شلٹر کے نام پر اربوں کے ڈاکے

پاکستان بھر میں اس وقت ساٹھ ہزار سے زائید ہاوسنگ سوسائیٹیز اور ڈیولپرز کام کر رہے ہیں۔ یہ ادارے ملک کی بارہ لاکھ ایکڑسے زائید اراضی پر قا بض ہیں۔گذشتہ بیس برسوں کے دوران یہ ادارے بے گھر اور بے سہارا لوگوں کو رہائش فراہم کرنے کے وعدوں پر دو کھرب سے زائد رقوم سے محروم کر چکے ہیں۔
ان حقائق کی روشنی میں غالبا رئیل اسٹیٹ کا کاروبار پاکیستان کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل ہے جس پر سب خاموش ہیں حالانکہ اس میں لٹنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور لوٹی جانے والی رقوم کھربوں میں ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ان ھاوسنگ سوسائیتیز کے متائژرین کی تعدادایک کروڑ سے زائد ہے جن کی رقوم یا تو مکمل طور پر ڈوب گئی ہیں یا پھر وہ رقوم کی واپسی کے وعدے پر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

اس میدان میں صرف نجی اداروں نے ہی قسمت آزمائی نہیں کی بلکہ وفاقی سکریٹیریٹ میں موجود تقریباً ساری وزارتوں کی ہاؤسنگ سوسائیٹیز نے بھی بڑھ چڑھ حصہ لیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان اداروں سے وابستہ افراد کی تعداد میں تیزی سے ہونے والے اضافے کے باعث اب اس صنعت سے چار کروڑ سے زائید لوگ وابستہ ہیں۔

ان اداروں کی زد میں آنے والے عام لوگ ہی نہیں بلکہ اعلٰی سرکاری ۔ فوجی اور غیر ملکی پاکستانی بھی شامل ہیں۔تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی میں ان ہاوسنگ سوسائیٹیز کی حالیہ تعداد دو سو سے زائد ہے جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے ترقیاتی ادروں کے ساتھ رجسٹرڈ ہاوسنگ سوسائیئتیز کی تعداد صرف ۸۲ ہے۔اور کام کرنے کا اختیار رکھنے والوں کی تعداد بیس سے زائد نہیں۔

دس سال قبل ان کے قبضہ قدرت میں ۶۱۶۸۲ ایکڑ اراضی تھی جبکہ اب صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے اور یہ مافیا ضلعی اداروں کے ساتھ مل کر اب راولپنڈی اور اسلام آباد کے گردو نواح کے چالیس کلو میٹر سے زائد رقبوں پر قابض ہو چکا ہے ۔اور شہروں کی تمام گرین بلٹس اب دفن ہو چکی ہیں۔

ایک سروے کے مطابق اس کارو بار میں شریک افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جو بظاہر پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہیں تاہم ان لوگوں نے بھی چھوٹی چھوٹی ہاوسنگ سوسائیٹیز بنا رکھی ہیں جو کسی ترقیاتی ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں۔اس کے علاوہ ترقیاتی اداروں کی جانب سے جو قیودو ضوابط رائج ہیں ان کی روشنی میں ان اداروں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ اپنے اداروں کی تمام زرائع سے تشہیر کر سکتے ہیں۔ اور مختلف ہیلوں بہانوں سے رقوم اکٹھی کر سکتے ہیں۔

بعض ادارون نے کم آمدنی والے افراد کے لئے انتہائی آسان قسطوں پر مشتمل پروگرام تشکیل دیئے ہوئے ہیں اور ان سے شلٹر کے نام پر کروڑوں روپے وصول کر رہے ہیں۔ اہک اہم اور قبل غور بات بہ ہے کہ ان کی امدنی کا کوئی باقائیدہ حساب کتاب نہں اور نہ ہی انکم ٹکس والے ان سے زیادہ پوچھ گوچھ کرنے کا تکلف کرتے ہیں۔

سب سے اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ ان سوسائیٹیز نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے گردو نواح میں چالیس کلو میٹر سے زائید اراضیون پر قبضہ کر رکھا ہے۔خیال رہے ان علاقوں سے ہمیں ماضی قریب میں بے شمار فوائید حاصل تھے جن میں سنزیاں،پھل، اجناس اور مویشوں کے لئیے چارہ وغیرہ شامل تھے جن سے اب ہم محروم ہو چکے ہیں۔ اور اب ان سہولتوں کی جگہ ان علاقوں سے فی گھرانہ چار سے سات کلو فی گھرانہ فضلہ یا گندگی برامد ہوتی ہے ۔ یقینا یہ امر سب سے زیادہ تشویشناک اور قابل غور ہے جس پر زمہ دار حکام کو پہلی فرصت میں غور کرنا ہو گا۔

Anwar Baig
About the Author: Anwar Baig Read More Articles by Anwar Baig: 22 Articles with 14113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.