گو نظام گو

ماضی میں ’’گوباباگو‘‘پھر ’’گولغاری گو‘‘ کے بعد’’گوزرداری گو‘‘کے نعرے گونجتے رہے لیکن ان نعروں کو وہ شہرت اور پذیرائی نہ مل سکی جونعرہ آج کل وطن عزیز پاکستان میں جگہ جگہ سنائی دے رہا ہے کوئی تقریب سرکاری ہو یا غیر سرکاری،سیاسی ہو یا غیر سیاسی یہ نعرہ لازم و ملزوم بنتا جا رہا ہے یہ نعرہ تخلیق کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ یہ نعرہ یوں زبان زدعام بن جائے گاور اتنی تیزی سے عوام الناس کے دل کی دھڑکن بن جائے گا-

جی ہاں یہ نعرہ ’’گونواز گو‘‘ ہے جوبام ثریا کو چھونے لگا ہے جس کی بازگشت نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی سنائی دے رہی ہے سوشل میڈیا پہ تو یہ نعرہ نہایت مقبول ہوچکا ہے موبائل پہ اس نعرہ سے منسلک میسج گرد ش کررہے ہیں راقم الحروف کو ایک میسج موصول ہواقارئین سے شیئر کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس میں بھی اس نعرہ کی بازگشت بڑی خوب صورتی سے سنائی دے رہی ہے میسج کچھ یوں تھا -

’’ایک روز وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صبح سویرے اٹھے اور اپنی اہلیہ محترمہ سے کہنے لگے ارے بیگم آفس میں آج کام بہت ہیں اس لئے جلدی آفس جا رہا ہوں ’’خاتون اول ‘‘نے آنکھیں کھولے بغیر بڑی معصومیت سے جواب دیا
’’گو نوازگو‘‘۔
اسی طرح ایک اور ایس ایم ایس بھی قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہے-

ایک خان صاحب (کپتان نہ سمجھا جائے )نے عیدالضحی کے لئے بکرا خریدا جب قربانی کے لئے ذبح کاوقت آیا تو خان صاحب کو بکرا ذبح کروانے کے لئے تمام تر کوششوں کے باوجود قصائی نہ مل سکا چونکہ قربانی بھی بہت ضروری تھی خان صاحب بھی پیچھے ہٹنے والے نہ تھے لہذا اس نتیجہ پہ پہنچے کہ بکرے کو خود ہی ذبح کردیا جائے کیونکہ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے عفریت میں خان صاحب نے خاٖصے مہنگے داموں جسے سکہ رائج الوقت بھی کہا جا سکتا ہے خریدا تھا چھری کانٹے لئے، بکرے کی ٹانگیں باندھیں اور لٹا دیا اب یہاں مسلہ یہ آڑھے آنے لگا خان صاحب کو ذبح کی تکبیر نہیں آتی تھی بہت پریشان ہوا ،ایک پریشانی مہنگا بکرا خریدنے کی اور دوسری پریشانی تکبیر نہ آنے کی ۔۔اچانک خان صاحب کے چہرے پہ خوشی کی ایک لہر دوڑی اور ساری پریشانی رفو چکر ہوگئی خان صاحب خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اسی خوشی میں خان صاحب نے بکرے کی شاہ رگ پہ چھری چلاتے ہوئے بلند آواز میں کچھ اس طرح تکبیر پڑھی
’’ گونواز گو‘‘ ۔۔۔۔ اور بکرا ذبح ہوگیا
جیسا کہ مندرجہ بالا تحریر میں لکھاگیا ہے کہ ’’گونوازگو‘‘ کو عوام میں بے پناہ پذیرائی ملی ہے پاکستان میں جلسہ گاہیں ہوں یا جنرل بس اسٹینڈز،ایئرپورٹس ہوں یا ریلوے اسٹیشن جہاں جہاں حکومت وقت کے عہدیداراور کارکنان نظر آتے ہیں عوام کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے ’’گو نوازگو‘‘۔
گزشتہ روز بھی لاہور میں ایک دلچسپ واقعہ رونما ہوا اس کی روداد کچھ یوں ہے-

پی ایم اے کی تقریب حلف برداری میں ایک ڈاکٹر نے’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگائے جس پر دیگر ڈاکٹروں نے اس پر تشدد کیا، خواجہ سلمان رفیق کی تقریر کے دوران مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سلمان پتل نے جذباتی انداز میں کھڑے ہو کر گو نواز گو کے نعرے لگا دیئے۔ شرکاء نے پہلے تو انہیں روکنے کی کوشش کی بات نہ ماننے پر تھپڑ رسید کر دیئے چہرہ بھی نوچ لیاپی ایم اے کی حلف برداری تقریب میں بدنظمی کے بعد پولیس بھی پہنچ گئی تاہم صوبائی مشیر صحت نے اسے کارروائی سے روک دیا۔ دوسری جانب لاہور میں خواتین یوتھ کنونشن کی تقریب تھی جس میں قومی وومن کرکٹ ٹیم بھی تقریب میں شریک تھی۔ تقریب کے دوران کچھ دیر کیلئے لائٹ چلی گئی اسی دوران ہال میں بیٹھی بعض خواتین نے ’’گو نواز گو ‘‘کے نعرے لگانا شروع کر دیا گیا-

خیبر پختون خوا کے سابق وزیر اعلی پیر صابر شاہ جن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے وہ بھی ایک بار جوش خطابت میں ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگاگئے ان کی زبان کی پھسلن انہیں بہت دور لے گئی پارٹی میں موصوف کے لئے خاصی دشواریاں پیدا ہو چکی ہیں -

ملک کے ممتاز قانون دان چوہدری اعتزاز احسن نے وزیر اعظم پاکستان کو مشورہ دے ڈالا ان کا کہنا ہیکہ عمران خان کے دھرنے اوربڑے جلسے اتنے اہم نہیں لیکن ’’گو نوازگو‘‘ کا نعرہ وزیراعظم نواز شریف کا پیچھا کررہا ہے، اس نعرے سے تبدیلی کا رنگ نظرآرہا ہے۔ اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف فی الحال عوامی اجتماعات میں نہ آئیں اور عوام سے دور رہ کر گزارا کریں-

’’گونوازگو‘‘ کی صدائیں بلند کرنے والے سیاسی لوگوں کے لئے یہ ایک نعرہ ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں کیونکہ یہ بھی چہرے مہرے بدلنے کے علم بردار دکھائی دیتے ہیں انہی سیاسی لوگوں کی خیبر پختون خوا میں حکومت ہے یہ بھی وہاں کوئی تبدیلی نہ لا سکے کیونکہ پہلے بھی خیبر پختون خوا میں ایک سے زائد عیدیں ہوا کرتی تھیں اور اب بھی یہی عالم ہے جس حکومت کے خلاف یہ نعرہ بلند کر رہے ہیں انہوں نے عوام کی تبدیلی کے لئے کچھ کیا اور نہ ہی خود کچھ کر پائے-

عوام نے موجودہ حکومت کو اس لئے منتخب کیا تھا کہ ملک عزیز میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت،دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ،بے روزگاری کاخاتمہ،بڑھتی ہوئی مہنگائی کا عفریت اوربجلی کی قیمتوں میں اضافے پہ کنٹرول ہوگا لیکن ایک سال بعد ہی عوام کے سارے خواب چکناچور ہوچکے ہیں لاقانونیت،دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ،بیروزگاری اپنے عروج پہ ہے مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکل کر بے لگام ہوچکا ہے اور بجلی کے بل ہرماہ عوام پہ بجلی بن بن کر گر رہے ہیں ایسے حالات میں عوام نے’’ گونوازگو‘‘ کا نعرہ لگانا شروع کردیا -

اس ملک میں چہرے نہیں نظام کے بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک نواز کی روانگی سے کوئی دوسرا نواز جیسا پاکستانی عوام کا مقدر ہوگا اور ہر آنے والا پہلے سے بدتر ہوگا جب سے پاکستان بنا ہے تب سے یہی ہوتا آرہا جب تک نظام میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک بھٹو،شریف،زرداری،مزاری،لغاری ،چوہدری ،قریشی،ہاشمی،نکئی ،مخدوم،پیرذادے،رانے ،ٹوانے،مگھرانے،کھوسے عوام کی تقدیروں سے کھیلتے رہیں گے غربت و افلاس،بے روزگاری،لاقانونیت،دہشگردی اور مہنگائی کے بادل یونہی عوام کے سر پہ منڈلاتے رہیں گے’’چہرے‘‘ نہیں ’’نظام‘‘بدلنے کے لئے عوام ہی کو سڑکوں پہ نکلنا ہوگا لہذا’’گونوازگو‘‘ نہیں بلکہ’’گونظام گو‘‘کے نعرہ کو عوام میں روشناس کرانے کی ضرورت ہے-

Dr. B.A Khurram
About the Author: Dr. B.A Khurram Read More Articles by Dr. B.A Khurram: 606 Articles with 470198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.