زندگی عذاب مسلسل

آج عبدالشکور نے مجھے ایسی ایسی باتیں سنائیں کہ میرا جی چاہ رہا تھا کہ اس کا منہ نوچ لوں مگر میں چپ رہی کہ مجھ اس سے ابھی واسطہ ہی نہیں رکھنا تھا ،لہذا ایک ایسے شخص کو جو آپ کی زندگی سے نکل رہا ہو اس کو کم از کم اتنا حق تو دینا چاہیے تھا کہ وہ آپ کو جی بھر کر دل کی بھڑاس نکا ل سکے۔فیس بک پر اس کے پیغامات آتے رہے ، میں اسے نظرانداز کرتی رہی کہ ہمارا تین سالوں کا رابطہ تھا جو کہ اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا تھا۔زندگی کے عجب کھیل ہیں میں نے ابھی ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا کہ میری ساتھ زندگی نے عجب تما شہ کھیلنا شروع کر دیا تھا۔آج زندگی کے جس دوراہے پرکھڑی ہوں سمجھ نہیں آئی ہے کہ آخر میں ہی کیوں ان حالات کا شکار ہوئی ہوں شاید اﷲ تعالیٰ نے سب کے لئے ایک جیسے حالات نہیں رکھے ہیں وہ چاہتا ہے کہ انسان دوسروں کے حالات سے سیکھے اور اپنی زندگی پر ازسر نو غور کرے کہ آیا وہ ٹھیک راہ پر چل رہا ہے یا نہیں چل رہا ہے۔میرا نام یوں تو کچھ اور ہے مگر آپ مجھے اسیرِ حیات کہہ لیں میں آ ج اپنی ذات سے جڑی کہانی سنارہی ہوں ہوسکتا ہے بہت سے لوگوں کو مجھ سے ہمدردی ہوجائے اور کچھ میری ذات کو نشانہ بنالیں مگر میں سب کچھ بیان کر نا چاہتی ہوں کہ شاید آج کل کی نسل کو اس سے کچھ عبرت ملے سکے۔

ابھی میں بہت چھوٹی ہی تھی میں نے شعور میں قدم بھی نہیں رکھا تھا اور ایک دن میں وہ سہہ لیا جو آج بھی ذرائع ابلاغ کی زنیت بنتا رہتا ہے ،جی ہاں آپ بخوبی سمجھ رہے ہونگے کہ میرا اشارہ کس جناب ہے؟ میں ابھی گڑیوں کے ساتھ کھیلنے کی عمر میں تھی، بے فکری تھی اور اپنے گھر میں چہکتی پھرتی تھی اور ایک رات جب میں سوئی ہوئی تھی تو میرے لحاف کے اوپر یوں لگا کہ جیسے کچھ آیا ہے اور میں مارے ڈر کے جو لحاف میں منہ چھپائے ہوئی تھی ،چھپی رہی کہ پتا نہیں کیا چیز ہے اور کافی دیر بعد وہ لحاف پر آنے والا بوجھ ہٹا تو بھی اس دن بھر میرا اس چیز کا خوف سر پر رہا کہ وہ کیا تھا؟میں کمزور سی ننھی بچی تھی میری ابھی عمر ہی کیا تھی جو بہادر ہوتی اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ لڑکیاں عموماذرا کم حوصلہ ہوتی ہیں، ذرا سی بات پر گھبرانے والی ہوتی ہیں اور حالات کا مقابلہ بہت کم کرنے کی سکت رکھتی ہیں،اور کم عمری میں لڑکیاں یوں بھی اتنی ہمت والی نہیں ہوتی ہیں کہ تن تنہا محض میری طرح دس گیار ہ سال کی عمر میں ایسی ہوں کہ سب کچھ سب کو بیان کر سکیں کہ اتنی عقل تب کہاں ہوتی ہے۔مجھے پتا نہیں چل رہا تھا کہ کبھی کبھی اندھیری رات میں مجھ پر لحاف کے اوپر کون سا بھوت،سایہ سا آجاتا تھا اور میں مارے خوف کے چپ ہی رہا کرتی تھی،گھر میں اماں کے ساتھ تو میرے تعلقات ہی خراب تھے انہوں نے کبھی پیار سے نہیں دیکھا نہ کبھی مجھ پر اتنی توجہ دی تھی کہ میں اپنی باتیں ان سے بیان کرتی ۔

دن پر دن گذر رہے تھے اور رات کا یہ خوف بھی میرے ساتھ رہا اور پھر ایک دن مجھے خبر ہو گئی تھی کہ وہ سب کچھ کیا ہوتا تھا جو میں رات کے اندھیرے میں سہتی تھی ،وہ خوف کیا تھا ؟ جنا ب وہ خوف نہیں تھا ایک تلخ حقیقت تھی جس کو آج اس عمر میں سوچ کر میں خود بھی شرمسار سی ہو جاتی ہوں کہ رشتوں کا تقدس یہ ہوس کیوں ختم کر دیتی ہے؟وہ بوجھ ،وہ خوف وہ میرے ماں کے بھائی تھے،جس کو ہم رشتے کے لحاظ سے ماموں کہتے ہیں ،جی ہاں وہی تھے جو اپنی ہوس کا مجھ شکار بنا رہے تھے ،میں انکی دھمکیوں میں آگئی اور پھر جب تک میں نے میٹرک نہ کرلیا اور اسکو ل میں ان سے اور گھر کے ماحول سے چھٹکار ہ کی خاطر ملازمت نہ کرلی ،تو پھر مجھ میں حوصلہ آیا اور میں نے انکو خوب سنائی جس کے بعد انہوں نے پھر سے مجھے جال میں پھنسانے کی کوشش نہیں کی اور یوں وہ سلسلہ جو تقریبا تین سال تک جاری رہا تھا۔ وہ میری ہی ہمت کی بدولت ختم ہوگیا لیکن میری زندگی تو برباد ہو چکی تھی،ان کو ذرا سی بھی شرم و حیا نہیں تھی ، وہ کس قدر بے غیرت تھے کہ انہوں نے سگی بھانجی کے ساتھ ایسامکرو فعل سرانجام دیتے رہے۔ابمجھے گھر میں بتانے کی اب بھی ضرورت محسوس نہیں ہورہی تھی کہ جس ماں کو اپنے گھرمیں چھت کے نیچے ہوتے کھیل کی خبر نہیں ہوئی تھی، وہ جو اپنے بھائی پر جان چھڑکتی تھی کیسے اس پر لگا الزام سچ مان سکتی تھی۔ تو میں نے اس بار ے میں اپنا منہ بند ہی رکھ اور سوچنے لگی تھی کہ اب مجھے کیا کرنا ہے؟ہم لڑکیاں بہت نادان ہوتی ہیں کہیں تو محبت کے جال میں ہوس کے پچاری ہمیں پھنسا کر اپنے ہوس کو پورا کرتے ہیں، کہیں اپنے ہی ہماری روح پر ایسے گھاؤ لگاتے ہیں کہ تاحیات اس کا اثر روح پر رہتا ہے۔یہاں والدین کی بھی بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں ، پتا نہیں آج کل کی مائیں کیسی ہیں جو اپنے بچوں کی سرگرمیوں اور رویے میں تبدیلی کو سمجھتی نہیں ہیں اس لئے آپ کو ہر روز یہاں وہاں ایسے ویسے واقعات پڑھنے ،سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں مگر بدقسمتی سے اس طرح کے واقعات سے ہم لوگ کوئی اثر نہیں لیتے ہیں اور یوں پھر سے تاریخ جیسے دہرائی جاتی ہے ویسے ہی یہ واقعات وہتے چلے آ رہے ہیں اور شاید چلتے رہیں گے کہ سب کے لئے ایسا ممکن نہیں ہوتا ہے کہ وہ ماضٰ سے یا حالات و واقعات سے کچھ سیکھ سکیں۔لیکن میں نے جو سہہ ہے وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا نہیں دیکھ سکتی ہوں،میں نے انکی تعلیم و تربیت پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔میری اس داستان حیات لکھوانے کا مقصد ہی ہے کہ آپ لوگ کچھ سوچیں سمجھیں اور جو کچھ ہوا ہے اس سے سبق لیں ۔

میں نے جو سوچ تھا اس کے مطابق اپنی خالہ کے پاس جانا تھا اور میں ایک روز وہاں نکل گئی تھی،ایک بات جو میں یہاں بتانا بھول گئی کہ میرا تعلق ایک نوجوان سے بننا شروع ہو چکا تھا جوکہ مجھ میں دلچسپی لے رہا تھ یہاں میں اس کا نام نہیں لکھوں گی کہ فرضی نام لکھوانا مجھے پسند نہیں ہے بہرحال اس کے ساتھ محبت بھر ی داستان شروع ہو گئی تھی اور ہماری ملاقاتیں بھی ہونے لگی تھیں ایک روز بہت پاس آنا چاہ رہا تھ اکہ شادی کے بعد بھی آنا ہی پڑے گا مگر میں نے واضح انکار کر دیا تھ ا کہ ماموں کی وجہ سے مجھے اس عمل سے ہی کراہت سی ہونے لگی تھی پہلے بھی بہت دل پر جبر کر کے برداشت کیا تھا اور آج تک اس پر افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے کیوں گھر میں نہیں بتایا تھا مگر جب خالہ کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا ،وہاں اگرچہ چھپ چھپا کر گئی تھی مگر چند ماہ وہاں رہی ،میری خالہ نے ساری بات سنبھال لی تھی۔انہوں نے اس نوجوان سے بھی بات کی شادی کے حوالے سے مگر اس حوالے سے جو اس کا جواب تھا کہ وہ شادی کے لئے رضامند نہیں تھا اور یوں میں ایک بار پھر زندگی کے تھپڑ کھانے لگی وہ محبت جو کئی سالوں کے سفر پر محیط تھی یوں اچانک ختم ہو جائے گی اس نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا ۔پھر میری شادی کے لئے بھاگ دوڑ شروع ہوئی اور ایک جگہ بالآخر ہو گئی ،اگرچہ وہاں ساس روایتی ساس کی مانند تھی مگر میں بہت خوش تھی کہ چلو جان چھوٹی اس گھر سے جہاں میری تلخ ترین یادیں وابستہ تھیں اور میں ایک نئے گھر میں آئی اور یہاں مجھے اپنے شوہر کی پہلی بیوی سے ایک بیٹی ورثے میں ملی جو بیٹی کو چھوڑ کر نئے راہ کی طرف چل دی تھی ،خیر کیا بتاؤں کیسے میں نے وہ دن گزارے تھے ، ایک طرف ننھی بچی دوسری طرف ماں خود بھی بننے والی تھی تو ایک کڑا وقت تھا جو میں نے اس طرح سے گذارا تھا کہ شاید میری زندگی میں جو ایک کسک تلخ یادوں کی ہے وہ کم ہو جائے ۔مگر میں ذہنی طور پر آدھی پاگل ہونے کے قریب تھی جب میں نے ایک نہایت ہی غلط فیصلہ کر لیا تھ اجس نے مزید میری زندگی کو اجیرن کر دیا تھا ۔میں نے اپنے شوہر کو اپنے ماضی سے آگاہ کر دیا تھا یہ تو سب لڑکیاں بالخصوص جانتی ہیں کہ ایسا کرناکیا مزید عذاب لاتا ہے ۔مگر میں جس طرح سے حالات کو برداشت کر کے تنگ آئی ہوئی تھی کہ ایسا کرنا میرے ہی اپنے ہاتھوں پاؤں کو کاٹ کر رکھ دے گا اور میں نے جب انکو سچ بول دیا تو پھر ہمارے درمیان کشیدگی سی آگئی تھی اور وہ مجھ سے کھچ گئے تھے اورمیرے موبائل فون پر اجنبی کالز کا بتانا بھی میرا جرم ٹھہرا تھا اور ایک دن مجھے یہ سننے کو مل گیا کہ پتا نہیں کس کس سے میرا واسطہ ہے اور یوں میں جو ماضی کو بتا کر پرسکون ہونا چاہ رہی تھی اور مزید ذہنی انتشار کا شکار ہو گئی تھی ۔

میں اپنے تمام فرائض ٹھیک سے سرانجام دے رہی تھی مگر یہ سب مجھے وہ سکون نہیں دے رہا تھا جو میں چاہتی تھی اور اپنے شوہر کے طعنوں نے مجھ سے وہ غلطی کروا دی، جو میری کم بختی کا منہ بولتا ثبوت بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔جس پر میں پھر گناہ کے دلدل میں گھس گئی تھی جی ہاں میری ایک نوجوان سے جو اجنبی کالز کرتا تھا سے دوستی ہوئی ،اور پھر میں نے ایک دن سے اپنے گھر بلوایا اور پھر دو تین بار ہم بہت پاس آئے پھر اس سے رابطہ توڑا ،پھر کسی اور سے جوڑا،پھر کسی اور سے اور پھر عبدالشکور آیا جس سے میں تنگ آئی تو اس سے دور ہونے کا سوچا یہ بھی میری اس مہربان ہستی کی وجہ سے ہوا جس نے میری داستان کو سن کر مجھے اپنی غلطیوں احساس دلایا اور میں جو گناہوں کے بوجھ سے،ذہنی الجھنوں کا شکار تھی دور ہونے لگی اور پھر رفتہ رفتہ اسکی د عائیں کام آئیں اور میں بہت پرُسکون سی ہوگئی کہ میرے شوہر نے بھی مجھ پر وہ الفت و توجہ دی اور کہا کہ مجھے چھوڑ کر مت جانا تو یقین مان لیں میں سب کچھ بھول گئی کہ سب کچھ ہی پا لیا تھا ۔اور اب یوں لگ رہاہے کہ زندگی کے عذاب مسلسل ساتھ چلے رہے تھے وہ کچھ کم ہونا شروع ہوئے ہیں۔

یہ میری اس مہربان ہستی کی وجہ سے ہوا جس نے میری عزت،وقار اور محبت کو سمجھا ،زندگی کے حالات سمجھائے ،تو مجھے عقل آئی ہوئی ہے اور میں اب باقاعدگی سے نمازیں پڑھ کر اپنے گناہوں کی بخشش کی دعا کر تی ہوں کہ اﷲ اس مہربان ہستی جس نے میری زندگی کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اسے اور مجھے ،میرے شوہر ،بچوں کی زندگیوں میں آسانی و خوشیاں لائے کہ میں جو بچپن سے محبت کی ماری ہوئی ہوں ،اب زندگی کے اگلے سالوں میں پرسکون رہ سکوں اور اﷲ مجھے میرے گناہوں کی سزا کم کر دے کہ بہت کچھ نادانی میں ہوا ،ابھی میری حیات باقی ہے اور میں اپنی اس فانی اسیر حیات کی قیدی ہوں ،دیکھنا باقی ہے کہ کتنے روز اور اسیر حیات رہنا ہے ؟ میرے لئے دعا کیجئے گاکہ اﷲ مجھ پر اپنا فضل وکرم کرے اور میں آج کی مانند ہمیشہ پرسکون رہوں۔آمین
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 479618 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More