سرسید کا سائنسی اندازِ فکر

اٹھارویں صدی کے اواخر سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام کا دور ہندوستان کی تاریخ کا بدترین اور تاریک ترین دورکہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس دور میں سارا ہندوستانی سماج غضب کی مایوسی کا شکار تھا۔ عجب افراتفری کا عالم تھا۔ آزادی کے متوالوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ برطانوی سامراج کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی تھی۔ عوام پر ظلم وزیادتی کے واقعات عام ہوگئے تھے۔ سارا معاشرہ بکھرتا دکھلائی پڑتا تھا۔ غلامی، افلاس، ناکامی، ناامیدی اور نا مرادی عوام کامقدر بن گئی تھی۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ علم سے بے بہرہ تھا اور پرانی قدروں اورمردہ رسوم میں اپنے کوکھوتاجارہا تھا۔ تو ہم پرستی اپنے عروج پر تھی۔ خوش قسمتی سے اس نازک دور میں دو بہت اہم اورہمہ گیر شخصیتیں ہندوستانی معاشرہ میں ابھریں جنہوں نے سوتے ہوئے اور غافل ہندوؤں اورمسلمانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس میں ایک ہستی تھی راجہ رام موہن رائے کی اور دوسری سر سید احمد خاں کی ذات گرامی۔ راجہ رام موہن رائے نے ۱۷۷۲عیسوی میں بنگال کے ایک برہمن گھرانے میں جنم لیا۔ انہوں نے کم عمری میں یہ محسوس کیا کہ ہندوستان کا مسئلہ تعلیم کی کمی اور سائنسی رویہ کے فقدان کا ہے۔ انہیں یقین کامل ہوگیا کہ اگر عوام اپنے فرسودہ رسم ورواج اورپرانی تعلیم کو چھوڑ کر نئی سائنسی تعلیم کی جانب متوجہ ہوں تو وہ واقعی ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کاحق مانگ سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ہندوؤں میں انگریزی اور سائنسی تعلیم حاصل کرنے کی وکالت کی۔ شروع میں ان کی بے پناہ مخالفت کی گئی اور الزام عائد کیاگیا کہ وہ ہندوستانی قدروں کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ مخالفتیں زیادہ دن تک ٹک نہ سکیں اور نہ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے ۱۸۱۶ء میں کلکتہ میں ایک ہندو کالج قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جس میں انگریزی اور سائنس کی تعلیم دی جانے لگی۔ عام ہندو نئی تعلیم کی جانب متوجہ ہونے لگے۔ راجہ رام موہن رائے کامشن کامیابی کے دور میں آیا ہی تھا کہ سرسید کی ہمہ جہت شخصیت بھی ہندوستان کے مسلم معاشرہ میں ابھر کر سامنے آئی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی تباہی، پستی اور بربادی دیکھی تھی۔ جناب موہن رائے کی طرح ان کو بھی احساس ہوا کہ مسلمانوں کو قعر مذلت سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو نئے سائنسی رجحانات سے باخبر کیا جائے اورانگریزی تعلیم کی طرف راغب کیاجائے۔ اس مقصدکے حصول کے لئے انہوں نے جو کچھ کیا وہ آج ہندوستان کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ سر سید کے سائنسی انداز فکر اور ہندوستانی مسلمانوں کے اعمال وافکار پر ان کے اثرات کا ایک جائزہ لینا آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔

سر سید احمدخاں نے یکم اکتوبر ۱۸۱۷؁ء کو دہلی کے ایک معزز گھرانے میں جنم لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت عبرت انگیز تھی۔ وہ ایک طرف مایوسی کاشکار تھے تودوسری جانب نئے علوم سے قطعاً نا واقف۔ یہی نہیں بلکہ ذہنی پستی کا یہ حال تھا کہ وہ کسی نئی فکر اور نئے سائنسی خیال اورایجاد ودریافت کو غیر مذہبی اور شیطانی کام تصور کرنے لگے تھے۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنا ان کے نزدیک ایک ایسا گناہ تھا جو معاف نہیں کیاجاسکتا تھا ۱۸۳۵؁ء میں جب لارڈ میکالے کی اسکیم کے تحت یہ قرار پایا کہ ہندوستانیوں کو یورپین سائنس اور یورپین زبان کی تعلیم دینے کاانتظام کیا جائے تومسلمانوں میں اس کی شدید مخالفت کی گئی اورکلکتہ میں آٹھ ہزار علماء اور رؤسا کے دستخطوں سے ایک درخواست گورنمنٹ میں گذاری گئی کہ حکومت کا یہ قدم ان کے مذہب اعتقادات کے خلاف ہے۔ اس درخواست میں انگریزی تعلیم کو صرف غیر ضروری ہی نہیں بلکہ سماجی اور ذہنی اعتبار سے نقصان دہ بتایا گیا۔ سرسید نے جب ہوش سنبھالا توایک طرف مسلمانوں کی معاشی زبوں حالی دیکھی تو دوسری طرف ان کا نئے علوم کے لئے منفی اور غیر منطقی رویہ پایا۔ انہیں یہ یقین ہو چلاکہ مسلمانوں کوہندوستانی سماج میں ایک باوقار اور با عزت مقام دلانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو نئی سائنسی دنیا سے روشناس کیا جائے۔ نئے علوم سے واقف کرایا جائے۔ کتنے عبرت کا مقام تھا کہ جس قوم کے لئے اس کے پیغمبر کی یہ تعلیم اورنصیحت موجودتھی کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے حصول کے لئے چین جاناپڑے وہ قوم چین تو کیا خود اپنے ملک میں موجود نئی سائنسی علم سے منھ چراتی تھی۔ بہرحال سرسیدنے مسلمانوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کے اور سائنسی علم کوعام کرنے کا بیڑا اٹھا ہی لیا اور عین حدیث رسول کی پیروی کرتے ہوئے علم حاصل کرنے اورنئے علمی کارناموں سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے انگلینڈ کاسفر اختیار کیااور وہ بھی اپنا گھر بار رہن رکھ کر۔ کئی ماہ تک وہاں درس گاہوں اور لائبریریوں کی تفصیلات جمع کیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔ صنعت وحرفت کے میدان میں ہوئی ترقیوں کاجائزہ لیا اور نئی سائنسی تعلیم کے مختلف پہلوؤں پر ماہروں سے گفت وشنید کی۔ اس دوران انگلینڈ میں لوگوں کا رہن سہن اور سائنسی تعلیم کی لیاقت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ وہیں سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں تحریر کیاکہ کاش میری قوم کے بچے ایسے ہی علم حاصل کرتے اور ملک کو وہی سب کچھ دیتے جویہاں لوگوں کو میسر ہے۔ ایک دوسرے خط میں لکھاکہ ’’جو قومیں حصول علم میں پیچھے رہ جاتی ہیں ذلت خواری ان کا مقدر بن جاتی ہے‘‘۔ انگلینڈ سے واپس آکر سر سیدنے اپنے خیالا ت کے اظہار کے لئے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جار ی کیا اورتحقیقی اور تعلیمی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ مختلف اسکیمیں بنائیں جن کامقصد نئے سائنسی علوم کو نوجوانوں تک پہنچانا تھا۔ یورپین علوم کی اہمیت جتانے کے لئے ضروری تھا کہ کچھ اہم علمی اور تاریخی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرکے انہیں شائع کیاجائے۔ اس مقصد کی خاطر سر سید نے ایک مضمون بعنوان ’’التماس بخدمت ساکنان ہندوستان در باب ترقی تعلیم اہل ہند‘‘۔ شائع کیا جس میں یہ تجویز رکھی کہ سائنسی علوم عام کرنے کی غرض سے ایک تنظیم قائم کی جائے جس کا مقصد اردو میں سائنسی لٹریچر شائع کرناہو۔ چنانچہ ۱۸۶۳؁ء میں سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا، سرسید اس کے اعزازی سکریٹری مقرر ہوئے۔ شمالی ہندوستان میں یہ سوسائٹی اپنے قسم کی پہلی جماعت تھی جس نے پورے ملک میں سائنس کی اہمیت کا احساس لوگوں کودلایا۔ اس سوسائٹی کے زیراہتمام چند ہی سالوں میں کئی مفید کتابیں اردو میں ترجمہ ہوکر شائع ہوئیں جس سے ملت مغربی علوم سے روشناس ہوئی اور ان علوم کی بابت عام ذہنوں میں جو غلط تاثرات وہ بڑی حد تک دور ہوگئے۔ سوسائٹی کے تحت ایک ہفتہ وار گزٹ ۱۸۶۶؁ء سے شائع ہوناشروع ہوا۔ اس گزٹ میں انگریزی اور اردودونوں ہی زبانوں میں کالم لکھے جاتے۔ ان کالموں میں عوام کونقصان دہ تعصبات سے دور رہنے کی اپیلیں شائع ہوتیں اور مسلمانوں کونئی دنیا کے چیلنج کاسامنا کرنے کی تلقین دی جاتی۔ سائنٹفک سوسائٹی کے قیام کے فوراً بعد ہی سرسید کی مخالفت کی ایک منظم مہم سارے ملک میں شروع کر دی گئی۔ اخبارات اور رسالوں میں ان کے خلاف مضامین شائع ہونے لگے جن میں ان کو مرتد، ملحد، قوم کا عیب جو، مسلمان باجی، اسلام کا دشمن اور زندیق جیسے ناموں سے نوازا گیا ۔سر سید ان بہتان تراشیوں سے چنداں مایوس نہ ہوئے بلکہ ان مخالفتوں کے بعد عزائم میں کچھ زیادہ ہی قوت محسوس کرنے لگے۔ او رایک کالج کے قیام کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ اکبر الٰہ آبادی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے۔
وہ بھلاکس کی بات مانے ہیں
بھائی سید تو کچھ دیوانے ہیں

سر سید مسلمانوں کو سائنس سے روشناس کرنے کا جذبہ اور ان کو باوقار مقام دلانے کا عزم ایک جنونی کیفیت اختیار کر چکا تھا۔ بالآخر انہوں نے ۱۸۷۵؁ء میں ایک مدرسہ کی بنیاد علی گڑھ میں ڈال ہی دی۔ مدرسہ کی شکل میں نئی تعلیم کی یہ کرن بہت سے اندھیروں پرچھا گئی۔ یہ مدرسہ ۱۸۷۷ء میں کالج بنا جس کااصل مقصد مسلمانوں میں سائنس کی تعلیم کو فروغ دینا تھا لیکن جس کے دروازے سارے ہندوستانیوں کے لئے کھلے تھے۔ سرسید کی نظر یہ سے ہندوستان جیسی دلہن کاحسن اسی وقت قائم رہ سکتا تھا جب کہ اس کی دونوں آنکھیں یعنی ہندو اور مسلمان،نور سے بھری ہوں، علی گڑھ کا یہ کالج مولانا ٓزاد کی سرپرستی میں ہندستانی مسلمانوں کی کاوشوں سے 1920 میں یونیورستٹی بنا اور ساری دنیا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہوا۔آج ہندوستانی معاشرہ میں اس کی اہمیت سبب کو تسلیم ہے۔ سر سید احمدخاں نے بہتان تراشیوں اورملامتوں سے دل برداشتہ ہوکر اپنے مشن کوترک کر دیا ہوتا اورعلی گڑھ کالج کا قیام عمل میں نہ آیا ہوتا تو آج اس ملک کے مسلمان کتنے خسارہ میں رہتے۔ ہم سائنسی علم سے کتنا دور ہوتے اور ’’علم الانسان مالم یعلم‘‘کے مفہوم سے کتنانا واقف ہوتے۔
Dr. M.I.H. Farooqi
About the Author: Dr. M.I.H. Farooqi Read More Articles by Dr. M.I.H. Farooqi: 11 Articles with 21040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.