برگ و بار

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہر سال سینکڑوں گاؤں ڈوب جاتے ہیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں لیکن حکمران ہمیشہ کی طرح پانیوں میں اترنے اور تصاویر بنوانے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ عوام کی بے بسی کا اندازہ لگانا ہو تو ان بلکتے ہوئے بچوں کو دیکھئے جو بھوک پیاس سے تڑپتے ہیں اور حکمران جھنیں طفل تسلیاں دے کر واپس چلے جاتے ہیں اور پھر کبھی لوٹ کر ان کے پاس نہیں آتے ۔متاثرینِ سیلاب دھائی دیتے رہتے ہیں لیکن ان کی آہ و پکار سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔کسانوں کی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں ،ان کی سال بھر کی کمائی پانی کے بے رحم ریلوں میں بہہ جاتی ہے ۔ان کے مال مویشی پانی کی لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں اور ان کی زندگی مزید غربت کے اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے لیکن مگر مچھ کا آنسو بہانے والے قائدین بھڑکیں مارنے کی بجائے عملی اقدامات اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ پاکستان کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے اس لئے یہاں پر مون سون میں بارشیں معمول کا حصہ ہوتی ہیں ۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ بارشوں سے بچنے کیلئے اعلی انتظامات کرتی تا کہ سیلابوں سے نقصانات کا خطرہ کم ہوجاتا لیکن کسی بھی حکومت نے اس طرح کے انتظامات نہیں کئے جس سے عوام کا جا نی و مالی نقصان کم ہو جاتا جو ان کو ہر سال سیلابی نقصانات کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے ۔پسماندہ علاقوں کی بات تو ایک طرف، لاہور جیسا بڑا شہر بھی بارش کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکا ۔پورا لاہور سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا اوراس کی خوبصورتی کے سارے دعوے کاغذی ثابت ہوئے ۔ موٹر وے جس کے زور پر مسلم لیگ (ن) نے پر ۲۰۱۳؁ کے انتخابات میں اپنی کارکردگی کو معیار بنایا گیا تھا وہ بھی سیلابی پانی میں بے اثر ہوگئی اور اس کے سارے روٹ پانی سے بھر گئے۔پہلے پہل تولوگوں کو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی لاہور ہے جسے پیرس بنانے کے دعوے کئے جا رہے تھے لیکن بعد میں سب کو یقین کرنا پڑا کیونکہ پانی کی طغیانیاں کوئی دوسری ہی کہانی سنا رہی تھیں۔ غیر ملکی امداد اور قرضے جب ذاتی ولت کے ارتکاز کی بنیاد بن جائیں تو پھر ایسے ہی مناظر دیکھنے پڑتے ہیں جس میں پاکستان کا دل (لاہور) پانی میں ڈوبا ہوا نظر آتاہو ۔ہمارے ہاں تو یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ جب سیلاب منہ زور ہو جاتے ہیں تو اہلِ اثر طبقات اپنی فصلیں،گھر اور زمینیں بچانے کیلئے پانی کا رخ دوسری طرف موڑ دیتے ہیں جس سے خطرہ غریب کسانوں کی زمینوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور ان کے گھر اور زمینیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔مظفر گھڑھ میں دریا کا بند کاٹ کر جمشید دستی کی زمینوں کی طرف پانی کا رخ موڑ دیا گیا جس سے حکمرانوں کی زمینیں تو بچ گئیں لیکن غریب کسانوں کی فصلیں تباہ بربا ہو گئیں،جمشید دستی نے اس نا انصافی پر احتجاج کیا تو ان پرمقدمہ دائر کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ایک ممبر قومی اسمبلی کے ساتھ اگر اس طرح کا سلوک ہو سکتا ہے تو پھر عام کسان کس کھاتے میں ہوں گئے؟اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ محروم اور کمزاور انسانوں کی خبر گیری کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے کمزور اور غریب طبقات کاپاکستان کی سیاست میں کوئی مقام نہیں ہے ۔پنجاب پر مسلم لیگ(ن) کی حکومت پچھلی کئی دہائیوں سے ہے لیکن اس نے سیلابی تباہ کاریوں کو روکنے کیلئے کوئی انتظامات نہیں کئے۔اگر پچھلے سیلاب کی تصاویر اور تقاریر نکال کر دیکھ لیں تواندازہ ہو جائے گا کہ آج کی تقاریر اور ان تقاریر میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ سیلاب میں گرے ہوئے عوام کے کھ درد اور مصائب کا رونا رونے کے لئے تمام قائدین سیلابی پانیوں میں اترجاتے ہیں اور تصاویر بن جاتی ہیں ۔ ایک طرف میاں برادران نظر آ رہے تھے جبکہ دوسری طرف عمران خان دھرنے کے باوجود کئی علاقوں میں گئے۔ پی پی پی کے راہنما بلاول بھٹو زرداری بھی کسی سے پیچھے رہنے والے نہیں تھے وہ بھی چنیوٹ اور ملتان میں پانی میں سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کرنے کیلئے اسی وکٹ پر کھیلنے لگ گئے جس پر دوسری پارٹیوں کے راہنما کھیل رہے تھے ۔ ان کا انداز دلبرانہ تھا اور ان کی اس پہلی کوشش کو تجزیہ نگاروں نے استحسان کی نظر سے دیکھا ہے۔ان کا پانی میں اتر جانا اور متاثرین کی مدد کرنا ایک مستحسن فعل ہے جس کی تحسین کی جانی ضروری ہے ۔ عوامی حقوق کی بات کرنا اور پارٹی ورکروں کے ساتھ گھل مل جانا جیالوں کے دل جیت لینے کی ایک کوشش تھی جس میں بلاول بھٹو زرداری کامیاب رہے ہیں۔،۔

بلاول بھٹو زرداری نے ۱۱ مئی ۲۰۱۳؁ کے انتخابات کے بارے میں جو اپنا پہلا بیان دیا ہے وہ یہ ہے کہ کہ خیبر سے کراچی تک پی پی پی کے خلاف انتخا بات میں دھاندلی ہوئی ہے جس سے عمران خان کے مقدمے کو مزید تقویت ملی ہے۔یہ سچ ہے کہ پی پی پی کے اندر بھی بیک وقت کئی قسم کی سوچیں کارفرما ہیں ،پنجاب پی پی پی کی سوچ سندھ پی پی پی سے بالکل مختلف ہے۔پی پی پی پنجاب نے میاں نواز شریف کے خلاف مورچہ بندی کی ہوئی ہے اور وہ سندھی قیادت کی سیاسی سوچ کا ساتھ نہیں دے رہی کیونکہ میاں برادران کا ساتھ دے کر ان کی اپنی سیاست بالکل ٹھپ ہو جائے گی۔پی پی پی پنجاب ان انتخا بات کو دھاندلی زدہ کہتی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ نئے انتخا بات ہوں لیکن وہ بوجوہ ایسا کہہ نہیں پا رہی کیونکہ انھیں خبر ہے کہ اس وقت پی پی پی پنجاب میں بہت کمزور ہے ۔پی پی پی میں نیا خو ن دوڑانے اور اسے فعال کرنے کے لئے بلاول بھٹو زرداری کا پنجاب کا دورہ رکھا گیا تا کہ پی پی پی کے اندر زندگی کے آثار محسوس کئے جا سکیں۔ملتان میں جیالوں کی وارفتگی سے اس بات کے اشارے ضرور ملے ہیں کہ جیالے ایک دفعہ پھر متحرک ہو گئے ہیں لیکن میاں نواز شریف سے محبت کی پینگیں بڑ ھا نے کی قیمت پارٹی کو ایک دن چکانی پڑے گی کیونکہ جیالے انہی پینگوں کی کی وجہ سے پارٹی قیادت سے ناراض ہیں۔پی پی پی کا اپنا ایک کلچر ہے اور جیالے بھٹو خا ندان کے علاوہ کسی دوسرے کی قیادت تسلیم نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں پی پی پی کی قیادت جیالوں کو فعال نہیں کر سکی ۔پنجاب میں پی پی پی جس طرح غیر فعال ہے جو باعثِ تشویش ہے لہذا بلا ول بھٹو زردا ری کے حالیہ دورے سے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے۔اب یہ کس حد تک زائل ہوا ہے یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔یہ بات تو سب کی سمجھ میں آتی ہے کہ سید خورشید شاہ کی مسلم لیگ(ن) کی حمائت کرنے کی کچھ ذاتی مجبوریاں بھی ہیں کیونکہ ان کے خلاف بھی کرپشن کے کئی مقدمات نیب میں موجود ہیں جن کی سماعت ان کی سیاست کا خا تمہ کر سکتی ہے لہذا ان کی زبان سے میاں محمد نواز شریف کی تعریفوں کی سمجھ بھی آتی ہے۔اعتزاز احسن تو انتخابی دھاندلیوں کی بات کرتے ہیں لیکن خورشید شاہ ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ جمہوریت اور آئین کی حفاظت کی بات کر تے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسی جمہوریت ہے جس میں دھاندلی سے انتخابات کو جیتا جائے اور اسے ہی اصلی جمہوریت قرار دیا جائے ۔ انتخابات میں دھاندلی قومی جرم ہے اور جو کوئی ایسا کرتا ہے وہ قومی مجرم ہے۔مسلم لیگ (ن) پر یہی الزام ہے کہ اس نے پاکستانیوں کا مینڈیٹ چرایا ہے لہذاموجودہ جمہوریت کو کسی بھی صورت میں اصلی جمہو ریت نہیں کہا جا سکتا۔مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دریا کے دو ایسے کنارے ہیں جو ساتھ ساتھ تو چل سکتے ہیں لیکن ان میں ملاپ نہیں ہو سکتا۔ن دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہی انتخابات میں حصہ لینا ہے لہذا مسلم لیگ (ن) کی جمہوریت کے نام پر غیر مشروط حمائت پی پی پی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ہو گی۔ بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ دورہ پنجاب جیالوں کو یہ یقین دلانا تھا کہ پی پی پی ۲۰۱۳؁ کے انتخابات کو شفاف نہیں سمجھتی ۔یہ ایک ایسی سوچ ہے جو مسلم لیگ (ن) کی سوچ اور سٹریٹیجی سے تال میل نہیں کھاتی ۔یہ سچ ہے کہ پی پی پی دھاندلی شدہ انتخابات کے بعد نئے انتخابات کا مطالبہ نہیں کر رہی لیکن مجھے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں جب پی پی پی کو نئے انتخابات کا مطالبہ کرنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر پی پی پی کی بقا ممکن نہیں ہے۔ پی پی پی اس حقیقت کا جتنی جلدی ادراک کر لے اس کے حق میں اتنا ہی بہتر ہے نہیں تو یہ جماعت پنجاب میں قصہِ ماضی بن جائے گی اور پھر بلاول بھٹو زرداری بھی اس کے تنِ مردہ میں جان نہیں ڈال سکیں گئے کیونکہ جب فکری بنیادوں کو اپنے ہاتھوں سے خود ہی ڈھا دیا جائے تو پھر برگ و بار کہاں سے آئے گا ؟۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 447907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.