صدر مملکت……چند توجہات

ہمارے صدر صاحب کو اپنے ملک میں تو کرنے کا کوئی کام نہیں، اس لیے وہ اکثر بیرون ملک کسی نہ کسی مصروفیت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آخر بیکار آدمی کتنے دن چاردیواری میں قید رہ سکتا ہے، خواہ وہاں زندگی کی تمام سہولتیں بھی میسر ہوں۔ انسان کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا عادی ہے ، خواہ وہ قلفے ہی بناتا رہے ۔ ایسی ہی بیروزگار ی میں خلیل خان فاختہ اڑاتے رہے اور ساغر صدیقی بیکاری سے تنگ آکر داتا دربارکے باہر ملنگوں کے ساتھ مل کر سوٹا لگاتے رہے۔

ہمارے صدر مملکت کے تقرر کے دوران قومی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ان کے گھر کا قلفہ جناب نوازشریف کو بہت پسند ہے۔ یہ قلفے کا ہی کمال ہے ورنہ کہاں قصر صدارت اور کہاں ممنوں حسین۔ صدر مملکت کے لیے اس بار بلوچستان سے بہتر کوئی آپشن نہیں تھا۔ جس قدر احساس محرومی بلوچی بھائیوں میں پایا جاتا ہے، اس کا تقاضا تھا کہ صدر مملکت کا اعزاز بلوچستان کو دیا جائے لیکن قلفہ جیت گیا اور ملکی مفاد اور نون لیگ کے لیے سالوں سے خون پسینہ ایک کرنیو الے پارٹی راہنماء شہنشاہ وقت کی نظروں میں نہ آسکے۔ جاوید ہاشمی مارشل لاء کے دور میں صعوبتیں برداشت کرنے اور اپنے جسم اور روح کو کرچی، کرچی کرنے کے لیے تھے۔ راجہ ظفر الحق، ظفر اقبال جھگڑا، غوث علی شاہ، چوہدر ی جعفراقبال، ذوالفقار کھوسہ، صابر شاہ اور ان جسے سنئیر پارٹی عہدیدارپانچ سال انتظار کرنے والی قطار میں کھڑے کر دئیے گئے۔ کون جیتا ہے تیری ذلف کے سر ہونے تک۔ کچھ امید کے سہار ے جی رہے ہیں، کچھ مایوسیوں کے اندھیروں میں بھٹکنے پر مجبور کردئیے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی روایات ہیں۔ صدرآزاد جموں وکشمیر کے لیے پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور پوری زندگی پارٹی کے نام کرنے والے چوہدری لطیف اکبر کو نامزد کیا گیا، وہ ایک تاریخی جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسمبلی میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے رواں دواں تھے کہ زرداری ہاوس سے اطلاع دی گئی کہ آپ مزید زحمت نہ کریں، صدارت کا منصب نووارد حاجی محمد یعقوب صاحب کو عطا کر دیا گیا ہے۔ کچھ لے دے کر چوہدری لطیف اکبر بھی غوث علی شاہ، راجہ ظفرالحق کی طرح مایوسیوں کے اندھیروں کی نذر ہو گئے۔ ہمارے ہاں یہی جمہوریت ہے جس پر پوری قوم لعنت بھیجتی رہتی ہے۔آج کل جو پاکستانی باورچی قومی خرچ پر شہنشاہ معظم کے ہمراہ امریکہ تشریف لے گئے ہیں، امکان ہے کہ ان میں سے ایک گورنر پنجاب اور دوسرا اگلی بار ہمارا صدر ہو۔ جیسے اتفاق فاونڈری کے سابق ملازمین ہماری کابینہ کے اہم ترین ممبران رہے ہیں اور اب بھی کابینہ ان سے خالی نہیں ہے۔

جن پارٹیوں میں ادارے نمائشی ہیں اور فیصلہ سازی فرد واحد کے ہاتھ میں ہے، وہاں یہ روز کا معمول ہے۔ معیار کہیں ذاتی وفاداری اور کہیں چمک ہے۔ کارکردگی تو اب اس ملک میں کہیں بھی معیار قرار نہیں پاتی ۔ بڑی بڑی اصول پسند جماعتوں کا بھی یہی حال ہے، پی پی پی اور نواز لیگ بیچاری تو یوں ہی بدنام ہیں۔ یہ ہمارا مشترک کلچر اور قومی اثاثہ ہے۔ جس پر آئندہ نسلیں لعنت بھیجتی رہیں گی۔

صدر مملکت کا منصب قومی وقار کی علامت ہوتا ہے، اس لیے جسے اور جیسے بھی کسی کو یہ عطا کردیا جائے، اسے اس منصب کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمارے صدر افغانستان کے نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے۔ افغانی صدر پاکستانی لباس میں اور ہمارے صدر مغربی لباس میں ملبوس ہیں۔ جیسے اقوام متحدہ میں بھارتی وزیراعظم نے ہندی میں اور ہمارے شہنشاہ معظم نواز شریف نے انگریری میں خطاب کیا۔ جو انگریزی وہ بولتے ہیں، ایسی ہی اردو ہمارے صدر آزادکشمیرحاجی یعقوب صاحب بولتے ہیں۔ نوازشریف اگر اردو میں اور حاجی یعقوب پہاڑی میں خطاب کو اپنا شعار بنا لیں تو قوم کی مزید رسوائی نہیں ہوگی۔ توجہات ہمارا فرض ہے، سو ادا کررہے ہیں۔ قلفہ نوازی اور چمک سب کچھ آف دی ریکارڈ ہے، اس پر کیا کہا جاسکتا ہے۔ یہ کہانی آپ غوث علی شاہ اور چوہدری لطیف اکبر سے سن لیں۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ زرداری اور نواز شریف کے ہاتھوں شکار ہونے والے پارٹی راہنماوں کو مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح بعد ازمرگ تصنیفات کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ قوم ان رازوں اور ان سیاسی بدعملیوں کو کسی روز تو سمجھ پائے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105311 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More