کراچی: ساتویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز اور نامور شخصیات

کراچی میں 16 اکتوبر 2014 سے آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام ساتویں عالمی اردو کانفرنس شروع ہوگئی ہے جو کہ چار روز تک جاری رہے گی۔ جمعرات سے شروع ہونے والی چار روزہ کانفرنس میں50 سے زائد ممالک سے نامور ادیب ،شاعر،نقاد اور دانشور شرکت کریں گے۔جن میں لندن سے رضا علی عابدی،غزل انصاری ،نجمہ عثمان،ایران سے افتخار عارف اور بھارت سے قاضی افضال حسین ، عبید صدیقی،انیس اشفاق،رنجیت سنگھ چوہان، ابھیشیک شُکلا،خوشبیر سنگھ شاد،امیر امام اور امریکا سے عشرت آفریں سمیت دیگر ممالک کے ادیب شامل ہیں ۔

ساتویں عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر آرٹس کونسل کی عمارت کو برقی قمقموں سے سجایا گیا ۔ اس موقع پرآرٹس کونسل کے عہدیداران نے خصوصی طور پر لباس تیار کرایا ۔
 

image


ملک کے معروف دانشور، محقق اور افسانہ نگار انتظار حسین کا کراچی آرٹس کونسل میں منعقد ہ ساتویں عالمی اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قیامتیں تو اب دنیا اسلام میں ٹوٹی ہوئی ہیں ۔مسلمانوں کو اس کی عادت ہونی چاہئے ۔اور ہمیں ثقافت کو پروان چڑھانے کا سفر جاری رکھنا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ ادب کے میدا ن میں آنے والوں کو ایک ہزار راتوں کے اندھیروں کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ اس موقع پر مجلس صدارت میں عبداللہ حسین ،مسعود اشعر،ضیامحی الدین،ڈاکٹر افضال حسین ،افتخار عارف،پروفیسر سحر انصاری ،ڈاکٹر پیر زادہ قاسم ،مستنصر حسین تارڑ،عطاالحق قاسمی،خلیل طوقار، رضا علی عابدی اور صدر آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز احمد فاروقی بھی موجود تھے۔

صدر مجلس نے مزید کہا کہ کراچی کا سات سال پہلے بھی یہی نقشہ تھا جو آج ہے ۔جب پہلی اردو کانفرنس کا انعقاد ہوا تو کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ یہ کانفرنس تواتر کے ساتھ منعقد ہوتی رہیں گی ۔ کراچی بلاشبہ دمشق سے آگے بڑھ گیا ہے ۔کراچی والوں نے کمال کر دکھایا ہے ۔لاہور والوں نے یہاں کی دیکھا دیکھی کانفرنس شروع کی اور اب کراچی ،لاہور کے بعد اسلام آباد میں بھی اردو کانفرنس منعقد ہورہی ہے ۔انہوں نے کہا ایک طرف قیامت مچی ہوئی ہے تو دوسری طرف ادب کی کانفرنسیں جاری ہیں ۔جو لوگ موت سے بھاگتے ہیں وہ دراصل موت کی طرف بھاگتے ہیں۔

افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے بھارت سے آئے ہو ئے مندوب ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے کہا کہ زبان انسان کے خلق کی ضرورت ہے ۔زبان سے زبان کا دو سطح پر تعلق ہوتا ہے ۔ایک خلقی اور دوسرا معاشی طور پر ۔برصغیر میں اردو زبان کل بھی موجود تھی اور ترسیلی صلاحیت ہونے کی بنا پر یہ زبان آج بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے ۔اس زبان نے ثابت کردیا ہے کہ یہ دنیا بھر میں ترسیلی طور پر رابطے کی زبان ہے ۔

سابق شیخ الجامہ کراچی ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کہا کہ ہمارا آج ہمیشہ بدل جانے والی چیز ہے ۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں بدلتے ہوئے منظر میں اپنا عکس دیکھنا ہوگا ۔اردو زبان ادب اور ثقافت کا سب سے بڑا پرچار بن چکی ہے ۔کسی بھی روایت کو قائم رکھنا بڑی بات ہوتی ہے ۔مگر اسے مستقل رکھنا کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔اردو ادب کی یہ سب سے بڑی کانفرنس ہے ۔زبان ادب ثقافت کو موجودہ صورتحال میں دیکھنا چاہئے معاشرہ بدلتا رہتا ہے ۔معاشر ے کی نفسیات میں بڑی تبدیلیا ں آچکی ہیں ہمارے معاشرے نے اپنی ترجیحات بدل لی ہیں ۔زبان ،ادب ،ثقافت اب ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہے ۔ہم غیر محسوس طور پر عالم گیر کلچر کی طرف مائل ہوتے جارہے ہیں ۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اقلیت میں رہنے والی ثقافت کبھی پروان نہیں چڑھتی ۔ہمیں اپنی زبان ،ثقافت اور ادب کی مثبت باتوں پر گہر ی نظر رکھنی چاہئیے۔
 

image

ساتویں عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر اردو دنیا کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی نئی کتاب شام شعر یاراں کی تقریب رونمائی بھی کی گئی جس کی صدارت ممتاز شاعرہ زہرہ نگاہ نے کی جبکہ کمپیئرنگ کے فرائض آرٹس کونسل کے سیکرٹری احمد شاہ نے انجام دیئے۔ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی پنڈال میں تشریف لائے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس موقع پر معروف افسانہ نگار انتظار حسین ،ضیاء محی الدین ،عطاالحق قاسمی ،انور مقصود،عبداللہ حسین ،آغا ناصر ،مستنصر حسین تارڑ ،ڈاکٹر فاطمہ حسن ،شاہد رسام،کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی ،صوبائی وزیر فیصل سبزواری اور افتخار عارف بھی اسٹیج پر موجود تھے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے افتخار عارف نے کہا کہ آج بہت ہی یادگار دن ہے اور بہت ہی مبارکباد کا دن ہے ۔مشتاق یوسفی کی پہلی چار کتابوں میں دس ،دس برس کا وقفہ ہوتا تھا اور اب 25 سالوں کے وقفے کے بعد مشتاق یوسفی کی پانچویں کتاب سامنے آئی ہے ۔انہوں نے اس کتاب کا عنوان فیض احمد فیض کی کتاب شام شہر یاراں سے متاثر ہوکر رکھا ہے ۔لفظ کے انتخاب کے سلسلے میں جتنا محتاط میں نے مشتاق یوسفی کو پایا کسی اور کو نہیں پایا ۔

ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ آج مشتاق یوسفی کی سب سے معتبر کتاب شام شہر یاراں کا اجراء ہے یہ تاریخی لمحہ اور موقع ہے اور ہم اس لمحے کا حصہ بن گئے ہیں ۔اس کتاب میں 21 مضامین شامل ہیں اور اس کتاب میں ہمارا عہد لکھا گیا ہے۔
 

image

انور مقصود نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں نے مشتاق یوسفی کی ابتدائی چار کتابیں آب گم ،سرگزشت ،خاکم بدہن اور چراغ تلے پڑھی ہیں اور اب اس پانچویں کتاب کو بھر پور انداز سے پڑھوں گا ۔ضیاء محی الدین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ بقول ابن انشا ظرافت کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں ۔مشتاق یوسفی کا علم بے حد وسیع ہے ۔وہ مچھروں کا ذکر کریں یا مرغی کا ان کے جملوں میں بڑی کاٹ ہوتی ہے ۔میری نظر میں انسانی کمزوریاں ظرافت کا منبع ہیں ۔ان کا انداز مربیانہ نہیں ہے ۔اپنا ذکر بھی بڑی عاجزی وانکسار ی کے ساتھ کرتے ہیں ۔ میں ان کا پرانا احسان مند ہوں کہ اکثر ان کی تحریروں کی پڑھت میں نے کی۔

تقریب کی صدر زہرہ نگاہ نے کہا کہ مشتاق یوسفی نے اپنی تحریروں سے ہمیں جینے اور مسکرانے کا موقع دیا ۔طنز و مزاح ایسی صنف ہے جس میں لکھنے والے کی ذات کے زاویے کھل کر سامنے آتے ہیں ۔ طنز و مزاح عام ضرور ہونا چاہئے مگر آمیانہ نہیں ہونا چاہئے ۔مزاح نگار اپنے علم اور طبع نگا ہ سے تحریر کو سجاتا ہے اور مشتاق یوسفی یہ خوبی خوب رکھتے ہیں اور وہ طنز و مزاح کی معراج کو پہنچ گئے ہیں ۔اردو جیسی دل آوزیب زبان میں مشتاق یوسفی نے اپنی پانچ کتابوں میں طنز و مزاح کو منفر د انداز میں لکھ کر دو آتشہ کردیا۔

شاعروں ،ادیبوں کے علاوہ فنکاروں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔نامور اداکار طلعت حسین اور قاضی واجد میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے ۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ساتویں عالمی اردو کانفرنس کے پہلے روز کا آخری پروگرام کلاسیکی رقص پر مبنی تھا جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی رقاصہ شیما کرمانی اور ان کے گروپ نے برصغیر کے وہ شعرا جن کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے جس میں نظیر اکبر آبادی ،امیر خسرو ،مومن خان مومن ،بہادر شاہ ظفر،فیض احمد فیض شامل ہیں۔ ان کے کلاموں پر مبنی کلاسیکی رقص کا خوب صورت مظاہرہ کیا۔

اس موقع پر معروف شخصیات پروگر ام میں موجو د تھیں جہنوں نے شیماکرمانی اور ان کے گروپ کی عمدہ پرفارمنس پر بھر پور انداز میں داد دی۔آرٹس کونسل کی جانب سے شیماکرمانی کو سماجی خدمات پر آکسفورڈ کی سربراہ امینہ سید اوراحمد شاہ نے خصوصی شیلڈ پیش کی ۔
YOU MAY ALSO LIKE:

It was quite humid as evening set in on Thursday. But once celebrated humour writer Mushtaq Ahmed Yousufi entered the semi-verdant lawn of the Arts Council, those who had packed the arena in no time did not mind the humidity at all. So, they patiently let the four-day 7th International Urdu Conference begin with the launch of Yousufi’s book Shaam-i-Shaer-i-Yaraan.