مصباح الحق کی کپتانی کا تختہ الٹنے کی ناکام سازش کی مکمل کہانی۔۔

پاکستان کرکٹ بورڈکے کرتا دھرتا وں کی پاکستان کرکٹ ٹیم کو کامیابی کے سفر پر ڈالنے کے بجائے من پسند کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرانے اور اب تو باقاعدہ طور پر اپنی پسند کے کپتان کی تعیناتی اور ناپسند مصباح الحق کو فارغ کرانے کی مہم عروج پر ہے۔ تیسرے ون ڈے میں جس انداز میں مصباح الحق کو بٹھاکر شاہد آفریدی کو قیادت سونپی گئی اس نے کئی سوالا ت کو جنم دیا۔حیران کن طور پر آسٹریلیا کے خلاف دو ون ڈے میچز میں شکست کا ذمہ دار صرف مصباح الحق کو ٹہرانے کی کوشش کی گئی ۔حالانکہ دورہ سری لنکا کے بعد ایک بار پھر پور ی بیٹنگ لائن ہی آوٹ فارم رہی۔ سوائے سرفراز احمد اور احمدشہزاد کے کوئی بھی بیٹسمین کوئی ایک بھی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔

image
آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ون ڈے میں ٹاس سے چند منٹ قبل تک یہ بات سرپرائز رکھی گئی کہ آیا اس میچ میں قومی ٹیم کی قیادت کون کرے گا،میچ سے ایک رات قبل ہی میڈیا میں خبریں آچکی تھی کہ مصباح الحق کی جگہ شاہد آفریدی قیادت کے فرائض سرانجام دیں گے۔ ٹیم مینجر معین خان نے میڈیا کے استسفار پر کبھی خبر کی تصدیق کی اور کبھی تردید کرکے قیاس آرائی قرار دیدیا۔خیر ٹاس کا وقت ہوا اور شاہد آفریدی بحیثیت کپتان میچ ریفری تک پہنچے تو اس سسپنس کا خاتمہ ہوا تو کہ تیسرے ون ڈے میں ٹیم کی کمان کون سنبھالے گا۔ حیران کن طور پر اسی میچ کے دوران خلیجی اخبار دی نیشنل کے پاکستانی رپورٹر عثمان سمیع الدین نے کپتانی کے حوالے سے چیئرمین پی سی بی شہریار خان کا انٹرویو کیا۔ جس میں شہریار خان نے مصباح الحق کو مکمل سپورٹ کرنے کے بجائے زومعنی انداز میں کہ ڈالا کہ مصباح الحق خود اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ وہ ورلڈ کپ میں کپتانی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ میڈیا میں تبصرے شروع ہوئے تو بورڈ کو تیسرے ون ڈے کی پہلی اننگز کے اختتام پر پریس ریلیز دینے کا خیال آیا۔ جس میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ مصباح الحق نے اپنی مرضی سے خراب فارم کے باعث تیسرے ون ڈے نہیں کھیلا۔ اور شاہد آفریدی کو صرف اس ایک میچ کے ون ڈے ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا۔ پاکستانی ٹیم تیسرے ون ڈے میں جیتی ہوئی بازی ہاری تو میچ کے اختتام پر شاہدآفریدی پہلے تو بیٹسمینوں پر خوب برسے۔ تاہم صحافیوں نے جب کپتانی کے معاملے پر سوال کیا تو بوم بوم نے موقع غنیمت جان کر یکدم اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے بورڈ حکام کو پیغام دے ڈالاکہ پی سی بی واضح کرے کہ ورلڈ کپ میں ٹیم کا کپتان کون ہوگا۔ اور اگر کپتان وہ ہیں تو پھر انہیں اس بارے میں ابھی سے آگا ہ کیا جائے۔ ایسی صورتحال میں جب ٹیم کے کپتان کو باہر بٹھاکر ایک غیر اہم میچ میں شاہد آفریدی کو کپتان مقرر کیا گیا۔ اس بیان نے پنڈورا باکس کھول دیا۔پریس کانفرنس کے دوران اس وقت صورتحال دلچسپ ہوگئی جب شاہد آفریدی نے پہلے مسکرتے ہوئے کہا کہ انہیں میڈیا کے زریعے معلوم ہوا کہ وہ تیسرے ون ڈے میں وہ ٹیم کی قیادت کریں گے۔ تاہم ٹیم مینجر معین خان نے شاہد آفریدی کو سنجیدانداز میں اس سوال کا جواب دینے کا حکم صادر کیا تو شاہد آفریدی کے چہرے کے رنگ اڑے۔ اور پھر انہوںنے بیان بدل کر واضح کرنے کی کوشش کی کہ انہیں میچ کی صبح کپتانی کے حوالے سے اآگاہ کردیا گیا تھا۔ میڈیا نے شاہد آفریدی کے بیان پر سوالات اٹھائے کہ جب نجم سیٹھی کے بعد چیئرمین پی سی بی شہریار خان مصباح الحق کو دوہزارپندرہ ورلڈ کپ تک کپتان مقرر کرچکے ہیں تو اس شاہد آفریدی نے آخر کس کے اشارے اور مقصد کے تحت کپتانی کے حوالے سے بیان دے ڈلا۔اگلے دن میڈیا میں شورمچنے کے بعد ٹیم مینجر معین خان نے بی بی سی کے پروگرام میں شاہد آفریدی کا کھل کا دفاع کیا کہ اور کہا کہ ّآفریدی نے اس طرح کا کوئی بیان نہیں دیا۔ اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ مصباح الحق ہی چیےئرمین پی سی بی کے اعلان کے مطابق ورلڈ کپ دو ہزار پندرہ ورلڈ کپ میں ٹیم کے کپتان ہوں گے۔ چیئےرمین پی سی بی لاہور پہنچے توبورڈ ہیڈکوارٹرمیں پریس کانفرنس کرکے شاہد آفریدی کو کھری کھری سناڈالی اور ان کے بیان کو غیر ذمہ درانہ قرار دیکر خان صاحب کے کپتانی کے خواب کو چکناچور کردیا۔جس انداز میں شہریار خان نے شاہد آفریدی کی ون ڈے ٹیم میں شمولیت کو سلیکٹرز کے اعتماد حاصل کرنے سے مشروط کیا اس نے شاہد آفریدی کی سوچ بدل ڈالی اور قبل از کہ بورڈ انہیں شوکاز نوٹس جاری کرکے وضاحت طلب کرتا بوم بوم نے دفاعی انداز اپناتے ہوئے عزت اور ٹیم میں جگہ بچاتے ہوئے چیئرمین کو فون گھماکر معذرت خواہانہ انداز اپناکر معاملہ مزید بگڑنے سے بچاتے ہوئے خود کو کپتانی کی دوڑ سے باہررہنے کی یقین دہانی کراکے بورڈ سے ہی پریس ریلیز جاری کرکے انہتائی معصومانہ انداز میں مصباح الحق کو قائد مان کر اپنی پوری حمایت کا یقین دلاکر معاملے سے جان چھڑالی۔ ورلڈ کپ دو ہزارمیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وکٹوں ٹیم کا سپہ سالا ر کون ہوگا ،بورڈ چیف کے اعلان کے باوجود پاکستان کرکٹ کے کلچر کے پیش نظر کچھ بھی ہوسکتا ہے ،تاہم اپنے منہ سے کپتانی مانگنے والے شاہد آفریدی بعد میں جس انداز میں پسپا ہوئے اس سے اس بات کا انداز لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ مصباح الحق کی فارم اور پاکستان ٹیم کی کامیابیاں بحال نہ ہوئی تو معین خان اور آفریدی ایک بار پھر موقع کی تلاش کا شاید کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں اور مصباح الحق کو ٹیم کی کپتانی اور کارکردگی سے زیادہ اس بارے میں فکرمند رہنا ہوگا جس کے باعث مستقبل خصوصاورلڈ کپ میں قومی کرکٹ ٹیم کی کامیابی یقیناکسی معجرے سے کم نہ ہوگی ،باقی جو قسمت کو منظور۔
YOU MAY ALSO LIKE:

The Pakistan Cricket Board moved to end a controversy surrounding the captaincy of the national team and issued a statement by Shahid Afridi in which the allrounder threw his weight behind struggling Misbah-ul- Haq as skipper for next year's World Cup.