اوپر والا ہاتھ

حاجی صاحب بنیادی طورپر ایک انسان دوست ، غریب نواز،فقیر پرور اور صلحِ کل شخصیت کے مالک تھے ، ان کے ڈیرے ،خانقاہ ،یا بیٹھک پر فجر سے مابعد المغرب تک خلق ِخدا کا ایک ہجوم ہوتا، قرب وجوارکیادوردرازسے یتیم ،بیوہ ، فقیر ،معذور ، اولاد کے ستائے ہوئے بوڑھے ماں باپ ،خیراتی اداروں کیلئے فنڈنگ کرنے والے جنٹلمین، اہل مدارس ،نیز باہمی جھگڑا واختلاف کرنے والے میراث ،تجارت ،کمپنی ، محلہ اوردکان میں اڑوس پڑوس کے شریک ،غرض ہرطبقے کے دکھی لوگ حاجی صاحب کے پاس باریاب ہوتے اور حصہ بقدر جثہ پاکر چل چلاؤ۔

حاجی صاحب کو اﷲ تعالی نے مال ،دولت ، عزت ،توقیر ، جاہ وجلال ،قام قبیلہ اور اولاد سب کچھ سے نواز اتھا ، اور دل گردہ بھی دریا نہیں سمندر کی طرح عطاکیاتھا، رنگ ،نسل ،مذہب ،زبان اور طبقات میں تفریق کے وہ قائل نہ تھے، لیکن ہوتے ہوتے موجودہ زمانے کے پُرفتن دور نے انہیں خواتین کے حوالے سے کچھ زیادہ ہی پریشان کردیا، ایک تو بے چاریوں کو میراث میں جوان کا اﷲ تعالی کی طرف سے مقررکردہ حصہ ہے ، اس سے محروم کردیا جاتاہے ،پھر بچپن میں بھائی اور ماں با پ ،بڑی عمر میں شوہر اور بچے ستاتے ہیں ،نوکر پیشہ خواتین کو سرکاری وغیر سرکاری دفاترمیں بھی بہت سی مشکلات کا سامنا رہتا ہے ، اب یہ بے چاریاں جائیں تو کہاجائیں ،پھر اگر لڑکیاں یتیم ہوجاتی ہیں ،تو لڑکوں کے بنسبت انہیں دوگنے مسائل درپیش ہوتے ہیں ، بیوہ ہوجائیں ،تو اﷲ کی امان ․․․․بوڑھی ہوجائیں اور اولاد نہ ہو تو مشکل،ہوں مگرناخلف اور نالائق ہوں ،تومت پوچھیئے ، جبکہ مردحضرات ان تمام حالات میں عورتوں کے مقابلے میں کم رنجیدہ اورکم متأثر ہوتے ہیں ،چنانچہ حاجی صاحب نے صرف خواتین کیلئے ایک گارمنٹ فیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا،جہاں ملازمت انہی کو کرنی تھی ،خودجاکر صبح سے شام تک وہاں تشریف فرماہوتے ، 500 خواتین کو ماہانہ تنخواہیں دیتا اور خوردونوش کا مکمل انتظام کرتا، ان کا دل مطمئن تھا،کہ انہوں نے بنی آدم میں سب سے زیادہ ستم رسیدہ طبقے کی باعزت داد رسی میں اپنا تگڑا حصہ ڈالا ہواہے ، ایک دن کیا دیکھتے ہیں ، کہ ان کی فیکٹری کے مین گیٹ سے ایک کتّااپنے ٹوٹے پھوٹے بدن کو گھسیٹتاہوا اندر داخل ہوا ، ایک گوشے میں درخت کے سائے تلے سستانے لگا، حاجی صاحب اس کے پاس گئے ، تو انہیں لگا کہ کتے کو کسی گاڑی نے ٹکرّماراہے ، جس سے ان کے دوپیر اور جبڑا بری طرح زخمی ہیں ، حاجی صاحب ایک لمحے کیلئے حیران وپریشان ہوگئے ،لیکن پھر انہوں نے سوچا کہ ڈاکٹر کو بلاکر اس کے ٹوٹے پیروں اور زخمی جبڑے کی مرہم پٹی کرائی جائے ، انہوں نے کسی ملازم کو بلا کر حیوانات کے ماہرڈاکٹر کو بلوایا ، ڈاکٹر کے جانے کے بعد حاجی صاحب کتے کو کچھ کھلائے یا پلائے ، تو کیسے ، اس کا منہ ہی ٹوٹاہواہے ،وہ بہت ہی متفکر ہوئے،اتنے میں وہ دیکھتے ہیں، کہ ایک دوسرا کتا گیٹ سے داخل ہوتاہے ،منہ میں کچھ ہڈی وغیرہ ہے ،اور بدن پانی سے ترو گیلا ہے ، اس دوسرے کتے نے زخمی کتے کو پہلے اپنے بالوں میں سے پانی پلایا ، پھر روزی روٹی اس کے سامنے پیش کردی ،دیکھا کہ وہ نہیں کھا سکتا ، تو پہلے اپنے منہ میں اچھی طرح چباکر گویا نرم لقمہ ونوالہ بنا کر اس کے منہ میں رکھ دیا ، یوں وہ زخمی کتا کچھ کھانے لگا، اخیر میں اپنے دم سے ایک مرتبہ پھر زخمی کوپانی پلایا۔ یوں جب تک بیمار کتا پوری طرح روبصحت نہ ہو ا،اور اپنی رزق خود تلاش کرنے کے قابل نہ رہا، یہ دوسرا کتا اس کیلئے پابندی سے انتظام کرتارہا ،اس واقعے نے حاجی صاحب کو پھر متأثر ومتفکرکردیا، انہوں نے سوچاکہ میں کیا ہوں ، اپنے لئے رزق کماتاہوں ، اور یہ خواتین بھی اﷲ کی مخلوق ہیں، مجھے اور ان کو اﷲ تعالی اسی طرح کھلائے گا پلائے گا ،محنت کی ضرورت ہی کیا ہے․․․․․انہوں نے فیکٹری تو بند نہ کی ، اپنے دوسرے بھائی کے حوالے کردی اور خود جاکر گوشہ نشیں ہوگیا،اﷲ تعالی کے یہاں سے روزی روٹی ملنے پر ایمان اور زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوگیاتھا،اﷲ تعالی توکریم ورحیم ہے ، وہ انہیں یوں بھی کہلاتارہا․․․ ایک دن ان کے یہاں بہت سے دوست واحباب آئے، انہوں نے حاجی صاحب سے سوال و استفسار کیا : حضرت جی ،آپ نے فیکٹری چھوڑدی اور فقیروں کی زندگی اپنائی، خیراتی کھانے پر گذارہ کرتے ہیں ، جبکہ پہلے آپ ہی خیرات دیا کرتے تھے، اس کی کوئی وجہ ؟ ․․․حضرت حاجی صاحب نے پورا قصہ سنایا، سب کے سب حاضرینِ مجلس دونوں کتوں کی کہانی سن کر تعجب میں پڑگئے ،سب ہی نے کہا ،بے شک روزی رساں اﷲ تعالی کی ذاتِ اقدس ہے ،کسی نے تعریف کی ، اب حاجی صاحب آپ متوکلین میں سے ہیں ،کسی نے ولی اﷲ قرار دیا ،غرض جتنے منہ اتنی تعریفیں ہوئیں ․․․․․ایک پڑھا لکھانوجوان خاموش رہا ، وہ کچھ سوچوں میں پیچاں وغلطاں بھی لگ تھا ،نوجوان نے اس مجلس میں بولنے سے گریز بھی کیاتھا ،جب خاصی دیر ہوئی ، سب جانے لگے، تو حاجی صاحب نے ان نوجوان سے پوچھا ، آپ کیوں خاموش رہے،اب جاکرانہوں نے کہا ، ارے حاجی صاحب چھوڑیں ،میں کیا کہہ سکتاہوں ،حاجی صاحب نے اصرار کیا ،تو وہ بول پڑے ،مجھے افسوس ہے اس پر ہے کہ حاجی صاحب آپ نے اس دوسرے کتے کو فالوکیوں نہ کیا، جس نے زخمی اور لاچار کتے کی مددکی ،انہیں کھانا پینا فراہم کیا،اس کی دیکھ بھال کی ؟ــ․․․ حاجی صاحب کے دل پر خاموش نوجوان کے اس تبصرے سے چوٹ لگی ،تفکرات کے بحرِ زخار میں حاجی صاحب غرقاب ہوگئے․․․نتیجتاً انہوں نے پھر سے ٹھانی اور دل ہی دل میں یہ فیصلہ کیا، کہ ’’خیرات لینی نہیں ، دینی ہے‘‘ ، چنانچہ انہوں نے ایک عظیم الشان نیٹ ورک والی کمپنی کی بنیاد رکھی ، جس میں ہزاروں ملازمین کام کرتے ہوں ، اس کا پلان بنایا، اسے وجود بخشا، اور باعزت انداز سے غریبوں کی مدد لاکھوں ، کروڑوں روپے کی صورت میں انجام دینے لگا ۔․․․․․ہمارے حبیب جناب ِ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا تھا :’’الیدُ العُلییٰ خَیر من الیدِ السُّفلٰی‘‘ ، کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ،یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے، آج اگر ہم سب اس ارشاد ِنبوی ﷺکے تناظر میں اپنا ہاتھ ’’اوپر والا ‘‘ بنادیں ،زکاۃ وخیرات لینے والے نہیں بقدر استطاعت دینے والے بن جائیں ، توہمارے معاشرے میں کوئی فقیر نہیں رہے گا ،ہمیں تو قرآن ِ کریم میں کافروں کو بھی تألیفِ قلب کیلئے زکاۃ دینے کا حکم ہے،اور ہم ہیں کہ ’’کشکول شریف ‘‘ہاتھ میں لئے اِدہراُدہر پھررہے ہیں ، نہ اﷲ پاک کے فرامین کااحساس ، نہ نبی کریم ﷺ کے مقام ومرتبے کاخیال،نہ امہ کی شان وشوکت کی فکر،نہ علامہ اقبال کے درسِ خودی کا پاس ،نہ ہی اپنی عزت وناموس اور شرم وحیاکا لحاظ،عالم ِ اسلام میں ایک دو کے علاوہ مفاد پرست حکمرانوں اور ان کے چیلوں نے امہ کا ستیا ناس کرکے اسے تباہ کرکے رکھا ہواہے،رہی سہی کسر سفید پوشوں نے پوری کردی ہے،ہر کوئی زکاۃ، خیرات،چندے، قربانی کی کھالیں اور گوشت مانگ رہاہے،حالانکہ قرآن حکیم اور صحیح احادیث میں زکاۃ کے وجوب کا جو حکم آیاہے ،اسے اسلام کا جو پانچ ارکان میں سے ایک رکن قراردیا گیاہے ، وہاں ’’اِیتاء الزکاۃ‘‘زکاۃ دینا فرض قرار دیا گیاہے ، ’’أخذ الزکاۃ‘‘یعنی زکاۃ لینا فرض نہیں کیا گیا، جبکہ ہم چیل کووں کے مانند پس خوردے اورزکا تیں لینے پر ہمیشہ کے لئے نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہیں ،بالخصوص ہمارا اہل دین طبقہ کبھی زکاۃ دینے والے نہیں بناتے اور نہ خودبنتے ہیں ، لینے والے بننے کیلئے پلان بناتے رہتے ہیں ،اب معذور، بیوہ،یتیم،فقیر، مسکین،بے روزگار،ستم رسیدہ، رنجیدہ، مقروض، اور وقتی طورپر حالات کے مارے ہوئے کیا کرینگے ،کدہر جائینگے،کس کے سامنے ہاتھ پھیلائینگے ،کس کو اپنا دکھ درد سنائینگے․․․․․․․․ لہذا سفید پوش ہوں یا کوئی اور مسلمان اچھی طرح یادرکھیں ،کہ اسلام میں بلاوجہ بھیک مانگنا حرام ہے، اوراﷲ ،رسول ﷺنیز ساری مخلوق کے یہاں’’اوپر والا ہاتھ ہی بہترہے‘‘ ۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 813904 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More