دولہا دلہن کی جاسوسی کا کاروبار عروج پر

کسی بھی دوسری ثقافت کی نسبت بھارت میں شادی ایک بڑا موقع ہوتی ہے۔ یہاں خاندان صرف ایک تقریب کے لیے ساری عمر کی بچت جمع کرتے ہیں اور دنوں تک جاری رہنے والی تقریبات میں ہزاروں مہمان آتے ہیں۔

اس بے تحاشا نمود و نمائش کے ساتھ ساتھ ایک بات اور بھی عام ہے اور وہ یہ کہ خاندان ہونے والے دولہا اور دلہن کی جانچ پڑتال کے لیے ایک نجی جاسوس کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں۔
 

image


بی بی سی کی شائع کردہ ایک دلچسپ رپورٹ کے مطابق بھارت میں شادی سے پہلے فریقین کی جاسوسی کرنے والے ایجنسیوں کی بہتات ہے اور یہ لوگوں کے ماضی کے تعلقات، آمدن اور خاندانی پس منظر سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔

53 سالہ تارالیکا لاہیری نے یہ پیشہ سنہ 1987 میں اپنایا۔ کسی باقاعدہ تربیت کے بنا ہی انھوں نے بیشتر صلاحیت اپنی ملازمت کے دوران حاصل کی۔

اس کے بعد انھوں نے سنہ 1994 میں ’نیشنل ڈیٹیکٹو اینڈ کوآپریٹ کنسلٹنٹس‘ کے نام سے اپنی ایجنسی بنائی۔ اس کے لیے ان کا ابتدائی سرمایہ پانچ ہزار ڈالر انھیں ان کے خاندان نے مہیا کیا۔

سنہ 1987 میں وہ اس پیشے میں واحد خاتون تھیں لیکن اب یہ خواتین میں ایک مقبول پیشہ بن چکا ہے۔

خاتون جاسوسوں کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ جاسوسی کروانے والی بھی زیادہ تر خواتین ہی ہوتی ہیں اس لیے وہ خواتین کو جانچ پڑتال کرنے کے لیے کہنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتی ہیں۔

تارالیکا نے فردِ واحد کی حیثیت سے ادارہ شروع کیا تھا تاہم اب ان کے ساتھ 15 افراد کام کرتے ہیں اور ان کا کاروبار پھیل رہا ہے۔

تارالیکا بتاتی ہیں کہ ’شادی سے پہلے تحقیقات کروانے کا کاروبار اس لیے پھیل رہا ہے کیونکہ زیادہ تر شادیاں انٹرنیٹ پر طے ہوتی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے خاندانوں میں خواتین ہوا کرتی تھیں جو لڑکے لڑکیوں کی جوڑیاں ملایا کرتی تھیں۔ لیکن اب آپ کے سامنے کئی جعلی شناخت کے لوگ ہوتے ہیں جو بھارت میں بھی ہیں اور دوسرے ممالک میں بھی۔‘

’خاندان چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے یا بیٹی کے لیے جو بر ملے وہ اصلی ہو نہ کہ کوئی دھوکے باز۔‘

انھوں نے اپنے ایک کیس کے بارے میں بتایا جس میں دہلی کے ایک صنعت کار نے اپنی بیٹی کے دوست کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کو کہا تھا۔
 

image

اکثر ممکنہ داماد ڈیزانز لباس پہنتے ہیں، پُرتعیشں گاڑیاں چلاتے ہیں اور مہنگے کیفیز میں ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے بعض خاندان کو ان کے معاشی حالات کے بارے میں شبہ ہوتا ہے اور وہ اس کی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں۔

اس کیس میں بھی کچھ دن اس لڑکے کا پیچھا کرنے سے تارالیکا کی ٹیم کو معلوم ہوا کے یہ لڑکا ایک دھوکے باز تھا اور اس نے اپنا جعلی پتہ بتا رکھا تھا اور کرائے کی گاڑی لے کر لڑکی کو بے وقوف بنا رہا تھا۔

تارالیکا کا کہنا ہے کہ دولہا یا دولہن کو یہ بتانا کافی مشکل ہوتا ہے کہ جس کے ساتھ انھوں نے شادی کا فیصلہ کیا ہے وہ ویسا نہیں جیسا کے ظاہر کیا گیا ہے۔

تارالیکا کہتی ہیں کہ اپنے گاہک کو یقین دلانے کے لیے ٹھوس ثبوت اکٹھے کرنا ہوتے ہیں جیسے کہ تصاویر اور ٹیلی فون ریکارڈز۔

گو کہ تارالیکا کا بنیادی کام تو شادی سے پہلے کی تحقیقات ہیں تاہم اب شادی کے بعد کے تنازعات میں بھی ان کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔

بھارت میں طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جب شادی کے بعد جھگڑے انتہا کو پہنچ جاتے اور معاملہ عدالت میں جا پہنچتا ہے تو فریقین ایک دوسرے کے خلاف ثبوت اکٹھے کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں ان لوگوں کے وکلا بھی تارالیکا جیسے جاسوسوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں تاکہ اپنے مقدمے کے لیے ثبوت اکٹھے کر سکیں۔

تارالیکا کے بقول ’زیادہ تر معاملات میں لوگوں کا مقصد معاوضے میں کمی کروانا یا بچوں کی حوالگی ہوتا ہے لیکن عدالت کو ٹھوس شواہد چاہیے ہوتے ہیں۔‘

ایک مرتبہ ان کے امریکہ میں مقیم ایک شخص نے اپنی بیوی کی جاسوسی کروائی۔

اس خاتون نے ان پر بھاری نان نفقے کا دعویٰ کیا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ کمر سے نیچے مفلوج ہیں اور انھیں بچوں کی پرورش کے لیے رقم درکار ہے۔

شوہر کو علم تھا کہ وہ ایک شادی میں شرکت کے لیے دہلی جا رہے ہیں اس لیے اس نے تارالیکا کو ساری معلومات فراہم کیں۔
 

image

تارالیکا کی ٹیم نے شناخت چھپا کر فوٹو گرافرز اور کھانا مہیا کرنے والوں کے بھیس میں شادی میں شرکت کی۔ اس خاتون نے روایتی انداز میں شادی میں شرکت کی اور دولہے کی بارات میں رقص کیا۔

تارالیکا کی ٹیم نے ساری تقریب کی فلم بندی کی اور یہ ثبوت امریکی عدالت میں پیش کیے گئے جہاں ان کی طلاق کا مقدمہ چل رہا تھا۔ اس کی وجہ سے اس شخص کے خلاف مقدمہ ختم ہوا۔

تحقیقات کے لیے آنے والے معاملات کے لیے فیس کا تعین ان کی نوعیت کے حساب سے ہوتا ہے۔ تارالیکا کا کہنا ہے کہ شادی سے پہلے کروائی جانے والے تحقیقات کی فیس امریکی 500 ڈالر یعنی تقریباً 30000 بھارتی روپے ہیں۔ جبکہ شادی کے بعد کروائی جانے والی تحقیقات کی فیس نسبتاً زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس میں زیادہ شواہد اکھٹے کرنا ہوتے ہیں۔

تارالیکا کا کہنا ہے کہ ان کے اس پیشے کو اپنانے کے دور سے اب تک بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔

اب ٹیکنالوجی کے بہت سے آلات ہیں جو مددگار ہوتے ہیں جیسے کہ بہترین نتائج والے کیمرے، رات میں عکس بندی کرنے والے لینز اور ریکارڈنگ کے ایسے خفیہ آلات جو چشمے اور جیبوں میں چپھائے جا سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کا تربیت یافتہ عملہ انٹرنیٹ سے بھی لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے۔

گو کہ جدید آلات نے کام آسان کر دیا ہے لیکن تارالیکا کا کہنا ہے کہ اب بھی ’پرانے انداز کی محنت اور ادراک‘ کا کوئی مقابلہ نہیں۔‘
YOU MAY ALSO LIKE:

Weddings in India are big occasions - more so than in other cultures. Families save for their whole lives to pay for this one special event, which very often runs into days of celebrations with thousands of guests.