ولی کامل حضرت مولانا جمیل احمد ناصری کی وفات: ایک حادثۂ کبریٰ

مولانا فضیل احمد ناصری القاسمی
استاذحدیث جامعہ امام محمد انور شاہ، دیوبند

گزشتہ ماہ 14 ستمبر کو سرزمین بہار کو جس عظیم سانحہ سے دوچار ہونا پڑا، اس کی کسک مرورِ ایام کے بعد بھی زمانۂ دراز تک باقی رہے گی، بہار کے ولی کامل حضرت مولانا جمیل احمد ناصری صاحبؒ نے اسی تاریخ میں اپنی حیاتِ مستعار کی آخری ہچکی لی، حضرت رحمۃ اﷲ علیہ خاکسار کے والد ہی نہیں، مربی بھی تھے۔ خاکسار کے پاس جو کچھ بھی اور جتنا کچھ بھی ہے سب انہیں کے التفاتِ تام کا ثمرہ ہے۔

والد مرحوم کی پیدائش جنوری 1933ء میں بلہا، کم تول ، ضلع دربھنگہ (حال مدھوبنی) اپنے خالو حکیم نور حسین مرحوم کے گھر ہوئی تھی، آبائی گاؤں ناصر گنج نستہ (ضلع دربھنگہ) تھا، بود و باش اپنے آبائی گاؤں ہی میں تھی، لیکن خالہ سے تعلق خاص بنا پر بیش تر اوقات بلہا میں ہی بسر ہوتے، شادی کے بعد تو خالو کا گھر ہی ان کا مسکن ہوگیا تھا1971ء میں تقسیم پاکستان کے نتیجے میں مشرقی پاکستان (حال بنگلہ دیش) میں رہ رہے خسر (جو حقیقی خالہ زاد بھائی بھی تھے) ڈاکٹر سید غلام حسنین مرحوم نے جب اپنی پوری فیملی سمیت پاکستان ہجرت کی تو بلہا والد مرحوم کا مستقل جائے سکونت قرار پایا، چند بہنوں کے استثناء کے ساتھ خاکسار کے تمام بھائی بہنوں کی پیدائش اسی گاؤں میں ہوئی، آبائی گاؤں ناصر گنج نستہ سے فقط آمد و رفت کا رشتہ رہا، باقی پوری شناخت اسی گاؤں سے ملی، یہاں والد مرحوم نے 1980ء سے تا وفات مسلسل امامت فرمائی اور یہیں مدفون ہوئے۔

والد مرحوم باقاعدہ فارغ التحصیل تھے، ان کی تعلیم ابتداء ً اسکول میں ہوئی، جہاں مڈل کلاس تک عصری تعلیم جاری رہی، یہ انگریزی دور تھا، اس دور کا مڈل کلاس آج کے آئی اے، بی اے سے کم نہ تھا، خاندان میں مولویت کا ہی بول بالا تھا، رخ دینی تعلیم کی طرف مڑ گیا، چنانچہ آبائی ادارہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں علوم دینیہ کی تحصیل کی غرض سے چند برس یہاں گزارے، یہاں ان کے چچا حضرت مولانا مفتی محمود احمد ناصریؒ (نستوی) صدر مدرس تھے، جو امام العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے تلمیذ رشید اور جید الاستعداد عالم دین تھے، بھتیجے کی سرپرستی انہوں نے خود ہی فرمائی اور تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا انہوں نے اپنا مقدس فرض سمجھا، مدرسہ امدادیہ کے بعد شیخ یاد علی ناصریؒ کے نامور فرزند قاری محمد احسن ناصری صاحبؒ کے ایماء پر دارالعلوم مؤ کا رخ کیا، قاری محمد احسن مرحوم والد مرحوم کے دادا مولوی عبدالصمد المعروف ڈپٹی صاحب کے علاتی بھائی تھے، قاری صاحبؒ کے عم محترم مولانا شاہ منور علی دربھنگوی خلیفہ حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی بھی تھے جو مدرسہ امدادیہ کے بانی مبانی ہیں، یہ ادارہ پہلے ان کے آبائی گاؤں نستہ میں قائم تھا، پھر انہیں کی زندگی میں ترقی پا کر لہریا سرائے دربھنگہ منتقل کردیا گیا۔

والد مرحوم نے دارالعلوم مؤ میں پانچ برس گزارے، یہاں ان کے خاص اساتذہ میں حضرت مولانا محمد مسلم صاحبؒ شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد امین صاحبؒ، قاری ریاست علی صاحبؒ اور حضرت قاری محمد مصطفی صاحبؒ رہے۔ انہوں نے ان پر بے انتہا شفقتیں فرمائیں، والد مرحوم کا گہرا اور بہت گہرا تعلق حضرت مولانا محمد مسلم صاحبؒ سے تھا، یہ ادارہ کے صدر مدرس اور شیخ الحدیث سبھی کچھ تھے، یہ دارالعلوم دیوبند کے موجودہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اعظمی مدظلہٗ کے والد بھی تھے، مولانا اعظمی مدظلہٗ والد مرحوم کے ہم عصر ہیں اور دو سال سینئر۔ دونوں میں بہت گہری دوستی بھی بھی، جس کا اظہار والد صاحب بھی کیا کرتے اور شیخ اعظمی بھی کئی بار کرچکے ہیں۔ مولانا ناصریؒ کو مولانا مسلم صاحب سے اس قدر لگاؤ تھا کہ ان کے گھر کی ضروریات زیادہ تر انہیں کے ذریعہ انجام پاتیں، سودا سلف لانا اور گھر کی صفائی انہیں سے متعلق تھی، حضرت مولانا مسلم صاحب بھی انہیں بے پناہ چاہتے تھے، اس تعلق خاطر کی وجہ خاندانی نجابت بھی تھی اور تعلیمی انہماک بھی، احقر کے دادا مولانا عبدالرشید ناصریؒ اور قطب عالم حضرت مولانا بشارت کریم رحمۃ اﷲ علیہ گڑھولوی کی نانی حقیقی بہنیں تھیں، اس نسبت سے بھی مولانا محمد مسلم صاحب والد مرحوم پر کرم گستری فرمایا کرتے۔

1958ء میں والد صاحب کی فراغت دارالعلوم مؤ سے ہوئی، دستار بندی اس وقت کے قطب و ابدال حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ خلیفہ حضرت تھانویؒ کے ہاتھوں انجام پائی، مولانا ناصریؒ نے علوم عربیہ کی تکمیل ساتھ ساتھ قراء ت کا نصاب بھی مکمل کیا تھا، حضرت قاری مصطفی صاحبؒ اس فن کے استاذ تھے، والد مرحوم کی آواز میں زبردست شیرینی تھی، حضرت قاری مصطفیٰ کی کیمیا اثر صحبت نے انہیں بہترین قاری بنا دیا تھا، ان کے حسن تلاوت کو دیکھ کر حضرت قاری محمد احسن ناصریؒ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خطرہ تھا کہ میرے بعد تجوید و قراء ت خاندان سے اٹھ جائے گا مگر ’’جمیل‘‘ کی تلاوت اور حسنِ صوت و ادا سے ہمت بندھ گئی ہے کہ میرا کوئی وارث پیدا ہوگیا ہے، اپنی عمدہ قراء ت کی بنا پر بعض علاقوں میں والد مرحوم کو مولانا کے بجائے قاری کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔

فراغت کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا، سب سے پہلے پھلوریا میں مدرسی کی، یہاں ان کی تنخواہ 80 روپئے تھی، پھر ارریہ کورٹ تشریف لے گئے،یہاں متواتر 22 سال مدرسہ یتیم خانہ میں تدریس کے فرائض انجام دئیے، ساتھ ہی مسجد میں امامت بھی کی، ارریہ کورٹ کی مرکزی جامع مسجد اس وقت نہایت خستہ حال تھی، اس کا سائز بھی چھوٹا تھا، انتظامات کی بے حد کمی تھی، والد مرحوم کی خصوصی توجہ نے توسیع مسجد میں خاصا کردار ادا کیا، بجلی اور پنکھوں کا انتظام بھی انہیں کی خصوصی کوششوں سے ہو سکا، ارریہ کورٹ کے عوام و خواص انہیں قاری صاحب کے نام سے یاد کرتے ہیں، سابق مرکزی وزیر تسلیم الدین صاحب سے ان کے محکم مراسم تھے۔

ارریہ کورٹ میں میری دو بہنوں کا وصال بھی ہوا اور وہیں مدفون ہیں، والد صاحب کو اس سرزمین سے خاص لگاؤ تھا، یہاں سے جانے کے بعد اس علاقہ کو خوب یاد کرتے اور گاہے رودیتے، راقم الحروف کے حقیقی چچا مولانا نثار احمد صاحب ناصری اس وقت اپنے اہل و عیال کے ساتھ وہیں قیام پذیر ہیں اور والد صاحب کے دور سے ہی اس مسجد کے مؤـذن ہیں جس پر اب پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر رہا ہے۔

ارریہ کورٹ سے آئے تو اپنی سسرال (بلہا، کم تول، مدھوبنی) کو اپنی مستقل رہائش گاہ بنالی اور تب سے گاؤں کی مسجد کے امام و خطیب رہے، یہاں قائم مدرسہ مہر العلوم میں تدریس کا مشغلہ بھی جاری رکھا اور پورے گاؤں کو فیض پہنچایا، اس وقت 25 سے لے کر 50 کی عمر میں گاؤں کے جتنے مرد و عورت ہیں سب ان کے شاگرد ہیں، مدرسہ مہرالعلوم بند ہوا تو گھر کو ہی مکتب کے لئے استعمال فرمایا، جب نظر کمزور ہوگئی تو مکتب کا یہ مشغلہ ہمیشہ ہمیش کے لئے چھوٹ گیا، ذریعہ آمدنی یہی مکتب تھا اور جب ہم بھائی کمانے کے لائق ہوئے تو مکتب بند کردیا گیا، امامت و خطابت کا سلسلہ مختلف مسجدوں میں 57سال تک جاری رہا اور آخری پانچ سالوں کو چھوڑ کر جب تک یہ فریضہ ادا کیا محض حسبۃ ﷲ کیا، اس کے لئے کوئی پیسہ نہیں لیا۔

والد مرحوم کی نماز دراز نفس ہوتی تھی، وہ کوئی بھی نماز پڑھائیں، دس بارہ منٹ ضرور لگ جاتے، نماز میں خشوع و خضوع کامل و اکمل درجے کا تھا، وہ امام ہوں یا منفرد، لمبی نماز کے عادی تھے، ہم لوگ مسنون نماز پڑھ کے اٹھتے تو ان کی دو رکعتوں میں سے ایک ہی ادا ہوپاتی، نماز سے حد درجہ عشق تھا، جاڑا ہو، برسات ہو، گرمی ہو، سیلاب ہو، نماز اور مسجد ان کی کمزوری بن چکی تھی، فجر سے ایک ـڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی بستر چھوڑ دیتے اور اور اوراد و وظائف میں مشغول ہوجاتے، ہر وقت گھڑی پر نظر رہتی، دل مسجد میں اٹکا ہوا تھا، سنتیں عموماً مسجد میں ہی ادا کرتے، گاہے گاہے گھر پر بھی ادا کرلیتے، وضو بالعموم گھر سے ہی کرکے جاتے، مؤذن کسی وجہ سے اذان پر حاضر نہ ہوتے تو جا کر خود ہی اذان دیتے، اذان میں وہ حلاوت ہوتی کہ سننے والا سنتا ہی رہتا، پورے لہجے کے ساتھ کلمات اذان کا تلفظ فرماتے، والد صاحب پر کبھی کبھی کوئی نمازی ناگوار تبصرہ کردیتا تو ہم اہل خانہ باصرار کہتے کہ امامت چھوڑدیں، لیکن وہ یہی کہتے کہ مجھے دڑ لگتا ہے کہ ایک عالم کے ہوتے ہوئے جاہل نماز پڑھائے، میری گرفت ہوسکتی ہے اور مسجد نہ جاؤں تو خدا کی باز پرس سے کیسے بچا جاسکے گا، لحنِ جلی والے اماموں سے انہیں سخت نفور تھا، اگر اتفاقاً کوئی ایسا شخص امامت کرتا تو اس کے سامنے ہی نکیر فرمادیتے۔

نماز کے معاملہ میں کسی طرح کی بھی کوتاہی برداشت نہ تھی، ہم بھائی بہنوں پر زبردست نظر رکھی جاتی، نماز کا ٹائم ہوتا اور مسجد جانے لگتے تو بہت تاکید کے ساتھ اپنے ساتھ جانے کے لئے کہتے، کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی رکعت چھوٹ گئی یا سنت ترک ہوگئی تو بگڑ جاتے اور برق و رعد بن جاتے، ہم لوگ جب تک بچپن کی حالت میں رہے ان کے زجر و توبیخ سے بچنے کے لئے نماز پڑھتے رہے۔ انہوں نے کبھی بھی اس معاملہ میں تغافل کو کوئی راہ نہیں دی۔

گاؤں کے لوگ والد مرحوم کو بہت مانتے تھے، کوئی جلسہ ہو، ان کی شرکت اور صدارت لازمی تھی، قاضی نکاح بھی وہی تھے، نماز جنازہ بھی وہی پڑھاتے، کوئی بیمار پڑجاتا تو اس کی عیادت ضرور کرتے، مریض کو حوصلہ دیتے، کسی کا انتقال ہوجاتا تو اہل خانہ کو تعزیت پیش کرتے، اختلاف و انتشار کا ان کے یہاں کوئی تصور ہی نہ تھا، گاؤں میں ان کی کسی سے کوئی لڑائی نہ تھی، کوئی ناخوشگوار واقعہ کسی شخص سے صادر ہوتا تو کبیدہ خاطر ضرور ہوتے مگر اسے خدا پر چھوڑ دیتے، گاؤں میں کوئی بھی بندہ ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے مرحوم کی ان سے چپقلش رہی ہے۔

امامت و خطابت سے وابستہ ہونے کے باوجود کتابی صلاحیت ان کی کبھی متاثر نہیں ہوئی، اگر کسی بڑے مدرسہ سے وابستہ رہتے تو استاذِ حدیث ضرور ہوتے۔ نصابی کتابوں کی عبارتیں آخری دم تک یاد تھیں، کبھی جوش میں ہوتے تو عبارتیں سناتے، خـصوصاً مقامات اور سلّم کے جملے تو ان کی زبان پر تھے، پڑھی ہوئی چھوٹی بڑی سبھی کتابوں کے نام یاد تھے، انہیں اکابر دیوبند سے بڑی محبت تھی، حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ انہیں ’’اپنا آدمی‘‘ کہتے، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ساتھ دسترخوان پر کھانے کی انہیں سعادت ملی ہے، شیخ الاسلام سے متعلق وہ اپنے چشم دید کئی واقعات بیان کرتے، مولانا شاہ وصی اﷲ فتح پوریؒ سے بارہا ملاقاتیں رہیں، اکابر علماءِ دیوبند کے تذکرے سے ان کی زبان تر رہتی، دیوبند کے اکابرکے نام خاکسار نے اسی وقت سن لئے تھے جب مکتب کی محدود دنیا میں ہی ابجد کا دورچل رہا تھا۔

والد مرحوم رفتار زمانہ سے کبھی بے خبر نہ تھے، خبروں کے لئے اخبارات کا مطالعہ اور ریڈیو کی سماعت ضرورت فرماتے، سرکاری اعلانات اور اسکیمیں ان سے کبھی فوت نہ ہوپاتیں، ملکی معاملات میں بڑے حساس تھے، امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ نے انہیں اپنا نقیب بنایا تھا۔رفاہی کاموں سے بھی انہیں بڑی دلچسپی تھی، یوں تو تمام مدارس سے ہی انہیں بھرپور عقیدت تھی مگر علاقائی مدرسوں میں مدرسہ محمود العلوم، دملا (مدھوبنی) پر بڑے مہربان تھے۔ اس کے لئے ہر سال بذاتِ خود قربانی کی کھال اکٹھی فرماتے ۔

اﷲ تعالیٰ نے موت بہت اچھی عطا فرمائی، رمضان کے جمعۃ الوداع کو بالکل ٹھیک ٹھاک تھے، جمعہ کی نماز بہت ہشاش بشاش پڑھ کے آئے ہی تھے کہ چند لمحوں کے بعد ان پر فالج کا حملہ ہوگیا، پونے دو ماہ تک مسلسل علاج چلا، مگر مطلوب افاقہ حاصل نہ ہوسکا، بیماری کے ایام میں کلہ طیبہ کا ورد ان کی زبان پر پیہم جاری رہا، وفات سے تین پہلے ان کی زبان عربی ہوگئی تھی، وہ جو بھی گفتگو کرتے عربی میں ہی کرتے، البتہ جب اہل خانہ میں سے کوئی سوال کرتا تو اردو میں جواب دیتے، پھر عربی میں ہی بات کیا کرتے۔ جب نزع کی کیفیت شروع ہوئی تو بہ آوازِ بلند انہوں نے سلام کیا اور کہنے لگے کہ آئیے کرسی پر بیٹھئے، اہل خانہ کے استفسار پر انہوں نے جاب دیا کہ ملک الموت آئے ہوئے ہیں، پھر کچھ دیر کے بعد کہنے لگے کہ آج نہیں کل جائیں گے، دورانِ نزع کلمۂ طیبہ کے ورد میں حیرت ناک حد تک اضافہ ہوگیاتھا۔ کبھی کوئی آیت پڑھتے اور کبھی کوئی آیت۔ عیادت کے لئے آنے والے سلام کرتے تو ان کا جواب بھی دیتے، نزع کی یہ تکلیف سنیچر13ستمبر کو شروع ہوئی اور اگلے دن صبح کو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ نمازِ جنازہ ان کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا حسین احمد ناصری سابق استاذ دارالعلوم مؤ نے پڑھائی۔ جنازہ میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، اتنی بڑی تعداد گاؤں کی تاریخ میں اب دیکھی نہیں گئی تھی۔ اطراف کے طلبہ مدارس اور اساتذہ و ذمہ داران جنازہ میں شرکت کے لئے امڈ پڑے۔

مرحوم کی کل 13اولادیں ہوئیں، 9 بیٹیاں اور 4 بیٹے، جن میں 5 بیٹیاں ان کی زندگی میں ہی سدھار چکی ہیں اور ایک بیٹا اویس احمد ناصری۔ اس وقت 4 بیٹیاں اور 3 بیٹے ہیں جن میں سب سے بڑا طفیل احمد ناصری فاضل دارالعلوم مؤ، اس کے بعد راقم الحروف اور اس کے بعد حافظ فیاض احمد ناصری استاذ مدرسہ اشرف العلوم پرسونی، ضلع مدھونی۔ اﷲ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کے انتقال کے بعد پورا علاقہ سنسان پڑا ہے اور رونق رفتہ کی بحالی ابھی تو نہیں ہوسکی ہے اور شاید برسوں لگ جائیں گے۔
Iftikhar Rehmani
About the Author: Iftikhar Rehmani Read More Articles by Iftikhar Rehmani: 35 Articles with 23721 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.