1 - محرم

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محرم اور اسکے چیدہ مسائل

محرم کا مہینہ قمری مہینوں میں پہلا اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک حرمت والا مہینہ ہے. اللہ پاک کا ارشاد ہے:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ‌ عِندَ اللَّـهِ اثْنَا عَشَرَ‌ شَهْرً‌ا فِي كِتَابِ اللَّـهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ مِنْهَا أَرْ‌بَعَةٌ حُرُ‌مٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِ‌كِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ﴿٣٦﴾

مفہوم: "یقینا اللہ تعالی کے ہاں کتاب اللہ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا فرمایا ہے، ان میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں، یہی درست اور صحیح دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو..."
(حوالہ: سورۃ التوبہ آیت 36)

امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبٌ شَهْرُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ

مفہوم: "...وہ تین مہینے تو مسلسل ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم. اور مضر کا رجب جو جمادی الثانی اور شعبان کے مابین ہے.
(حوالہ: صحیح بخاری، حدیث نمبر 3167، صحیح مسلم حدیث 1679)

أَفْضَلُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الصَّلاَةِ الْمَكْتُوبَةِ الصَّلاَةُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ وَأَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ صِيَامُ شَهْرِ اللَّهِ الْمُحَرَّمِ ‏"‏ ‏.‏

نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ بھی ثابت ہے کہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے محرم کے مہینہ کے روزے ہیں.
(حوالہ: صحیح مسلم 1163)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، مفہوم: جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ خود بھی رکھا اور دوسروں کوبھی اس کا حکم دیا تو صحابہ کرام انہیں کہنے لگے یہودی اور عیسائ تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں. تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: آئیندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مطابق آئیندہ برس سے قبل ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگۓ.
(حوالہ: صحیح مسلم: 1916)

امام شافعی، احمد، اسحاق رحمہم اللہ وغیرہ کے مطابق 9 اور 10 کو روزہ رکھنا مستحب ہے

عاشوراء کے دن کے روزہ

کیا صرف عاشوراء کے دن کے روزے کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ (المتوفی 728 ہجری) رحمہ اللہ سے پوچھا گیا انہوں نے جواب دیا، مفہوم:اس دن کا روزہ ایک برس کے گناہوں کا کفارہ ہے، اکیلا دس محرم کا روزہ مکرو نہیں
(حوالہ: الفتاوی الکبری جلد 5)

اسی طرح ابن حجر ہیثیمی رحمہ اللہ (المتوفی 974 ھجری) کہتے ہیں، مفہوم:صرف اکیلے دس محرم کے روزے میں کوئ حرج نہیں
(حوالہ: تحفہ المحتاج باب صوم جلد 3)

سعودی عرب کی فتاوی کمیٹی الجنہ الدائمہ.. کے مطابق جائز ہے مگر افضل یہ ہے کے پہلے یا بعد میں بھی روزہ رکھا جاۓ

رخسار پیٹنا، گریبان چاک کرنا،

جاہلیت کی آوازی لگانے والا ہم سے نہیں -

سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ، وَشَقَّ الْجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ ‏"‏‏.‏

مفہوم: "جس نے بھی رخسار پیٹے اور گریبان چاک کیا اور جاہلیت کی آوازیں لگائیں، وہ ہم میں سے نہیں."
(حوالہ: بخاری 1294،مسلم 103)

چنانچہ یوم عاشوراء کے دن شیعہ، بریلوی اور دیگر حضرات جو خلاف دین کام کرتے ہیں اسکی دین اسلام میں کوئ دلیل موجود نہیں اور نہ ہی صحابہ نے ایسے اعمال کیے، اور اس سے بچنے ہی میں فلاح ھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا کہ، مفہوم:"وہ ھم میں سے نہیں" ایک بہت بڑی وعید ہے
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 410106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.