دعوت اِلیَ اللہ

بسم اﷲالرحمن الرحیم

اَلْحَمْدُ لِلہِ نَحْمَدُ ہُ وَنَسْتَعِیْنُہُ وَنَسْتَغْفِرُ ہُ وَ نُؤْ مِنُ بِہٖ وَنَعُوْ ذ بِا للہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّئَا تِ اَعْمَا لِنَا مَنْ یَّھْدِ ہِ اللہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہُ وَاَ شُھَدُ اَنْ لّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہٗ

اما بعد: اللہ کے بندو! آج دنیا میں ایک قیامت برپا ہے۔ ہر طرف نا انصافی ہے۔ ظلم وجور ہے ۔ کہیں سکون نہیں۔ کوئی عافیت کی جگہ نہیں۔ جانتے ہو کہ یہ فساد عظیم کیوں برپا ہوا؟ یہ جو انسان درندہ بن گیا ہے اور انسانیت انگاروں پر لوٹ رہی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان نے اپنے مالک کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا نہ کیا؛ احسان مندی کا حق ادا کرنے سے انکار کردیا؛ وہ جس نے زمین کو بچھایا، اور آسمان کو بلند کیا، وہ جو صبح و شام کا مالک ہے، جس نے کائنات کو انسان کی خدمت میں لگادیا، زمین اس کے لیے رزق اگلتی ہے۔ آسمان بارش برساتا ہے، ہواؤں سے اسے ٹھنڈک ملتی ہے، سورج گرمی پہنچانے کے لیے موجود ہے،مکان سکون حاصل کرنے کا ٹھکانا ہے، گھر والوں سے دل بہلتا ہے، دولت کام بنانے کے لیے حاضر ہے …یہ سب کچھ جس کی کارفرمائی ہے اس کے ساتھ انسان نے بلکہ قریب قریب پوری انسانیت نے احسان فراموشی کا رویہ اختیار کیا، اور وہ ہدایت، وہ رہنمائی جو اس کی طرف سے ملی تھی ،یکسر فراموش کر ڈالی۔ یہ اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ زندگیاں تلخ ہیں، آبرو باقی نہیں رہی، انصاف کا جنازہ اٹھ چکا ہے، ہر جگہ ایک بے کلی ہے، بے چینی ہے، حسرت و یاس ہے۔ اور سب سے بڑا غضب تو یہ ہے کہ مسلمان امت جس کو پروردگار نے اس لیے پیدا کیا تھا کہ وہ خیر کی داعی بنے، برائی سے لوگوں کو روکے اور اللہ کے رنگ میں رنگ کر یکرنگ ہو جائے، یکسو بن جائے، وہ تک اپنے مالک کو بھول چکی ہے۔ وہ جو زمین کے نمک تھے، جو پہاڑی کے چراغ بنائے گئے تھے، ان کا حال یہ ہو گیا ہے کہ آج ہر جگہ، مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک، اﷲکے با غی، اس کے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت کو پس پشت ڈالنے والے، آخرت سے بے پرواہ اور خالی دنیا پر مگن ہیں! اب جب اس اُمّت کا یہ حال ہو جائے ، ان کایہ عالم ہوجائے جو خیر کے ذمہ داربنائے گئے تھے، تو پھر دنیا کی بربادی پر تعجب کیوں ہو؟ آج یہ اللہ کی کتاب کے حامل، یہ ایمان دار کہلائے جانے والے،جو کبھی سرفراز و سرخرو تھے، کامران و سربلند تھے، ایک ایک خطہ میں مغلوب ہیں۔ ان کی آبرو ئیں پامال کی جاتی ہیں، ان کی بستیاں اجڑتی ہیں، ان کے نونہالوں کو چھیدا جاتا ہے، ان کے گھروں کو آگ لگائی جاتی ہے، اور وہ سرگرداں ہیں، حیران و پریشان ہیں، کہاں جائیں؟ کیا کریں؟ زمین ان کا بار اٹھانے سے انکاری ہے، اور آسمان ان پر سایہ کرنے سے گریزاں نظر آتا ہے۔ وہ جو کبھی امام تھے، آج مقتدی بننے کے لائق نہیں رہے۔ جو اللہ کو ایک مان لینے اور اس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت کو اختیار کر لینے کے بعد، جہانبانی کے منصب پر فائز کیے گئے تھے، غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے کراہ رہے ہیں۔ لیکن خلاصی کی کوئی راہ نہیں پاتے۔ ہمتیں پست ہیں،ذہن پریشان، خون کی گرمی و حرارت باقی نہیں رہی۔ اپنی ذلت اور رسوائی پر، اپنی خرابی اور خستگی پر ،کڑھتے تو ہیں مگر مجبور ہیں۔

دنیا کہتی ہے کہ وہ جو اسلام تھا مٹ چکا۔ قومیں اٹھتی ہیں اور برباد ہو جاتی ہیں، نظریات وجود میں آتے ہیں اور موت کی نیند سو جایا کرتے ہیں۔ وہی عام قاعدہ اسلام پر بھی حق ثابت ہوا؛ اور یہ مسلمان جو کسی زمانے میں ابھرے تھے، ان کو بھی اسی سطح پر آنا پڑا جو اوروں کے لیے مقدر ہے۔ اور کیوں نہ کہیں جب پوری امت کا حال یہ ہے کہ اس کی زندگی اسلام سے دور اور ہر اس چیز سے قریب ہے جس کی جھوٹی چمک دمک اس کی آنکھوں کو خیرہ کردے۔ جب خود اس امت کے فرزند اپنے دین سے بیگانہ اور دین ان کے لیے اجنبی بن گیاہوتوکیسے یہ آواز نہ اٹھے کہ امت مسلمہ نام کی کوئی قابل ذکر امت اب پائی نہیں جاتی۔ گویا وہ زمانہ آگیا جس کے متعلق کہا گیا تھا:

بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْباً وَ سَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ فَطُوْبیٰ لِلْغُرَبَائِ ( مسلم:کتاب الایمان)

یعنی یہ اسلام جب آیا تھا اجنبی تھا، پردیسی تھا۔ کوئی اس کو پہچاننے پر راضی اور اس کی طرف التفات کرنے کو تیار نہ تھا۔ پھر یہ طاقت والا بنا۔ لوگ اس کی طرف بڑھے۔ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کو قبول کرنے میں عزت محسوس کی۔ اس کے ساتھ روابط پر فخر کرنے والے بنے۔ لیکن ایک وقت پھر آنے والا ہے، جب اللہ کے بندوں کے درمیان پھر اسلام غریب بن جائے گا، پردیسی ہو جائے گا، اجنبی نظر آئے گا، کوئی اس کی طرف التفات کرنا گوارانہ کرے گا، کوئی اس کو اپنانے کے لیے تیار نہ ہوگا، اس سے اپنے کو منسوب کرنے سے شرمائے گا۔ اس وقت بہت تھوڑے لوگ اس اسلام کو مل سکیں گے جو اس کی غربت میں، اس کی اجنبیت کے باوجود اس کو قبول اور اختیار کریں گے۔ اور یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے متعلق زبان نبوت کہتی ہے: فَطُوْبیٰ لِلْغُرَبَائِیعنی مبارکباد ان لوگوں کے لیے جو اس زمانے میں اسلام کے لیے اجنبی بن جانے والے ہوں گے۔ تم دیکھو گے کہ وَھُمُ الَّذِیْنَ یُصْلِحُوْنَ مَا اَفْسَدَ النَّاسُ مِنْم بَعْدِی مِنْ سُنَّتِیْ (رواہ الترمذی:کتاب الایمان)یہ غرباء وہ ہیں کہ میری سنت میں لوگوں نے جو فساد میرے بعد ڈال دیا ہوگا ، اس کو دور کرنے اور پھر سے اس کو اپنی اصلی شکل میں لانے کی کوشش کریں گے۔

یہی صحیح معنوں میں اللہ کو محبوب ہوں گے، اور ان کا عمل اس کی بارگاہ میں قابل قبول ٹھہرے گا۔ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ وہی صورتحال ہمارے سامنے آموجود ہوئی؟ وہی اسلام کی غربت ہے، وہی چند غرباء ہیں جو اس حال میں بھی دین سے اپنے آپ کو چمٹائے ہوئے ہیں، اور امت ہے کہ دین کے نام تک سے گریزاں ہے۔ یہ عالم ہو گیا ہے اللہ کے بندو! اب ایسی حالت میں جب معاملات یوں تلپٹ ہوجائیں اور جب انسانیت کی مت یوں ماری جائے ،کیا کرنا ہے؟ کیا یہ کہہ دیں کہ جو ہونا تھا ہو چکا، جو بیتنی تھی بیت چکی، اب زمانے کی گاڑی کو پیچھے کی طرف واپس موڑنا ممکن نہیں ہے، جس بربادی کے گڑھے کی طرف انسانیت کا قافلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے اس میں گر کے رہے گا، اب روکنے کی کوششیں بیکار ہیں؟یہ کہا بھی جا سکتا ہے اور حالات مجبور کر رہے ہیں کہ یہی کہا جائے…لیکن کیا ایمان اس پر راضی ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی مسلمان رہتے ہوئے بھی اس بات کو گوارہ کر سکتا ہے کہ اسلام پر کسمپرسی کا عالم طاری رہے؟ اللہ کا دین دنیا میں مغلوب ہو جائے؟ پروردگار کے احکام کی کوئی قیمت نہ اٹھے، شیطان اپنا تخت بچھائے دندناتا رہے؟ طاغوت کے جھنڈے بلند رہیں اور سیاہ اندھیرے انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیں؟ کیا کوئی کلمہ گو جو اپنے کو کلمہ گو کہتا ہے، اس حالت کو برداشت کر سکتا ہے ؟کیا مسلمان پر لازم نہیں ہے کہ اس کا دل اس کے سینے میں لرز جائے؟ اس کی آنکھیں بہہ پڑیں اور وہ خون کے آنسو روئے؟ اس کے قویٰ میں جنبش اور اس کے جذبات میں تلاطم برپا ہو جائے؟ کیا جو ایمان اس چیز کو دیکھنے کے بعد بھی خاموش رہے ایمان کہلائے جانے کا مستحق ہے؟ اس ذات کی قسم جس نے زمین کو بچھایا اور آسمان کو بلند کیا ہے! یہ ایمان پرور دگار کی بارگاہ میں ناقابل اعتبار، قابل رد ہے۔ مردود ہے وہ ایمان جو یہ سب کچھ ہوتے دیکھے اور اس کے بعد خاموش تماشائی بنا رہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ کیا کیا جائے؟ کیا کریں؟ حالات قابو سے باہر ہیں، قوتیں جواب دے چکی ہیں، جرائتیں ہیں کہ ان میں کوئی دم باقی نہیں رہا، کیا چیز ہے جس کو لیکر اٹھیں؟پوچھتے ہیں کہ تم ہی بتاؤ تم کیا لائے ہو؟ کس چیز کو پیش کرتے ہو؟حالات یہ ہیں، اس وقت کیا کروگے؟ کس طرح سے اس بربادی کو دور کرنے کا ارادہ ہے؟ اس رسوائی سے امت کو کیسے نکالو گے؟ تمہارے پاس کوئی تدبیر ہو تو لاؤ پیش کرو؟ ہمارا جواب ایک ہے، خالص ایک جواب، اور وہ یہ کہ جس طرح ہمیں ایک مالک کی ذات پر یقین ہے، جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی برحق محمد عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کے آخری نبی ہیں؛ اور جیسے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن ہمیں مرنا ہے، اور مرنے کے بعد اٹھنا ہے اور پھر اٹھ کر بارگاہ الٰہی میں پیش ہونا ہے، اسی طرح ہم کو یہ بھی یقین ہے کہ یہ دین وقتی اور ہنگامی دین نہیں ہے، یہ صرف چودہ سو برس پہلے ہی خیروبرکت کا منبع نہیں تھا بلکہ قیامت تک کے لیے اس میں سب کچھ ہے۔ یہی ایک خزانہ ہے جہاں سے سب کچھ مل سکتا ہے۔ اور وہ مالک جس نے مسلمان کو مسلمان بنایا ہے، جس نے اس کے لیے کتاب نازل فرمائی، اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مبعوث کیا، وہ کہتا ہے کہ اگر تم صحیح معنوں میں مومن بن جاؤ، اللہ پر تمہارا یقین پختہ ہو جائے تو تم ہی سربلند ہوگے، تم ہی کامران بنوگے، سرفرازی تمہارے قدم چومے گی، تاجداری و کجکلاہی کے حق دار تم ہوگے، دنیا اور آخرت کی برکتیں تم پر نچھاور کی جائیں گی، تم زمین کے وارث اور تم ہی جنتوں کی بے حساب نعمتوں کے مالک ہو گے۔ شرط ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ تم صحیح معنوں میں مومن بن جاؤ : وَاَنۡتُمُ الۡاَعْلَوْنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ( آلِ عمران:۱۳۹) ’’اور تم ہی سربلند ہوگے اگر تم مومن بن جاؤ‘‘۔ یہی ایک نسخہ کیمیا ہے،یہی ساری بیماریوں کا علاج اور یہی ساری مصیبتوں کا ’’ایک‘‘ حل ہے۔ لیکن مومن وہ مومن نہیں جو صرف زبان سے کہہ دے کہ آمَنْتُ بِاﷲ (میں اللہ پر ایمان لے آیا) اور جس کو ماں کے دودھ کی طرح سے وراثت میں اسلام ملا ہو۔ مالک فرماتا ہے کہ ہمارے یہاں یہ ایمان معتبر نہیں۔ ہمارا وعدہ اس ایمان سے نہیں ہے کہ ہم اس پر خیروبرکت کے خزانے نچھاور کریں گے۔ ہمارے یہاں تو صرف اس ایمان کی قدر ہے جو ایمان ایمان ہونے کا حق ادا کرے:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنۡفُسِہِمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ (الحجرات:۱۵) فرمایا گیاکہ ( ایمان، ایمان کی رٹ لگائے ہوئے ہو) ایمان دار بننا کوئی معمولی بات ہے۔ مومن تو صرف وہی لوگ ہیں جن کی کیفیت یہ ہو کہ انما المومنون الذین امنوا بااﷲ: وہ اللہ پر پختہ یقین رکھیں ،یہ یقین کہ وہی ایک مالک ہے، انسانیت کا وہی خالق، وہی آقا ہے، اسی نے کائنات کو پیدا کیا ہے، وہی زندگی اور موت پر قادر ہے، اسی کو نفع و نقصان کا اختیار ہے، اسی کی خوشی سے سب کچھ ہوگا، وہ ناراض ہو جائے تو کسی کی خوشی کچھ کام نہیں آسکتی، وہی ہے جس نے زمین کو بچھایا اور آسمان کو بلند کیا ہے، ہواؤں کو وہی چلاتا ہے، بارش برسانے والاوہ ہے، چاند و سورج کو، کواکب اور ستاروں کو اسی نے کام میں لگا رکھا ہے، وہ ایک، اکیلا پروردگار ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں، سارے اس کے بندے، ایک ایک بات میں اس کے دست نگر ہیں، وہ بے ہمتا ہے، لا شریک ہے، بڑے سے بڑا نبی، معزز سے معزز فرشتہ اور بلند سے بلند رتبے والا ولی اس کا غلام، اس کا محتاج ہے، اس کے حکم کا پا بند اور اس کی رضا کی طلب کا حریص ہے۔کسی کو اس کی بارگاہ میں دم مارنے کا یارا نہیں اِلّایہ کہ وہ خود کسی کو اجازت دے دے کہ ہاں تم زبان کھول سکتے ہو۔ وہ کسی کی مدد کے بغیر خود پوری کائنات کا نگراں ہے، ہر کمزوری سے پاک۔ زندہ جاوید ہے، اس کی بادشاہی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ جھوٹے معبود جو اس کے ساتھ یا اس کو چھوڑ کر تراش لیے گئے ہیں، ان کے پاس کچھ نہیں، وہ خود اپنے نفع و نقصان پر قدرت نہیں رکھتے، کسی اور کا کیا بھلا کریں گے؟کسی اور کی جھولی کیا بھریں گے؟ کون کسی کو نواز سکتا ہے کہ بندہ نواز بنے؟ کون مشکل کشا ہو سکتا ہے کہ مشکل کشائی کرے؟ کس کے پاس کچھ ہے کہ وہ دے اور داتا کہلائے؟ دستگیری کرنے کی کس میں طاقت ہے؟ اور جو دنیا سے جا چکے ہیں ،مردہ ہیں ان کو اپنی خبر نہیں، تمہاری کیا ہوگی! الٰہ ایک ہے جو آقا ہے، کبریائی اس کو زیب دیتی ہے، جبروت اس کاحق ہے، علم کا وہ مالک ہے، حکمت اس کی صفت ہے، اگر وہ راضی ہے تو کسی کی ناراضگی کا کچھ خوف نہیں ،اور اگر اس کو ناراض کر لیا جائے،دوسروں کو راضی کرنے کے لیے، تو پھر کوئی نہیں ہے کہ بگڑی بنا سکے؟ اس کی پکڑ بہر حال آئے گی، اس کا عذاب برس کے رہے گااور سارے جھوٹے حمایتی، عاجز اور لاچار رہ جائیں گے۔ وہی اس لائق ہے کہ اس کا حکم مانا جائے، وہی اس کا مستحق ہے کہ اس کے آگے سجدہ ریزی کی جائے، وہی اس بات کا سزاوار ہے کہ اس سے امیدیں وابستہ کی جائیں، اسی سے خوف کھایا جائے، واسطہ اور وسیلہ کے بغیر اسی سے دعائیں مانگی جائیں… اور یہ جو اللہ کے ساتھ شریک بنا لیے گئے ہیں، زندہ اور مردہ، آستانے اور قبریں، قبے اور درگاہیں، ان کے پاس کچھ نہیں۔ یہ نہ تو کچھ بنا سکتے ہیں اور نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔

یہ جن کا معاملہ، اور جن کے ایمان کا یہ عالم ہو جائے کہ وہ سب سے پہلے غیر اللہ کا انکار کریں، اور اللہ کے اقرار پر ان کا یقین جم جائے، مالک فرماتا ہے کہ صحیح معنوں میں مومن یہ ہیں اور ان کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر ہے؛ وہ جو یہ یقین رکھتے ہوں کہ ان کے مالک کا حکم، اس کا قانون، حرفِ آخر ہے، اس کی ہر بات حق اور اس کا فرمانا بجاہے اور اس کے خلاف ہر چیز باطل، ہرحکم مردود ہے ۔یہی توحید خالص اور انکار ِشرک، ایمان باﷲ کی جان ہے:

فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوۡتِ وَیُؤْمِنۡۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ (البقرۃ:۲۵۶)

دوسری صفت مومنوں کی اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ یعنی اللہ پر ایمان لائیں،اور اس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ان کا یقین جم جائے کہ وہ آخری نبی ہیں: یہی وہ نبی ہیں کہ جب سے نبوت پر فائز ہوئے ہیں، اس روز سے لے کر صور کے پھونکے جانے تک کوئی اور قانون آنے والا نہیں ہے، انہی کا دیا ہوا قانون قانون ہوگا، انہی کی بات بات رہے گی، جس معاملے میں دنیا والوں کو جو طریقہ انہوں نے بتا دیا ہے وہی حق ہے، جو اسوہ چھوڑ گئے ہیں اسی کی پیروی لازم ہے، چاہے وہ معاملہ صورت و شکل کا معاملہ ہو، رہن سہن سے متعلق ہو، لباس کی تراش و خراش کے انداز بیان کرتا ہو، عقائد سے تعلق رکھتا ہو یا عبادات و معاملات سے ،تہذیب و تمدن یا زندگی کے کسی اور گوشے سے متعلق ہو، نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جو طریقہ دے دیا ہے وہی حق اور قائم رہنے والا ہے، وہی اللہ کو پسند ہے، اور اس سے سرِمو انحراف اور اس میں معمولی سے معمولی تبدیلی ممکن نہیں کیونکہ مالک خود فرماتا ہے: وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھو‘‘جو کچھ بھی تمہیں رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم دے دیں، اسے قبول کر لو (اور یہ ’’جو‘‘ بے قید ’’جو‘‘ ہے یعنی جس معاملے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جو چیز بھی دے دیں اسے پکڑ لو) اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ‘‘ وَ اتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الْعِقَابِ (الحشر:۷) ’’اللہ سے ڈرو اللہ شدید عذاب دینے والا ہے‘‘۔

اور یہ حکم کوئی سفارش نہیں ہے،بلکہ تاکیدی حکم ہے کہ اگر تم نے اس سے روگردانی کی اور اس معاملے میں اللہ سے خوف نہ کھایا تو یاد رکھو کہ پروردگار وہ ہے جو شدید ترین عذاب دے سکتا ہے اور بد ترین عقوبت میں ڈال دینا اس کے بس میں ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی حامی و ناصر ملنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ایمان بالرسول کا تقاضہ یہ ہے کہ جو چیز بھی نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ملے، اسے بسروچشم قبول کیا جائے اور جو چیز ان کے طریقے سے متصادم ہو، قیامت بھی آجائے تب بھی نہ مانی جائے۔ وہی ایک اکیلے ہادی و رہنما ہیں اور ہر چیز انہی کی سنت پر پرکھنے کے بعد قابل قبول یا لائقِ رد ٹھہرے گی۔ اور یہ کہنے کے بعد انما المومنون الذین امنوا بااﷲ ورسولہ ثم لم یرتابوا سے پروردگار نے اس ایمان کو پابند کردیا ہے: مومن تو صرف وہی ہیں جو اللہ پر ایمان لائیں، اللہ کے رسول پر ایمان لائیں، ثُمَّ لَمْ یَرْتَا بُوْا پھر شک نہ کریں یعنی یہ ایمان متردد ایمان نہ ہو، ڈانواڈول ایمان نہ ہو، جماجمایا ایمان ہو، ایسا ایمان جس کے اندر ریب اور شک بار نہ پا سکے۔

فرمایا جا رہا ہے کہ مومن تو دراصل یہ ہیں جو یوں مانیں اللہ اور اس کے رسول کو، جن کا دل اس طرح ٹُھک جائے کہ اگر ساری دنیا اللہ اور اس کے رسول کی کسی بات کے خلاف مل کر آواز اٹھائے اور کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کا ساتھ دے، تب بھی مومن اس کو نہ مانے گا، رد کردے گا،اپنے وجود کی ساری توانائیوں کے ساتھ ٹھکرا دے گا، اور پکارے گا کہ یہ بات بالکل غلط ہے، صرف اللہ اور اس کے رسول ہی کی بات کو صحیح ہونے کا حق پہنچتا ہے، اور یہ ساری آوازیں، یہ ساری چیخ و پکار، جاہلانہ غل ہے، شوروشغب سے زیادہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ مومن تو اس کا ساتھ دینے کی بجائے اس کوشش میں لگ جائے گا کہ اس آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ اس لیے کہ یہ ایک باطل آواز ہے،اللہ کی دشمن آواز ہے، ایمان سے برسر پیکار گروہ کی نامردانہ چیخ وپکار ہے، کائنات میں فساد کی درپے اور انسان کو جہنم کا بلاوا ہے۔

اس طرح مومن صحیح معنوں میں وہ ہے جس کا ظاہر وباطن ایک ہو؛ جس چیز کو حق جانتا ہو، اس پر عمل کرکے اس کے حق ہونے کی گواہی دے اور اگر کوئی بات اپنے اندر ایسی پائے جو ایمان کے ساتھ میل نہیں کھاتی تو اس پر لازم ہے کہ ہمت کے ساتھ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی برابر کوشش کرتا رہے۔ یہ ایمان نہیں ہے کہ کسی بات کو ناحق جانتے ہوئے صرف اس وجہ سے قبول کر لے کے دنیا کا چلن یہی ہے، یہاں رہنا ہے تو اس سے مفر نہیں۔ مومن تو زبان سے اس بات کو رد کرے گا، عمل سے اس کی مخالفت میں زور لگائے گا، اپنے جیتے جی اس کو ماننے پرہر گز تیار نہ ہوگا چاہے کم نظر دنیا داروں کی نگاہ میں اس کا اور اس کی اولاد کا مستقبل تاریک ہوتا ہی کیوں نہ نظر آئے۔ مومن تو اس کی مخالفت میں چوٹ کھانا اپنی کامیابی سمجھے گا، اللہ سے اس کی توفیق کے لیے دعا کرے گا۔

ایمان کی ان دو شرطوں کے بعد تیسری شرط اللہ تعالیٰ نے یہ لگائی ہے کہ و جاھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اﷲ اولئک ھم الصدقون مومن تو صرف وہ ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول پر ایمان لانے کے بعد اپنے ایمان کو شک و شبہ سے بالا تر کرلیں اور پھر اللہ کی راہ میں جہاد کریں، اللہ کے کلمہ کو سربلند کرنے کے لیے، اس کے دین کو دنیا میں قائم اور ثابت کرنے کے لے اپنا مال نچھاور کریں، اپنی جانوں تک کو پیش کر ڈالیں۔یعنی یہ لوگ نچلے بیٹھنے والے نہیں ہیں؛ جس چیز کو انہوں نے حق پایا ہے اور جس کو خود اختیار کر چکے ہیں، اسی کو قائم کرنے، اسی کو سرفراز اور اسی کو جاری کرنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں گے۔ ان کی کوشش یہ ہوگی کہ جس اعتقاد اور عمل نے ان کی کایا پلٹ دی ہے ،وہ ساری دنیا کے ساتھ یہی سلوک کرے۔ پھر یہ اپنی زبانیں اسی کوشش میں استعمال کریں گے، ان کے قلم کی جنبش اس کے لیے وقف ہوگی، اور جس جس چیز کا ان سے مطالبہ ہوتا جائے گا اس کو پیش کرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ کے فضل و کرم سے اگر یہ نوبت آجائے کہ میدان قتال میں اللہ کے دشمنوں سے دوبدو ہونا پڑے تو خُم ٹھونک کر ان کے مقابل ہوں گے اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرائیں گے… پھر اللہ تعالیٰ فیصلہ کردے گا اور اس کے وعدے کے مطابق یہ فیصلہ انہی کے حق میں ہوگا۔

یہ نقشہ، پروردگارِ عالم ان سچے مومنوں کا پیش کرتا ہے جن کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر، پروردگار کی بارگاہ میں قبول اور جس کے بدلے میں مالک کی جنتیں ان کا انتظار کر رہی ہیں۔ صرف یہی لوگ اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہیں۔ انہی مومنوں سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ دنیا میں ان کی کمزوری کو زوروقوت سے، ان کی ذلت کو عزت وسرفرازی سے بدل دے گا اور ان کے ذریعے کائنات کے معاملات کو سنوارے گا۔ یہ دنیا میں اس کی رحمت کے مستحق، اس کی نصرت کے حقدار اور آخرت میں اس کے قرب سے سرفراز، اور اس کی جنتوں کی سرمدی بادشاہتیں ان کے لیے وقف ہوں گی۔ یہ آیت ہماری دعوت کا محور ہے۔ ہم اللہ کے بندوں کے سامنے یہی ایک بات رکھتے ہیں کہ اس کائنات کا مالک ایک پروردگار، ایک اللہ ہے، اسی نے آسمان کو بنایا اور زمین کو بچھایا ہے، اسی کے ہاتھ میں نفع ونقصان ہے، دینا اور روک رکھنا ہے، کسی اور کے پاس کچھ ہے ہی نہیں جو کسی کو دے سکے، سب اس کے بندے اس کی مخلوق ہیں، اس لیے صرف ایک مالک کے بندے اور غلام بنو، اسی کی فرمانبرداری کرو، اسی کے سامنے سجدہ کیا جائے، اسی کی نذرونیاز ہو،اسی سے امیدیں وابستہ کرو، اسی سے خوف کھاؤ، حاجتوں میں غائبانہ اسی کو پکارو… اس کے علاوہ جو بھی ہیں سب لاچار محض ہیں، چاہے وہ پیغمبر اور فرشتے ہوں، جن اور پری ہوں، زندہ اور مردہ بزرگ ہوں، مزارات یا قبے ہوں، قبریں یا آستانے ہوں، کسی کو داتا، کسی کو حاجت روا، کسی کو مشکل کشا، اور دستگیر نہ مانو:

فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوۡتِ وَیُؤْمِنۡۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ (البقرۃ:۲۵۶)

یعنی جس نے طاغوت سے کفر کیا اور اللہ پر ایمان لایا، تو اس نے ایسا پائیدار حلقہ پکڑ لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔ ایمان بااللہ کی اولین شرط یہ ہے کہ طاغوت سے کفر کیا جائے۔ یہ کرلیا گیا تو ایمان معتبر اور اسلام قابل قبول ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم اللہ کے بندوںکو اس بات کی طرف بلاتے ہیں کہ وہ آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دل سے اپنا آخری نبی مان لیں، زبان سے اس کی گواہی دیں اور اعمال سے اس کا ثبوت بہم پہنچائیں؛ مان لیں کہ قیامت تک ان کی شریعت اللہ کا قانون ہے، ان کی ہر بات حق ہے اور اس کی پیروی لازم ہے چاہے وہ عقیدہ و خیال کا معاملہ ہو یا عبادات و اعمال کا ،تہذیب و تمدن سے متعلق ہو یا سیاست و معاشرت سے، داڑھی کے بڑھانے اور ازار کو اونچا کرنے کا مسئلہ ہو یا صلح و جنگ اور بین الاقوامی تعلقات کا، ہمارے لیے ایک ہی اسوہ ہے۔ ایمان باﷲ اور ایمان بالرسول کی کھلی، بے لاگ، عریاں دعوت دینے کے بعد ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اس پر ایمان لاؤ، یقین محکم پیدا کرو، ایسا یقین جو شک و شبہ سے بالاتر ہو، ایسا یقین کہ تردّد اور بے اطمینانی کو اس کے اندر بار پانے کا یارانہ ہو۔ جو چیز اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت بتائے، اس پر دل ٹھک جائے، زبان سے اس کا اظہار ہو اور زندگی اسی نقشہ پر استوار کی جائے، چاہے ساری دنیا آواز ملا کر اس کے خلاف چیخ و پکار کرے اور کائنات کا ایک ایک ذرہ برسر پیکار نظر آئے، پھر بھی حق وہی ہے اور اسی کو حق پہنچتا ہے کہ قبول کیاجائے ۔ اور اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ باطل ہے، ناقابل قبول ہے، لائق رد ہے۔

پھر ہم کہتے ہیں کہ لوگو !جس دین کی صداقت پر تمہارا دل گواہ ہے، جس کلمے کو تم نے اپنے وجود کی گہرائیوں کے ساتھ قبول کیا ہے، اس کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی توانائیاں وقف کرو اور اس راہ میں جس چیز کی ضرورت پیش آتی جائے اس کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھو، جسم وجان کو اس راہ پر لگاؤ اور اپنے مال کا ایک ایک حبہ اس راہ میں صر ف کرنے کے لیے تیار رہو، زبان اس کے لیے استعمال ہو، قلم کا زور اس راہ میں صرف کیا جائے، قدم اٹھیں تو اس کام کے لیے اٹھیں اور دل اس کی سرگرمی میں دھڑکیں۔ برابر آگے بڑھنے کی کوشش ہوتی رہے۔ لوگوں کو اس کی طرف بلاؤ ۔جمع ہو کر ایک ایسا گروہ بنو جو اللہ کے لیے اپنا سب کچھ لگانے کے لیے تیار ہو جائے۔ اور پھر اس پر جم جاؤ یہاں تک کہ مالک وہ دن لے آئے جب اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے میدان قتال میں نکلنے کی خوشی بختی نصیب ہو۔ اس وقت موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراؤ، شہادت کی سعادت کو دلسوزی کے ساتھ آواز دو اور اس جاں گسل کش مکش کے پورے دور میں اللہ کی مغفرت کی طلب، اس کی رضا کے حصول اورجنتوں کی لازوال بادشاہی کی تمنا کے علاوہ کوئی دوسرا جذبہ تمہارے دل میں موجود نہ ہو۔

طریقۂ کار

ہم نے اپنے کام کے طریقہ کو بھی ٹکسالی قرآن و سنت کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے۔ ہمارا یقین یہ ہے کہ

لَا یُصْلِحُ اٰخِرَ ھٰذِہٖ الْاُمَّۃِاِلَّا مَا اَصْلَحَ اَوَّلَہَا(امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ )

جس طرح اس امت کے پہلوں کی اصلاح ہوئی تھی، قیامت تک جب کبھی بھی اصلاح ہوگی اسی طرز پر ہوگی۔ اس کے علاوہ جو کوشش بھی ہوگی رائیگاں جائیگی۔ مالک فرماتا ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤۡمِنِیۡنَ اِذْ بَعَثَ فِیۡہِمْ رَسُوۡلًا مِّنْ اَنۡفُسِہِمْ یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ (آل عمران:۱۶۴)

مومنوں پر پروردگار کا فضل عظیم، احسان بے پایاں ہے کہ اس نے ان ہی میں سے ایک ایسا رسول بھیجا جو ان کو اللہ کی کتاب پڑھ کر سناتا ہے؛ ’’وَیُزَکِّیْہِمْ‘‘اور جو ان کی خرابیوں کو دور کرتا ہے ، ان کے کھوٹ کو نکال کر ان کو سنوارتا ہے، اس نقشے پر استوار کرتا ہے جو اللہ کو محبوب اور اس کا پسندیدہ نقشہ ہے؛ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ اور ان کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے: اس کے معانی، اس کے مطالب، اس کے تقاضے، اس کی بار یکیاں واضح کرتا ہے، اس اندازسے کہ وہ ان کے دل کی گہرائیوں میں اترجائیں؛ اور ان کو ’’حکمۃ‘‘ یعنی اپنے اُسْوَہ، اپنی سنت کی تعلیم دیتا ہے، وہ ’’سُنّت‘‘ کہ ’’خیر‘‘ جس کے اندر محدود ہے اور اس کے باہر کہیں خیر کا گزر نہیں۔

ہمارے سامنے بھی یہی ایک تربیت کا طریقہ ہے۔ اس سے ہٹ کر ہمارے پاس کچھ نہیں۔ یہی ہماری ہدایت کا سامان ہے اور ہمارے صاحب سنت اکی راہ ہے۔ ہم بھی لوگوں کے سامنے تلاوت قرآن کرتے ہیں، اس کا مطلب اور مدعا بیان کرتے ہیں۔ اس کو قبول کرنے اور مان لینے اور اس پر عمل کرنے کا جو نیک انجام دنیا اور آخرت میں ہونے والا ہے، اس کی بشارت دیتے ہیں، اور نہ قبول کرنے کا جو نتیجہ نکلنے والا ہے، اس سے ڈراتے ہیں۔

اس بات کو پہنچانے کے لیے بھی ہم وہی طریقہ اختیار کرنے کے قائل اور اس پر عمل پیرا ہونے کے خواہاں ہیں جو قرآن اور سنت میں پایا جاتا ہے۔ راستوں اور گلیوں میں ہماری آواز ہے :

كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوۡرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ؕ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوۡرِ (آل عمران:۱۸۵)

یعنی لوگو! ہر شخص کو آخرکار موت کا مزا چکھنا ہے، اور اصلی اور بھرپور بدلہ تو صرف قیامت کے دن ملنے والا ہے؛اس روز جو شخص بھی جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا، وہی کامیاب ہوا، وہی بامراد ٹھہرا؛ باقی دنیا کی کامیابی اور ناکامی کے جو معیار ہیں، وہ خالی فریب اور سراسر دھوکہ ہیں۔ اور اے لوگو! جب معاملہ یہ ٹھہرا تو اس روز کی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرو جس دن کامیاب ایسے کامیاب ہوںگے کہ پھر انہیں ناکامی کا خطرہ باقی نہ رہے گا اور ناکام ایسے ناکام ٹھہریں گے، ایسے ہاریں گے کہ پھر کبھی سر نہ اٹھا سکیں گے۔

سنو! اس دن کی کامیابی حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اپنے مالک کے بندے بن جاؤ؛ وہ مالک جو اکیلا ہے، لا شریک ہے؛ اس کی اس طرح سے غلامی کرو جیسے اس کے بندے، اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود اختیار کی تھی اور اپنے ساتھیوں کو جس کی تعلیم فرمائی تھی۔ یہ آواز جس طرح ہم سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں اٹھاتے ہیں، اسی طرح مسجدوں اور گھروں کے اجتماع میں بھی ہماری یہی ایک بات ہے اور اگر کسی سے اکیلے میں بات کرنا ہو تب بھی ہم یہی ایک دعوت پیش کرتے ہیں۔ اور اس طریقے کی سند کے طور پر ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مکہ کی گلیوں اور راستوں کی دعوت حق کا ثبوت موجود ہے، صفاکی بلندی سے ان کا فرمان اس پر دلیل ہے، ذوالمجاز، مجنۃ اور عکاظ کے بازار اور میلے اس کے گواہ ہیں، ام القریٰ آنے والے تجارتی قافلوں اور موسمِ حج کے زائرین تک اس بات کو پہنچانے کا اسوہ ہمارے لیے رہنما ہے۔ اسی طرح گھر پر بلا کر، دوسروں کے گھر جا کر اللہ کی بات پہنچانا، ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ملتا ہے اور ہم ان سارے طریقوں پر عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

زبان کے ساتھ ہمارے پیش نظر قلم کی طاقت بھی ہے اور اسے بھی ہم اللہ کے دین کے معاملے میں پوری طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ عقائد کی صفائی، عبادات کی تعلیم، اخلاق کی درستگی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی بجا آوری کے لیے ہم قلم کو بڑا اور مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لیکن زبان اور قلم کی ساری کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک عمل کی پشت پناہی انہیں حاصل نہ ہو۔ اس لیے ہمارا مطالبہ اپنے نفسوں سے پہلے اور پھر ہر شخص سے یہ ہے کہ اپنی زندگی کو اسلام کی جیتی جاگتی تصویر بناؤ؛ جس کو تم نے حق مانا ہے، اس کو اپنے عمل سے حق ثابت کر دکھاؤ۔ اور یہ بات صرف اس وقت حاصل ہو سکتی ہے جب زندگی کے ایک ایک معاملے اور اس کی ہر ہر روش پر محمد عربی ا کی سنت کا خیال رہے، ان کا نقشہ، ان کا طریقہ پیش نظر ہو۔

دعوت کو اس طریقے سے پہنچا نے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو دین کی صاف، صریح، عریاں اور ٹکسالی دعوت پہنچے اور ہر شخص اپنے اندر ایک خلش، ایک بے چینی محسوس کرے، لوگ اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں اور ان کی ایک ایک خامی ان کے دل میں کانٹے کی چبھن بن کر کھٹکے اور وہ اللہ سے توفیق مانگ کر قرآن اور سنت کی روشنی میں اپنی زندگی کو بدلتے اور اسوہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف بڑھتے جائیں۔ یہ ایک لگاتار کوشش ہو جو ایک لامتناہی جدوجہد کا روپ دھارلے اور آخری سانس تک جاری رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری کوشش یہ ہے کہ جس جس پر اس دعوت کی صداقت اثر انداز ہوتی جائے، جن کا دل بھی اس سے متاثر ہو اور جو بھی یہ مان جائیں کہ یہ سچی بات ہے، سولہ آنے صحیح دعوت حق ہے، وہ ہمارے قریب آتے جائیں۔ ہم ان کو منظم کریںگے، ان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو کھنگالیں گے۔ لا علمی اور نامساعد حالات کی فراوانی کی وجہ سے، اللہ کے دشمن ماحول ،شیطانی تہذیب و تمدن ،معاشرت و سیاست کے زیر اثر، شرک وکفروالحاد کی طغیانی اور سیلاب کی پیدا کردہ جو چیز ہم ان کے اندر پائیں گے اس کی نشان دہی کریںگے، سمجھاتے رہیں گے، ایمان دارانہ اور مشفقانہ طریقہ پر دور کرنے کے لیے ہاتھ پیر ماریں گے، اور صحیح معنوں میں وہ عقائد، وہ طریقے، وہ خصائص، وہ انداز ان کی زندگیوں میں سمودینے کی کوشش کریں گے جس کے بعد ایمان میں اصلی نکھار اور زندگی میں حقیقی حلاوت پیدا ہوتی ہے۔ ہم ان کی تربیت کریں گے،ان کو قرآن اور سنت کی تعلیم دیں گے کیونکہ بغیر اس تعلیم کے یہ کام نہ تو ایک فرد کر سکتا ہے اور نہ ایک جماعت۔ اگر کوئی اجتماعیت اللہ کے دین کا یہ کام کرنے کا عزم رکھتی ہے تو اس کو وہی روش اختیار کرنا پڑے گی جو اصحاب صفہ کی روش تھی۔جو اُن کی روش تھی جنہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صحبت کی حاضری کے لیے اپنی زندگیوں کے بیشتر اوقات فارغ کر لیے تھے۔ انہی محفلوں میں وہ قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے، سنت سے واقفیت بہم پہنچاتے تھے،تقویٰ کے انداز کا وہاں اکتساب ہوتا تھا، جنت کی بشارتیں ان محفلوں میں ملتی تھیں، اور جہنم کی راہوں سے فرار کی تلاش سے یہیں ان کے دل معمور ہوجایا کرتے تھے۔

یہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ دین کا کوئی کام، کوئی دعوت، کوئی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس دعوت کے حامل، اس سے متاثر ہونے والے اسی اصلی سرچشمہ ہدایت کی طرف رجوع نہ کریں جو قرآن وسنت پر مبنی ہے۔ اس لیے ہماری کوشش یہی ہے، انشاء اللہ برابر رہے گی، آخری وقت تک رہے گی، کہ دنیا کا ایک ایک شخص اللہ کی کتاب کا جاننے والا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت کا واقف بن جائے۔ یہ تو ہمارے پیش نظر ہے،باقی ہم کہاں تک کیا کر پائیں گے یا کس میں کس حد تک جانے کی استعداد موجود ہے، یہ بات ہم اپنے مالک پر چھوڑتے ہیں۔ لیکن ہم اس پر یقین ضرور رکھتے ہیں کہ اصلی فرمانبرداری اور حقیقی تقویٰ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک اللہ کے دین کا علم حاصل نہ ہو:

اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا ؕ ُ(الفاطر : ۲۸)
’’اللہ تعالیٰ سے صحیح طور پر تو صرف علم والے بندے ہی خوف کھاتے ہیں۔‘‘

ہماری یہ کوشش ہے کہ ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا جائے۔ ہم تعداد میں اضافے کے خواہشمند ضرور ہیں لیکن اتباع سنت کے معیار سے سر مو ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ جو شخص بھی اس بات کو پیش کرنے کے لے جس قدر تڑپ رکھتا ہے، اسی قدر اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت کا چلتا پھرتا نمونہ بننے کی کوشش کرے۔ اور یہ کام سب سے مشکل کام ہے۔ چاہے ہم اپنے اندر اس کی سکت نہ پائیں مگر کام کرنے کا طریقہ یہی ہے ۔اور ہم اللہ کی توفیق، اس کی رحمت کے امیدوار بن کر اور یہ سمجھ کر کے اس کے علاوہ اگر ہم نے کسی اور طرف رخ کیا یا اپنی طرف سے کچھ ڈھیل دینے کی کوشش کی تو یہ اسلام کے ساتھ غدر اور اپنے مالک کے ساتھ بے وفائی ہوگی، اور آخر کار ہم اپنے نفسوں کو پروردگار کی پکڑ سے نہ بچا سکیں گے۔ ہم اس راستہ پر جم جانا چاہتے ہیں۔

ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو یہ بات بھی یاد دلاتے ہیں کہ اللہ کے بندو! جہاں ایمان تمہارا سب سے بڑا طاقت کا منبع ہے وہاں ایمان ہی کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ زہد اختیار کیا جائے، دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دی جائے اور وہی ہمیشہ نگاہ میں رہے اور اسی طریقہ کی پیروی ہو جو محمد عربی اکا طریقہ تھا۔ جس کو ابو بکروعمررضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اختیار کیا تھاکیونکہ تمہارے اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبان میں: اَوَّلُ صَلَا حِ ہٰذِ ہٖ الْاُمَّۃِ الْیَقِیْنُ وَالزُّ ہْدُ ‘‘اس امت کی اولین اصلاح ایمان اور زہد میں ہے’’۔ یعنی اصلاح کے لیے ایمان کے بعد زہد سب سے ضروری چیز ہے۔ جب تک زہد پیدا نہ ہو اور دنیا چھائی رہے، اس وقت تک ہر کوشش بیکار اور ہر عمل رائیگاں ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

یُوْ شِکُ الْاُ مَمُ اَنْ تَدَاعیٰ عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَا عَی الْاٰکِلَۃُ اِلٰی قَصْعَتِھَا فَقَا لَ قَائِلٌ وَ مِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ قَالَ بَلْ اَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَائٌ کَغُثَائِ السَّیْلِ وَ لَیَنْزِ عَنَّ اللہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَھَا بَۃَ مِنْکُمْ وَ لَیَقْذِ فَنَّ فِی قَلُوْ بِکُمُ الْوَھْنَ قَا لَ قَا ئِلٌ یَا رَسُوْ لَ اللہِ وَ مَا الْوَھْنُ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَ کَرَا ھِیَۃُ الْمَوْتِ (رواہ ابوداوٗد:کتاب الملاحم)

یعنی آج تم طاقتور نظر آرہے ہو، تمہاری جمعیت منظم ہے،تم سرفراز، کامران اور سربلند ہو، عزت تمہارے قدم چوم رہی ہے لیکن یُوْ شِکُ الْاُ مَمُ اَنْ تَدَاعیٰ عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَا عَی الْاٰ کِلَۃُ اِلٰی قَصْعَتِھَا: قریب ہے وہ زمانہ کہ اللہ کے باغی گروہ اور اسلام کی دشمن قومیں تم کو ہڑپ کر جانے کے لیے، تمہارے حصے بخرے کرنے کے لیے، تمہاری ہڈیاں چبا جانے کے لیے، ایک دوسرے کو اس طرح آواز دیں گی جیسے کہ دسترخوان پر بیٹھی ہوئی جماعت اپنے بڑے پیالے پر اپنے ساتھیوں کو آواز دیتی ہے کہ ادھر آؤ،یہاںتر نوالہ ملے گا۔ اسی طر ح سے تمہارے اوپر اللہ کی باغی قومیں یلغار کریں گی، ایک دوسرے کو آواز دیں گی۔ یہ سننے کے بعد کہ ایسا زمانہ بھی آجائے گا، یہ بھی ہوگا کہ اسلام جیسی جہاں کشا طاقت والی امت اس طرح سے کمزور اور فرومایہ بن جائے گی! ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا کہ

وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ افتاد جو ہم پر پڑے گی، یہ جو ہماری درگت بن جائے گی، کیا اس وجہ سے ہوگی کہ ہم اس زمانے میں تعداد میں کم ہوں گے؟جواب ملا(کم کہاں)

بَلْ اَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ: تمہاری تعداد تو گنتی کے لحاظ سے بے حساب ہوگی وَلٰکِنَّکُمْ غُثَائٌ کَغُثَائِ السَّیْلِ: تم کثرت کے لحاظ سے سیلاب کے جھاگ کی طرح ہوگے لیکن اس کثرت کے باوجود کمزور اور کم مایہ ایسے کہ جھاگ کی طرح ،جو ایک تندوتیز ہوا کے جھونکے کے سامنے پھوٹ بہتا ہے۔ تمہارا بھی یہی حال ہو جائے گا، کمزور اور بے طاقتے بن جاؤ گے اور تمہاری اس کمزوری کی وجہ سے وَلَیَنْزِعَنَّ اﷲُمِنْ صُدُوْرِعَدُوِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ: پروردگار عالم تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت اور مہابت کو نکال دے گا، اب تمہارا رعب اور تمہارا خوف ان پر باقی نہ رہے گا۔ اب وہ تم سے نہ ڈریں گے اور اس کے بجائے وَلَیَقْذِفَنَّ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ: تمہارے دلوں میں پروردگار عالم ’’وھن‘‘ کی بیماری کو پیوست کر دے گا اور پھر تمہاری یہ درگت بنے گی۔قَالَ قَائِلٌ یَا رَسُوْلُ اﷲِ وَمَالْوَھْنُ دریافت کرنے والے نے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول یہ ’’وھن‘‘ کون سی بیماری ہے جو اس طرح سے ملت کو تلپٹ کر ڈالے گی؟ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ:آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک مرکب بیماری ہے، دنیا کی محبت اور اللہ کی راہ میں ملنے والی شہادت کی موت کی کراہیت سے مل کر بنتی ہے۔ یعنی یہ امت دنیا پر فریفتہ ہو جائے گی؛مال ودولت، سازوسامان، کام ودہن کی لذت، جسم و جان کی آسائش، آنکھوں کے نظارے، کان کے سریلے بول، سواریاں اور مکان، باغات اور چشمے، سونا اور چاندی، عمارتیں اور محلات ، اس کے پیش نظر رہیں گے اور اللہ کے دین، اس کی سربلندی، اس کے راستے میں جان کھپانے اور انجام کا راس راہ میں سر دے کر سرخرو ہوجانے سے بھاگے گی۔

لوگ کہتے ہیں کہ زبان صادق کی یہ بات سچ ہو کر رہی، وہ کچھ ہوکے رہا جس کا ڈراوا دیا گیا تھا۔ یہ دنیا آج صحیح العقیدہ مسلمانوں تک پر پوری طرح چھا گئی ہے۔ اس لیے ایمان با اللہ کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو یہ پیغام بھی دیں گے کہ دنیا سے زہد اختیار کرو اور دنیا کے بجائے آخرت کی بازی کھیلو،اللہ تمہارا حامی و ناصر ہے۔

یہ ساری بات تو ہم ان سے کہتے ہیں جو اپنے کو کلمہ گو کہتے ہیں، مسلمان کہلائے جاتے ہیں۔ گویا ہمارا ان سے کہنا یہ ہے کہ

تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ (آل عمران:۶۴)
’’آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔‘‘

باقی رہے وہ جو اللہ ہی کو نہیں مانتے یا ایک سے زیادہ مالکوں کے پجاری ہیں، ان کے سامنے ہمارا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے بندو! کیا زمین اور آسمان کا یہ نظام، صبح و شام کی یہ گردش، ہواؤں کی یہ چلت پھرت، بارشوں کا برسنا، انسان کی اپنی پیدائش، اس کا شباب، اس کا بڑھاپا اور اس کی موت، کیا اس بات پر گواہ نہیں کہ یہ کائنات بے مالک نہیں ہے؟ اور کیا بے مالک کائنات کے اندر، اتفاقات پر مبنی اور حادثات سے بن جانے والی کائنات کے اندر، کبھی یہ نظم ہوسکتا ہے؟ یہ ہم آہنگی پائی جا سکتی ہے؟ اور کیا یہ ساری باتیں اس بات پر بھی گواہ نہیں ہیں کہ کائنات کا ایک اور صرف ایک ہی مالک ہو سکتا ہے اور ہے؟ ورنہ نظام کی یہ یکسانی جو آج نظر آرہی ہے، ایک لمحہ باقی نہ رہے، چاند اور سورج ٹکراجائیں، صبح و شام کے اندر جنگ چھڑ جائے، مشرق و مغرب مل جائیں، بادل کبھی نہ برسیں… اور اگر یہ بات حق ہے تو لوگو! اس بات کو مان لو کہ کائنات کا بنانے والا، اس کا آقا، اس کامدبر ایک ہی پروردگار، ایک ہی مالک ہے۔ یہ بات اگر تمہارے دل کو لگ جائے تو یہ ہماری نہیں، بلکہ قرآن اور سنت کی بات ہے۔ ان کو پڑھو، ان پر غور کرو، تمہارا دل خود پکار اٹھے گا کہ اس کتاب کا فرمانا حق اور بجا ہے، اور اس سنت کی رہنمائی حقیقی رہنمائی ہے ۔اور یہ کہ تمہیں ایک روزمرنا ہے اور مرنے کے بعد پھر اٹھنا ہے اور اٹھنے کے بعد حساب و کتاب کی باری ہے۔ اور یہ حساب و کتاب صرف اس بنیاد پر ہوگا کہ تم نے اس دین کو مان کر اس پر عمل کیا تھا یا اس کے خلاف ہو گئے تھے۔ اس ایک بات پر تمہاری زندگیوں کا دارومدار ہے۔ اگر یہ ثبوت پیش کر پائے کہ ہاں تم نے اس کو مانا تھا، اس پر عمل کیا تھا، تو اس کے بعد ہمیشہ کی بادشاہی ہے، نہ ختم ہونے والی جنتیں ہیں، تم ان لوگوں کے ساتھ ہوگے جو تم سے پہلے ایمان کی راہ پر چل چکے ہیں، اور ان سے تمہارا پیچھا چھو ٹ جائے گا جو اللہ کے باغی تھے اور قیامت کے دن آگ جن کی قیام گاہ بنے گی، تلپٹ ہوتے رہیں گے، نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔

ہم اس طریقے پر کام کرنے کے بعد امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے راستے کھول دے گا، ہم پر رحمت فرمائے گا، اپنے بندوں کو توحید کی طرف آنے کی توفیق بخشے گا، رسالت کے پیغام کو وہ قبول کریں گے، اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ان کی کوششیں وقف ہوں گی۔ پھر ان کی شکل و صورت بدلے گی، لباس بدلیں گے، گھر بار کے طور طریقوں میں انقلاب آئے گا، معاش میں حلال و حرام کی قیدیں لگیں گی، تہذیب و تمدن، معاشرت و تعلیم اللہ کا رنگ اختیار کریں گے، ظلم و جورکا خاتمہ ہو جائے گا، بے حیائی و بے پردگی کے مٹانے والے دنیا کو للکاریں گے، اور آخر کار فساد کا جنازہ اٹھ جائے گا۔ پھر یہی اللہ کے بندے جو آج دنیا پر قربان ہوئے جا رہے ہیں ،پروردگار کی جنتیں حاصل کرنے کے لیے اپنی جانیں کھپائیں گے۔ اور پھر وہ دور سعید آئے گا جس کے انتظار میں دھرتی کی آنکھیں راہ تکتے تکتے پتھر اگئی ہیں، وہ دور جس کی بشارت زبان نبوت اپہلے سے دے چکی ہے۔ یہ چیز ہمارے پیش نظر ہے۔ رہی یہ بات کہ ہماری اس دعوت کا انجام کیا ہوگا؟ تو ہم اللہ تعالیٰ سے خیر ہی کی امید رکھتے ہیں۔ ہم پروردگار کے بھروسے پرلَوْمَۃَ لَائِمْ سے بے خوف ہو کر یہ کوشش کر دیکھنا چاہتے ہیں، کیا عجب کہ مالک ہم کو اس راہ میں استقامت بخشے، صبروشکیبائی کی توفیق دے! پھر اللہ کے دین کے راستے کھلیں، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے طریقے کو قبول کرنے والے میسر آجائیں، اور پھر یہ قافلہ چل نکلے، دنیا میں اس کو سربلندی اور سرفرازی حاصل ہو، اور آخرت میں کامرانی اس کا استقبال کرے۔

آخر میں ہم اس بات کو بھی صاف کردینا چاہتے ہیںکہ ہم سے یہ سوال بھی ہو سکتا ہے اور ہو رہا ہے کہ جب تمہارے اپنے ملک میں دین کے کام کے لیے اجتماعی کوششیں ہو رہی ہیں تو تم نے ان سے دور رہ کر اپنی مسجد الگ کیوں بنائی ہے؟ اس بات کا جواب ہمارے پاس یہ ہے کہ ہماری نگاہ میں اس ملک کے اندر دو بڑے اجتماعی دینی کام ہو رہے ہیں :ان میں سے ایک کے متعلق ہماری پختہ رائے یہ ہے کہ وہ اجتماعیت خالص اور ٹکسالی قرآن اور سنت کے بجائے اسلام اور تصوف کے ملے جلے طریقہ کو زیادہ پسند کرتی ہے اور اپنے وابستگان کو بھی اسی رنگ میں رنگنے پر مصر ہے۔ یہ مراقبہ، مکاشفہ، اور مشاہدہ کا میدان ہے، اور دین خالص اس راہ میں قدم رکھنا بھی گوارہ نہیں کرسکتا۔ یہاں اللہ کا نیک بندہ مرتا نہیں ہے بلکہ نقل مکانی کرجاتا ہے، اور پھر اس کارگاہ عالم میں تصرفات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کردیتا ہے۔ یہ ایک خالص مشرکانہ نظریہ ہے۔ ہم اپنی اس رائے کی صداقت کے ثبوت میں اس اجتماعیت کا اپنا تحریری مواد پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں جس کو یہاں حرف آخر ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں آپ پائیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی قبر سے نکل کر مرے ہوئے سود خور حاجی کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور پھر اس چہرے کی سیاہی نورانیت سے بدل جاتی ہے۔ یہیں آپ کے ملے گا کہ مُلّا جامی جب اپنی نعت پڑھنے کی غرض سے قبر نبوی پر جانے لگے اور نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر وہ میری قبر پر آکر اس نعت کو پڑھے گا تو مجھے مجبوراََ قبر سے باہر ہاتھ نکال کر مصافحہ کرنا ہوگا ، تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مکہ کے والی کو منع کردیا کہ جامی ہر گز مدینہ نہ آنے پائے (فضائل درود:مولوی زکریا صاحب)۔ یہ اور اس قسم کے بے حساب واقعات اور نظریات جو اس جماعت کے نصاب میں داخل ہیں، اسلام کی روح کے منافی ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے لیے اس کے علاوہ چارہ نہیں کہ ہم اس کام سے بالکل الگ رہیں۔

رہی دوسری اجتماعیت، تو ہمارے اور ان کے تصور تو حید وسنت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ہمارا ایمان یہ ہے کہ

قُلۡ لَّا یَعْلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیۡبَ اِلَّا اللہُ ؕ (النمل:۶۵)
’’کہیے کہ غیب کی باتیں کوئی نہیں جانتا مگر ایک اللہ‘‘

اور یہ بھی کہ رحم مادر میں جو کچھ آچکا ہے اس کو بھی کوئی نہیں جانتا (لقمٰن:۳۴)،لیکن اس جماعت کے بانی اپنی خود نوشت سوانح عمری میں اپنی پیدائش کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ میری پیدائش سے تین سال پہلے ایک بزرگ نے میرے والد کو ایک لڑکے کی بشارت دی تھی اور کہا تھا اس کا نام ابوالاعلیٰ رکھنا، والد صاحب نے اس بات کو مان کر میرا یہی نام رکھا۔ ( تصوف اور تعمیر سیرت: اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ، لاہورصفحہ۱۵) اسی طرح آپ کا یہ فیصلہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص ولی اللہ کی قبر پر زورزور سے پکار کے اپنے حق میں دعا کرنے کی درخواست کرے تو اس صورت میں اعتقاد کی خرابی تو لازم نہ آئے گی مگر یہ اندھیرے میں تیر چلانا ہوگا…اور آپ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ روحیں قبروں میں آتی جاتی رہتی ہیں۔ (فاران توحید نمبر: صفحہ۸۲، ۸۳ / رسائل و مسائل حصہ سوم :صفحہ ۳۶۹) ہم ان مشرکانہ عقائد سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ سنت کے معاملے میں بھی ہم اور وہ ایک نگاہ نہیں رکھتے۔ ہم نے سورۃالحجرات کی جس آیت کو اپنی دعوت کا محور بنایا ہے وہ یہ ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنۡفُسِہِمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ (الحجرات:۱۵)

یعنی اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ اللہ کے آخری رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر مومن پختہ ایمان لائیں۔ اس لیے ہم مجبور ہیں کہ قیامت تک اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت کے علاوہ کسی دوسرے نبی کی سنت پر ہمارا عمل نہ ہو۔ گویا ہم سارے انبیاء کی سنتوں کو صحیح اور درست ماننے کے باوجود عمل کے لیے صرف ایک سنت کو جو محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت ہے، لازمی سمجھتے ہیں لیکن ہمارے یہ بھائی اپنی دعوت میں اللہ کی بندگی اور انبیا٫ کی پیروی اختیار کرنے کا بلاوا دیتے ہیں۔ اس طرح سے ان کے اتباع سنت کے تصور میں کہیں زیادہ ‘‘وسعت ’’ہے۔ بلکہاَطِیْعُوْاللہَ وَاَطِیْعُوْالرَّسُوْلَ کے تحت ،ہم اللہ کے آخری رسو ل صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت ہی کو درست سمجھتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مبعوث کرنے کے بعد اپنے بندوں کو صرف ایک ہی نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تو یہاں تک فرمادیا کہ موسیٰ ں بھی اب اگر آجائیں تو ان کو بھی میری ہی پیروی کرنا پڑے گی۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ دعوت کے اس نکتے کی وجہ سے سنت محمدی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اتباع کی وہ شدید قید باقی نہیں رہتی جس کے باقی رہنے پر ہی صحیح اسلامی سیرت کی تعمیر ممکن ہے۔ ہمارا دوسرا اختلاف ان بھائیوں سے یہ ہے کہ اسلام تو اقامت دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ مگر ان کی دعوت جہاد فی سبیل اللہ کا نام لیے بغیر یہ کہتی ہے کہ ‘‘دنیا کی زمامِ کار اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کے ہاتھ سے لے کر مومنین صالحین کے ہاتھ میں دے دو’’۔ اگر صرف زمامِ کار کی منتقلی کا مسئلہ ہوتا اور یہ نہ ہوتا کہ یہ منتقلی عملاََ کس طرح وجود میں لائی جائے گی، تو اس کے لیے متعدد طریقوں کا ہونا ممکن ہے۔ایسا طریقہ بھی ہو سکتا ہے جس میں توحید، رسالت اور آخرت کی نظریاتی اور عملی جنگ میں پڑے بغیر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا جائے اور ان کی رائے کی اکثریت سے زمام کار کی منتقلی عمل میں لائی جائے۔ یہ طریقہ ‘‘پر امن’’ بھی ہے اور محفوظ بھی کیونکہ اس میں اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ توحید خالص کا وہ نعرہ بلند کیا جائے جو محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اور ان کے ساتھیوں نے مکہ میں بلند کیا تھا اور جس کی پاداش میں خود ان کا گہوارہ آتش کدہ بن گیا تھا۔

ہم اس سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ سنت کے ٹھیٹھ حقائق سے صرف نظر کر کے سنت اللہ کو بدلنا ممکن نہیں ہے۔ اگر وہ پورا کام کرنا ہے جو اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کیا تھا، تو اِس کو اُسی طرح سے کرنا ہوگا۔ وہی توحید خالص کی دعوت اٹھے گی، وہی مخالفتیں چمکیں گی، وہی آزمائشوں کی بھٹیاں بھڑکائی جائیں گی، وہی جاںگسل کش مکش وجود میں آئے گی، وہی غربت اور ہجرت کے مقامات آواز دیں گے، وہی تھوڑے سے لوگ اپنے سے کہیں زیادہ جمعیت کا مقابلہ خالص اللہ کے بھروسے پر کریں گے، اور وہی قتال فی سبیل اللہ کا فیصلہ کن معرکہ وجود میں آئے گا جو آخر کار اسلام کی فتح اور کفروشرک کی رسوائی پر ختم ہوگا۔

ہم ہر اس شخص کو جو اعلاء کلمۃ اللہ کا دعویدار ہو اور پہلے ہی قدم پر یہ اعلان کر دے کہ ہم اس کلمہ کو رائے شماری کے ذریعہ سربلند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ حق تو دیتے ہیں کہ وہ اس طریقہ کو اپنا پسندیدہ طریقہ بتلائے لیکن واللہ اس کو یہ کہنے کا حق نہیں پہنچتا کہ یہ اللہ کا مقرر کردہ طریقہ ہے، یہ وہ طریقہ ہے جس کو محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اختیار کیا تھا …کیونکہ یہ طریقہ تو صرف اسی کا طریقہ ہو سکتا ہے جو رائے عامہ کو بہرحال اپنے حق میں باقی رکھنے پر مصر ہو اور توحید کی خالص اور عریاں دعوت سے جو مضر اور تباہ کن اثرات اس رائے عامہ پر پڑ سکتے ہیں اس سے پوری طرح با خبر ہوتے ہوئے اجتناب کرے۔

یہ سب کچھ ہم نے صرف اس یقین پر پیش کیا ہے کہ ہماری دعوت حق اور ہمارا کام صحیح ہے۔ ہماری دعا ہے کہ مالک ہماری رہنمائی فرما، ہماری خطاؤں سے درگزر کر، ہمیں توبہ کی توفیق ملے، دنیا کی ذلت و رسوائی سے نجات دے اور جہنم کی سختیوں سے بچا کر ہمیں جنت کی لازوال بادشاہتوں کے سپرد کردے۔ آمین

آخر میں ہماری پکار یہ ہے کہ:

کیا کوئی ایسا ہے جو شرک کو مٹانے اور توحید خالص کو پھیلانے کے لیے ہمارا ساتھ دینے پر تیار ہو؟ اور …کہاں ہیں وہ لوگ جو صحابہ کرام کے نقوش قدم کی راہنمائی میں باطل کو مٹا کر حق کے قیام کے لیے ہمارے ہم سفر بنیں؟
زکا الرحمان
About the Author: زکا الرحمان Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.