وہ بے روز گار ہے

پیارے دوستو میں آج آپ کو ایک چھوٹی سی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ یہ کہانی ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ بے روزگاری میں ہی گزارا ہے ۔ اس کا تعلق پاکستان کے کسی قصبے سے نہیں بلکہ پاکستان کے کیپٹل اسلام آباد سے ہے۔2001 میں اپنی گریجویشن مکمل کرنے کے بعدبہت خوشی سے مختلف اداروں میں جاب کے لیے درخواست دی۔بہت پر امید تھا کہ کہیں نہ کہیں اس کی جاب ہو جائے گی۔پھر وہ دن بھی آ گیا کہ اسے کسی ادارے سے ٹیسٹ کے لیے کال لیٹر ملا۔وہ اسے دیکھ کر اس قدر خوش ہواکہ جیسے یہ کال لیٹر نہیں بلکہ اپائنٹمنٹ لیٹر ہو۔کبھی اسے والدین کو دکھاتا تو کبھی دوستوں کو۔بعد میں ٹیسٹ کا دن بھی آ گیا جسں کے لیئے انتہائی تیاری کر رکھی تھی خوب تیار ہو کر ٹیسٹ سینٹر پہنچا۔ وہاں پر لوگوں کا ایک بہت بڑا رش دیکھ کر دل کچھ پریشان ہوا کہ یہ ایک ہزار سے بھی زیادہ لوگ جبکہ جاب صرف دو پر اپنے آپ پر بھروسہ تھا کہ شاید ان دو میں سے ایک نا م میرا ہی ہو۔ ٹیسٹ دے کر گھر گیا اور کافی دن انتظار کیا پر کوئی جواب نہ آیا اسے اﷲ کی مرضی سمجھ کر بھول گیا۔اسی طرح دوبارہ کسی اور ادارے سے کال لیٹر آیاپر آخر میں وہی پہلے جیسا معاملہ ہوا ۔ پتہ کرنے پر اکثر لوگوں سے معلوم ہوا کہ ہمارے اکثر اداروں میں پہلے سے ہی بھرتیاں ہو چکی ہوتی ہیں یہ ڈرامہ صرف خانہ پوری کے لیے رچایا جاتا ہے۔جس سے وہ اور پریشان ہو گیاپر ان تمام چیزوں کو من گھڑت سمجھ کر دل کو تسلی دی ہمت نہ ہاری اور سوچا کہ اس ملک میں کوئی نہ کوئی تو ادارہ ایسا ہو گا کہ جو اسے جاب دے گا پر یہ اس کی بہت بڑی بھول تھی۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ دنیا کتنی ظالم ہے۔یہاں پرلوگ صرف پیسے اور سفارش سے بھرتی ہوتے ہیں۔پر اس غریب کے پاس تو یہ دونوں سہولتیں نہ تھیں۔ لیکں یہ اﷲ کی زات سے نہ امید بلکل نہ ہوا اور کوشش جاری رکھی اور کرتے کرتے اس کے پاس ایک سو سے بھی زیادہ کال لیٹر جمع ہو گئے پر دس بارہ برسوں میں کوئی بھی اپائنٹمنٹ لیٹر نہ آیا۔بعدمیں ایک دن سوچا کہ کیوں نہ ان سب کال لیٹرز کو آگ لگا دی جائے ۔چناچہ اس نے ایک دن یہی کیا جس سے دل کو کچھ سکون ملا۔ان بارہ برسوں کے دوران ایک دو پرائیوٹ جاب ملیں جو کہ کنٹریکٹ پر تھیں اور کنٹریکٹ ختم ہونے پر جاتی رہیں۔اب موجودہ ملکی صورت حال یہ ہے کہ حکومت نے NTS کے نام سے الگ لوٹنے کا ایک ادارہ بنایا ہے جو تمام سرکاری اداروں میں بھرتیوں کے لیے ٹیسٹ لیتا ہے۔اور ہر ٹیسٹ کی ایک فیس بھی مقرر کی گئی ہے جو سب درخواست گزاروں کو بنک میں جمع کروانی ہوتی ہے۔آج اس ملک میں کوئی ہے جو یہاں کے کرتا دھرتا سے پوچھے کہ اس ملک کا نوجوان کس قدر مارا مارا پھرتا ہے۔ لوگ تعلیم حاصل کر کے کیوں اپنی ڈگریاں جلا رہے ہیں۔ایک آدمی کونوکری اپلائی کرنا بھی کسی قدرمشکل ہو گیا ہے۔جسے کال لیٹر میں سارے کاغزات کی اٹیسٹ کاپیاں ساتھ لگانے کا کہا جاتا ہے ۔کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اسے اس کے لیے کس قدر لوگوں کی منت سماجت کرنی پڑتی ہو گی۔پھر ان سے تصاویر مانگی جاتی ہیں جس کے لیے انہیں فوٹو سیشن بھی کرانا پڑتا ہے۔پھر NTS کی فیس علیحدہ سے ۔بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ملک کے تول و عرض سے انہیں زاتی کرایا خرچ کروا کر بلایا جاتا ہے اور پورا دن زلیل ورسوا ہوکر بے چارے ٹیسٹ دے کر چلے جاتے ہیں۔ جیسے بھیڑ بکریاں ہوں۔یہ سارے معا ملات ہر بار ٹیسٹ دینے والے کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ تمام صورت حال پاکستان کے نہ جانے کتنے نوجو انوں کے ساتھ ہو گی۔ اب اس کہانی والے شخص نے تو اپلائی کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اب اسے اوور ایج کا بھی خطاب مل چکا ہے ۔پر دن رات یہ سوچتا ضرور ہے کہ کوئی مسیحہ اس قوم میں آجائے اور اس ملک کے حلات بدل دے۔آج کل کے حالات میں طاہرالقادری اور عمران خان کی شکل میں مسیحا نظر آرہے ہیں شاید ان کے زریعے ہی نظام درست ہو سکے۔پر اﷲ سے دوا ہے کہ جو ہو اس ملک کے لیے اچھا ہو۔

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
malik nasir
About the Author: malik nasirCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.