بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔۔۔۔!

آج بھی بر ما میں ایک گیلن تیل کے لیے بچوں کو فروخت کیا جا تا ہے ۔قبل انسانی کی یہ باتیں ہم روز سنتے اور دیکھتے تھے کہ آج برما میں یہ ہوا۔۔ فلسطین میں اسرائیل کی بربریت ۔۔ نہتے مسلمانوں کو پوری دنیا میں نشانہ بنانا ۔۔۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اب یہ تمام باتیں ہمارے اپنے پیارے ملک پاکستان میں رواں سال ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اس کی شروعات سانحہ ماڈل ٹاؤن میں وقاقی حکومت کی نااہلی سے ہوئی یا کوئی اور اس سازش میں ملوث تھا یہ تو قاتون و عدلیہ ہی بتا سکتے ہیں۔ مگر یہ سیاسی اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا کسی کو کچھ پتہ نہیں ۔ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق ہی اس کو سیاسی رنگ دیتا ہے ۔ کہیں یہ سیاسی رنگ سچ میں ہی سیاسی بساط کو ہی نہ لپیٹ لے ، اور اﷲ نہ کرے ہمیں دوبارہ وہ دن دیکھنا پڑے ۔۔۔جمہو ریت ہے کیا۔۔! اور پاکستان میں کس طرح کی جمہو ریت ہے، یہ تو میڈیا کی وجہ سے ہر ایک جان چکا ہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔۔!

اس فقرے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میرے ایک محسن مجھے طویل عرصہ کے بعد راولپنڈی میں ملے تو ہم ایک ہوٹل میں چائے پینے چلے گئے ۔

حال احوال کے بعدمیں نے ایک بنیادی سیاسی سوال پوچھا کہ سر جی یہ بتائیں کہ ۔۔آپ نے سیاسی صورتِ حال تو دیکھی ہے ،آپ کو پاکستان میں کس طرح کا نظام چاہئے ۔۔۔! نظام ِ جمہو ریت ۔آمریت۔ یا اسلامی نظام

اُن کے جواب پر مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی ہنسنا پڑا ۔۔جناب نے کہا کہ میں جمہو ریت کا حامی ہوں PML(N) کی۔۔ بس ہمیں یہ نظام چاہیے کیوں کہ میرے قائد میاں محمد نواز شریف ملک کو تباہی سے بچا رہے ہیں ۔اس میں خواہ جتنی بھی جانیں عام شہریوں کی جائیں مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں، میں ایک تجارتی انسان ہوں مجھے انِ دھرنوں سے لاکھوں کا نقصان ہو گیا ہے اُس کا زمہ دار کون ہے، میں تو کہتا ہوں ان تمام کا ۔۔حکومت ایک دم سے خاتمہ کرے، تاکہ دوبارہ اس ملک میں دھرنے ہی نہ ہواور ہم امن سے کاروبار کر سکیں ۔

مجھے اُن کے جواب کا دُکھ اتنا نہ ہوا تھا ، جتنا اُن کے علم پر ہوا ہے کہ اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کوئی انسان اتنا غافل ہو تو پھر تو اُس بات کی صداقت سے انکار تو نہیں کہ ۔۔علم بغیر عمل کے سود کی مانِند ہے ۔
خیر میں نے اُن کو تجارتی تسلی دیتے ہوئے کہا کہ سر جی اگر آپ کے پاس ٹائم ہے تو میں آپ سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔تو اُنھوں نے حامی بھر لی اور مجھے چانس ملا کہ میں اپنی رائے کا اظہار کر سکو ،گفتگو کا احوال کچھ اس طرح سے ہے۔

جب میں نے اُن سے پوچھا کہ پاکستان میں نہتے مسلمانوں پر ریاستی دشت گردی ۔۔۔کیا جمہو ریت ہے۔۔! تو جناب نے جواباً کہا یہ پاکستان کی جمہوریت میں ہوتا رہتا ہے تو پھر میں نے کہا کہ۔۔ کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کے اتنا کچھ خادمِ اعلیٰ پنجاب کے ہوتے ہوئے ہو گیا ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر پنجاب میں ڈینگی مچھر بھی داخل ہو تو مجھے خبر ہو جاتی ہے تو پھر اُن کو پتہ بھی نہیں چلاّ کے اُن کے بغل میں گھنٹوں کیا ہو رہا ہے ۔۔تو پھر جناب نے سیاسی جواب دیا جو میرے لیے تلخ تھا۔۔ کہ جمہو ریت میں کچھ باتوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ، تو میں نے کہا کہ اگر یہ سب کچھ ہونے کے بعد علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا مطالبہ کرنا مناسب ہے کہ ایف ۔آئی ۔آر ۔درج کریں اور خادمِ اعلیٰ پنجاب مستعفی ہو جاہیں۔تو میرے محسن نے یہ کہا کہ۔۔ ایف ۔آئی ۔آر کو چلو میں مانتا ہوں ،کہ لازمی ہونی چاہیے ، رہی بات شہباز شریف صاحب کے مستعفی ہونے کی تو یہ مطالبہ غیر آئینی ہے۔جب میں نے کہا کہ بھائی جان آپ کو یا د ہو گا کہ میاں نواز شریف صاحب نے یوسف رضا گیلانی سے کہا تھا کہ زیادہ نہیں تو ایک ماہ کے لیے مستعفی ہو جاؤ،اگر تم سچے ہو تو پھر اپنی سیٹ پر آجانا اگر غلط ہوئے تو ہمیشہ کے لیے گھر چلے جانا۔۔ تو کیا۔۔ یہ مطالبہ میاں صاحب کا درست اور آئینی تھا ۔تو جناب نے کہا کہ جی یہ آئینی بھی تھا اور اخلاقی بھی ۔

تو ساتھ ہی میں نے عمران خان صاحب کا مطالبہ رکھا اور پوچھا کے جو کپتان کے رہے ہیں وہ آئینی ہے یا نہیں ،تو فوارً بھائی صاحب نے کہا کہ۔۔۔ یہ سراسر ذیادتی ہے خان صاحب کی ۔۔یہ مطالبہ کرنا غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے ۔تو میں نے کہا
تھا کچھ بیاں ابھی ،ابھی کچھ بیان ہے
گویا تیری زبان کے نیچے زبان ہے

آپ کی پانچ منٹ کی گفتگو میں بے شمار تضاد ہے،تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گئی ۔ہر وہ کام جو میاں برادران اپوزیشن میں کرتے آئے تھے وہ تمام تر کام آئینی تھے مگر آج وہی کام اپوزیشن کی جماعت اور غیر سیاسی پارٹی کرے تو وہ غیر آئینی کیوں ۔۔تو اُنھوں نے اس سوال کے جواب میں اُلٹا مجھ سے سوال کر دیا کہ آپ اس سوال کو چھوڑ دیں ۔اور یہ بتائیں کہ جو خان صاحب آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کر رہے ہیں اور جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ کیا اُن کو زیب دیتی ہے جو انگریزی یونیورسیٹی سے تعلیم صاصل کر کے آئے ہیں ،اور اس طرح کی گفتگو میڈیا میں آ کر کرتے ہیں کہ۔۔ اوئے نواز شریف ْ۔۔۔

میں نے اُن کی بات کو سرِخم تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ میں مانتا ہوں خان صاحب بری زبان استعمال کر رہے ہیں اُن کو ایسا نہیں کرنا چائیے وہ برائی کی باتوں کو بھی اچھائی سے بیان کرتے تو بہتر تھا ۔مگر اس زبان کی شروعات تو میاں صاحب نے خود کی تھی۔۔ سر جی۔۔ آپ نے میاں شہباز شریف صاحب کی وہ تقریر سنی ہو گئی جس میں انھوں نے سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کو برا بھی کہا اور پنجاب سے سندھ تک گھسٹنے کا بھی کہا اُس پر اپنی رائے دیں ۔۔کیا اُن کو ایسا کہنا چائیے تھا ۔۔۔! تو جناب نے کہا کہ زاردری صاحب کو برُا کہنا کوئی بات نہیں وہ اسی کابل ہیں اُنھوں نے ملک کو تباہ کیا ہے تو میں نے فوارً اُن کی بات کاٹ کر پھر پوچھا کے وہ زبان یوز کرنا صیح تھا یہ نہیں تو اُن کا جواب پھر یہی تھا کہ وہ صیح کر رہے تھے ۔تو میں نے کہا کہ اب جب خان صاحب ایسا کر رہے ہیں تو اس میں برا ہی کیا ہے ،تو پھر اُن کے پاس جواب دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ ہم نے بھی انتخابات میں لیڈر کا انتخاب کرنے میں غلطی کر دی ہے ،اب لوگوں کے سامنے اپنی پارٹی کی عزت تو رکھنی ہے ۔۔نا۔

میں سمجھ گیا کہ دوست میرا خود سے بھی شرمندہ ہے،اُسے شائد ہی اس بات کا علم ہو کہ ۔ظلم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہے ۔
میں نے جاتے جاتے اُنہیں ایک ہی بات کہی کہ اگر یہ جموریت نہیں تو پھر ۔۔۔۔بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ْ۔۔۔۔
Ma Doshi
About the Author: Ma Doshi Read More Articles by Ma Doshi: 20 Articles with 17479 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.