بی جے پی کی دیوالی کانگریس کا دیوالیہ

لوک سبھا انتخابات کے بعد لگ رہا تھا کہ ملک میں بی جے پی کا وقت آ گیا ہے، مگر پھر اسے ضمنی انتخابات میں زوردار جھٹکا لگا۔مودی لہر کے غائب ہوجانے اور سیکولر پارٹیوں کی واپسی کی باتیں ہونے لگیں۔مہاراشٹر اور ہریانہ اسمبلی انتخابات کی اہمیت اسی وجہ سے کافی بڑھ گئی تھی۔کیوں کہ لوک سبھا انتحاب کے بعد یہ پہلا اسمبلی الیکشن تھا ۔ان دو ریاستوں کے ووٹروں کے رخ سے صاف ہونے والا تھا کہ لوک سبھا انتخابات میں مودی کی لہر کارگر ہوئی تھی یا ملک بی جے پی کو سچ مچ آزمانا چاہتا ہے۔ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی الیلکشن کا نتیجہ صاف ہوچکا ہے ۔ ہریانہ میں بی جے پی کو مکمل اکثریت مل گئی ہے اور مہاراشٹر میں وہ اکثریت سے تقریبا تین درجن نشستیں پیچھے نظر آ رہی ہے،اس سے یہ بھی یہ پتہ چل رہا ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج ایک بار کا جادو نہیں ہے۔دونوں ریاستوں میں تنہاانتخاب لڑکر بی جے پی نے خود کو آزمایا ہے۔جب سے اتحاد کی سیاست شروع ہوئی ہے، کم سے کم مہاراشٹر میں تب سے پہلی بار دونوں اتحاد کی پارٹیاں کانگریس این سی پی اور شیوسینا-بی جے پی پہلی مرتبہ تنہا الیکشن لڑی ہے۔انتخابات سے عین پہلے اتحاد ٹوٹنے کی چاہے جو بھی وجہ رہی ہوں، اس سے ہر پارٹی کی اصلی طاقت کا انداز ہو گیاہے۔ کہ کون کتنے پانی میں ہے۔

ہریانہ میں لوک سبھا انتخابات کی طرح ہی کانگریس مخالف آندھی چلی تھی۔مہاراشٹر میں بھی کم و بیش یہی صورت حال نظر آئی۔ اسے کیا اشارہ سمجھا جائے کہ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی پہلے نمبر پر رہی اور کانگریس تیسرے نمبر پر چلی گئی۔دوسرے نمبر پر علاقائی پارٹی شیوسینا اور آئی این ایل ڈی آگئی ہے۔دونوں ریاستوں کے عوام نے بی جے پی کو موقع دے کر یہ پیغام دینا چاہا ہے کہ کیا کوئی ایک پارٹی ان کے لئے اچھا کام کر سکتی ہے۔ہریا میں تو مینڈیٹ واضح رہا۔مہاراشٹر میں چہار رخی مقابلے کی وجہ سے ووٹوں کی تقسیم کچھ اس طرح ہوئی کہ بی جے پی اکثریت سے دور رہ گی۔اتنی دور کہ اس کے پاس واپس اتحاد کی جانب لوٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا ۔انتخابات کے نتائج سامنے آنے شروع ہوتے ہی بی جے پی اور شیوسینا کی جانب سے ہاتھ ملانے کے اشارے بھی آنے لگے ہیں۔بات صاف ہے کہ ان دونوں میں نظریات کی سطح پر کوئی اختلاف تھا ہی نہیں۔نہ ہی مفادات کا کوئی ٹکراؤ تھا۔بات صرف زیادہ نشستوں اور اس کے مطابق وزیر اعلی کے عہدے کی تھی۔دونوں نے سوچ سمجھ کر الگ ہونے اور اپنی اپنی صحیح طاقت کو بھاپنے کا فیصلہ کیاتھا۔بی جے پی کو جہاں مودی کی لہر پر بھروسہ تھا، وہیں شیوسینا کو مراٹھی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی کارگر لگ رہی تھی۔جیسے ہی ووٹروں کے فیصلے آئے، دونوں بھگوا پارٹیاں ہاتھ ملانے کو بے تاب نظر آئیں۔گویا وہ اس کے لئے پہلے سے تیار تھیں۔

لیکن ان دونوں پارٹیوں کا پھر سے ہاتھ ملانا ووٹروں کے جذبات سے کھلواڑمانا جائے گا۔کیوں کہ ان دونوں پارٹیوں کو عوام نے اپنے اپنے نظریہ کے اعتبار سے ووٹ دیا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پارٹی کارکنان ایسا نہیں مانتے۔ان کا نظریہ صاف ہے کہ صاحب (ادھو ٹھاکرے) یا اعلی کمان (بی جے پی قیادت) نے جیسا کہا ہم نے ویسا کیا۔اب وہ جیسا چاہیں کریں۔ہم تو کارکنا ن ہیں۔اگر کانگریس اور این سی پی اس پوزیشن میں ہوتے تو ان کے کارکنوں کو اپنے اپنے اعلی کمان کا یہ حکم مان جانے کا ایسا کھیل شاید ہی بھاتا۔ اور وہ ووٹروں کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوئے محض حصول اقتدار کے لئے ہاتھ ملانے پر آمادہ نہ ہوتے ۔

بی جے پی کے سامنے این سی پی سے اتحاد کا اختیار بھی ہے، شردپوار بی جے پی کو سپورٹ کرنے کا اشارہ بھی دیتے آرہے ہیں ۔الیکشن کے دوران بھی اس طرح کی خبریں گشت کرتی رہی ہیں ، آج بھی ان کی پارٹی کے کسی لیڈر نے بیان دیا ہے کہ ہم بی جے پی کو باہر سے سپورٹ کریں گے ۔مگر ان دونوں کے درمیان جو نظریات کا فرق ہے وہ اسے پروان نہیں چڑھنے دے گا۔ لے دے کر ہندوتو کا ایجنڈا ہی بی جے پی-شیوسینا کو پھرسے قریب لے آئے گا۔آخر دونوں پارٹیوں کی طرف سے یہ اشارے تو ملنے شروع ہو ہی گئے ہیں کہ بات کی جا سکتی ہے۔یہ دونوں 15 سال بعد ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کو بے تاب ہیں۔یہ بات اور ہے کہ شیوسینا کو وزیر اعلی کے عہدے کے مطالبہ سے دستبردار ہونا ہوگا۔اتحاد ٹوٹنے کے بعد شیوسینا نے مرکزی حکومت سے اپنے وزیر اننت گیتے کو نہیں ہٹایا، نہ ہی مودی نے ان سے استعفی مانگا۔یعنی دونوں پارٹیاں بعد میں مصالحت کے امکانات کو لے کر چل رہی تھیں۔دراصل ان سب میں ایک او ر صورت حال بھی اہم ہے۔مہاراشٹر میں 12 بڑی میٹروپولیٹن پالکاوں میں شیوسینا-بی جے پی کا اقتدار ہے۔اگر اب یہ دونوں پارٹیاں ریاست میں حکومت بنانے کے لئے ہاتھ نہیں ملاتی ہیں، تو اس کا اثر مقامی حکومت پر بھی پڑے گا اور شیوسینا کو ان میں سے زیادہ تر میٹروپولیٹن پالکاوں کا اقتدار گنوانا پڑے گا۔اس سے اس کا کیڈر اس سے ٹوٹ سکتا ہے۔اپنے کیڈر کو ساتھ بنائے رکھنے کے لئے بھی شیوسینا کے لئے بی جے پی سے ہاتھ ملانا ضروری ہے۔اس الیکشن میں بی جے پی جیت پر قابض ہونے کے ساتھ ہی اس نے اپنا رسوخ بھی دکھا دیا۔ کانگریس این سی پی کا خاتمہ کر دیا اور شیوسینا کو جھکنے پربھی مجبور کر دیا۔

ہریانہ میں مکمل اکثریت ملنے سے بی جے پی کو دہلی اسمبلی کے انتخابات کرانے کے لئے بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔کانگریس کے لئے ان دو ریاستوں کی شکست کو پچانا مشکل ہوگا۔آزادی کے بعد ایسا پہلی بار ہونے جا رہا ہے، جبکہ کانگریس کے پاس مرکزی اقتدار نہیں ہے اور اس کے اقتدار والی ریاستوں کی تعداد بھی کسی دوسری پارٹی (بی جے پی) کی حکومت والی ریاستوں سے کم رہ گئی ہے۔ان انتخابات کے بعد کانگریس کے ہاتھ سے دو اور ریاستوں کا اقتدار نکل گیا ہے۔آزادی کے بعد اس سے پہلے کانگریس کو دو بار ملک بھر میں جھٹکے ضرور لگے تھے، مگر اس کی اتنی بری حالت کبھی نہیں رہی1967 میں کئی ریاستوں میں معاہدہ حکومتوں کے قیام اور 1977 میں ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی کی آندھی سے کانگریس کو پہلی بار پریشانی ہوئی تھی۔اس کے بعد مرکز میں وہ 1989-1990 اور 1996-2004 کے دوران اقتدار سے باہر رہی۔اگرچہ اس دور میں اتحاد کی مجبوری کی وجہ سے ہمیشہ یہ امکان رہتا تھا کہ کانگریس کبھی بھی واپسی کرسکتی ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔ جب تک کہ علاقائی پارٹیوں کا پوری طرح خاتمہ نہ ہو جائے یا بی جے پی کی آندھی تھم نہ جائے، اس وقت تک کانگریس کے لئے واپسی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔

اب ملک کے سیاسی منظر نامے کا مستقبل تین میں سے کسی ایک سمت میں جا سکتا ہے۔بی جے پی کانگریس اور علاقائی پارٹیوں کے درمیان کشمکش جاری رہے، کانگریس کا صفایا ہونے کے بعد بی جے پی اور علاقائی پارٹیوں کا ویسا ہی وجود باقی رہے جیسا کہ کچھ سالوں پہلے تک کانگریس اور علاقائی پارٹیوں کا تھا، کانگریس پھر مضبوط ہو اور علاقائی پارٹیوں کے آہستہ آہستہ پس منظر میں جانے سے اہم مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان رہ جائے۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163175 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More