انقلاب و آزادی مارچ کے احوال و اثرات

 یوم آزادی کے روز تقریبا ایک بجے آگئے پیچھے نکلنے والے انقلاب و آزادی مارچ نے قوم خصوصا لاہوریوں کو جس پریشانی میں مبتلا کررکھا تھا اس سے تقریبا نجات مل گئی ہے ان مارچز کے احوال بڑے ہی درد ناک،شرمناک،حیاء باختہ ہیں خود کو شیخ الاسلام کہلوانے والے اپنی بے پردہ خواتین کارکنوں کو پردہ تک نہ کروا سکے بے پردہ انکی خواتین میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتی رہیں آزادانہ بے پردہ گھومتی پھرتی رہیں انکے قائد نے انکو ڈنڈے پتھر پکڑنے کا حکم تو دے دیا مگر پردے کا نہیں ۔۔ ویسے بھی گستاخان صحابہ کے اتحاد میں شامل ہونے سے یہ قادری اتحاد نا پاک ہوچکا ہے۔۔ اس سے زیادہ خطرناک صورتحال آزادی مارچ کی تھی ایک عینی شاہد کے مطابق آزادی مارچ میں نوجوان لڑکیاں نیم برہنہ لباس پہن کر زمان پارک عمران کی رہائش گاہ کے آس پاس میں گھوم پھر کر شرکا ء کو بے حیاء ،بے شرم بننے کا عملا درس دیتی رہیں اس وقت وہاں لڑکیاں لڑکے مخلوط ایک دوسرے سے سرگوشیاں ہی نہیں بلکہ ان پر جان بوجھ کر گرتے دیکھے گئے مندرجہ بالا صورتحال سے عملا ثابت ہوگیا کہ قادری صاحب اور عمران خان کیسا انقلاب اور آزادی چاہتے ہیں قوم کواس صورتحال کو ہر حال میں مد نظر رکھنا ہو گا مذہب کا ٹھیکیدار اور آزادی کا علمبرادار کیسا پاکستان چاہتے ہیں ؟۔۔ مارچز میں بے پردہ ،حیاء باختہ شریک خواتین اسکی نشاندہی کر رہی ہیں ۔۔۔ جب مارچ چلے تو حکومت سے معاملات طے کرکے چلے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ زندہ دلان لاہور نے ان مارچز میں بہت کم شرکت کی ہے میں ہونے والے ماچز میں زندہ دلان لاہور کی شرکت نمایاں ہوتی تھی حالیہ جاری مارچز کی صورتحال اس سے مختلف ہے قادری اور عمران کے مارچز میں دیہاتی لوگوں نے زیادہ شرکت کی ،ہماری ملکی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جس مارچ ،احتجاج میں لاہوریے کثیر تعداد میں نہ ہوں وہ کامیاب نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ مارچ بھی مذاکرات کرکے ختم کردئیے جائیں گے جسکے لئے کام شروع ہوچکا ہے اور قائدین مارچ طے کرکے یہاں سے چلے تھے عمران خان و قادری صاحب حسب وعدہ پبلک اپنے ساتھ لے کر چلنے میں ناکام ہوئے ہیں عمران خان کا لاہور میں چند ہزار افراد کو لے کر چیونٹی کی رفتار سے چلنے کا مقصد زیادہ سے زیادہ افراد مارچ میں شریک کرنا تھا اس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ عمران خان نے دس لاکھ افراد لے کر چلنے کا اعلان کیا تھا جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے جبکہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں دس لاکھ افرادکا انتظام کر رکھا ہے تادم تحریر عمران خان کے مارچ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ چند ہزارافراد ساتھ چل رہے ہیں جو دعوے سے بہت کم ہیں اسلام آباد تک پہنچنے تک دونوں پارٹیاں زیادہ سے زیادہ اڑھائی لاکھ افراد جمع کر سکیں گیں دوسری طرف قادری صاحب تو انقلابی ہیں اور انقلابیوں کے پاس تو افراد انتہائی کم بھی ہوتو کوئی بات نہیں ہے واضح رہے کہ حکومت نے انقلابیوں کے لئے الگ جگہ کا اہتمام کر رکھا ہے۔۔ اگر انقلابی آزادی کے متوالے بن گئے تو قادری صاحب تو پی ٹی آئی کی بی ٹیم بن جائیں گے البتہ قادری صاحب نے لاہور کی جذباتی تقریروں کے بعد اپنے گرتے ہوئے گراف کے پیش نظر حکومت پر پریشر ڈالنے کے لئے عمران خان کی جماعت کو استعمال کیا جس میں وہ کامیاب ہوئے جبکہ عمران خان کی جماعت کے خاص رہنماء نے یہ پتا اسلام آباد میں اپنی تعداد اور حکومت پر پریشر بڑھانے کے لئے استعمال کیا جس کا علم خود عمران خان کو بعد میں ہوا ۔۔۔ آزادی اور انقلاب مارچ کے شرکاء کے حوالے ست مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں لیکن ایک نوجوان جو یوم آزادی پر سواری میں راقم کے ساتھ تھا نے بتایا کہ مجھے مارچ میں شامل ہونے کے لئے سات ہزار روپے کی پیش کش میرے مقامی تحریک انصاف کے لوگوں نے کی تھی اسی طرح موٹر سائیکل کے ریٹ الگ رکھے گئے تھے اگر یہ سچ ہے تو اس انقلاب و آزدای مارچ کی یقینا کوئی حیثیت نہیں کرائے کے لوگ کیا انقلاب لائیں گے انکو تو اپنی دیہاڑی سے غرض ہوتی ہے، پیٹرول ،کھانا پینا مارچ والوں کی طرف سے تھا اس مارچ کی وجہ سے کیٹرنگ والوں کی خوب چاندی ہوئی ہے لاہور کے معروف کیٹرنگ والے جن کا کھانا مارچ سے قبل شرکاء کو فری اور کثیر تعداد میں تقسیم کیا جارہا تھا ایک پیک کی اندازے کے مطابق قیمت اڑھائی سو روپے بنتی ہے ہزاروں گاڑیاں ،پیٹرول ،جرنیٹروں ،اسپیشل اہم لوگوں کی جانیں بچانے کے لئے بنائے گئے کروڑوں روپے کے کنٹینرز ودیگر اخراجات کا آڈٹ ہونا ازحد ضروری ہے لیکن اے میری مظلوم و محکوم قوم !حکومت ایسانہیں کرے گی کیونکہ حکومت کی اس وقت پھر پور کوشش ہے کہ یہ اجتماع اسلام آباد سے ڈائیلاگ کے مطابق رخصت ہو جائے یہی غنیمت ہے کیونکہ حکومت کے نزدیک آڈٹ ضروری نہیں حکومت بچانا ضروری ہے ۔۔ خیر حالیہ صورتحال کے بعد ن لیگ کی حکومت کو پریشان نہیں ہونا چاہیے ایک تو انکی تعداد وعدے سے انتہائی کم ہے دوسرا یہ مارچ والے اور انکے لوگوں کا اس موسم میں اسلام آباد بیٹھنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اکثر کرائے پر حاصل کئے گئے ہیں ۔۔مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ یہ مارچ والے مذاکرات ہی کریں گے حکومت کے گرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اسوقت فوج سمیت ملک کے تمام ادارے میاں برادران کے ساتھ ہیں مضبوط حکومت ہے حکومت کو جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے زرداری والا طریقہ اپنانا ہو گا جب یہ مارچ ختم ہو جائیں تو انکے اخراجات کا آڈٹ بھی ہونا چاہیے حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ان مہنگی ترین تقریبات کے اخراجات کا پتا لگائے کہ اس مہنگائی کے دور میں اتنا پیسہ کہاں کہاں سے آیا ہے؟ اگر وزیراعظم کی تقریر میں کی جانے والی پیش کش کو قبول کر لیا جاتا اور مارچ ملتوی ہو جاتے اور یہ پیسہ ملک کے غریبوں کے لئے وقف کر دیا جاتا تو کتنا اچھا ہوتا ؟اگر ایسا ہوتا تو غریبوں کا بھلا ہوجاتا مگر ان مارچ والوں کی اتنی تشہیر نہ ہوتی ۔۔۔برکیف اس مارچ کے ملک پر مہنگائی کے سیلاب،بے حیائی پر مبنی سیکولر معاشرے کی تشکیل کے اثرات بہت زیادہ نمایاں نظرآرہے ہیں پاکستانی قوم کو ملک کی نئی نسل کو بے حیاء بنانے کے اس مکروہ دہندے کو ناکام بنانے کے لئے خبردار رہنا ہوگا ۔۔ مزید حکومت اور عدلیہ کو بھی مندرجہ بالا امور پر ایکشن لینا چاہیے تاکہ پاکستان کے باقی ماندہ اسلامی تشخص کو بچایا جا سکے اور آزادی کے نام پر اپنی حکومت بنانے کے اس طریقے کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 242881 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.