس اہلکاروں کی جانیں گئیں، درجنوں کارکن اپاہج کروائے اور اب واپس گھر کی راہ یہ کہہ کر لی کہ ’’حکومت نے ہماری ایک نہیں سنی‘‘ گویا حکومت سے بات منوانا مقصود تھا نہ کہ حکومت گرانا۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے دو ماہ سے زائد دنوں کی مشقت کے بعد انقلاب دھرنا بالآخر ختم کر دیا ‘اس طرح انھیں ایک بار پھر اسلام آباد سے خالی ہاتھ واپس لو ٹنا پڑا ۔ وہ اس سے قبل بھی اسلام آباد آئے تھے ۔ یہ پیپلز پارٹی کا دورِ حکومت تھا جس میں انھوں نے تقریبا ایک ہفتے تک شاہراہ قائد اعظم پر دھرنا دیا تھا ۔ اس وقت بھی وہ حکومت کو ختم کرنا اور انقلاب لا کر نظام بدلنا چاہتے تھے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے نہایت دانش مندی سے کام لیتے ہو ئے انھیں خالی ہاتھ ہی چلتا کر دیا تھا اور اب ایک بار پھر وہ انقلاب کا خواب آنکھوں میں لیے خالی ہاتھ ہی واپسی پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ البتہ اس بار اتنا ضرور ہوا کہ انھوں نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر طویل ترین احتجاج کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ۔اس دوران ان کے کارکنوں نے جس طرح اپنے قائد کے ساتھ محبت ، عقیدت اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا‘ وہ بھی اپنی مثال آپ تھا ۔ کھلے آسمان تلے اس قدر طویل عرصہ تک قیام کر نا کوئی آسان کام نہ تھا‘ اس دوران جہاں انھیں دیگر مشکلات اور مسائل کا سامنا رہا‘ وہاںمو سم نے بھی ان کے صبر کا خوب امتحان لیا ۔ اس مرتبہ موسم برسات میں خوب بارشیں ہوئیں جنہیں دھرنے کے شرکاء نے ہمت اور بہادری کے ساتھ جھیلا ۔ گرمی ہو یا بارش ، آندھی ہو یا طوفان کوئی بھی مشکل ان خیمہ نشینوںکے حوصلے کے آگے بند نہ باندھ سکی تھی ۔ کارکنوں کی اپنے قائد سے یہ عقیدت مثالی تھی ۔یہی وجہ تھی کہ علامہ کو دھرنا ختم کرنے کے اعلان سے قبل کارکنوں کی تسلی کے لیے طویل تمہید باندھنی پڑی‘ اس کے با وجود جب ان کارکنوں کو اپنے قائد کی جانب سے سامان سمیٹنے کا حکم ملا تو بیش تر مرد و خواتین ایسے تھے جو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ۔اس کے بجائے کہ طویل دھرنا ختم ہونے پر خوشی مناتے‘ وہ زاروقطار رو رہے تھے‘ شاید انھیں اپنی اور اپنے قائد کی شکست کا احساس دکھی کیے دے رہا تھاکیوں کہ دھرنے کے وہ مقاصدحاصل نہ ہو سکے تھے جن کا ارادہ لے کر وہ یہاں آئے تھے۔اگر چہ علا مہ نے انھیںدھرنے کے حوالے سے متبادل پروگرام بھی دیا لیکن شاید یہ پروگرام ان کے جذبات کو ٹھنڈا کر نے کے لیے کافی نہ تھا ۔ اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ پروگرام ان کی بے بسی کا اظہار تھا۔ انھوں نے اسلام آباد سے جانے کا فیصلہ تو کر ہی لیا تھا لیکن اپنی تحریک کو کسی حتمی نتیجے کے بغیر ختم کر نا ان کے لیے ممکن نہ تھا کیوں کہ اس میں 20سے زائد لوگوں کی شہادتیں شامل تھیں ۔طاہر القادری کی جانب سے دھرنا ختم کرنے کی اطلاعات گذشتہ کئی دنوں سے آرہی تھیں اور یہ بھی خبروں میں تھا کہ ان کی حکومت کے ساتھ خفیہ بات چیت بھی جاری ہے جس میں انھیں دھرنا ختم کرنے کے لیے ماڈل ٹاون لاہور میں ہونے والی ہلاکتوں کے لیے بھاری خون بہا لینے کی پیش کش بھی کی گئی ۔ عمران خان کی نسبت طاہر القادری کو شروع سے ہی آسان ہدف سمجھا جا رہا تھا جس کے باعث حکومت نے ان سے اعلانیہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد پس پردہ گفتگو کی کوششیں جارہی رکھیںجن کی کامیابی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ عید الاضحی کے دنوں میں بھی یہ خبر گرم رہی کہ عوامی تحریک کے سربراہ نے اپنادھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن اس وقت ان کے اتحادیوں خصوصاً ق لیگ کی کوششوںکے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا اور وقتی طور پر انھوں نے اس کو مؤخر کر دیا لیکن یہ فیصلہ کیا کہ وہ وہ یہاں بیٹھے رہنے کی بجائے عمران خان کی طرح مختلف شہروں کا دورہ کر کے احتجاجی جلسوں سے خطاب کریں گے جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ شاید دھرنے کی طوالت سے خود بھی اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیںاور یہاں سے نکلنے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ڈاکٹر صاحب کے لیے یقینا ان خاندانوں کو بھی قائل کرنا مشکل ہو گا جن کے پیاروں کے خون کا حساب لینے وہ اس شہر اقتدار میں خیمہ زن ہوئے تھے اور جنھیں وہ بار بار حکمرانوں کی رخصتی او ر احتجاج کو مقصد کے حصول تک جاری رکھنے کی نوید سناتے رہے ۔ لیکن اس دوران رونماء ہو نے والے واقعات کے نتیجے میں ان کے اتحادیوں کے لیے بھی ان پر بھروسہ قائم رکھنا مشکل لگ رہا تھا‘ اسی لیے چودھری برادران نے صرف عوامی تحریک کے کنٹینر پر سوار رہنے کی بجائے ا پنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے احتجاج کا پروگرام کا اعلان کیا تاکہ کم از کم ان کی ساکھ توبچی رہے ۔ جب کہ طاہر القادری کے فیصلے نے تحریک انصاف کے دھرنے کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں ۔ اس نئی صورتِ حال میں عمران خان کی آزمائش میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے ۔ اب انہیں اپنا دھرنا اپنے بل بوتے پر چلانا ہو گا ۔ طاہر القادری کے فیصلے نے یقیناانھیں ایک بڑے دھچکے سے دوچار کیا ہو گا لیکن وہ اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کر کے اسے چھپا گئے ۔یہ ضرور ہے کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہوں گے کہ کہیں انھوں نے طاہر القادری پر بھروسہ کر کے کوئی غلطی تو نہیں کی؟ اس بات سے قطعٔ نظر کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو بھی اب نئی حکمت عملی پر غور کرنا ہو گا کیوں کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے بغیر اس سفر سے واپسی کا رسک مول نہیں لے سکتے ۔انھوں نے اس دھرنے کے نتیجے میں جس شعور کو جنم دیا ہے‘ وہ اب رکنے والا نہیں ۔

ست میں دھرنے اور جلسوں کے بعد سیاسی فریقین میں محاذ آرائی میں اضافہ ہوگیا ہے دھرنے بظاہر ناکام نظر آتے تھے ، لیکن دھرنے والی جماعتوں کے جلسوں کے بعد یہ تاثر غلط ثابت ہوا کہ دھرنوں کا کوئی سیاسی اثر نہیں ہوا۔ عمران خان اور طاہر القادری کے جلسے ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ ان کے جلسوں میں آرہے ہیں اور حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں ۔ ملتان کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ بھی تحریک انصاف کی حمایت میں آیا۔ دھرنے والے خوش ہیں کہ انکی سیاست کو عوامی سطح پر قبول کیا جارہا ہے حکومت اس ساری صورتحال سے مشکلات میں گھری ہے کیونکہ جس تیز رفتاری سے سیاسی جماعتیں اور بالخصوص عمران خان اور طاہر القادری جلسے کررہے ہیں وہ حکومتی توقعات کے برعکس ہے ’’ گو نواز گو‘‘ کا نعرہ بھی عوامی سطح پر کافی مقبول ہوگیا ہے ۔ ایک خیال تھا کہ دھرنا دینے والی جماعتیں اب دھرنا ختم کرکے اپنی توجہ صرف جلسوں تک محدود رکھیں گی ، لیکن عمران خان ابھی تک دھرنا دئیے ہوئے ہیں-

حکومت کی ناکامی یہ بھی ہے کہ وہ تمام تر اختیارات کے باوجود عمران خان اور طاہر القادری کو سیاسی طور پر نہیں ڈیل کرسکی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت حکومت کو ملکی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا ہے ۔ اگر حکومت معاملات کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر حل کرلیتی تو شائد نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔ حکومت کی حکمت عملی یہ تھی کہ دھرنے دینے والوں کو اس قدر تنہا کیا جائے کہ وہ خود ہی اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے گھروں کو واپس لوٹ جائیں لیکن کیونکہ ایسا نہیں ہوسکاالبتہ حکومت کو طاہر القادری کی جانب سے دھرنا ختم کرنے سے سیاسی ریلیف ملا ہے ا ور اس سے دھرنا دینے والوں کی ایک سطح پر سیاسی سبکی بھی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس عمران خان دھرنا ختم کرنے کیلئے تیار نہیں اور انکے بقول ان کا دھرنا ڈاکٹر قادری کے دھرنا ختم ہونے کے باوجود جاری رہے گا ۔

عمران خان اب اپنی تحریک کو راستے میں چھوڑنابھی چاہیں تو یہ ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ دھرنوں کے اس سفر میں سیاست کے اہم ترین کھلاڑیوں میں ان کا شمار کیا جا رہا تھا‘ اسی لیے شاید طاہر القادری کے لیے تو راستے سے واپسی ممکن تھی لیکن عمران خان کے لیے ایسا کر نا اب ممکن نہیں رہا ۔ ان کے سامنے اب دو ہی راستے ہیں تبدیلی یا سیا سی موت… ان کو اب ان میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر نا ہو گا ۔ اگر وہ تبدیلی کے سفر پر ہی گامزن رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اس تحریک میں مزید جان مارنا ہو گی اور یہ ثابت کر نا ہو گا کہ وہ طاہر القادری کے بغیر بھی یہ کام کر سکتے ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ طاہرالقادری کے بعد حکومت کا ردعمل کیا ہو گا ۔اس نئی صورتِ حال میںحکومت نے کسی حد تک تو سکھ کا سانس لیا ہو گا کیوں کہ جس طرح عوامی تحریک کے کارکنوں نے شاہراہ دستور پر قبضہ جما رکھا تھا‘ اس میں پولیس کے لیے دھرنے کوہٹانے کے لیے آپریشن کا کوئی چانس نہیں تھا جس کے باعث حکومت نے صبر کی پالیسی اپناتے ہوئے ان کو کھلی چھٹی دے دی جوبالآخر درست ثابت ہو گئی ۔یوں حکومت کے لیے دوسری پارٹی کے خلاف آپریشن کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ دور ہو گئی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس پارٹی کو کتنا عرصہ برداشت کرتی ہے ۔ کیا اس کو بھی صبر کے ہتھیار سے ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر زبردستی یہاں سے بھگانے کی حکمت عملی عمل میں لائی جاتی ہے ؟اگر بات صرف دھرنے کی ہو تو شاید حکومت صبر کر ہی لے لیکن اس دھرنے کے ذریعے عمران خان پوری قوم کو جو پیغام دے رہے ہیں‘ اسے برداشت کرنا شاید حکومت کے لیے ممکن نہ ہو ۔

خبر یہ ہے کہ حکومت کے خلاف دھرنا سیاست کے بعد دوسرے راونڈ کا آغاز یوم عاشور کے بعد ہو گا، اب کی بار کھلاڑی بھی نئے لئے جارہے ہیں اور طریقہ بھی قدرے مختلف ہو گا ۔ اس پیشگی حملے کی اطلاع حکومتی کیمپ تک مصدقہ ثبوت کیساتھ پہنچ چکی اور آئندہ دو ہفتوں میں نئی ٹیم اور کھلاڑیوں کے ناموں اور کاموں کا اعلان متوقع ہے۔
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 254686 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More