یہ دل کی بات تھی ھم سے منافقت نہ ہوئی

میں ابھی طفل مکتب ہوں سیکھنے کے عمل سے گزر رھا ہوں اور اس قابل قطعی نہیں کہ کسی پر اعتراض ، تنقید یا رائے زنی کرسکوں اور کسی کو غلط کہنا تو میرے نزدیک گناہ کبیرہ ہے بدیں وجہ کہ مجھ کم علم کے پاس کسی کو مکمل سمجھنے اور پرکھنے کیلئے اتنا علم ہی نہیں کہ اس کو بنیاد بنا کر اسے غلط ثابت کرسکوں یا اس پر تنقید اور اعتراض کرسکوں۔

تاہم جب کبھی کوئی ایسی بات پڑھتا یا سنتا ہوں کہ جو مجھے مناسب نہیں لگتی یا دل و دماغ کو ناگوار گزرتی ہے تو اس کے اظہار کی مناسب الفاظ تہذیب اور ادب کے دائرے میں کوشش کرتا ہوں اور اس معملے میں بھی مناسب احتیاط کرتا ہوں کہ میں جس بات کا اظہار کرنے چلا ہوں تو آیا اس کے منفی پہلو زیادہ ہیں یا مثبت یعنی میری اس بات کے اظہار میں اصلاح اور خیر کا پہلو کتنا نکلتا ہے سو اگر خیر اور اصلاح کا پہلو زیادہ نکلتا ہو تب میرے خیال میں ایسی بات کے اظہار میں کوئی حرج نہیں اور ایسی بات کا اظہار کردینا بہتر ھے لہذا ایسی ہر بات میں اپنی سوچ، فکر اور علم کی روشنی میں نیک نیتی کے ساتھ قلم کے ذریعے کاغز کے سپرد کر دیت ہوں ۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ ہر کال ،مضمون یا تحریر کے پیچھے اس کے لکھنے کی کوئی وجہ یا تحریک ہوتی ہےجو لکھاری کو اس کے لکھنے پر اکساتی ہے۔

اور آج اس تحریر کے پیچھے بھی ایک وجہ اور سبب موجود ہے جسنے مجھے اس کے لکھنے پر اکسایا اور وہ وجہ اور وہ سبب ہمارے بہت ہی پیارے قابل احترام منفرد لب و لہجے کے شاعر اور سینئر کالم نگار محترم جناب ظفر اقبال کا کالم “بلا ناغہ“ ہے ۔

ظفر اقبال صاحب ٢٨ جولائی٢٠٠١٢ “نئی بات“ کے کالم “بلا ناغہ“ میں کسی شاعر دوست اطہر جعفری کا تزکرہ کیا ہے ، اطہر جعفری صاحب کو میں نہیں جانتا نہ ہی کوئی ملاقات رہی ہے اور نہ ہی میں انکی شاعری اور اس کے معیار سے واقف ہوں ،یقینن اطہر جعفری صاحب ظفر اقبال صحب ہی کے جاننے والے ہیں جن سے انکا ٹیلیفونک رابطہ اور خط کتابت بھی رہتی ہے ۔ مجھے انکے روابط پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ روابط تو اچھے ہوتے ہیں اگر نیک نیتی کیساتھ اور نیک مقاصد کیلئے ہوں ۔

اصل بات جو مذکورہ “بلا ناغہ“میں مجھے ناگوار گزری وہ ہے ‘ کچھ اطہر جعفری کیلئے“ کے عنوان سے اطہر جعفری صاحب کا وہ تزکرہ ہے جو میرے نزدیک انتہائی غیر مناسب اور غیر ضروری ہے اور بلکل “بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا“ کے مصداق ہے، کیونکہ اول تو جس شخص سے فون پر آپ نے ان کی خواہش پر “کچھ“ اشعار تک سننا گوارہ نہیں کیئے ان کے نام آپ اپنا پورا کالم تحریر کر رہے ہیں؟
پھر آپ کا اپنے کال میں ایک عام قاری کو مخاطب کرکے یہ لکھنا کہ اس نے مجھ سے “ ایک بار اپنے کچھ اشعار سنانے کی خوہش ظاہر کی تو میں نے کہا کہ مجھے اپنی شاعری کے کچھ نمونے لکھ بھیجئے میں دیکھ لونگا ، چنانچہ انہوں نے پچھلے دنوں اپنی دس بارہ غزلیں کمپوز کرا کر مجھے بھجوا دیں اور بعد میں میری رائے مانگی تو میں نے کہا کہ یہ شاعری میرے ڈھب کی نہیں “

آپ کا یہ انداز یا یہ بات اور خاص طور پر ایک عم کا ری سے اس کا تذکرہ انتہائی غیر ضروری اور غیر مناسب معلوم ہوتا ہے، اور اس تمام تر تذکرے میں اطہر جعفری سے متعلق آپکی ناگواری کا احساس نمایاں ہے۔ یعنی اگر انہوں نے آپ سے فون پر کچھ اشعار سنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے آپ کو ایک استاد کی نظر سے دیکھا ایک ایسے شخص کی نظر سے دیکھا جو صاحب علم اور بصیرت ہے، جو فوں پر بھی اس کے اشعار سن کر اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ فون پر انکا کلا سن کر اسے اکیلے میں اپنی قیمتی رائے سے نوازتے اور اسے کوئی دوستانہ مشورہ دیتے یا کم از کم جوابی لفافے کے ہمراہ ان سے انکا کلام طلب کرتے اور انہیں بہترین اور مفید مشوروں کے ساتھ انکا کلام واپس لوٹا دیتے۔

اسطرح کم از کم دوسرے لگوں اور عام قارئین کو تو انکی ایسی شاعری جسکا کرافٹ تو پورا ہے مگر جو بد قسمتی سے ٹھوس اور بوجھل ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے ڈھب کی بھی نہیں ۔ کے بارے میں تو پتہ نہ چلتا۔
یعنی اگر یہ بات چیت یا یہ تذکرہ جو کہ ایک کالم کی زینت بنا ہے اگر کسی نجی محفل میں آپ اور جعفری صاحب کے مابین ہوتا تو انتہائی مناسب ہوتا کہ وہ آپ کے مفید مشوروں سے اپنے لیئے کوئی مناسب راستہ متعین کر لیتے۔

جیسا کہ آپ نے اپنے کالم میں جعفری صاحب کی شاعری کو ٹھوس اور بوجھل اور آپکے نذدیک بےڈھب فرمایا ہے تو اگر کم ازکم اس خیال اور اس رائے کو تقویت دینے کیلئے ان کے دس بارہ غزلوں جو کہ کم از کم پچاس ساٹھ اشعار تو بنتے ہیں میں سے کچھ نمونہ کے طور پر اگر آپ شامل کر لیتے تو پھر بھی کوئی صورت بنتی تھی مگر اس کے بر عکس آپ نے ان کا ایک شعر یا ایک مصرع تک اپنے اس کالم میں نہیں شامل کیا جس کالم کو آپ نے اطہر جعفری سے منسوب کیا ہے۔

یہاں آپکے مذکورہ کالم سے یہ بات بھی واضح نہیں ہوتی کہ آپ نے اپنے کالم میں اپنے ناراض دوستوں کے اشعار کوٹ کر کے انھیں راضی اور خوش کرنے کی کوشش کی ہے یا حقیقت میں جعفری صاحب کی اصلاح فرمائی ہے۔

یعنی اگر جعفری صاحب کا تذکرہ اس کالم ایسے ہی کرنا تھا جیسے گویا کسی شاعر کو مشاعرے میں بلو کر اس سے اس کا کلا م نہ سنا جائے یا اسے پڑھنے سے منع کردیا جائے ، تو اسطرح تو جعفری صاحب کا اپنے اس کالم میں تذکرہ اور پھر خاص طور پر اسطرح کا تذکرہ کرنا تو انتہائی غیر مناسب ہے اس سے تو یہ زیدہ بہتر تھا کہ انکا تزکرہ ہی نہ کیا جاتا۔

اگر صرف یہ بات تھی کہ جعفری صحب کو آپ نے اپنے ناراض دوستوں کے اشعار ہی بتانے یا انہیں اپنی پسند سے ہی آگاہ کرنا تھا تو انہیں فون پر بتاتے کہ میرا فلاں دن کا کالم پڑھ لیجئےگا اور اس کالم کے ذریعے آپ انکو اپنی پسند اور معیا ر سے بلا انکا تذکرہ کیئے آگاہ کرسکتے تھے، اسطرح جعفری صاحب آپکی پسند اور معیار سے بھی آگاہ ہو جاتے اور آپ کے مشورے پر اپنا راستہ بھی تلاش کرلیتے ۔

اس تمام تر گفتگو سے میرا قطعی کوئی ایسا مقصد نہیں کہ میں کسی کی دل آذاری کروں مگر چونکہ اس بارے میں میری اپنی رائے اور سوچ یہ تھی سو اس کا اظہار کردیا کہ اظہارکا حق سب کو حاصل ہے اور اس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے کہ اختلاف کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔


کوئی بھی پہل نہ کرنے کی ٹھان بیٹھا تھا
انا پرست تھے دونوں مفاہمت نہ ہوئی
وہ شخص اچھا لگا اس سے صاف کہ ڈالا
یہ دل کی بات تھی ہم سے منافقت نہ ہوئی

ںوٹ:٢٨ جولائی ٢٠١٢ رزنامہ “نئی بات“ کے کالم “بلا ناغہ“ پر اپنے تاثرات۔