مردم شماری:اصلاحات کا نقطہ آغاز

جن لوگوں کی بہتری کے لئے آپ پروگرام بنانا چاہتے ہیں۔ان کے لئے بنیادی معلومات کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔اگر آپ کو لوگوں کے بارے پتہ ہی نہیں تو آپ انکی فلاح و بہبود کے بارے کوئی بھی پروگرام درست طریقے سے نہیں بنا سکتے۔ہمارے ملک میں کل کتنے لوگ رہتے ہیں۔مردوں اور عورتوں کی نسبت کیا ہے۔تعلیمی حالات کیسے ہیں۔عمر کے لہاظ سے مختلف لوگوں کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔بچوں کی ضروریات علیحدہ اور نوجوانوں کی ضروریات علیحدہ ہوتی ہیں۔ایسے ہی پنشن حاصل کرنے والوں کے مسائل مختلف ہوتے ہیں۔ان تمام مسائل کے حل کے لئے مردم شماری ضروری ہوتی ہے۔پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ 1998ء کے بعد مردم شماری نہیں ہوسکی۔کسی کو بھی کل آبادی کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے۔اور نہ ہی دوسری اہم بنیادوں کے بارے لوگوں کی تعداد کا علم ہے۔16سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد آبادی کی ہئیت کچھ سے کچھ ہوگئی ہے۔یہی وہ دور ہے جب فاٹا میں بے شمار چھوٹے بڑے آپریشن ہوئے اور وہاں سے آبادی ملک کے دوسرے حصوں کی طرف منتقل ہوگئی۔یہ لوگ کتنی تعداد میں کہاں اور کس صوبے میں جاکر آباد ہوئے۔ملک کے کسی ادارے کو درست معلومات حاصل نہیں ہیں۔نادرا کا شناختی کارڈ تو ایک دفعہ بن جاتا ہے۔اسی کارڈ کے ساتھ لوگ شہر اور صوبے بدلتے رہتے ہیں۔صوبوں ،شہروں اور دیہاتوں کی آبادیوں کا بھی صحیح ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔فاٹا کی آبادی تو مجبوراًپورے ملک میں منتشر ہوچکی ہے۔فوجی آپریشن کی تکمیل کے بعد بھی یہی لوگ اپنے اصل ٹھکانوں پر واپس نہیں آتے۔اس وقت حکومت کو کئی مسائل درپیش ہیں۔فوری طورپر تو سیلاب زدگان کی امداد کا مسلۂ ہے۔اگر ہمارے پاس کسی یونین کونسل میں آباد کل خاندانوں کی تعداد معلوم ہوتی تو ان کو ادائیگی آسانی سے کی جاسکتی تھی۔لیکن1998ء کے بعد تو بے شمار نئے خاندان معرض وجود میں آچکے ہیں۔ہر خاندان میں کل بچے اور بچیاں اور جوان لڑکے ،لڑکیوں کے بارے معلومات کا ہونا ضروری تھا۔یوں حکومت کے لئے مدد آسان ہوتی۔اب پٹواریوں کی معلومات اور یونین کونسل والوں کی 2نمبر معلومات پر گزارہ کرنا پڑے گا۔انکی جلد آباد کاری کے لئے درست معلومات وقت کی ضرورت تھی۔یہ خامیاں مردم شماری نہ ہونے سے پیدا ہورہی ہیں۔ایسے ہی مقامی حکومتوں کے انتخاب کے مسائل ہیں۔الیکشن کمیشن بھی نئی مردم شماری کا شور ڈالتا رہتا ہے۔ووٹرز کی صحیح تعداد بھی فوری مردم شماری کا تقاضا کرتی ہے۔مقامی انتخاب کے لئے حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں۔یہ تمام مسائل بھی مردم شماری کا تقاضا کرتے ہیں ۔آجکل پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کی کمیٹی بن چکی ہے۔ہر ضلع اور صوبے کی مردم شماری کے Latestکوائف پارلیمانی کمیٹی کے سامنے ہونے سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ہر قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبروں کی تعداد کا بھی آبادی کی تعداد سے تعق ہوتا ہے۔آبادی کی تعداد بڑھنے سے ممبران کی تعداد میں اضافہ ضروری ہوتا ہے۔ہر حلقہ کا رقبہ اور آبادی ایسا ہونا چاہیئے کہ لوگ اپنے نمائندوں کو آسانی سے مل سکیں اور اپنے مسائل بتا سکیں۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی تعداد کے لئے بھی آبادی کے Latestکوائف ضروری ہیں۔صوبوں کی تعداد ہمارے ہاں تقریباً وہی ہے جو1947ء میں تھی۔تب آبادی 3کروڑ تھی۔اب آبادی کا صحیح اعدادوشمار تو موجود نہیں ہیں۔لیکن لوگ18کروڑ،19کروڑ اور20کروڑکی آوازیں سنتے رہتے ہیں۔موجودہ صوبوں کے اندر نئے صوبے بنانا اب وقت کی ضرورت ہے۔اسے ٹالا نہیں جاسکتا۔سندھ کی دھرتی کو"ماں ـ ـ"کہہ کر لفظ"تقسیم"کو تقدس نہیں دیاجاسکتا۔پورے ملک کے لوگوں کے مسائل آسانی سے تبھی حل ہوسکیں گے۔اگر انتظامی یونٹ(صوبے)چھوٹے ہوجائیں۔ہمارے اردگرد بھی تمام ممالک میں صوبے چھوٹے علاقوں پر مشتمل ہیں۔اگر پنجاب کی آبادی کا اندازہ 8کرورڑہو تو اسے ایک ہی صوبائی حکومت کے سپر د کردینا عقل مندی نہیں ہوگا۔67۔سال گزرنے کے بعد فاٹا کو بھی صوبے کا درجہ ملنا چاہیئے۔ایسے ہی گلگت بلتستان کو بھی مکمل صوبہ بنادینا وقت کی ضرورت ہے۔ہر موجودہ صوبے کو کتنے چھوٹے صوبوں میں تقسیم کیاجائے اس کا فیصلہ جہاں اور عوامل کو سامنے رکھ کر کیاجائے گا وہاں آبادی کو بھی سامنے رکھا جائے گا۔ایم۔کیو۔ایم کی اس بات میں وزن محسوس ہوتا ہے کہ اگر آبادی 20کروڑ ہوگئی ہے تو صوبے بھی بیس بنائے جائیں۔ایک کروڑ انسانوں کے مسائل ایک صوبائی انتظامیہ آسانی سے حل کرسکتی ہے۔فلاح وبہبود کے ہر پروگرام کے لئے انسانوں کے کوائف ضروری ہوتے ہیں۔اگرکسی گاؤں یا شہر میں تعلیمی اداروں کی ضرورت دیکھنی ہو تو وہاں بھی موجودہ سکول جانے والے بچوں کی تعداد اور مستقبل کے مہمانوں کی تعداد کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد کے لئے بھی علاقے کی آبادی اور وہاں کی شرح افزائش کو سامنے رکھا جاتا ہے۔پانی کی فراہمی خوراک اور رہائشی سہولیات فراہم کرتے وقت بھی لوگوں کی تعداد کو دیکھا جاتا ہے۔علاقائی،صوبائی اور قومی مسائل کوحل کرنے کے لئے آبادی کے اعدادوشمار بنیادکی حیثیت رکھتے ہیں۔فلاح وبہبود کے پروگرام چاہے پبلک سیکٹر میں بنائے جائیں یا پرائیویٹ سیکٹر میں آبادی کے جدید ترین کوائف کے بغیر کوئی بھی کام مکمل نہیں ہوسکتا۔لوگوں کو صحت ک سہولیات فراہم کرنی ہوں تب بھی دیکھا جاتا ہے کہ علاقے میں کتنے لوگ رہائش پزیر ہیں۔بجلی کی فراہمی سے لیکر گیس کی فراہمی تک انسانوں کی صحیح تعداد کے بغیر کوئی بھی پروگرام مکمل نہیں ہوسکتا۔ایسے ہی خوراک جو زراعت سے فراہم کی جاتی ہے۔وہاں بھی ہر علاقے کی آبادی کے کوائف کو سامنے رکھ کر ہی صحیح مقدار میں فراہم ہوسکتی ہے۔الیکشن کمیشن مقامی حکومتوں کے انتخابات کی تیاری کررہا ہے۔آئندہ جنرل الیکشن بھی2018ء سے پہلے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ان تمام کاموں سے پہلے مردم شماری ضروری ہے۔انتخابی فہرستوں کی درست تیاری اور حلقہ بندیاں نئی مردم شماری سے وابستہ ہیں۔سیلاب کا پانی خشک ہوتے ہی حکومت کو سب سے پہلے مردم شماری کے کام کو لینا چاہیئے۔1998ء کی مردم شماری کے وقت بھی سول عملے کی اعانت افواج پاکستان نے کی تھی۔یہ اعانت اب بھی کارآمد ہوگی۔افواج پاکستان نے اپنی دفاعی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ پہلے بھی ملک کے اندرونی مسائل میں ہاتھ بٹایا ہے۔مردم شماری کے وقت مسلح افواج کی اعانت بہت ضروری ہوگی۔خانہ شماری کا کام اس سے پہلے ہی مکمل ہوچکا ہے۔اب ان گھروں میں رہنے والے لوگوں کے کوائف معلوم کرنا باقی رہ گئے ہیں۔اگر ہم نے انتخابات صحیح طریقے سے کرانے ہیں ۔حلقہ بندیاں درست انداز سے طے کرنی ہیں۔انتخابی فہرستیںUptodateتیار کرنی ہیں تو مردم شماری ان تمام کاموں سے پہلے ہونی ضروری ہے۔علاقوں،اضلاع اور صوبائی آبادیوں کا صحیح اندازہ صرف آئندہ ہونے والی مردم شماری سے ہی ہوسکتا ہے۔اگر یہ کام نومبر سے شروع کیاجائے تو مردم شماری کا محکمہ ایک سال بعد تک تمام اضلاع،شہر اور صوبوں کے کوائف آسانی سے بتا سکے گا۔عمروں کے گروپس کا پتہ چل جائے گا۔ووٹر لسٹوں کے وقت یہ تمام کوائف کام آئیں گے۔نئے شناختی کارڈ ان کی اصل رہائش علاقوں کے بنیاد پر تیار ہوسکیں گے۔انتخاب کی شفافیت کا یقینی نظام بنانے کے لئے مردم شماری بنیا کاکام دے گی۔1998ء سے اب تک ایک لمبا عرصہ گزرچکا ہے۔آبادی کے بڑھنے اور آبادی کے تبادلوں کے بڑے مسائل کا پتہ صرف مردم شماری سے ہی پتہ چلے گا۔کراچی جیسے بڑے شہر میں بے شمار لوگ دوسرے صوبوں کے نظر آتے ہیں۔مردم شماری کی تحقیق ان تمام مسائل کو واضح کردے گی۔فاٹا کے لوگ اور صوبہ سرحد کے لوگ گزشتہ 16سالوں میں سب سے زیادہDisturbہوئے ہیں۔نئی مردم شماری ان باتوں کی وضاحت کرے گی۔مردم شماری پاکستان کے آئندہ اصلاحاتی پروگراموں کی بنیاد بن سکتی ہے۔پاکستان کو درپیش بے شمار مسائل کا درست حل مردم شماری سے حاصل ہوسکتا ہے۔
Prof.Ch.Jamil
About the Author: Prof.Ch.Jamil Read More Articles by Prof.Ch.Jamil: 18 Articles with 10814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.