مشتری ہوشیار باش ……خطرہ ابھی باقی ہے

سمجھ نہیں آتی کہ عمران خاں اور علامہ انقلاب القادری میں سے کس کا اعتبار کیا جائے ؟ علامہ انقلاب القدری قوم کو نوید مسرت دیتا ہے کہ عید قربان اپنے اپنے گھروں میں کریں گے ۔ جبکہ عمران خاں کہتا کہ کہ عید ڈی چوک میں منائیں گے ……عمران خاں سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرکے واپس لیتا ہے تو علامہ صاحب کرنسی نوٹوں پر ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے تحریر کرنے کی مہم چلانے کا اعلان کچھ گھنٹوں بعد واپس لے لیتا ہے ……علامہ صاحب ہزاروں کے اجتماع کے سامنے نوٹ پر ’’گو نواز گو ‘‘ لکھتے ہیں مگر اگلے روز کہتے ہیں کہ میں نے قانون کے احترام میں کرنسی نوٹ پر گو نواز گو نہیں لکھا……اسی کھلے تضاد کے باعث میں کہتا ہوں کہ اسلام آباد کے شہریوں کو یرغمال بنانے والے دھرنیوں کے قائد کی کیوں کر تقلید کی جائے۔

پاکستان میں مارشل لاوں کے نفازکے ذمہ دار ی کن پر عائد ہوتی ہے ؟ …… آمریتوں کی یہ آندھیاں وطن عزیز پر مسلط کرنے میں کن کی خواہشات کا عمل دخل رہا ہے……؟ کچھ لوگ پاکستان پر فوجی راجوں کے سیاہ بادلو ں کے چھانے کو فوجی جنرل کی ہوس اقتدار کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں ……!!۱تو کچھ عناصر پاکستان اور قوم کے بتیس تیتیس سال ضائع (آمریت کی نظر)کرنے میں ہمارے سیاستدان ملوث کرتے ہیں۔ اوراسکی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اگر سیاستدان باہمی نفاق کے مظاہرے نہ کرتے ……ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچتے تو کسی مائی کے لال جنرل میں یتنی جرآت نہ پیدا ہوتی کہ وہ ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا سوچ بھی سکتا۔بس سب کیا دھرا انہیں سیاستدانوں کا ہے۔

کچھ لوگ بلکہ بہت سیانے لوگ جنہیں ہم پڑھ کر کچھ لکھنے کے قابل ہوئے ہیں ۔وہ بھی اسی بات کی تشہیر کرتے ہیں کہ ایوب خاں کے مارشل لا کے سوا باقی سب جنرلوں کی اپنی ہوس اقتدار کا نتیجہ ہیں۔کہتے ہیں کہکمانڈر انچیف ہوتے ہوئے ایوب خاں کو اپنی کابینہ میں بطوروزیر دفاع شامل کرنا بھی سیاستدانوں کا ہی سنہی کارنامہ ہے ……!!!!ایوب خاں کے متعلق اپنے سینئیرز کی اس رائے سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ کیونکہ ہمیں یہی سبق پڑھایا گیا ہے کہ ایوب خاں سازشیں کرتا تھا، اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی آرزو ان کے دل میں مچلتی رہتی تھی ۔……ہمیں بتایا گیا ہے کہ پچاس کی دھائی میں سیاسی جوڑ توڑ کے پیچھے بھی جنرل ایوب خاں کی ہی منصوبہ سازی کارفرما تھی ۔اور اسکی ان حرکات بابائے قوم قائد اعظم کے علم میں بھی تھیں۔ اسی لیے بابائے قوم نے کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے ایوب خاں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں تنبیہ کی تھی کہ وہ سازشیں کرنے سے باز رہے۔

ہمارے سینئر نہ جانے کیوں سیاستدانوں میں لگائی بجھائی کرکے انہیں آپس میں دست و گریبان کرنے میں بیوروکریسی اور فوجیوں کے کردار کو نظرانداز کردیتے ہیں؟ بیوروکریسی کے امام کا درجہ رکھنے والے غلام محمد نے جو جو کھیل کھیلے کیا انکے بھی ذمہ دار سیاستدان ہی ہیں؟ جسٹس منیر نے جو بدمعاشی کی کیا وہ بھی سیاستدانوں کے کھاتے میں ڈالی جائیگی؟ سکندر مرزا کیا سیاستدان تھا؟ سیاستدانوں کی کس نسل سے اسکا تعلق تھا؟خدارا سیاستدانوں کو مطعون کرنے کی روش ترک کردی جائے اور قصوروار کو ہی قصوروار ٹہھرا جائے یہی اس ملک ،قوم اور جمہوریت کے لیے مفید ہوگا۔

معذرت کے ساتھ مجھے اس بات کا اعتراف کرنا ہے۔کہ ہر دور میں مارشل لا کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے والے عناصر میں سیاست کا لبادہ اوڑھے غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار لوگ ضرور پیش پیش ہوتے ہیں ۔جیسا کہ آجکل عمران خاں اور علامہ انقلاب القادری مارشل لا کے نفاذ کے لیے بے چین کوشاں ہیں۔ سیاستدان اور غیر سیاستدان واضع ہو گئے ہیں۔اب کوئی ابہام نہیں رہا……جاوید ہاشمی سیاستدان تھا ناں۔ اس لیے غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کاروں کے کارواں سے الگ ہوکر ملتان جا بیٹھا ہے۔یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی اگر کل کلاں کو کوئی قلم کار اٹھ کر سیاستدانوں کو مطعون کرنا شروع کردے۔ آج اسکی آنکھوں پر پٹی نہیں بندھی ہوئی ہے۔وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی صحافتی آنکھوں سے نہیں بلکہ کسی اور کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

میرے دوست قاضی احتشام عارف شامی نوجوان سیاسی کارکن ہے۔ وہ سیاست ایک نظریہ کے تحت کرتا ہے کہ اس ملک کے عوام کو دنیا کے ترقی یافتی ممالک کے برابر سہولیات ملیں۔ اس نے مجھ سے سوال پوچھا کہ براہ کرم میری راہنمائی فرمائیں کہ سیاست میں تو کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت ورکنگ ہوتی ہے۔لیکن عمران خاں اور علامہ صاحب تو ایک نکتہ پر منجمد کیوں ہیں…… دوسرا یہ بھی بتائیں کہ جس طرح عمران خاں نے رات کی تاریکی میں پولیس اسٹیشن پر دھاوا بولا اور اپنے ورکرز کو چھڑوایا ہے۔کیا یہ ایک قومی لیڈر کے شایاشان ہے؟قاضی احتشام عارف شامی کے ان سوالات کے جواب میں میں فقط اتنا کہ پایا کہ ’’شامی بیٹا! یہ تو آپ یوتھ والوں کو سوچنا چاہیے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ لیکن میرے اس جواب پر وہ رکا نہیں اور اس نے اپنا اصرار جاری رکھا تو مجھے کہنا پڑا کہ بیٹا! یہی ہمارا المیہ ہے۔اور ماضی میں بھی رہا ہے کہ سیاستدانوں کے روپ میں غیر جمہوری سوچ کے حامل لوگ گھس آتے ہیں۔اور انہیں اقتدار ہر صورت اور کسی بھی قیمت پر بہت جلد چاہیے ہوتا ہے۔کیونکہ ان کے ’’بگ باس‘‘ ایسا ہی چاہتے ہیں۔ اب کیا ہوگااور کیا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بعد جمہوریت پر منڈلانے والے خطرات ٹل گئے ہیں؟یہ اسکا اگلا معصومانہ سوال تھا۔ نہیں شامی بیٹا خطرہ ٹلا نہیں ۔ابھی باقی ہے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 143056 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.