پورے ملک میں بجلی کے زائد بلنگ کے ذریعے تین ارب روپے ماہانہ کی لوٹ مار

 وزیر اعظم کی صدارت میں گذشتہ دنوں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صارفین بجلی سے اضافی بل وصول کرنے کے معاملہ پروفاقی وزارت پانی و بجلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ڈاکٹر مصدق ملک کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ صارفین سے بجلی کے زائد بل وصول کرنے کی شکایات حقیقت پر مبنی ہیں۔ وزیر اعظم کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ملک کی دس ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے تقریبا 150000 صارفین کے ڈیٹا کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بجلی کی فراہمی والی کمپنیاں تیس سے پینتیس فیصد صارفین پر ہر ماہ زائد بلنگ کر رہی ہیں۔ جس پر وزیر اعظم نے 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بل آئندہ ماہ کے بل میں ایڈجسٹ کرنے کو کہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے توانائی مصدق ملک نے اجلاس میں بجلی کے زائد بلوں پر کابینہ کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزارت پانی و بجلی کی طرف سے زائد بلوں کی واپسی اور عوامی شکایات کے ازالے کیلئے سفارشات بھی دی گئیں۔ مشیر پانی و بجلی نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ میٹر ریڈرز نے ریڈنگ کئے بغیر اندازے کے مطابق ریڈنگ ڈالی۔ اندازے کے مطابق 35فیصد صارفین کو بجلی کے زائد بل بھجوائے گئے، تقسیم کار کمپنیوں پر سر کلر ڈیٹ پر قابو پانے کا شدید دباو تھاجسکی وجہ سے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کیلئے اضافی بل بھجوائے گئے۔ جس پر وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہونے کی پیشکش کر دی تاہم وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ان کے مستعفی ہونے کی پیشکش مسترد کر دی اور کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ وفاقی کابینہ کا اجلاس ساڑھے چار گھنٹے تک جاری رہا جس میں نصف سے زائد وقت بجلی کے زائد بلوں پر بحث کی نذر ہوا۔ مسلم لیگی وزرا نے بھی کم و بیش 2گھنٹے تک بجلی کے بلوں میں اضافے پر تنقید ہی نہیں کی بلکہ وہ زائد بلوں پر پھٹ پڑے۔ اجلاس میں وفاقی کابینہ نے بجلی کے زائد بلوں کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے بجلی کے صارفین سے لئے گئے زائد بلوں کو اگلے ماہ میں ایڈجسٹ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔جبکہ وزیر اعظم نواز شریف نے بجلی کے اضافی بلوں کے معاملے کو آڈٹ کرانے کا بھی حکم دے دیا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق وزیراعظم نے اوور بلنگ پر متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کے علاوہ عوام سے ناجائز طو رپر حاصل کی گئی رقوم واپس کرنے کا بھی کہا ہے۔ اس حوالے سے بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو فوری طور پر کارروائی کر کے عوام سے ناجائز طور پر حاصل کی گئی رقوم واپس کرنے کا طریق کار وضع کر کے اس کا اعلان کرنا چاہیے تا کہ شہریوں کو ریلیف مل سکے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ عوام سے تقریبا تین ارب روپے زائد بلنگ کے صورت میں وصول کیئے جارہے ہیں۔ یہ ڈاکہ اور لوٹ مار ان قانون پسند شہریوں سے کی جارہی ہے۔ جو بجلی کا بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ اوور بلنگ پورے پاکستان میں ہورہی ہے۔ اور کراچی میں کے الیکٹرک نے اس کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ جو اعلانیہ لوگوں سے زائد بلنگ کے نام پر لاکھوں روپے وصول کر ہی ہے۔ زائد بلنگ پرملک بھر میں عوام نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں۔ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی سمیت بہت سے سیاسی گروپ بھی عوام سے ہمدردی کر اظہار کر رہے ہیں۔ عوام ابھی لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نہیں نکلے ہیں کہ انھیں زائد بلنگ کی لوٹ مار سے واسطہ پڑگیا ہے۔ اگر بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنا کام کرنے کا انداز درست کریں تو یہ معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔ بجلی کمپنیوں کے کرپٹ افسر و اہلکار عوام کو خود بجلی چوری پر آمادہ کرتے ہیں اور اس چوری ہونے والی بجلی کے بل ان شہریوں کو ڈال دیے جاتے ہیں جو چوری میں شامل نہیں ہوتے۔ زائد بلنگ کا ایک سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ اوور بلنگ میں زائد یونٹ ڈال کر سلیب تبدیل کر کے صارفین سے زیادہ بل وصول کرلیا جائے۔ نواز شریف کے سابقہ دور میں 1998 میں جب واپڈا فوج کے حوالے کیا گیا تو فوج نے بجلی کی ریڈنگ کے لیے ہر صارف کو میٹر ریڈنگ کارڈ جاری کیا تھا۔ ہر میٹر ریڈر کے لیے لازم تھا کہ وہ صارف سے کارڈ لے کر اس کے میٹر کی ریڈنگ اس کارڈ پر درج کر کے صارف کے حوالے کرے اس سے بجلی کی ریڈنگ میں گڑ بڑ کرنے کا عمل ختم ہو گیا تھا۔ لیکن اب کمپنیوں نے میٹر ریڈر کم کر دیئے ہیں اور اندازے کی بنیاد پر بلنگ کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ حکومت تمام تقسیم کار کمپنیوں کو ہدایت دے کہ ہر گھریلو اور کمرشل صارف کو میٹر ریڈنگ کارڈ جاری کرے اور میٹر ریڈر اس کارڈ پر ریڈنگ کا اندراج کر کے صارف کو واپس کرے تا کہ دفتروں میں بیٹھ کر میٹر ریڈنگ درج کرنے اور اوور بلنگ کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ اسی طرح زائد بلنگ کے طوفان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں فوری فیصلہ کر کے اس پر عمل درآمد کرانا چاہیے ۔ کراچی میں بعض علاقوں میں گھریلو نرخوں پر8 روپے فی یونٹ کے بجائے کمرشل ریٹس پر 22 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے جس کے باعث عوام ماہانہ تنخواہوں کا 30فیصد سے زائد بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں صرف کرنے پر مجبو ر نظر آتے ہیں۔ دو تین سال قبل کے ای ایس سے نے بجلی کے مارے عوام کواسلامی شریعت کی مار مارنے کا فیصلہ بھی کیا تھااور اس کے پہلے مرحلے پر کے ای ایس سی نے 21 علما اکرام سے فتویٰ حاصل کیا ہے کہ بجلی کی چوری حرام ہے۔اس بارے میں خبر بھی شائع کرائی گئی۔ لیکن عوام سے زبردستی زائد بلنگ کرنا حرام نہیں ہے۔ اس پر کے الیکٹرک کے ذمہ داروں کو سوچنا چاہیئے۔ کے الیکٹرک کے معاملات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ ایوان بالا میں اپوزیشن نے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے الیکٹرک) کی جانب سے بجلی کے صارفین کو زائد بلنگ کے معاملے پر توجہ مبذول نوٹس بھی جمع کرایا ہے۔ سینیٹ سیکر ٹر یٹ میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میاں رضا ربانی، سینیٹر عبدالقیوم سومرو، سینیٹر سعید غنی، سینیٹر مختار احمد دھامرا اور سینیٹر شاہی سید کی جانب سے جمع کرائے گئے توجہ مبذول نوٹس میں 20جون کے قومی اخبارات کی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے کراچی میں بجلی کے صارفین کو زائد بلنگ ناانصافی اور ناجائز طریقہ سے ریونیو اکٹھا کرنے کی کوشش ہے جس کا نوٹس لیا جائے۔کے الیکٹرک بلنگ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے شہر کے رہائشی اور کمرشل علاقوں میں بھاری تعداد میں ایورج بل بھیجنے کا سلسلہ زو ر پکڑ گیا، ایورج بلوں میں یونٹس کی تعداد کو 10 سے 200 گناہ زائد بتا کر سینکڑوں روپے کے بل ہزاروں میں وصول کئے جاتے ہیں، زائد بلنگ کی شکایت پر صارفین کو میٹر ٹمپرنگ اور کنڈا استعمال کرنے کے جرمانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ زیادہ تر بل میٹر ریڈنگ کے بغیر جاری کئے جاتے ہیں۔ شکایت پر کنزیومر کو بجلی چوری کا الزام لگا کر واپس کر دیا جاتا ہے۔کراچی کے تاجروں اور شہریوں نے کے الیکٹرک کی اوور بلنگ پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے جبکہ نمائندہ مارکیٹس ایسوسی ایشنز نے کے الیکٹرک کی زائد بلنگ کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔زائد بلنگ کے بارے میں جب کوئی شہری کے الیکٹرک کے دفتر شکایات کرنے جاتا ہے تو اس کو جواب دیا جاتا ہے کہ بل تو آپ کو ہر صورت میں ادا کرنا پڑے گا۔کے الیکٹرک نے ایک حربہ یہ اختیار کیا ہے کہ صارف کو یچاس ہزار کا زائد بل بھیج دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ کو میٹر سست رفتار ہے۔ یہ بجلی کے نئے میٹر لگانے کا بہانہ ہوتا ہے۔ نئے میٹر کے بارے میں عوام کی شکایات ہیں کہ یہ تیس فیصد تیز ہیں۔عوام کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ اس سلسلے میں کس سے داد و فریاد کریں۔ حالہ ہی میں کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے وفاقی محتسب اور الیکٹرک انسپکٹرز کی جانب سے شہریوں کے حق میں آنے والے فیصلوں پر عمل درآمد کے بجائے فیصلوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا شروع کردیا جس کی وجہ سے شہریوں کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہے ہیں۔ کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے 50سے زائد کیسز میں عدالتوں سے رجوع کیا ہوا ہے جب کہ وفاقی محتسب اور الیکٹرک انسپکٹرز کے پاس مجموعی طورپر 10 ہزار سے زائد شکایت التوا کا شکار ہیں۔ نیپرا نے زائد بلنگ کے ایک کیس میں کے الیکٹرک پر دس کروڑ روپے کا جرمنہ بھی کیا ہے۔ وفاقی محتسب کے کراچی آفس میں جہاں مختلف اداروں کی جانب سے شکایتوں کے دور نہ ہونے پر شہریوں کی جانب سے رجوع کیا جاتا ہے ان میں گزشتہ تین ماہ کے دوران کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے متعلق سب سے زیادہ شکایتیں جمع کرائی گئی ہیں۔ وفاقی محتسب کے کراچی آفس میں اس وقت 2000 شہریوں کی شکاتیں جمع ہیں۔ ان شکایتوں میں سب سے زیادہ شکایتیں زائد بلنگ کی ہیں۔ وفاقی محتسب آفس کا کہنا ہے کہ کے ای ایس سی کے افسران کو ان شکایتوں کے حوالے سے نوٹس جاری کیے جاتے ہیں مگر ان کی جانب سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے یہ کیسز التوا کا شکار ہیں۔ وفاقی محتسب آفس کی جانب سے شہریوں کی درخواستوں پر جب وہ دونوں جانب کا موقف سننے اور کوئی فیصلہ کرنے کے لیے عدالت لگاتے ہیں تو اس میں کے ای ایس سی کا نمائندہ شریک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ ان پر یک طرفہ فیصلہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسری جانب سے سندھ حکومت کے محکمہ انرجی ڈپارٹمنٹ کے تحت کام کرنے والے الیکٹرک انسپکٹر کے پاس بھی کے الیکٹرک کے خلاف ہزاروں درخواستیں موجود ہیں ، سب سے زیادہ درخواستیں اورنگی ٹاؤن زون اور لیاقت آباد ، گلشن اقبال زون کی ہیں ،کئی معروف صنعت کاروں نے بھی کے الیکٹرک کے خلاف کیس دائر کیا ہوا ہے۔ ان درخواستوں میں 90فیصد درخواستیں زائد بلنگ کی ہیں اور شہریوں کی جانب سے دی جانے والی درخواستوں میں لکھا گیا ہے کہ کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے ان پر بغیر کسی تحقیق اور جرم ثابت ہوئے چوری کا الزام عائد کیا اور کے الیکٹرک کے تمام علاقائی دفاتر کا عملہ صرف ایک ہی جواب دیتا ہے کہ بل جمع کرادو پھر دیکھیں گے۔ کراچی میں دو الیکٹرک انسپکٹر نے کئی کیسز میں شہریوں کے حق میں فیصلہ بھی دیا تاہم کمپنی کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا اور ان فیصلوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا جس کی وجہ سے شہری کو کئی ماہ بعد اپنے حق میں فیصلہ آنے کے باوجود انصاف نہیں مل رہا۔ حال ہی میں گلشن اقبال میں بھی کے الیکٹرک کی جانب سے سینکڑوں شہریوں کو زائد بل موصول ہوئے ہیں۔ یہ بھی شنید ہے کہ کے الیکٹرک نے اپنے عملے کو ہدایت کی ہے کہ زائد بل کرو۔ ورنہ ملازمت سے نکال دیئے جاؤ گے۔ کراچی چیمبر آف کامرس نے بھی بجلی طویل بندش پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کے الیکٹرک کا ناقص کارکردگی پر کڑی تنقید کی۔کے الیکٹرک کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ کے الیکٹرک فرنس آئل سے چلنے والے تھرمل پاور پلانٹس سے 1200 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کی صلاحیت رکھتا ہے، ایسے ہنگامی حالات میں کے الیکٹرک کو طلب کے مطابق بجلی کی پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن وہ فرنس آئل کے اخراجات سے بچنے کے لیے ایسا نہیں کیا جاتا اورتھرمل پاور پلانٹس کو بند رکھا جاتا ہے۔ عوام کوخدمات فراہم کرنے والے ادارے کو کم از کم ہنگامی حالات میں ان پلانٹس کو ضرور چلانا چاہیے تاکہ عوام کی مشکلات کو کم کیا جاسکے۔ شہر بھرکے تمام صنعتی زونز اور کمرشل مراکز میں بجلی کی سپلائی معطل ہونے کی وجہ سے تاجرو صنعتکار برادری کومالی نقصانات کا بھی سامناکرنا پڑتا ہے۔ ایک دن بجلی کی بندش سے تاجر و صنعت کار برادری کو 4 سے 5 ارب روپے کے نقصانا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کاروباری و صنعتی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور پیداواری نقصانات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔عمران خان کے دھرنے میں سول نافرمانی کی تحریک میں بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی اپیل کے جواب میں کراچی کے شہری بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں اگر ایسا ہوا تو کے الیکٹرک کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بجلی کی عدم فراہمی اور زائد بلوں کی شکایات پر فوری توجہ کی ضرورت ہے، ورنہ کراچی کے شہریوں کا پیمانہ صبر لبریز بھی ہوسکتا ہے۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین،جماعت اسلامی کی قیادت، وزیراعظم میاں محمد نوازشریف، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد،وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور متعلقہ وفاقی وصوبائی وزرا کو ملک میں زائد بلنگ کی ان جائز شکایات پرتوجہ دینی اور بجلی بحران کے حوالے سے موجودہ صورتحال کا نوٹس لینا چاہیئے۔ کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ان کمپنیوں کو انفرااسٹیکچرکو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری بھی کرنا چاہیئے، صرف بجلی کے صارفین کو دودھ دینی والی گائے سمجھ کر اس کا دودھ ہی نہیں دھونا چاہیئے۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386445 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More