ہمیں تو پرانا پاکستان چاہیے

کل ایک ہوٹل کے ٹھرے پر کچھ دوستوں کے ساتھ چائے نوشی اور سیاسی گپ شپ ہورہی تھی ،ٹھرے سے میری مراد محلے کے ہوٹلوں میں باقاعدہ میز کرسی کی تکلفات تو ہوتی نہیں بلکہ تخت اور آمنے سامنے بنچوں پر بیٹھ کر لوگ ایک کپ چائے میں ایک گھنٹہ آپس کی بات چیت میں صرف کرتے ہیں ۔اسی طرح کی ایک محفل میں ،میں بھی شریک تھا اور عمران خان کا نیا پاکستان اس سیاسی گپ شپ کا موضوع تھا کہ عمران خان کا نیا پاکستان کیسا ہوگا اس کے خدوخال کیا ہوں گے ،یہ بحث چل رہی تھی محفل میں شریک ایک بڑی عمر کے سنجیدہ بزرگوار نے کہا کہ بھئی کوئی ایسا لیڈر آئے جو ہمیں تو ہمارا پرانا پاکستان دلادے جہاں ہم سکون کی نیند سوتے تھے میں نے سوچا یہ شاید 1970تک کے پاکستان کی بات کررہے ہیں اس طرح کی مجلسی نشستوں میں کسی ایک موضوع پر کوئی تفصیلی اور نتیجہ خیز گفتگو نہیں ہوتی بلکہ موضوعات ادلتے بدلتے رہتے ہیں کسی نئے فرد کے آجانے سے بات چیت کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے ،آذان ہوتی ہے سب خاموش ہو جاتے پھر اس کے بعد کہیں اور سے بات شروع ہوتی ہے اس موضوع پر کچھ اور بھی لوگوں نے کچھ کہا شاید کسی نے یہ بات بھی کہی ارے بھئی گزرا ہوادور کب واپس آتا ہے،لیکن چونکہ میرا ذہن اس پرانے پاکستان پر اٹک کر رہ گیا تھا جس کو ہم نے بھی بہت اچھی طرح سے دیکھا ہوا ہے بلکہ اس کی یادیں اور باتیں میرے قلب و ذہن میں ایسی جم کر رہ گئیں ہیں وہ چھوڑنے کور تیار نہیں اسی لیے میں اور لوگوں کی باتیں اس جملے کے بعد ٹھیک سے سن نہ سکا بلکہ پھر اور بھی دیگر مسائل پر گفت و شنید ہوئی لیکن میرا ذہن یہ سوچ رہا تھا کہ واقعی کیسا خوبصورت وہ پاکستان تھا کہ جہاں بجلی کی چکا چوند اور پھر لوڈشیڈنگ تو نہ تھی لیکن سکون کے اندھیرے آج کی روشنی سے بہت اچھے تھے ہمیں تو وہ پاکستان چاہیے جہاں روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام تھا آٹے، دال، چاول،چینی،چائے کی پتی اور دودھ کی قیمتیں برسوں ایک ہی سطح پر برقرار رہتی تھیں یہ بات بھی گفتگو میں آئی کے پہلے ہمارے سیاسی رہنما ایک دوسرے کی مخالفت میں بھی بات کرتے تھے تو شائستہ انداز میں بات کرتے تھے اب تو جلسوں میں بھی ناشائستہ زبان استعمال کی جانے لگی ہے مجلسی نشستوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے اس میں اکثر فوری اور موثر جواب بھی کسی کی طرف سے آجاتا ہے اس بات کا جواب ایک صاحب نے یہ دیا کہ ہم لوگ جب اپنے دور میں سینما ہاؤس جاتے تھے تو اس میں ایک آٹھ آنے والی کلاس ہوتی تھی اور ایک دو روپئے والی جہاں نسبتاَسنجیدہ اور پڑھ لکھے لوگ فیملی کے ساتھ فلم دیکھتے تھے جب کہ زیادہ تر ہوٹنگ آٹھ آنے والی کلاس سے ہوتی تھی اس لیے جلسوں میں تو ہر کلاس کے لوگ آتے ہیں بہر حال یہ تو درمیان میں ایک بات آگئی میری سمجھ میں یہ بات نہیں آپا رہی ہے کہ میں اپنے پرانے پاکستان کی بات کہاں سے شروع کروں لیکن اس پرانے پاکستان سے بھی بہت پہلے یعنی اس کے قیام سے بھی پہلے ہندوستان کے مسلمانوں میں پاکستان کا ایک تصور تھا یا یوں سمجھ لیں ایک خیالی پاکستان تھا میری والدہ بتاتی تھیں کہ ہم جب 1949میں پاکستان آرہے تھے تو ہم نے یہ سنا تھا پاکستان میں نماز کے وقت بازار اور دکانیں بند ہو جاتی ہیں سب لوگ نماز کے لیے جاتے ہیں اسی طرح سرکاری طور پر خواتین گھروں میں جا کر نماز کی تلقین کرتی ہیں یہ تصور لیے ہوئے ہم پاکستان آئے تھے اور جب ہمارا قافلہ کھوکھرا پار میں پاکستان کی سرحد میں داخل ہوا ہے تو شام کا وقت تھا ہم سب لوگ فرط جذبات سے مغلوب ہو کر اسی ریت کی مٹی پر سجدے میں چلے گئے کہ یہ اسی خطہ کی مٹی ہے جس کے لیے ہندوستان کے لاکھوں مسلمانوں نے جان کی قربانی دی ہزاروں بچیوں کی عصمتیں تار تار ہوئیں سیکڑوں نے اپنی عصمت کی خاطر اندھے کوؤں میں چھلانگ لگادی ۔آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے پھر یہاں پر آکر جب یہ دیکھا کہ لوگ غلط کلیم داخل کررہے ہیں تو بڑا افسوس ہوا ۔بہر حال 1947سے 1970تک کا جو پاکستان تھا وہ آج کے پاکستان سے کئی گنا زیادہ خوبصورت تھا ۔جی ہاں وہ پاکستان جہاں ہم جب گرمیوں کے دنوں میں مغرب کی نماز پڑھ کے نکلتے تھے تو کسی پان کی دکان یا کسی ہوٹل سے ریڈیو پاکستان کی یہ آواز کانوں میں پڑتی تھی کہ"یہ ریڈیو پاکستان ہے اس وقت مغربی پاکستان میں رات کے پونے آٹھ اور مشرقی پاکستان میں پونے نو بجے ہیں اب آپ شکیل احمد سے خبریں سنیے"شکیل احمد کی گرجدار آواز،انور بہزاد کا بہزادی لہجے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ خبروں کا پڑھنا اور شمیم اعجاز کی رس بھری آواز میں الفاظ کی ڈیلیوری ریڈیو پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ریکارڈ ہے اب تو ہمارے کان ان آوازں کے ساتھ لفظ "مشرقی پاکستانـ" بھی سننے کو ترس گئے ۔ہمیں تو وہ پاکستان چاہیے جہاں اتوار کی چھٹی والے دن بھی سب لوگ صبح جلدی اٹھ جاتے تھے اور ناشتے کے ساتھ یا اس سے کچھ قبل یا کچھ دیر بعد سب اہل خانہ ریڈیو پاکستان کا مشہور ومعروف فیملی پروگرام "حامد میاں کے یہاں"ذوق وشوق سے سنتے تھے اس کے بعد گھر کے بڑے ہفتے بھر کا سودا سلف لینے نکل جاتے تھے گھر کی خواتین گھر کی صفائی ستھرائی میں لگ جاتی تھیں اور نوجوان حضرات اپنے دوستوں کے ساتھ کلفٹن چڑیا گھر یا کسی پکنک پوانٹ کی طرف نکل جاتے یا پھر یہ اتوار کسی رشتہ دار کے جانے کسی کے آنے کا ہوتا تھا پہلے گھر چھوٹے تھے لیکن دل بڑے تھے ایک کمرہ ہوتا تھا کبھی اس میں خالہ آرہی ہیں تو کبھی ماموں کے بچے آرہے ہیں اور کئی دن رہنا بھی ہوتا تھا اب ہمارے گھروں میں بیڈ روم الگ ہیں درائنگ روم اور دڈائننگ بھی ہیں لیکن اب نہ کوئی خالہ آتی ہیں چچا نہ ماموں گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے ۔جی ہاں وہ پاکستان جس مین امن تھا سکون تھا آپس کی محبتیں تھیں ایک دوسرے کے لیے ایثار وقربانی کا جذبہ تھاکون شیعہ کون سنی سب مسلمان تھے صرف سیاسی تحریکیں چلتی تھیں جس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شریک ہوتے تھے جی ہاں وہی پاکستان جہاں سائٹ کے علاقے میں رات کے وقت بھی دن جیسی چہل پہل رہتی تھی ملک صنعتی ترقی کی راہ پر گامزن تھا وہ پاکستان بھی بہت اچھا تھا جس میں ٹی وی نہیں تھا صرف ریڈیو پاکستان تھا جس کے ڈرامے لوگ دل اور کان لگا کر سنتے تھے وہ پاکستان بھی یاد آتا ہے جس میں صرف پی ٹی وی تھا جو شام پانچ بجے قران مجید کی قرات سے شروع ہوتا تھا اور فرمان الٰہی پر ختم ہوتا تھا جس کے ڈراموں نے پورے بر صغیر میں دھوم مچادی تھی جی ہاں وہی ٹی وی جسے ہم اپنی پوری فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے تھے ۔اسی پاکستان کے شہر کراچی میں لوگ راتوں کو اپنے کاموں اور کاروبار سے فارغ ہو کر فیملی کے ساتھ نکلتے تھے اور رات گئے گھر واپس لوٹتے تھے انھیں کہیں راستے میں ڈکیتی یا لٹ جانے کا کوئی خوف نہیں ہوتا تھا وہ پاکستان جس میں دن دن ہوتا تھا رات رات ہوتی تھی اب ہمارے پاس سیکڑوں چینلز ہیں موبائل ہے فیس بک انٹر نٹ ای میل اسکائپ اور نہ جانے کیا کیا سہولتیں ہیں کوئی ہم سے یہ سب چیزیں واپس لے لے اور ہمیں ہمارا پرانا پاکستان واپس دے یا کوئی ایسا لیڈر یا جماعت برسراقتدار آجائے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کو پھر سے ایک کر دے یہ وہی جماعت کرسکتی ہے جو دونوں طرف موجود ہو اور قوت کے ساتھ موجود ہو دونوں طرف اسی طرح کی سیاسی جماعت کی کامیابی سے دو سرحدوں کا ملن ہو سکتا ہے جس طرح برصغیر کے مسلمانوں نے 1947 میں ایک پاکستان کا خواب دیکھا تھا اسی طرح آج ہم بھی پاکستان کے ایک ہونے کا خواب دیکھ سکتے ہیں ۔جو اﷲ اس خواب کو حقیقت میں بدل سکتا ہے وہی اﷲ آج کے ہمارے خوابوں میں بھی حقیقت کا رنگ بھر سکتا ہے ۔ان شاء اﷲ
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37548 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.