حضرت ابرہیم خلیل ا ﷲ کی یادگار سنت ابراہیمی

 حضرت ابرہیم خلیل ا ﷲ کی یادگار سنت ابراہیمی،خواہشات نفسانی کی قربانی اور رضائے الٰہی کا عظیم ذریعہ

اسلامی سال کے آخری مہینے کے مخصوص ایام میں رضائے الٰہی کے لئے مخصوص جانوروں کی قربانی قرب خداوندی حاصل کرنے کا ایک موثر ترین ذریعہ اور سبب ہے ۔ساتھ ہی سنت ابراہیمی اور سرکارمدینہ ﷺ کی بھی پیاری سنت ہے ۔ اﷲ کے مقدس خلیل حضرت سیدنا ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما ا لصلاۃ و ا لسلام کی ان کے رب عزو جل سے ایسی عظیم محبت کی یاد دلاتی ’’عظیم یادگار اور سنت‘‘ ہے کہ اس یادگار کو صبح قیامت تک باقی رکھنے کے لئے اﷲ رب ا لعزت نے اپنے حبیب محمد عربی ﷺ کے ذریعے ان کی امت میں شرعی مالدار (ساڑھے باون تولا چاندی یا ساڑھے سات تولا سونا کی ملکیت یا ان میں سے کسی ایک کی مالیت روپے کی شکل میں رکھنے وا لے مالک نصاب ) عاقل ، بالغ اورمقیم پر ایام نحر (دس ذی ا لحجہ کے صبح صادق سے عید ا لاضحیٰ کی نماز پڑھنے کے بعد سے بارہویں کی عصر تک )میں واجب قرار دیا(ماخوذ : بہار شریعت : از مصنفہ مولانا امجد علی اعظمی )۔ اور یہ عمل اﷲ کی بارگاہ میں اتنا پسندیدہ اور موجب اجر و ثواب ہے کہ’’ ابن آدم کا کوئی بھی عمل یوم ا لنحر (دس ذی ا لحجہ )میں خدا کے نزدیک خون بہانے (جانور کی قربانی کرنے )سے زیادہ محبوب نہیں(سنن ترمذی ) اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبولیت میں پہونچ جاتا ہے اور جانور کے ہر بال کے بدلے میں ثواب ملتا ہے‘‘ ۔(مشکوۃ ا لمصابیح)

قربانی اﷲ کے مقدس خلیل حضرت سیدنا ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما ا لصلاۃ و ا لسلام کی ان کے رب عزو جل سے ایسی عظیم محبت کی یاد دلاتی ہے کہ رضائے الٰہی کے لئے اپنی جان اور اپنی اولاد کی پرواہ کئے بغیر حضرت ابراہیم خلیل ا ﷲ علیہ ا لسلام کا اپنے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہ ا لسلام کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ رضی ا ﷲ عنہا کے ہمراہ بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ دینا اور فرشتوں کے ذریعے ابراہیم خلیل ا ﷲ علیہ ا لسلام پر ان کے نور نظر حضرت اسمٰعیل علیہ ا لسلام کی محبت کے غلبہ کا الزام لگائے جانے کی صورت میں اﷲ تبارک و و تعالیٰ کا دنیا کے سامنے حضرت ابرہیم کی قلبی کیفیت کو واشگاف کرنا کہ میرا خلیل صرف اور صرف مجھ سے ہی حقیقی محبت کرتا ہے اور میری رضا و خوشنودی کے لئے اپنی اولاد کی بھی قربانی دے سکتا ہے اور ابراہیم خلیل ا ﷲ علیہ ا لسلام کا اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ ا لسلام کو اپنے خدائی حکم سے باخبر فرمانا اور سعادت مند بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ ا لسلام کا رب تعالیٰ کے نام پر اپنی متاع حیات کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوجانا اور حضرت اسمٰعیل علیہ ا لسلام کی جگہ جنت سے بحکم خدا وندی فرشتوں کے سردار حضرت جبرئیل علیہ ا لسلام کا دنبہ لے کر حاضر ہوجانا اور دونوں عظیم ہستیوں کا اپنے خدائی امتحان میں ایسے کامیاب ہونا کہ صبح قیامت تک اﷲ کا ان کی یادگار قائم فرمانا اور انسانوں کی جگہ جانوروں کی قربانی کا حکم دینا ہم امت محمدیہ پر اﷲ کا بے پناہ احسان عظیم ہے اور ساتھ ہی اﷲ کے مقدس خلیل حضرت سیدنا ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما ا لصلاۃ و ا لسلام کی ان کے رب عزو جل سے عظیم محبت ایسی محبت جس کے مقابلے میں نہ تو بیوی کی محبت قائم رہ سکی اور نہ ہی بیٹے کی محبت کی دیوار حائل ہوئی بلکہ یہ ثابت کردکھایا کہ محبت کا تصور صرف اور صرف رضائے الٰہی ہے اور اس کے با لمقابل جو چیزیں حائل ہو اسے راہ حق میں قربان کردینا چاہئے تاکہ قرب خداوندی کا حصول آسان ہو اور رحمت الٰہی کے حقدار ہو سکیں۔

اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم ا لحرام کی دسویں تاریخ میں کربلا کے میدان میں حق کی حفاظت کے کے لئے سید ا لشہداء امام حسین رضی ا ﷲ عنہ اور ان کے اہل خانہ کی قربانی اور آخری مہینے ذی الحجہ کی دسویں تار یخ میں سیدنا ابراہیم خلیل ا ﷲ علیہ ا لسلام کی قربانی کی ابتدا اور انتہا کے ذریعے پیغام ملتا ہے کہ اسلام میں قربانی کی بڑی اہمیت ہے اور صرف عید ا لاضحی کے موقع پرحلال جانوروں کی قربانی دے کر ہم قربانی جیسے اہم ذمہ داریوں سے سبکدوش (بری )نہیں ہو سکتے بلکہ ہمیں اپنے رب عز و جل کی رضا اور خوشنودی اور اس کے حبیب ﷺ پر نازل ہونے والے ’’دین حنیف‘‘ دین اسلام کی حمایت کے لئے اپنی غلط اوربری حرکتوں کی بھی قربانی دینی پڑے گی مثلاً اظہار آزادی کے نام پر جنم لینے والی مادہ پرستی، مغربی تہذیب و ثقافت ، اپنے گھر کی عورتوں میں بے پردگی، جنسی بے راہ روی ،جھوٹ ، وعدہ خلافی ،باہمی حسد جلن، مسلمانوں سے بغض و کینہ ، چغل خوری ، عیب جوئی ، دوسروں کی حق تلفی، دینی اور دنیوی معاملات میں خیانت، کو فروغ دینے والی جیسی بیماریوں کی قربانی ہمیں دینا چاہئے۔

اس لئے کہ اسلام جیسے مہذب اور پاکیزہ دین میں موجود ’’سنت ابراہیمی ‘‘ کامقصد صرف یہ نہیں کہ حصول گوشت کے لئے جانور کی قربانی کرلیں کیوں کہ شرعی اعتبار سے ’’ کم از کم ایک سال کے چھوٹے جانور مثلاً خصی ، بکری ، دنبہ بھیڑ یا کما زکم دو سال کے بڑے جانور مثلاً گائے، بیل، بھینس اور اونٹ و غیرہ جس میں سات حصے لگائے جاتے ہیں ان حصے داروں میں اگر کسی کی نیت قربانی سے محض(صرف) گوشت حاصل کرنامقصود ہو تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی ‘‘(ماخوذ : بہار شریعت :از مصنفہ مولانا امجد علی اعظمی )کیوں کہ قربانی کا مقصد اعظم جہاں یہ ہے کہ بندہ قربانی جیسے مقدس عمل کو نام و نمود کے بجائے محض اس ذات والا ستودہ صفات رب عز و جل کی رضا کے لئے نہایت ہی خوش دلی سے انجام دے کر اس کا قرب حاصل کرے اور اس ذبیحہ گوشت کے ذریعے دوست ،احباب اور غربا و مساکین کی ضیافت (میزبانی) کرے اور ان کو اپنی خوشیوں میں شامل کرے ۔ ایک دوسرے مسلمان بھائی کے دکھ درد کی صورت میں اس کے زخم کا مداوا کرنے کا جذبہ اپنے اندر بیدارکرے ۔وہیں قربانی کے پاکیزہ عمل سے یہ درس حیات ملتا ہے کہ بندہ کوحق کی سربلندی ،صالح معاشرہ کی تشکیل اور اپنے رب عز و جل کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنی محبوب ترین چیزوں اور اپنی خوہشات نفسانی کو قربان کرکے اپنے اندر فیاضی باہمی ہمدردی خلوص و ﷲیت کے ساتھ ایک دوسرے کے تئیں ایثار کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرے تاکہ قربانی کے مقصد کی تکمیل بحسن و خوبی انجام پذیر ہوسکے ۔ اس لئے کہ اﷲ کی بارگاہ میں نہ تو قربانی کا گوشت پہونچتا ہے اور نہ ہی اس کا خون بلکہ اس کی بارگاہ میں ہماری خلوص و ﷲیت سے معمور پرہیز گاری ہی باریاب ہوتی ہے(( ماخوذ:الحج آیت :۳۷)

یہاں یہ بات بھی فائدے سے خالی نہ ہوگی کہ قربانی چاہے جاندار کی ہو یا مال و منال کی کسی نہ کسی جہت سے ہر دور میں قائم رہی ہے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ارباب حل و عقد بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ قربانی کی شروعات اس دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کی موجود د گی میں بھی رائج تھی کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولادوں میں جب ہابیل اور قابیل کے مابین(بیچ) ان کی بہن سے شادی کے سلسلے میں لڑائی ہوئی تو ان کے تصفیہ (حل ) کے لئے قربانی کی تجویز حضرت آدم علیہ السلام نے پیش فرمائی چنا نچہ مال کی شکل میں ہابیل کی قربانی کو آسمان کی آگ لے گئی اور اس طرح ہابیل کی قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی اور ان کے بعد دیگر انبیا کرام اور خصوصاً انبیا بنی اسرائیل کی قوموں میں باقاعدہ جانوروں کی قربانی رائج تھی قرآن مجید کے ساتھ تحریف شدہ بائبل میں بھی اس کی صراحت متفرق مقامات پر موجود ہے ۔ اور اس وقت سے لے کر اب تک کسی نہ کسی شکل میں قربانی پائی جاتی رہی ہے ۔خواہ وہ و قوم و ملت کے تحفظ اور دین اسلام کے لئے صوفیا کرام ، بززرگان دین اور علمائے حق کی قربانی ہو یاطن عزیز ہندوستان کے لئے اسلامی مجاہدین قوم مسلم اور حقیقی اسلامی اسکالروں کی جانی قربانی ہو یا اپنے سماج اور معاشرے میں سماجی اور فلاحی کام کاج کے فروغ کے لئے اپنے مال کی یا وقت کی قربانی ہو ۔

اس کے باوجودقربانی کا موسم آتے ہی ہر طرح سے قربانی کے خلاف بیان بازی اور اشتعال انگیزی کا نہ تھمنے والا طوفان برپا ہوجاتا ہے اور اور نفرت کے سودا گر فرقہ پرستی کا زہر گھول نے کے لئے اپنے عمل کے برخلاف کہتے ہیں کہ’’ جیو ہتیا پاپ ہے ‘‘ لہذا جانوروں کی قربانی نہیں کرنا چاہئے ایسے لوگوں سے ہم نہایت ہی محبت سے عرض کریں گے بلا شبہ بے مقصد جانوروں کا ذبح کرنا بے زبان کی جان لینا ہے جو اسلام میں بھی جائز نہیں ہے لیکن جب جانوروں کا ذبیحہ خاص مقصد کے تحت وجود میں آئے تو’’ جیو ہتیا پاپ ‘‘ہے کے زمرے میں نہیں آئے گاورنہ تو آپ بتائیں کہ ’’ حلال قسم کے پالتو جانوروں‘‘کے گوشت سے فائدہ حاصل نہ کئے جانے کی صورت میں انھیں پیدا کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ اور پھر ان جانور کی دیکھ ریکھ کا کیا فائدہ ہوگا ؟ اگر ان جانوروں سے گوشت کی شکل میں منافع حاصل کرنا مقصود نہ ہو تو کیا آپ جیسے لوگ ان جانوروں کی دیکھ ریکھ کا فریضہ انجام دیں گے ؟ اور ان کے گوشت نہ کھانے کی صورت میں انسانوں کی خوراک کی ہورہی کمی کی بھرپائی کیسے کی جائے گی ؟ اور آخرکثرت کے ساتھ گوشت خوری کر نے والے عید ا لاضحی کے موقعہ قربانی پر ہی کیوں’’ جیو ہتیا پاپ ہے ‘‘کا نعرہ لگاتے ہیں ؟ اور پھر ایسے لوگ یہ بھی بتائیں کہ ’’جیو ہتیا پاپ ہے ‘‘ کا نعرہ صرف جانوروں کے لئے ہی کیوں لگایا جاتا ہے حالانکہ انسان کے جان کی قیمت جانوروں سے کئی ہزار گنا زیادہ ہے اس کے باوجود صرف جانوروں کی حیات کی تو بات کرتے ہیں لیکن ملک کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کی جان و مال کی تباہی و بربادی کا خونی منظر پیش کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ’’جیو ہتیا پاپ ہے ‘‘؟ اس کا مطلب ہے کہ ’’جیو ہتیا پاپ ہے‘ کا نعرہ صرف ایک سیاسی ہتکنڈہ اور مطلب پرستی کا آلہ اور ہتیار ورنہ تو بتائیں کہ ہندو دھرم کی کتاب’’ رام چرت مانس‘‘ میں یہ کیوں لکھا ہے کہ ’’رام جی‘‘ ہر روز ایک ہرن کا شکار کرتے تھے؟؟اورآج بھی ہندو دھرم میں کئی فرقے ہیں جو کثرت کے ساتھ اپنے ’’خود ساختہ (بنائے ہوئے) خدا‘‘ کے نام پر جانوروں کی بلی (قربانی) کے ساتھ انسانوں کی قربانی بھی دے ڈالتے ہیں؟ کیا یہ جیو ہتیا نہیں ہے؟۔حالانکہ امن پسند نظریہ کاحامل اسلام نے کسی انسان کا ’’قتل نا حق‘‘ پوری انسانیت کا قتل بتایاہے‘‘(المائدۃ آیت ۔۔) ۔

اسی طرح ملت کے درد سے نڈھال بعض نام نہاد علما و دانشوران یہ کہتے ہوئے نظر آتے کہ ’’مسلمان گاؤکے ذبیحہ سے پرہیز کریں اور ہندوؤں کے جذبات کا احترام کریں ‘‘حالانکہ اس طرح کے بیان سے فرقہ وارا نہ اور با ہمی اتحا د و یکجھتی کے تا رو پو د بکھیرنے میں زیا دہ یقین رکھنے والی جماعت آر ایس ا یس اور اس کی ذیلی تنظیمں وشو ہندو پر یشد ، بجر نگ دل وغیرہ فرقہ پر ست عناصر کو تقویت ملتی ہے جوملک کی دیگر ریاستوں کی طرح سرزمین بنگال میں بھی’’ گاؤ کشی ‘‘پر پابندی عائد کرانا چاہتے ہیں در حقیقت ’’گاؤ کشی‘‘ سے متعلق نام نہاد ملت کے غم میں سوکھ کر کانٹا ہوجانے والوں کا’’ہندو مذہب کے جذبات کا احترا م کرنے کا ‘‘مشورہ دینے کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کی دیگر ریاستوں میں فرقہ پرست لیڈران کے حوصلے بلند ہوئے اور گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی گئی۔ اورپھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’ ہندو دھرم ‘‘میں بھگوان کی تعداد کروروں سے متجاوز ہیں اور ’’گاؤ ماتا‘‘ کی طرح آئے دن ا ن کے یہاں ’’بھگوان‘‘ معرض وجود میں آتے ہیں تو کل اگر مسلمانوں سے ہندو مذہب کے پرستار کہیں کہ ہم ’’شیو جی‘‘ کی لنک پوجا کرتے ہیں اس لئے مسلمان اپنے بچوں کا ختنہ کرانا بند کردیں یا مسلمانوں کے یہاں گاؤ کشی کی طرح خصی وغیرہ کی قربانی ضروری نہیں اس لحاظ سے مسلمانوں کو چاہئے کہ ہندو مذہب کے احترام میں ان چیزوں کو ترک کردیں تو کیا اس وقت بھی ان کے احترام میں مسلمانوں کو ایسے لوگ ان چیزوں کے چھوڑنے کا مشورہ د یں گے؟؟ اور پھر اگر اسی طرح احترام کا سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ’’جیو ہتیا پاپ ہے ‘‘ کا نعرہ بلند کرکے سرے سے قربانی پر ہی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا جانے لگے گا ۔ خصوصاً دارا لعلوم دیوبند کوایسے فتوے سے گریز کرنا چاہئے جس سے امن و سلا متی کے د شمن فرقہ پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف کھل کھیل نے کا موقع فراہم ہو اور قوم مسلم با ہمی انتشا ر و افتر اق کے خطرا ت سے شدید دو چا رہو ۔

اخیر میں اپنے قارئین کی خدمت عرض کریں گے کہ مقصد قربانی سامنے رکھتے ہوئے عید ا لاضحی کے موقع پرقربانی جیسی اہم عبادت نہایت ہی ادب و احترام سے منائیں اور غریب مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں ضرور شامل کریں اور حسب سابقباہمی اتحاد و یکجہتی کی بہترین مثال پیش کرتے ہوئے ملک میں امن و آشتی کی فضا برقرار رکھنے میں حکومت کی مدد کریں اور فرقہ پرستوں کے ناپاک مقاصد اور ناجائزحوصلے ناکام کریں ۔ رب تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ بطفیل مدنی سرکار ﷺ ہمیں قربانی کا مقصد سمجھنے، اس پر عمل کرنے کے ساتھ ہی ہم سب مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے (آمین)
Muhammad Arif Hussain
About the Author: Muhammad Arif Hussain Read More Articles by Muhammad Arif Hussain: 32 Articles with 57128 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.