اندھی تقلید

 معاشرہ جس عمارت میں زوال پذیر ہوتاہے اسکاایک اہم ستون اندھی تقلید بھی ہے۔جس معاشرے میں رائے سننے اور رائے دینے کی اہمیت وجرات ختم ہوجائے وہاں بے حسی جنم لیتی ہے جو دیمک کی مانند اخلاقی اقدار کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے۔“

نیک عمل کی تقلید (اطاعت)معاشرے کو جنت کا نموبہ بناتی ہے تو برے عمل کی تقلید معاشرے کو جیتے جی جہنم میں دھکیل دیتی ہے۔لفظ ’’باغی‘‘ اگر معاشرے کے ظلم وجبر کے خلاف کسی دوسرے شخص کیلئے استعمال ہو تو ہم میں سے سب اسے سراہتے ضرورہیں لیکن اسکاساتھ دینے یا ویسابننے کی جسارت نہیں کرتے۔مثال کے طورپر ہمارے گھرمیں سماج دشمن ڈراموں کی پذیرائی توممکن ہے مگر گھرمیں ہی ویسا باغی جنم لے توہم اس کی صلاحیت کو ’’مصلحت‘‘کے نشتر سے اس قدرزخمی کرتے ہیں کہ وہ مفقود ومنجمدہوکررہ جاتی ہے۔وجہ یہ ہے کہ ہم سماج کے خلاف کچھ نہ کچھ سن بھی سکتے ہیں‘سکرین پر دیکھ بھی سکتے ہیں ‘لکھ بھی سکتے ہیں‘پڑھ بھی سکتے ہیں مگررتی برابرعمل کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔یہ سب اسیلئے ہے کہ انسان نے اپنے معاشرے کی فرسودہ روایات کو اپنی ذات سے بھی مقدم بنارکھاہے اور اس پر رائے زنی کے دروازوں کوبندکررکھاہے ۔البتہ چھوٹے چھوٹے دریچوں میں سے کچھ صدائیں ہمیشہ بشری سماعت سے ٹکراتی رہی ہیں لیکن چونکہ اجتماعی حمایت حاصل نہیں کرپائیں اسلیئے وقفے وقفے سے دم توڑتی رہتی ہیں۔

تقلید کا سب سے برا پہلو اسوقت سامنے آتاہے جب کسی بھی معاشرے میں کسی ایسے شخص کی تقلید شروع ہوجائے جس کی سیرت کامل نہ ہو۔اورظاہرہے کہ یہ وصف خداکی ذات نے صرف پیغمبر میں رکھاہے توکسی اورذات میں اسکاتلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے دن میں ستارے تلاش کیئے جائیں۔جب کوئی شخصیت کامل ہی نہیں تواسکی مکمل پیروی کرنابھی فطری اصولوں کی خلاف ورزی ہے جس کا خمیازہ معاشرے کوبالاآخر بھگتناپڑتاہے ۔

انسانی زندگی میں تقلید کاعمل بچے کی پیدائش سے شروع ہوتاہے ۔بچپن میں ہر اچھی اور بری عادت کی تقلید کم وبیش سب انسانوں میں یکساں ہیں ماسوائے نبیوں اوررسولوں کے۔ پھر جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں وہ تقلیدکرتے کرتے کچھ ایسی باتیں اپنے اندرسمولیتاہے جن کا اچھایابرااثر تازندگی اسکی شخصیت پر قائم رہتاہے۔بچہ جب بڑا ہوجائے تو وہ اپنی پسند وناپسند کے مطابق تقلید کرتاہے لیکن مذہبی نظریہ اس کا عموما وہی رہتاہے جو بچپن سے لے کر لڑکپن تک اس کے قریبی معاشرے نے اسکے اندر انڈیلاہوتاہے۔اسلام دنیا کا وہ مذہب ہے جس نے انسان کی رائے دینے کی جبلی عادت اورزندگی کے معاملات کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اسے اجتہاد اورتدبر کاوسیع وکشادہ راستہ میسرکیاہے۔دینی معاملات میں تو اب بھی کسی حد تک اجتہاد جاری ہے لیکن دنیاوی معاملات میں مسلمان اپنے معاشرے کی روایات کے اچھے اوربرے پہلوپر عملی اجتہاد کرتاہوانظرنہیں آتا۔

اگر تقلیدکے ضمن میں پاکستان اوربالخصوص موجودہ زمانے کو دیکھا جائے تو ایسا لگتاہے کہ آج ہم صرف اہل مغرب کے منفی پہلو اجاگرکرتے اورانکی تقلید کرتے ہیں۔جابرحاکم کے سامنے کلمہء حق کہنے کو اسلام نے جہاد کارتبہ دیاہے ۔لیکن اس بیش قیمت اورلازوال جملے سے فائدہ ہم کم ہی اُٹھاتے ہیں۔اوراگرفائدہ اُٹھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو ان نام نہاد سیاسی رہنماؤں کے ذریعے جن کے قول وفعل میں تضادہوتاہے۔ہمارے معاشرے میں جو کسی لیگ یاتحریک اورپارٹی کارکن ہے اس کے لیئے بس وہی حرف آخرہے یاپھر اسکاذاتی مفاد۔سیاسی معاملات میں ہم بحثیت مجموعی آج تک بچپن کی اس عمرمیں ہیں جہاں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی بس پیشواکودیکھ کرہی عمل کرناہوتاہے۔ہم طوطے کی مانند رٹے ‘رٹائے سبق کو ہی دہراتے ہیں اوربڑے صرف اس قدرہوئے ہیں کہ اس سبق کے حق میں دلائل ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔اس پر سوچ وبچار یا تو ہمیں نصیب ہی نہیں اوراگرکسی منجھلے کو یہ سوجھ بھی جائے تو ہم ’’لوٹے‘‘کامفہوم سمجھے بغیراس حقیقی شخص کو بھی لوٹاقراردے دیتے ہیں جو اپنی پارٹی کے غلط موقف یا اقدام کیخلاف آوازبلندکرتاہے یا اسے خیرآبادکہتاہے اوراکادکارایسے منجھلے بھی گزرے ہیں جو دلیری اوربیوقوفی میں فرق تلاش نہیں کرپائے اورجلدبازی میں اپنی جدوجہد کی اہمیت کھودیتے ہیں۔جس کانتیجہ ہمارامعاشرہ بھگت رہاہے ‘تاریخ اُٹھاکردیکھیں توہمیں دفتر سے لے کر ایوان پارلیمنٹ تک آمروں کی قطاریں نظرآتی ہیں۔ہمیں دین کے سرکش‘جبروبربریت کے مخالف اور ‘مفاد ات کی زنجیروں میں جکڑے فردمیں تفریق کرناسیکھناہوگی۔جابرسلطان کے سامنے کلمہ ء حق کا مفہوم بہت وسیع پیغام لیئے ہوئے ہے ۔ ہروہ شخص جو کسی قبیلہ ‘ادارہ یا تنظیم کاحاکم ہے وہ اس زمرے میں ہے ۔ ہمیں چاہیئے کے اپنی اپنی سطح پر اندھی تقلید کو نظراندازکرتے ہوئے اپنے اپنے مقام سے آوازحق بلندکریں ۔اوراس جانب پہلاقدم تب ہی اُٹھے گاجب ہم اپنے نفس کی تقلید سے انکارکردیں گے۔آئیے ضمیر کی آوازسنتے ہوئے اسکی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے پاکستان کی تشکیل کی طرف پہلاقدم اُٹھاتے ہیں۔

معاشرہ جس عمارت میں زوال پذیر ہوتاہے اسکاایک اہم ستون اندھی تقلید بھی ہے۔جس معاشرے میں رائے سننے اور رائے دینے کی اہمیت وجرات ختم ہوجائے وہاں بے حسی جنم لیتی ہے جو دیمک کی مانند اخلاقی اقدار کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 173765 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.