جیک ما

معروف امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے سال کے شروع میں ایشیا کی ان شخصیات کی لسٹ جاری کی ہے جنہیں نیوز میکر کہا جا تا ہے.27افراد پر مشتمل اس لسٹ میں 2 پاکستانی بھی شامل ہیں،تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اﷲ کو اخبار نے پاکستانی نیوز میکرز قرار دیا ہے،فہرست میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور عام آدمی پارٹی کے سربرا ہ،دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال بھی اس فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں،،لسٹ میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے وان ھننگ ،،چینی وزیر خزانہ لو جی اور ارب پتی چینی بزنس مین وان جیانگ اور چینی انٹر نیٹ کمپنی علی بابا گروپ کے چیئر مین جیک ما بھی شامل ہیں۔جیک ما کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ پہلے چینی بزنس میں ہیں جو فوربس مگزین کی کور اسٹوری بنے۔ہونگزو صوبے میں پیدا ہونے اس نوجوان کو انگریزی سیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ وہ روزانہ پینتالیس منٹ بائیک چلا کر ایک ایسے موٹل جایا کرتے تھے جہاں وہ غیر ملکیوں سے انگریزی میں بات چیت کر سکیں . وہ انہیں بطور ایک گائڈ شہر کی سیر کرتے تھے تاکہ انگریزی میں خوب باتیں کرنے کا موقع ملے اور وہ اپنی زبان بہتر بنا سکیں ...نو عمری میں دو دفعہ یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں فیل ہوئے اور مجبورا انہیں ٹیچرز انسٹیٹوٹ میں پڑھانا پر جو کہ ایک عام سی یونیورسٹی ہے .جیک ما نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے میں نے چینی کمپنیوں کے لیے ویب سایٹس بنانے کا سوچا اور اسکے لیے اپنے امریکی دوستوں سے مدد لی ……جس دن میری ویب سائٹ انٹر نیٹ پر آئی میں نے اپنے تمام دوستوں اور ٹی وی لے لوگوں کو گھر پر جمہ کیا ……انٹرنیٹ بہت سلو تھا ، ڈائل اپ کے کنکشن پر ہم نے ساڑھے تین گھنٹے میں آدھا صفحہ ڈونلوڈ کیا .. ہم کارڈ کھیلتے رہے، کھاتے پیتے رہے ...تاکہ ویب سایٹ ڈونلوڈ ہو جائے ...بہت وقت لگا مگر میں حد سے زیادہ خوش تھا کہ میں نے سب کو دیکھا دیا کہ انٹر نیٹ کا وجود ہے ۔ جیک ما کی کمپنی چین کی آن لائن شاپنگ کمپنی علی بابا ہے۔ جس نے اپنے آئی پی او یعنی شروعاتی عوامی پیشکش سے سرمایہ کاروں کو ایک ہی دن میں مالا مال کر دیا تھا۔نیویارک سٹاک ایکسچینج میں اس کا شیئر 40 فیصد کے زبردست پریمیم پر درج کیا گیا۔علی بابا امریکہ کی سلیکون ویلی سے کاروبار کرتی ہے اور دوسری آن لائن ریٹیل (خوردہ) کمپنیوں کی ہی طرح اس کا زور خوردہ خریداروں پر نہ ہو کر بڑے کاروباریوں پر رہتا ہے۔مبصرین کا کہنا تھا کہ نیویارک سٹاک ایکسچینج میں شامل ہونے کے بعد علی بابا کا نام بھی فیس بک، ایمیزون اور ای بے جیسی کمپنیوں کے ساتھ لیا جا سکتا ہے۔یہاں ذہن میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ آخر علی بابا پر کیا کیا دستیاب ہے تو جواب کچھ اس طرح دیا جاتا ہے وہاں کیا دستیاب نہیں؟یہ کمپنی آن لائن مارکٹنگ، آن لائن خدمات اور لاجسٹکس تو مہیا کراتی ہی ہے اس کے علاوہ یہ بہت سی دوسری چیزیں بھی فراہم کراتی ہے جس کا مختصرا ذکر یہاں کیا جارہا ہے۔

یہاں فوجی سازو سامان آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اگر کوئی ٹینک، توپ، گولہ، راکٹ لانچر خریدنے کی حسرت رکھتا ہو تو اس کے لیے بھی
 علی بابا حاضر ہے۔اس قسم کے ٹینک کی فراہمی بھی علی بابا کے یہاں سے ہو سکتی ہے۔اس کے آن لائن پلیٹ فارم پر ایک اصلی فوجی ٹینک ایک لاکھ 90 ہزار ڈالر میں دستیاب ہے۔صرف ٹینک ہی نہیں دیگر فوجی سازو سامان بھی علی بابا آپ کو فراہم کرا سکتا ہے۔توپ و تفنگ کے شوقین حضرات کے لیے یہ خبر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کم خرچ میں اصلی ٹینک اور راکٹ لانچروں کی نقل بھی ملتی ہے۔اگر آپ ہوائی جہاز خریدنے کی حسرت رکھتے ہیں تو علی بابا آپ کو وہ بھی فراہم کرا سکتا ہے۔

 

image


اگر گلائڈر میں دلچسپی ہے تو آرڈر دے سکتے ہیں۔سنہ 1983 میں بننے والا سوویت کارگو طیارہ اس کی ویب سائٹ پر دستیاب تھا۔

اگر آپ بوٹ گلائڈ یا گلائڈنگ بوٹ یا ایئرشپ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی قیمت دیکھ کر آپ اسے علی بابا سے منگوا سکتے ہیں۔علی بابا پر تلا ہوا انڈا بھی دستیاب ہے اور وہ بھی مخصوص شکلوں میں۔ آپ چاہیں تو مخصوص مذکورہ شکل میں ہاف فرائڈ بیضہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔اگر آپ کو اپنے پالتو جانور کے لیے تابوت چاہیے تو پریشان ہونے یا بہت سر کھپانے کی ضرورت نہیں، علی بابا ہے نا مانو اس کے پاس دنیا بھر کے خزانے کی چابی کھل جا سم سم ہے ۔علی بابا جب 1999 میں وجود میں آئی تو اس وقت اس میں 18 لوگ کام کرتے تھے لیکن اب دنیا بھر میں اس کے لئے 22 ہزار افراد کام کرتے ہیں۔سنہ 1999 میں جیک ما نے alibaba.com کے نام سے اپنا بزنس شروع کیا تھا۔ یہ ویب سائٹ چین (اور دیگر ممالک) کے ایکسپورٹرز کو دنیا بھر میں پھیلی 190 کمپنیوں سے جوڑتی ہے۔بہرحال علی بابا کی ویب سائٹ کا صرف یہی کام نہیں ہے۔ علی بابا taobao.com بھی چلاتی ہے جو چین کی سب سے بڑی شاپنگ ویب سائٹ ہے اور اس کی ایک اور ویب سائٹ tmall.com چین میں ابھرتے ہوئے متوسط طبقے کے لیے برانڈڈ چیزیں مہیا کرتی ہے۔علی بابا کی پہنچ بس یہیں ختم نہیں ہوتی۔ یہ ایک آن لائن پیمنٹ نظام alipay.com بھی چلاتی ہے جو PayPal کی طرح کام کرتا ہے۔علی بابا کمپنی آن لائن مارکٹنگ، آن لائن خدمات اور لاجسٹکس کے علاوہ یہ بہت سی دوسری چیزیں بھی فراہم کراتی ہے۔چین میں ٹوئٹر جیسی سوشل میڈیا کی ویب سائٹ سنا وائبو میں بھی اس کی بڑی شراکت داری ہے۔ اس کے ساتھ ہی یو ٹیوب جیسی ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ Youku Tudou میں بھی اس کی حصہ داری ہے۔ انٹرنیٹ سے ہونے والے کاروبار کے ایک بڑے حصے پر اس کا کنٹرول ہے۔

چین ایک ایسا ملک ہے جو ساٹھ ستر سال تک افیم ، افیمیوں اور اپنی کثرت آبادی کی وجہ سے دنیا میں جانا جاتا تھا۔ اب یہی ملک اپنی ترقی اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی طرف گامزن ہونے کے حوالے سے دنیا میں مشہور ہے۔چینی کمپنیاں یورپی اور جاپانی کمپنیوں کا مقابلہ کررہی ہیں اور کسی حد تک یورپی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑتی جارہی ہیں۔چینی مصنوعات کا اعلیٰ معیار اور کم قیمت دنیا بھر کے صارفین کے لیے کشش رکھتا ہے۔چین نہ صرف اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی طرف گامزن ہے بلکہ اب اس نے ایک اور سنگ میل عبور کرنے کی طرف قدم بڑھانا شروع کردیا ہے۔ اس کی ای کامرس کی صنعت امریکہ کی ای کامرس کی صنعت سے آگے بڑھ رہی ہے۔اس میں اس کی ایک عظیم الشان فرم مارکیٹ پر چھا رہی ہے اور یہ ہے ’’علی بابا ڈاٹ کام۔۔۔۔۔Alibaba.com‘‘ ،جو اس وقت کسی حد تک دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی بن چکی ہے۔گذشتہ دو سال کے دوران علی بابا کی دو ذیلی کمپنیاں 170ارب ڈالر کمانے میں کامیاب ہوچکی ہیں جو eBay اور ایمازون Amazon کی مجموعی سیلز سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ علی بابا اس وقت دنیا کی سب سے پہلی کمپنی بننے جارہی ہے جو ایک سال میں ایک ٹریلین ڈالر کی ٹرانزیکشن کرچکی ہے۔ تاہم اس قدر غیرمعمولی کامیابی کے باوجود چین سے باہر لوگوں کی بڑی تعداد اس پرائیویٹ کمپنی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتی۔ جیک ما ، نے جو انگلش کے سابق ٹیچر ہیں، نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال مئی تک کمپنی کی چیف ایگزیکٹو کی کرسی اپنے بااعتماد ساتھی جوناتھن لو کے حوالے کردیں گے۔اس کے بعد جلد ہی اس بات کا امکان ہے کہ کمپنی اپنی ابتدائی پبلک آفرنگ (IPO)کی تفصیلات کا اعلان کرے گی جو کہ گذشتہ سال فیس بک کی IPO کے بعد مشہور ترین اور ممکنہ طورپر زیادہ بڑی پبلک آفرنگ ہوگی۔ یاد رہے کہ فیس بک کی پبلک آفرنگ کی مالیت 104 بلین ڈالر تھی (اس کی مارکیٹ کپیٹیلائزیشن اس وقت سے دوبارہ کم ہوکر 63ارب ڈالر پر واپس آگئی ہے)۔ علی بابا کی مالیت ممکنہ طورپر 55 بلین ڈالر سے لے کر 120 بلین ڈالر تک ہوسکتی ہے۔ابتدائی پبلک آفرنگ یا IPO کے نتیجے میں علی بابا کا شاندار عروج دنیا بھر کی توجہ حاصل کرے گا۔اس کے علاوہ کمپنی کا بغور جائزہ لینے کے اور بھی اسباب ہیں۔ان میں سے ایک مستقبل میں اس کی ترقی کے امکانات ہیں۔اگر یہ فیس بک کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بچ جاتی ہے تو امکان ہے کہ آئندہ چند سال تک یہ دنیا کی سب سے زیادہ مالیت والی کمپنی بن جائے گی(اس وقت اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی Apple ہے جس کی نقد مالیت اس وقت لگ بھگ 420 بلین ڈالر ہے جبکہ 2009 میں اس کی مالیت صرف 90 بلین ڈالرتھی۔) علی بابا کی ایک اور کامیابی یہ ہے کہ یہ دیگر نئی مارکیٹوں میں بھی اپنے پاؤں پھیلا رہی ہے اور یہ چین کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔علی بابا کی کامیابی کی داستان دانش مندانہ اختراع کی ایک شاندار مثال ہے کہ چین میں مسابقانہ فوائد کو کیسے حاصل کیاجاسکتا ہے۔جیک ما نے ایک مرتبہ کہا تھا:’’eBay سمندر کی شارک ہوسکتی ہے، لیکن میں یانگ زی کا مگرمچھ ہوں۔ اگر ہم سمندر میں لڑتے ہیں تو شاید ہم ہار جائیں لیکن اگر ہم دریا میں لڑتے ہیں تو ہم جیت جائیں گے۔‘‘اس وقت سے جیک ما کو ’’یانگ زی کا مگرمچھ‘‘ کہا جاتا ہے۔جیک ما نے 1999 میں ’’علی باباڈاٹ کام‘‘ کے نام سے اس کمپنی کا آغاز کیا تھا جو کہ ایک بزنس ٹو بزنس پورٹل تھی جو کہ چین کے چھوٹے مینو فیکچررز کو بیرون ملک خریداروں سے جوڑتی تھی۔اس کی دوسری ایجاد تاؤ باؤTaobao تھی جو کہ کنزیومر ٹو کنزیومر پورٹل تھی جو کوئی ایک ارب مصنوعات کو بیس کامیاب ترین ویب سائٹس کے ذریعے دنیا بھر میں پیش کرتی تھی۔ Tmall اس کی ایک نئی کمپنی ہے جو کہ بزنس ٹو کنزیومر پورٹل ہے اور کسی حد تک ایمازون کی طرح عالمی سطح کے برانڈز جیسے ڈزنی اور لیویز کو چین کی مڈل کلاس تک رسائی میں مدد فراہم کرتی ہے۔علی بابا اس سے بھی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔چین کی ای کامرس کی صنعت کے بارے میں پیش گوئی کی جاتی ہے کہ2020ء تک امریکا ، برطانیہ ، جاپان ، جرمنی اورفرانس کی ای کمپنیوں کی جومجموعی تعداد بنتی ہے ، ان سے بھی بڑی کمپنی بن جائے گی۔اگرچہ ابھی علی بابا امریکہ میں ’’ ایمازون‘‘ کو چیلنج کرتی دکھائی نہیں دیتی لیکن عالمی سطح پر چین کے لوگ بیرون ملک جو اخراجات کرتے ہیں ، یہ ان کواپنے کنٹرول میں لارہی ہے اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہورہی ہے۔اس سلسلے میں اس کی مدد کرنیوالی اس کی ذیلی کمپنی Alipay ہے ، یہ آن لائن پے منٹ سسٹم کے حوالے سے ایک دلچسپ کمپنی ہے۔ یہ صرف اس وقت فروخت کنندگان کو پے منٹ کرتی ہے جب اس کی مصنوعات کے خریدار وصول شدہ مصنوعات کے معیار سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اس طرح جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی کمزورہے، وہاں پر یہ کمپنی لوگوں کا اعتماد حاصل کررہی ہے۔شاید علی بابا کا سب سے عظیم الشان خزانہ اس کا غیر استعمال شدہ کسٹمر ڈیٹا ہے۔چین میں ڈیلیور کیے جانے والے کوئی ساٹھ فیصد پارسل اسی کی سائٹس کی وساطت سے ترسیل پاتے ہیں۔یہ چینی مڈل کلاس بشمول لاکھوں چینی تاجروں کی اخراجات کی عادات اور ’’کریڈٹ ورتھی نیس‘‘ کے حوالے سے سب سے زیادہ جانتی ہے۔’’علی فنانس‘‘ بھی اس کی ایک ذیلی کمپنی ہے جو چھوٹی فرموں کو چھوٹے قرضے دینے والا ایک بڑا ادارہ ہے۔ اب یہ عام صارفین کوبھی قرضے دینے کے کاروبار تک رسائی حاصل کررہا ہے۔ حقیقت میں یہ چینی فنانس کو لبرلائز کرنے میں مدد دے رہا ہے۔چین کے بڑے بڑے سرکاری بینک جو کہ سرکاری اداروں کو سستا سرمایہ فراہم کرنے کا چینل ہیں طویل عرصے تک سب کو نظرانداز کرتے آئے ہیں۔فرم اپنے آن لائن پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے انشورنس پراڈکٹس بھی فراہم کررہی ہے اور اس قسم کی مزید اختراعات تیاری کے مراحل میں ہیں۔

چنانچہ اس وقت علی بابا bamboo capitalism یعنی’’بانس بھری سرمایہ داری‘‘ کے قلب میں بیٹھی ہے۔یہ اصل میں چین میں آپس میں گتھی ہوئی اور تیزی سے پھیلتی ہوئی پرائیویٹ سیکٹر کی فرمز جو کہ سرکاری اداروں سے زیادہ قابل ہیں، کے لیے ایک اصطلاح ہے۔ کوئی ساٹھ لاکھ کے قریب وینڈرز اس کی سائٹس پر موجود ہیں۔فرم کی کوششوں سے چین کے نااہل ترین ریٹیل اور لاجسٹک سیکٹر کی پیداواری صلاحیت بڑھانے میں مدد مل رہی ہے۔علاوہ ازیں دیگرتمام کمپنیوں سے بڑھ کر یہ کمپنی ایک ایسا کام کررہی ہے جس کی سخت ضرورت ہے۔کمپنی چین کے انوسٹمنٹ ہیوی گروتھ کے ماڈل کو صارفی ماڈل میں تبدیل کررہی ہے۔ اس طرح یہ کمپنی ایسے اور بھی کئی اختراعی کاروباروں میں مصروف ہے جو چین کی ترقی کی رفتار میں قابل ذکر حد تک اضافہ کرسکتے ہیں۔ہرکامیابی اور کامرانی کو خطرات کا بھی سامنا ہوتا ہے۔جس طرح دریائے یانگ زی کے مگرمچھوں کے وجود کوخطرات لاحق ہیں ، اس طرح علی بابا کامستقبل بھی خطرات سے خالی نہیں۔تین خطرات ایسے ہیں جو فرم کو اس کی راہ سے بھٹکاسکتے ہیں۔
 

image


اس کو پہلا خطرہ اس کی حد سے بڑھی ہوئی ترقی سے ہی ہے۔قابل ترین بانی کے معاملات سے علیحدگی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنا کم ہی آسان ثابت ہوتا ہے۔چین کے کمتر معیارات کے حساب سے علی بابا عام طور پر اچھے نمبر حاصل کرتی ہے۔ ایک کیوییٹ(مشتری ہوشیار باش کی علامت) کے ساتھ مبصرین چند سال قبل جیک ما کی جانب سے مرکزی کمپنی میں سے مبہم طریقے سے Alipay کی لانچ کو شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سرکاری کمپنیاں جس طرح منظر سے غائب ہوجاتی ہیں ، یہ اس طرح غائب نہیں ہوسکتی۔اس کی مصنوعات میں بھی اسی قسم کی شفافیت کی ضرورت ہے۔چینی معیار کے حساب سے علی بابا نے جعلی اشیا سے لڑنے کے لیے بہت کام کیا ہے یہاں تک کہ امریکی حکومت نے حال ہی میں Taobao کو سرکاری اعزاز سے نواز دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود سائٹ پر بہت سی غلط اشیا بھی مل جاتی ہیں۔

صرف ان چیزوں سے نمٹ لینا کوئی اچھی مینیجمنٹ نہیں۔یہاں پر ایک اور خطرہ شروع ہوجاتا ہے۔یہ خطرہ ہے علی بابا کی غیرملکی سرمایہ کاری سے محرومی۔ چین کی کمپنیوں کو بیرون ملک شبے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے وسائل کے لیے بھوکے سرکاری اداروں کو افریقہ میں احتجاج کاسامنا ہوچکا ہے۔اکاؤنٹنگ سکینڈل کی وجہ سے شمالی امریکہ کے سٹاک ایکسچینجز میں موجود اس کی فرمز کو جرمانے ہوچکے ہیں۔ایک امریکی رکن کانگرس کی جانب سے چین کی عظیم الشان ٹیلی کام کمپنی Huaweiکو امریکہ کی دشمن قرار دیا جاچکا ہے۔یہ بات افسوس ناک ہوگی کہ علی بابا کو جس کا چینی حکومت کے ساتھ تعلق بہت کم ہے ، اس کو اسی قسم کی نگاہوں سے دیکھا جائے۔لیکن علی بابا کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے ، وہ چین میں ہی ہے۔ایمازون اور ای بے کی طرح علی بابا کو بھی ضرورت ہے کہ اسے انٹی ٹرسٹ ریگولیٹرز کی جانب سے مانیٹر کیا جائے۔ لیکن چین کی سیاست اس کے لیے خاصی خطرناک ہے۔بڑے بڑے بینک اس کے معاشی بازوؤں کے خلاف پہلے ہی متحد ہورہے ہیں۔کمیونسٹ پارٹی بھی اس سے حسد رکھتی ہے کہ محض ایک ادارہ اس کے شہریوں کے بارے میں اس قدر اعدادوشمار رکھتا ہے۔اگر چینی حکومت بغیر کسی ٹھوس جواز کے علی بابا کے پر کترنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ غلط ہوگا۔علی بابا دنیا کی سب سے زیادہ مالیت والی کمپنی بننے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس طرح چین کی ترقی میں بھی مددگار ہوسکتی ہے۔گذشتہ دنوں علی بابا نے امریکی مارکیٹ میں اپنے حصص فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا اور کمپنی کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے وہ زیادہ عالمی کمپنی بن جائے گی۔ماہرین نے 2012 میں فیس بک کے حصص جاری ہونے کے بعد سے کسی ٹیکنالوجی کمپنی کی جانب سے حصص جاری کرنے کا یہ سب سے بڑا موقعہ قرار دیا تھا۔بعض ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ علی بابا مارکیٹ سے پندرہ ارب ڈالر جمع کر سکے گی۔ اس سے امریکی کمپنی یاہو کو بھی کافی فائدہ پہنچے گا کیونکہ یاہو بھی علی بابا کے بڑے حصے کا مالک ہے اور اس حصے کی قیمت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔کمپنی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس اقدام سے ہم ایک زیادہ عالمی کمپنی بن جائیں گے اور کمپنی کی شفافیت میں اضافہ ہوگا جو ہمارے مستقبل کے لیے اہم ہے۔علی بابا کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے وقت کیے گئے تھے۔ جبکہ دو روز قبل ہی ایک دوسری چینی کمپنی ویبو (جو کہ ٹوئٹر جیسی سروس فراہم کرتی ہے) نے اعلان کیا ہے کہ وہ پانچ سو ملین تک حصص امریکی منڈی میں جاری کرنے والی تھی۔گذشتہ ستمبر میں علی بابا کے ہانگ کانگ سٹاک ایکسچینج پر حصص جاری کرنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد اس بات کی توقع تھی کہ کمپنی اپنے حصص نیویارک میں جاری کرے گی۔علی بابا کے مینجمنٹ ڈھانچے میں سینیئر اہلکار بورڈ آف ڈائریکٹرز کا کنٹرول رکھتے ہیں جو کہ ہانگ کانگ ایکسچینج کے قوانین کی خلاف ورزی شمار ہوتی تھی۔ اس وقت علی بابا کا شمار دنیا کی سب سے بڑی انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کی ویب سائٹ ہے اور اس کے 500 ملین صارفین کے لیے 800 ملین اشیا برائے فروخت شامل تھی۔ ابتدا میں کمپنی کو چین سے باہر زیادہ شہرت حاصل نہیں تھی لیکن اب ساری دنیا میں اس کی شہرت کے ڈنکے بج رہے ہیں۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 383709 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More