بلاول کا دورہ پنجاب

لگ بھگ ڈیڑھ سال کے بعد پیپلز پارٹی پنجا ب کی قیادت اور کارکنان کی انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔کیونکہ گذشتہ برس ہونیوالے عام انتخابات سے تا حال پی پی پنجاب اپنے چیئرمین کے دورہ کی منتظر تھی۔قریب چار بار چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا دورہ پنجاب ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر ملتوی کیا گیا اور یوں یہ اعلانا ت شرف تکامل حاصل نہ کرسکے۔گو کہ ان دورہ جات کے التواء کی مناسب اور جاندار دلیل پیپلز پارٹی کے پاس موجود تھی۔ کیونکہ اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ خارجی اور دیگر دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں پی پی اور اس کی قیادت سرفہرست تھی اور ہے۔سانحہ کارساز،سانحہ اسلام آباد کچہری،سانحہ لیاقت باغ کہ جس میں چھ کارکنان کے علاوہ دختر مشرق بینظیربھٹو بھی درجہ شہادت پر فائز ہوئیں ۔ مندرجہ بالا اور دیگر واقعات اس امر کہ گواہ ہیں کہ پی پی اور اس کی قیادت دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پرہے۔

تاہم جب وسطیٰ پنجاب کی عوام حکمرانوں کی نا اہلیوں اور شدید بارشوں کیوجہ سے ہلاکت انگیز سیلاب کا شکار ہوئے تووفاق کی علامت اور فیڈریشن کی ضامن قیادت یعنی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سیکیورٹی خدشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پنجاب کے سیلاب متاثرین میں پہنچ گئے۔ بلاول بھٹو زرداری اس دوران سیلاب متاثرین سے گھل مل گئے اور خواتین نے چیئرمین کے بوسے بھی لئے اس موقعہ پر چیئرمین بلاول نے متاثرین سے خطاب بھی کیا۔میڈیا نے بلاول بھٹو زرداری کے دورہ کو 1973کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ سے تشبیح دی۔بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب زدہ علاقو ں کے دورہ کے بعد لاہور زرداری ہاؤس میں پنجاب قیادت اور کارکنان سے فردا فردا ملاقات کی ۔مصیبت میں مبتلاء غریب عوام نے جس طرح شہید بھٹو کے نواسے اور بی بی شہید کے بیٹے کا والہانہ استقبال کیا ،چیئرمین بلاول نے زرداری ہاوٗس میں جس طرح ایک ایک میز پر جا کے جیالوں سے تبادلہ خیال کیا جس سے جیالوں میں جوش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ۔اس جوش و جذبہ کی لہر اور پی پی کی روح میں ڈلنے والی نئی جان نے ’’بدلا ہے پنجاب‘‘ اور ’’تبدیلی‘‘ والے حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پی پی کو صوبائی پارٹی کی صورت میں دیکھنے والے اور یہ سمجھنے والے کہ گذشتہ انتخابات کے بعد پی پی ایک صوبائی جماعت کا روپ دھار چکی ہے وہ انگشت بدنداں ہیں ۔مارے حیرت کے لے دے کے ان کے پاس مظلوم عوام کی مظلوم قیادت کے وارث کی سیکیورٹی کو ہی نشانہ بنا سکے ہیں۔سنجیدہ حلقوں کو کبھی بھی یہ پسند نہ ہو گا کہ پی پی کا کردار ایک صوبائی پارٹی کے انداز میں ڈھلے۔ کیونکہ سازشوں اور کسی حد تک گذشتہ حکومتی نا اہلیوں کے باوجود پی پی ہی وہ وہ واحد جماعت ہے کہ جو یہ دعوہ کر سکتی کہ وہ وفاق کی علامت ہے اور اس کی قیادت میں اب بھی وہ فہم و فراست موجود ہے جو فیڈریشن کو قائم رکھ سکتی ہے۔

مندرجہ بالاحوصلہ افزاء نکات کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرناہو گی ۔جس طرح پنجاب کے غریب نے بلاول بھٹو زرداری کا استقبال کیا ویسا ہی جواب پیپلز پارٹی کو دینا ہوگا۔۔۔۔مگر وہ کیسے۔۔۔۔۔؟

ہماری طالب علمانہ رائے میں پی پی کو کارکنان کو متحرک کرنا ہوگا۔ چونکہ پیپلز پارٹی کا کارکن زیادہ تر غریب تر طبقہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس لئے پیپلز پارٹی کو پھر سے اپنے بنیادی منشور کی طرف پلٹنا ہو گا۔ کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب سابقہ قربانیوں اور کامیابیوں سے نئی نسل کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔جنریشن گیپ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو پھر سے انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے ۔اسٹیٹس کو کو توڑنا ہو گا سرمایہ دار،صنعتکار،جاگیردار اور جیتنے والے گھوڑوں سے ہٹ کے غریب کارکن سے مفاہمت کا رشتہ جوڑنا ہو گا۔ساٹھ فیصد سے زائد غریب کی غربت کو ختم کرنا ہو گا۔ ’’بنظیرآئے گی ۔۔۔روزگار لائے گی‘‘ کے نعرہ کو عملی جامعہ پہنانا ہو گا ۔ ’’تھرواٹرکمشن ‘‘کے انقلابی منصوبہ کی طرح کے اقدامات کو تما م ملک کے لئے پلان کرنا ہو گا۔اگر پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے طبقاتی نظام ،ارتکاز دولت،بنیادی سہولیات تک عام آدمی کی رسائی ،روزگار کی فراہمی اور جیالوں کی نظریاتی تربیت و بیداری اور منظم تنظیم سازی کا اہتمام نہ کیا گیا تو تو اس ارض پاک پر سیاسی بونوں کا راج ہو گا جس کا خمیازہ بھٹو شہید کا سیاسی بازو(غریب عوام) برداشت کرے گا۔خاکم بدہن ایسی صورت میں درخشاں ماضی اور خدمات کی حامل یہ جماعت کہیں تاریخ کی گرد میں دب نہ جائے۔

Raja Ghulam Qanbar
About the Author: Raja Ghulam Qanbar Read More Articles by Raja Ghulam Qanbar: 23 Articles with 16882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.