مراد پیغمبر،امام عدل و حریت خلیفہ ثانی سیدنا فاروق اعظمؓ

اسلام کے دامن میں بہت سی مایہ نازشخصیات ہیں جو اسلام کی عظمت کی دلیل ہیں ان ہستیوں کی زندگیاں مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ ہر انسان کے لئے مشعل راہ ہیں ان کی زندگیوں کے گوشوں میں رشدوہدایت کے چراغ سموئے ہوئے ہیں ان کی سیرت و کردار قیامت آنے والے انسانوں کیلئے باعث رہنمائی ہیں ان میں انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرامؓ کی ہستیاں ہیں جو انسانیت کیلئے معیار کی حیثیت رکھتی ہیں خلیفہ دوئم سیدنا فاروق اعظم ان میں سے اہم ترین شخصیت ہیں حضرت عمرفاروق ؓ اسلام کی وہ جلیل القدر شخصیت ہیں جن کے لئے اﷲ کے رسول ﷺ کے مقدس ہاتھ باگاہ الٰہی میں اٹھے ،اﷲ تعالیٰ سے نبی مکرم ﷺ نیسیدنا عمرفاروق ؓ کو خود مانگا کہ اﷲ اے ! اگر تو چاہتا ہے کہ اسلام کو عزت ملے تو عمر ابن خطاب یا عمر و ابن شہام (ابوجہل )میں سے کسی ایک کو اسلام کی دولت سے سرفراز کر دے تو اﷲ تعالیٰ نے حضرت فاروق اعظمؓ کو اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایا یعنی سب صحابہ کرامؓ نبی اکرمﷺ کے مرید ہیں جبکہ سیدنا فاروق اعظم ؓ مراد ہیں جب حضرت عمر فاروق ؓ مسلمان ہوئے تو آپ ؓ کے رعب و جلال کی وجہ سے کسی کافر میں ہمت نہ ہوئی کہ مسلمانوں کو خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے سے روک سکے آپؓ عشق رسول کا معیار ہیں حضورﷺ کا ہر حکم اپنے لئے حرف آخر سمجھتے تو ایک مرتبہ کسی منافق نے حضورﷺ کا فیصلہ سننے کے بعد حضرت عمر ابن خطاب ؓسے فیصلہ کروانے کا ارادہ کیا جب آپ ؓ سے فیصلہ کروانے وہ لوگ گئے تو فریق اول یہودی نے بتایا کہ آپ ؓ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے پہلے فیصلہ میرے حق میں کر دیا ہے یہ شخص اب آپ ؓ کا فیصلہ چاہتا ہے تو اس پر حضرت عمر ؓ اندر گئے تلوار لے کر باہر آئے اور اس منافق کا سر تن سے جدا کرتے ہوئے فرمانے لگے جو نبی اکرمﷺ کے فیصلے کے بعد اپنا فیصلہ عمرؓ سے کروانے آئے گا تو پھر عمرؓ کا فیصلہ یہ ہو گا حضرت عمرؓ نے متعدد بارحضور ﷺ کو مشورہ دیا اﷲ تعالیٰ نے اسے قرآن بنا کر نازل کر دیا حضرت عمرؓ کے بارے میں حضور کا فرمان ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا مگر میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ،مزید فرمایا عمرؓ کو دیکھ کر شیطان بھاگ جاتا ہے ،حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے عہد خلافت میں عدل و انصاف کی ایسی مثالیں رقم کیں کہ جن کی نظیر آجتک کوئی پیش نہ کر سکا حضرت عمر فاروقؓ نے ایسا نظام عدل قائم کیا کہ دریا،زمین،درندے آپؓ کا حکم ماننے پر مجبور ہو گئے اگرہم آج بھی جمہوریت کو تین طلاق مغلظہ دے کر اسلامی نظام خلافت قائم کر دیں تو وہی ٹھنڈی ہوائیں چل سکتی ہیں وہی امن و آشتی پر مبنی نظا م قائم ہو سکتا ہے مگر آج ہم نظام باطل جمہوریت کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں جسکی وجہ سے دنیا مسائلستان بن چکی ہے۔

خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کا دور خلافت سادگی ،خدمت خلق،انصاف کے عملی نمونہ سے عبارت تھا آپ کا مرکزی دفتر مسجد نبوی تھا اسی مرکز سے دنیا کی بڑی بڑی قوتوں کو زیر و زبر کرنے اور اطراف عالم میں پیغام اسلام پہنچانے کے فیصلے صادر ہوتے ۔فاروق اعظم 22جمادی الثانی 13ہجری کو منصب خلافت پر فائز ہوئے تو آپ ؓ نے اپنے دور خلافت میں اسلام کی عظمت کو چار چاند لگا دیئے حتیٰ کہ کافر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر دنیا میں ایک عمر اور ہوتا تو کفر کا نام و نشان مٹ جاتا حضرت عمرؓ کا عدالتی نظام دور حاضر کی طرح کانہ تھا بلکہ انتہائی آسان اور سہل ،انصاف آپکی خصوصیات میں سے ہے یہاں کسی قسم کی رشوت،سفارش یا جھوٹی گواہی ،جانبداری اور بے ایمانی کا تصور نہ تھا خلیفہ وقت بھی عدالت کے رو برو پیش ہو کر جواب دینے کا پابند تھا۔

حضرت عمر فاروق ؓ جب خلیفہ بنے تو آپ ؓ نے فرمایا۔مجھے تم سے آزمایا جا رہا ہے اور تمہیں مجھ سے میں پیشر ووں کے بعد تم پر جانشین بن رہا ہوں جو چیز ہمارے سامنے ہو گئی (یعنی مدینہ میں)اسے ہم شخصی طور پر انجام دیں گے اور جو غائب ہو گی تو اس کے لئے قوی اور قابل افراد کو مامور کریں گے جو اچھا کام کرئے گا اس پر ہمارا احسان بھی زیادہ ہو گا جو برائی کرئے گا اُسے ہم سزا دیں گے اﷲ تعالیٰ تمہیں اور ہمیں معاف کرئے۔

امام ابن قیم جوزی ؒنے سیرۃ عمر بن خطابؓ کے صفحہ71پر ارکان دولت اور افسران بالا کے بارے میں حضرت عمرؓ کا وہ قول نقل کیا ہے جس کے مطابق حکومتی خزانہ کے بارے میں اُن کے فرائض کا پتہ چلتا ہے کہ ایک مختصر جملے میں خلیفہ دوم کتنے جامع اور منفرد احکام جاری کرتے تھے۔وہ شخص جو مسلمانوں کے امور کا نگران بنا وہ اُن کا غلام ہے ان کی خیر خواہی اور ان کی امانتوں کا پاس اسی طرح فرض ہے جس طرح غلام پر اپنے آقا کے سلسلے میں حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان سے پوچھاکہ میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ تو حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا اگر مسلمانوں کی ریاست کے حق سے ایک درہم بھی کم یا زیادہ وصول کریں اور اسے حق کے سوا کسی اور مصرف میں خرچ کریں تو آپ خلیفہ نہیں بادشاہ ہیں یہ سن کر حضرت عمرؓ کے آنسو جاری ہو گئے۔محمد بن سعدؒ آگے لکھتے ہیں یہ سن کر لوگوں نے آپکو اطمینان دلایا کہ آپ ؓ کا طرز عمل وہی ہے جو خلیفہ کا ہونا چاہیے اس پر عمرؓ خاموش ہو گئے،محترم قارئین ذرا غور فرمائیں کہ خلیفہ ثانی نے قومی خزانے کی نسبت کس قدر احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے جو کہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں بڑے اہتمام کے ساتھ خلیفہ اور رعایا کے حقوق،اختیارات اور سلطنت و حکومت کے نظم کے متعلق ایک اہم خطبہ دیا جسکے اہم نکات درج ذیل ہیں۔

صاحبو ! کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کی معصیت الٰہی میں اسکی اطاعت کی جائے کسی حاکم کیلئے جائز نہیں کہ وہ رعایا کے مال میں کمی بیشی کی اجازت دے صرف تین طریقے ہیں جن کے اختیار کرنے سے مال کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
1۔ یہ کہ حق کے ساتھ وصول کیا جائے 2۔ حق میں صرف کیا جائے 3 ناجائز طریقے سے خرچ نہ کیا جائے

میری اور تمہارے مال کی مثال یتیم کے ولی کی ہے کہ اگر میں متمول ہوں گا تو خود ہی اس سے احتراز کروں گا میں کسی کو یہ موقع نہ دوں گا کہ وہ کسی پر ظلم کرئے اگر کسی نے ایسا کیا تو میں اس کے چہرے کو اپنے پاؤں سے مسل دوں گا مجھ پر تمہارے حق میں جن کو میں اسلئے بیان کرتا ہوں کہ تم ان کے بارے میں مجھ سے مطالبہ کر سکو(تاریخ یعقوبی)آپ رشوت ستانی کے سخت خلاف تھے اور آپ حکام کو سختی سے رشوت ستانی سے بچنے کی تلقین کرتے ایک موقعہ پر ایک حکام کے نام درج ذیل خط بھیجا انصاف میں تمام لوگوں کو برابر سمجھو قریب و بعید میں امتیاز نہ برتو اور رشوت سے بچو۔

جب قاضی شریح مسند انصاف پر بٹھائے گئے تو حضرت عمرؓ نے ان کے نام حکم نامہ میں تحریر فرمایا کہ نہ کچھ خریدو نہ بیچو، نہ رشوت لو،عسکری کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ وہ پہلے شخص ہیں جن کو امیر المومنین سے موسوم کیا گیا آپکی اولیات میں خاص طور پر قابل ذکر باتیں یہ ہیں۔

آپ نے بیت المال قائم کیا،ماہ رمضان میں تراویح با جماعت جاری فرمائی،سب سے پہلے تاریخ وسال ہجری جاری کیا،لوگوں کے حالات معلوم کرنے کیلئے راتوں کو آبادی کا گشت کیا،ہجو مذمت کرنے والے لوگوں پر حد جاری فرمائی، شراب پینے والے پر اسی کوڑے لگوائے،متعہ کی حرمت کو عام کیا اور اسے کسی فرد کے لئے بھی جائز نہ کیا ،جن لونڈیوں سے اولاد ہو جائے انکی خریدوفروخت ممنوع قرار دے دی،نماز جنازہ میں چار تکبیریں پڑھنے کا حکم دیا،دفاتر قائم کئے اور وزارتیں معین و مقرر فرمائیں، سب سے زیادہ فتوحات حاصل کیں، مصر سے بحرایلہ کے راستے مدینہ منورہ غلہ پہنچانے کا بندوبست کیا،صدقہ کا مال اسلامی امور پر خرچ کرنے سے روکا،گھوڑوں پر زکوۃ وصول کی گئی،ترکہ اور ورثے کے مقررہ حصوں کی تقسیم کا نفاذ فرمایا، شہروں میں قاضی مقرر فرمائے،کوفہ،بصرہ،جزیرہ،شام اور موصل کے شہر آباد کئے حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں محکمہ پولیس محکمہ ڈاک محکمہ فوج جیسے اہم شعبہ جات کا اجراء کیا علاوہ ازیں آپکے دور خلافت میں اہم شاہراوں کی تعمیر بھی ہوئی ،آپ کے دور حکومت میں قیصرو کسریٰ،دمشق،بصرہ،ایلہ،نیشاپور،الجزیرہ،قصیاریہ مصر،اسکندریہ اور نہاوند فتح کئے آپؓ نے سلطنت کے تمام مفتوحہ علاقوں کا دورہ کیا ہر ہر علاقے ہر ہر شہر میں کھلی کچہریاں لگائیں مواقع پر احکامات جاری کئے حکمرانوں کے دروازے پر دربان مقرر کرنے پر پابندی لگائی آپ ؓ کا دور اسلامی تاریخ کا درخشند ہ دور ہے اس عہد کی کہانیاں تمام مذاہب میں ضرب المثل بن گئی ہیں ایڈورڈ گبن،روسو،ویدرک،برناڈشا،بہرواور عیسائی،یہودی کمیونسٹ سبھی حکمران آپکے طرز زندگی دستور مملکت پر آج تک رطب اللسان ہیں -

حضرت عمر ؓ24ہجری یکم محرم کو نماز فجر میں ایک ایرانی ابولولو فیروز نجوسی کے ہاتھوں زخمی ہو کر جام شہادت نوش فرما گئے آپ کو روضہ رسولﷺ نے نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244306 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.