ماثر طرز حکمرانی اور عوام

حکومت چاہے وفاقی ہو،صوبائی ہو یا مقامی سب کا مقصد ملک کو ترقی دینا اور عوام کو سہولیات پہنچانا ہوتا ہے۔عوام کو درپیش مسائل منصفانہ انداز سے حل کرنا تمام حکومتوں کی ذمہ داری میں آتا ہے۔پاکستان میں حکومتوں کا دور عمومی طورپر 5سال پر مشتمل ہوتا ہے۔یہ کافی لمبا عرصہ ہوتا ہے۔کسی سیاسی پارٹی کی حکومت کا جب یہ دور پورا ہوجائے تو عوام کو اپنے حالات میں بہتری محسوس کرنی چاہیئے۔یہ بہتری ہر شعبہ زندگی میں نظر آنی چاہیئے۔تمام دنیا میں اب مقامی سطح کی حکومتوں کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔مقامی سطح پر لوگوں کو درپیش چھوٹے بڑے مسائل مقامی حکومتیں بڑی آسانی سے حل کرلیتی ہیں۔پاکستان میں مقامی حکومتوں کا Tenureختم ہوتے ایک لمبا عرصہ گزر گیا ہے۔لیکن ایک صوبہ بلوچستان کے علاوہ کہیں بھی نئے انتخابات نہیں ہوسکے۔یہ صورت حال عوام کے مسائل سے عدم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔گزشتہ مقامی حکومتوں کے دور میں 15۔محکمے ایسے تھے جو مقامی حکومتوں کے ماتحت تھے۔لوگ ضلعی ناظم اور تحصیل ناظم سے ملکر اپنے مسائل آسانی سے حل کروا لیتے تھے۔پرویز مشرف کا دور اگرچہ سیاسی لہاظ سے آمرانہ شمار ہوتا ہے۔لیکن مقامی حکومتوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بہتر کام سرانجام دیئے تھے۔تب کل منتخب نمائندوں کی تعداد85000تھی۔اور چھوٹی بڑی اسمبلیاں6628تھیں۔اس نظام کے خاتمے کے بعد اب عوامی نمائندوں کی تعداد صرف1207رہ گئی ہے۔ایک غریب شخص کا قومی اسمبلی کے نمائندے کو ملنا اور اپنا مسلۂ بتانا بڑا مشکل ہے۔تب اپنے مقامی ناظم سے ملنا اور اپنی بات سنانا بڑا آسان تھا۔مقامی حکومتوں کا نظام ہی مقامی افراد کے لیے کار آمد ہو سکتا ہے۔پاکستان کے صوبے اتنے بڑے بڑ ے ہیں کہ عام افراد کا صو بائی دارلحکومتوں میں جانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ رحیم یار خان کا کوئی عام آدمی لاہور آکر کام آسانی سے نہیں کروا سکتا۔اگر اس کاکام اپنے ہی شہر میں ہو جائے توا س کا وقت اور پیسہ دونوں بچیں گے۔تینوں صوبے جہا ں ابھی تک مقامی حکومتو ں کے الیکشن نہیں ہوئے۔وہاں فوراً یہ کام ہونا چاہیے ۔آجکل پنجاب اور سندھ کو سیلاب نے گھیرا ہو ا ہے۔ہزاروں گاؤ ں تباہ ہوگئے ہیں۔بے شمار مالی نقصان ہوا ہے۔اگر ہر ضلح میں ماثر مقامی حکومتیں قائم ہوتیں ۔ تو دوبارہ آبادی بڑی آسانی سے ہو سکتی تھی۔

اب پنجاب میں ایک شہباز شریف اور سندھ میں جناب قائم علی شا ہ بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے ہیں ۔طرز حکمرانی ماثراسی صورت میں ہو سکتا ہے۔جب حکمرانوں کا بلاواسطہ اور فوری تعلق عوام سے ہو۔سیلاب کے خاتمے کے بعد تینوں صوبوں کو جلد از جلد مقامی حکومتوں کا نظام قائم کردینا چاہیئے۔عدلیہ کانظام بھی ایسا ہو کہ آخری اپیل ضلعی سطح پر ہو اور مقدمہ وہیں ختم ہوجائے۔صرف آئینی مسائل ہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں آئیں۔زمین ،زر اور آپس کے دوسرے جھگڑے ضلعی سطح سے آگے نہ جائیں۔پاکستان میں ماثر طرز حکمرانی کے راستے میں ایک اور بڑی رکاوٹ قوانین پر عمل درآمد کا نہ ہونا ہے۔ہر شعبہ زندگی کے بارے بہت سے قوانین موجود ہیں۔انگریزوں کے زمانے سے لیکر اب تک بے شمار قوانین بنے ہیں۔لیکن مسلۂ ان پر عمل کرنے کا ہے۔نتائج تو جبھی نکلیں گے جب وزراء اور آفیسرز ان قوانین پر عمل درآمد کرائیں گے۔بہت کم وزراء ہیں جو ان قوانین کے بارے جانتے ہیں وہ اپنے ماتحت آفیسرز کے محتاج ہوتے ہیں۔جیسے فائل پر آفیسرز نے نوٹ لکھ دیا۔وزراء اس پر دستخط کردیتے ہیں۔وزراء کے لئے قوانین اور مسائل کے حل کو خود جانناضروری ہے۔تاکہ پتہ چلے کہ جو مسلۂ حل کیا جارہا ہے اس سے عوام کو فائدہ ہوگا یا نہیں۔ہر مسلۂ کے حل سے عوام کو فائدہ ہونا ضروری ہے۔حکومتوں کے قیام کا مقصد عوام کو سہولیات اور انصاف مہیا کرنا ہونا چاہیئے۔آفیسرز کی On the job trainingضرور ہونی چاہیئے۔ان میں عوام کی خدمت کا شعور پیدا کیا جائے۔دفتروں میں آنا،دوست و احباب سے فون پر گپ کرکے چلے جانا یہ رویہ اب بدلنا چاہیئے۔ہر آفیسرز کو اپنے محکمہ سے متعلقہ مسائل فیلڈ میں جاکر دیکھنے چاہیئے۔پولیس،ڈی۔سی۔او اور تحصیل دارکو عوامی کچہریاں لگانی چاہیئے۔تمام آفیسرز کو یہ سمجھنا چاہیئے۔کہ ان کی ملازمتوں کا اول و آخر مقصدعوام کی فلاح و بہبود ہے۔پاکستان میں اب بری بھلی جمہوریت قائم ہوگئی ہے۔حکومتیں انتخاب کے ذریعے بن رہی ہیں۔عوامی منتخب نمائندوں چاہے وہ مرکز میں ہوں یا صوبے میں ان کا مقصد بھی قوم اور ملک کے مسائل حل کرنا ہے۔یہ کام صرف اس وقت ماثر انداز سے ہوسکتا ہے۔جب سیاسی پارٹیاں مضبوط ہوں۔وہ پڑھے لکھے لوگوں کو ـٹکٹ دیں۔پاکستان میں مڈل کلاس اب کافی بڑی ہوچکی ہے۔40۔فیصد لوگ مڈل کلاس میں شامل ہیں۔بڑی سیاسی پارٹیوں کو چاہیئے کہ الیکشن میں پڑھے لکھے مڈل کلاس لوگوں کو آگے لائیں۔پرانے سیاسی خاندانوں کو چھوڑ کر سیاست میں نئے چہرے منتخب کرائے جائیں۔ایسے لوگ جب صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں آئیں گے تو یہ عوام کے مسائل سے بلا واسطہ واقف ہونگے اور ان کو آسانی سے حل کرسکیں گے۔پارٹیوں کو اپنے اندر بھی انتخاب کا نظام قائم کرنا چاہیئے۔پارٹیوں کو خاندانوں کی اجارہ داری سے نکلنا چاہیئے۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس دفعہ پنجاب اور سندھ کے وزراء اعلیٰ بالکل نئے خاندانوں سے ہوئے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔انہیں بھی عوام کی خدمت کا موقع ملنا چاہیئے تھا۔اکیسویں صدی میں ایک ہی خاندان کے لوگوں کا باربار بڑے عہدوں پر آنا عجیب سالگتا ہے۔صلاحتیں تو دوسرے لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ان صلاحیتوں سے اسی وقت فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب ایک خاندان کے علاوہ دوسروں کو بھی موقع ملے۔پاکستان میں ماثر طرز حکمرانی کے لئے اور عوام کو فائدہ پہنچانے کے لئے بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔جب قومی اور صوبائی حکومتوں کے نئے سال شروع ہوں تو ہر وزارت کے اہداف مقرر کئے جانے چاہیئے اور انہیں اخبارات اور ویب سائٹ کے ذریعے مشتہر کیاجانا چاہیئے۔سال گزرنے کے بعد ہر وزات اپنے اہداف کے حصول کے بارے بتائیں۔مکمل اہداف حاصل نہ کرنے کی وجوہات بھی بتائیں۔جمہوری حکومتوں میں پارلیمانی کمیٹیوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔عوام کو درپیش مسائل پر یہاں سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے۔ان پارلیمانی کمیٹیوں کو تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے بھی مدد لینا چاہیئے۔جیسے آج کل الیکشن رولز کی تبدیلی کے لئے تمام پارٹیوں پر مشتمل کمیٹی بنی ہوئی ہے۔اسے اپنا کام بڑے غوروحوض کے بعد کرنا چاہیئے۔کمیٹی کو پڈاٹ جیسے ادارے سے مددلینی چاہیے۔آئندہ الیکشن کے لئے ایسے رولز بنیں کہ دھاندلی کا شور ڈالنے کا کسی کوبھی موقع نہ ملے۔رولز میں خامیوں کی وجہ سے ہی آج کل پاکستان کی تاریخ کا سب سے لمبادھرنا اسلام آباد میں جاری ہے۔نئے رولز ایسے ہوں کہ صرف اصل ووٹر ہی ووٹ ڈال سکے۔گنتی بھی Fairہو۔کسی بھی مرحلے پر ووٹوں کی تعداد میں گڑ بڑ نہ ہوسکے۔Biomateric Systemسے بھی فائدہ اٹھایا جائے۔پاکستان میں عوام کی فلاح وبہبود کا انحصار مڈل کلاس کی ما ثر طرز حکمرانی سے ہے۔بڑی پارٹیوں کو پرانے جاگیردارانہ ماحول سے اب نکلنا چاہیئے۔دونوں بڑی پارٹیوں کی بقاء اب اس میں ہے کہ پڑھے لکھے مڈل کلاس کے نوجوانوں کو پارٹی میں عہدے دیئے جائیں۔ایسے ہی لوگوں کی بڑی تعداد اسمبلیوں میں جائے۔تبھی عوام کے مسائل حل ہوسکیں گے۔دنیا میں پاکستان ہر شعبہ زندگی میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ہمارا پڑوسی بھارت اب مریخ پر پہنچ گیاہے۔ہمیں بھی ترقی کرنی ہے۔اور کسی سے پیچھے نہیں رہنا۔پاکستان میں ٹیکس کی وصولی بھی قومی آمدنی کا صرف9فیصد ہے۔یہ تمام دنیا سے کم ہے۔وصولیاں ہونگیں تو ترقیاتی کام اپنے سرمائے سے ہوسکیں گے۔یہ بڑی تشویش ناک بات ہے۔کہ پاکستان میں ہر سال ٹیکس دہندگان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔اسے ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے بڑھنا ضروری ہے۔جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ عوام کے لئے ماثر حکمرانی صرف اور صرف مقامی حکومتوں سے ہی ہوسکتی ہے۔ان حکومتوں کا قیام فوری طورپر ہونا چاہیئے۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 18 Articles with 10808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.