ہم عید کیسے منائیں گے ؟

اس کا قد چھ فٹ کے لگ بھگ تھا۔ لمبا، اونچا، چوڑا، سانولے رنگ کا نوجوان مگر حد سے زیادہ سہما ہوا۔ چہرے پر مرونی چھائی ہوئی۔ میں نے فقط اتنا کہا کہ بیوی سے لڑتے ہو۔ کچھ شرم کرو۔ عورت پر ہاتھ اٹھانے یا لڑنے والے لوگ تو اچھے نہیں ہوتے۔ میری بات کے جواب میں اس نے عملاً رونا شروع کر دیا کہ جناب اس نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ میں اس کی باتوں میں آ گیا تھااور اس نے مجھے پھنسا دیا ہے۔ وہ ہمیں آج یا کل تک پکڑ لیں گے۔ ہم میاں بیوی کے ساتھ پھر کیا ہو گاآپ اندازہ نہیں ۔ دو دن بعد عید ہے لوگ خوشی میں عید منائیں مگر ہم عید کیسے منائیں گے؟ سوچیں کہ میں اور میری بیوی قید میں ہوں گے اور میرے چھوٹے چھوٹے چاروں بچے یہاں اکیلے بھو ک اور پیاس سے مر جائیں گے۔اب یہی ہماری عید ہو گی۔ یہ صرف اس کی وجہ سے ہو رہا ہے اس نے بیوی کی طرف اشارہ کیا۔ عورت مگر ڈٹ کر کھڑی تھی اور بضد تھی کہ کچھ بھی ہو جائے میں واپس نہیں جاؤں گی۔ کسی کے ہاتھ میں بھی نہیں آؤں گی۔ وہاں جانے سے تو مر جانا بہت بہتر ہے۔ یہ کہتا ہے عید کیسے منائیں گے۔ دس سال میری شادی کو ہو گئے۔ میں نے تو آج تک عید نہیں منائی۔ صرف سنتی رہی ہوں کہ آج عید ہے چھٹی کرنی ہے تو کر لو مگر مجبوریاں اتنی تھیں کہ عید کو بھی کبھی چھٹی نہیں کی۔ آج اسے عید یاد آ رہی ہے۔ میرے لئے ان کی باتیں بڑی عجیب سی تھیں۔ میں نے دونوں کو حوصلہ دیا کہ بیٹھو پوری بات بتاؤ۔ میرا خیال تھا کہ انہوں نے کوئی جرم کیا ہے اور پولیس سے پکڑے جانے کا خوف ہے۔ مجرم کی مدد پر میں یقین نہیں رکھتا مگر ہو سکتا تھا کہ کوئی ایسی بات ہو جس پر ان کی جائز مدد ہو سکے۔ میرے حوصلہ دینے پر دونوں بیٹھ گئے اور عورت نے اپنی رام کہانی شروع کی۔ میں حیرت سے سنتا رہا۔ مرد بڑا اداس اور ڈرا ڈرا ساپاس بیٹھا رہا۔

دونوں میاں بیوی میرے ہمسائے شیخ صاحب کے گھر میں رہتے ہیں۔ شیخ صاحب سعودی عرب میں کاروبار کرتے ہیں ۔ ہر دو تین ماہ کے بعد پندرہ بیس دن کے لئے بمعہ اہل و عیال اپنے گھر لاہور کا چکر ضرور لگاتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں کوئی ایک ملازم اپنے بچوں اور بیوی کے ہمراہ ان کے گھر کے سرونٹ کوارٹرز میں مقیم گھر کی دیکھ بھال کرتا ہے۔یا پھر ہم ہمسائے ان کے گھر کی خبر رکھتے ہیں۔ تقریباً ایک مہینہ پہلے شیخ صاحب واپس جاتے ہوئے یہ نیا ملازم اور اس کے بیوی بچوں کو گھر میں رکھ گئے تھے۔ کل رات سے شیخ صاحب کے گھر سے میاں بیوی کے جھگڑنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔چیخ و پکار کے علاوہ کچھ مار پیٹ بھی محسوس ہو رہی تھی چنانچہ میں نے دونوں کو بلا کر وجہ جاننے کی کوشش کی۔
عورت کہنے لگی میری شادی کو دس سال ہو چکے ہیں میرے چار بچے ہیں۔ بڑی بیٹی ۹ سال کی ہے اور سب سے چھوٹی ایک سال کی۔ درمیان میں دو بیٹے ہیں۔ شادی کے ایک ہفتے بعد ہم اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے آ گئے تھے۔ اس لئے کہ اس نے شادی کے لئے بھٹے کے مالک سے قرض لیا تھا اور وہ قرض اتارنے کے لئے ہم کام کرنے پر مجبور تھے۔ وہ قرض آج تک نہیں اتر سکا۔ اترے بھی کیسے ہم صبح سے شام تک کام کرتے ہیں ایک جگ سے مٹی کھودتے ہیں مٹی میں موجود کنکر وغیرہ صاف کرتے ہیں اور مٹی میں پانی ڈال کر اسے اسی طرح گوندھتے ہیں جس طرح آٹا گوندھا جاتا ہے۔ آٹا تو تھوڑا ہوتا ہے اس لئے ہم ہاتھ استعمال کرتے ہیں جبکہ مٹی چونکہ زیادہ ہوتی ہے اس لئے مٹی میں خود اتر کر اسے باریک اور ملائم کرنا پڑتا ہے۔ جب مٹی تیار ہو جاتی ہے تو سانچوں میں ڈال کر اینٹ بناتے اور سوکھنے ڈال دیتے ہیں۔ سارا خاندان ایک ہفتہ محنت کرتا ہے تو بمشکل پانچ ہزار کے لگ بھگ اینٹ تیار ہوتی ہے۔ پہلے معاوضہ بہت کم تھا مگر اب چار سو روپے فی ہزار ہو گیا ہے۔ ہم پورے ہفتے میں دو ہزار کے لگ بھگ کما لیتے ہیں۔ بارش ہو جائے تو سب کیا کرایا کام ضائع وہ جاتا ہے اور کوئی مزدوری نہیں ملتی۔

اس نے ایک لمبی سانس لی۔ تھوڑی دیر رکی۔ اس کی آنکھوں میں اک عزم بھی تھا اور بیتے ہوئے دکھ بھرے دنوں کی وجہ سے پانی بھی۔ مگر اس کے لہجے سے لگتا تھا کہ وہ شکست قبول نہیں کرے گی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایسی استقامت کو کوئی شکست دے بھی نہیں سکتا۔ وہ کہنے لگی میں نے جوانی کے دس سال اس کے کہنے پر ضائع کئے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مزدور کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ فقط قرض ملتا ہے اور قرض کے بدلے قید ملتی ہے جتنا قرض زیادہ ملتا ہے اتنا ہی ہم پر پابندی ہوتی ہے کہ ہم مزدوری کی جگہ سے دائیں بائیں بھی نہیں ہو سکتے۔ آج اسے عید یاد آ رہی ہے۔ میں نے تو ہر عید پر کام کیا ہے۔ عید پر کپڑے بنانے ہوں تو کیسے آمدن میں تو کچھ نہیں ہوتا قرض لینا پڑتا ہے۔ ڈھائی سال پہلے ہمارا قرض ایک لاکھ تھا اور ہم غلام تھے۔ ہم ڈھائی سال بھوکے رہے فقط مٹی ملا آٹا گوندھ کر کھاتے رہے سالن کی شکل ڈھائی سال بعد یہاں آ کر دیکھی ہے وہ بھی کسی ہمسائے نے بچا ہوا دے دیا ہے تو۔ میں چاہتی تھی کہ قرض اتر جائے۔ جس طرح میں اور میرا میاں ساری عمر مٹی کے ساتھ مٹی بن کر رہے ہیں۔ مٹی ہی کھاتے اور مٹی ہی پیتے رہے ہیں۔ میں اپنے بچوں کو ویسا نہیں بننے دوں گی۔ میں انہیں پڑھانا چاہتی تھی۔ ان کے لئے بہتر زندگی چاہتیہوں۔ اینٹوں کے بھٹے کا مالک نہیں چاہتا تھا کہ ہمارا قرض اترے وہ بہانے بہانے سے رقم دینا چاہتا تھا۔ ڈھائی سال میں بھوکے رہنے کے باوجود ہم ایک لاکھ میں سے صرف پچھتر ہزار اتار سکے۔ ابھی بقیہ پچیس ہزار تھے۔ اگر ہم وہاں رہتے تو یہ رقم پھر بڑھ جانی تھی۔ ہم بھاگ آئے۔ ہم مالک کو پچیس ہزار واپس دینا چاہتے ہیں۔ ہم آج بھی بھوکے رہتے ہیں کہ کسی طرح اس کے پیسے واپس دے دیں۔

یہاں ملازمت کرتے پچھلے ڈیڑھ ماہ میں ہم نے دس ہزار بچائے تھے۔ مالک کو اس نے باہر ایک دکان سے فون کیا کہ ہمارے پاس دس ہزار ہیں۔ آپ کو کس طرح بھیجیں؟ وہ کہتا ہے پیسے لے کر دونوں میاں بیوی خود آؤ۔ ہمیں پتہ ہے کہ وہاں گئے تو وہ ہمیں قید کر لے گا۔ اس کے ڈیرے پر پولیس بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس لئے ہم نے انکار کر دیا۔ آج میرا میاں بازار گیا تو اس ٹیلی فون والے کی دکان پر بھٹے کے مالک کے آدمی کھڑے تھے جو یقینا ہمیں پکڑنے آئے ہیں۔ بھٹے والے نے فون کی دکان والے سے علاقے کا پتہ کر لیا ہوگا۔یہ ڈر گیا ہے اور اب گھر سے باہر نہیں جا رہا کہ کہیں قابو نہ آ جاؤں مگر میں نہیں ڈرتی۔ میں مر جاؤں گی مگر اپنے بچوں کو اس عذاب سے نجات دلا کر رہوں گی۔

میں نے کہا فکر نہ کرو اس سوسائٹی کی چار دیواری کے اندر کوئی نہیں آئے گا۔ سوسائٹی سے باہر مت جانا بہت جلد حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اس دفعہ عید تم آزاد فضا میں آزاد انسانوں کی طرح مناؤ گے۔میرا رب بڑا کارساز ہے پیسوں کا بندوبست بھی کر دے گا۔آج وہ دونوں مطمن ہیں کہ عید کو عید ہی کی طرح منائیں گے ۔ مگرایک بھٹہ مزدور کے حالات بدلنے سے ان لاکھوں مزدوروں کے حا لات نہیں بدل سکتے جنہیں مزدوری میں معاوضہ نہیں ملتا،فقط قرض ملتاہے قرض۔ اور قرض کے صلے میں قید ملتی ہے فقط قید۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 437914 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More