کون کون کامیاب ہونا چاہتاہے ؟

 کامیابی کا لفظ مجھے یاد پڑھتاہے کہ میں شاید پرائمری کا طالب علم تھا تو یہ لفظ میری سماعتوں سے گزراتھا ۔والد محترم اکثر کہا کرتے تھے۔آپ کو کامیاب ہوناتھا۔ان دنوں اس کامیابی سے یہی سمجھ میں آتاتھا کہ پی این ایس کارساز اسکول سے سالانہ امتحان میں امتیازی نمبروں پر پاس ہوناہے اور ٹرافی لانی ہے ۔لیکن جوں جوں بلوغت کی دہلیزپر پہنچاتو کامیابی لفظ کے کئی دریچے اور واہ ہوئے اور یوں لگاکامیابی تو اک جہان ہے اک دنیا ہے ۔اس دنیا میں جینے والا ہرفرد اپنے محور میں کامیابی کی خواہش رکھتاہے ۔یہ صرف میری تمنا یا قلبی آرزو نہیں ۔بلکہ بہتیرے اس کی طلب میں خاک چھان رہے ہیں ۔

میں چونکہ ایک انسٹیٹیوٹ بھی چلارہاہوں ۔جہاں اکثر طلباء مجھے سے پوچھتے ہیں کہ سر کامیابی کیسے حاصل کی جائے تو میں انھیں اپنے تجربہ اور مشاہدہ اور مطالعہ کی بنیاد پر جو جو معلومات ہوتی ہے ان کی سماعتوں کی نظر کردیتاہوں ۔ان دنوں میں اپنے حلقہ احباب میں دوستوں کو بہت خوف زدہ اور پریشان دیکھ رہاہوں جو شاید مایوسی کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں ۔میں نے سوچاکیوں نہ ایک نفع بخش عنوان جس پر کچھ کہنے کی حاجت بھی ہے اور اس میں نفع عام بھی ہے ۔لہذا کامیابی کے عنوان پر رقمطراز ہوں ۔
ہم باہمی رشتوں، نظریوں اورضرورتوں ،تہذ یبوں کی صورت میں ایک زنجیر میں پروئے ہوئے ہیں :
اس کائنات عالم میں جینے کے لیے جہاں ہواپانی اور آگ انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں وہاں اسے کائنات میں ارتقائی مراحل سے گزرنے کے لیے انسان کی معیت ،رفاقت اور تعاون کی حاجت ہے ۔وہ بنا اس کے اس دنیا میں نمو نہیں پاسکتا۔نموسے میری مراد ترقی کے مدارج ہیں۔ ہمیں اپنی پیدائش سے لے کر موت تک دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ہر شخص خواہ وہ کتنا ہی بڑا یا چھوٹا کیوں نہ ہو، ہماری کامیابی کا زینہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیے،"اکیلے پھول سے کبھی بھی گلدستہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔"یعنی کامیابی کے حصول میں پہلی چیز انسانوں سے تعلقات استوار کرناہے ۔کیوں کہ جس منزل کا حصول ہے اس کا تعلق بھی انسانوں کی دنیا ہی سے تعلق ہے ۔

جہد مسلسل:
یہ ایک آفاقی قانون ہے کہ ہم کچھ کیے بغیر کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ زندگی میں کامیابی کی قیمت، مسلسل جدوجہد کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ صرف اور صرف ایک صحت مند جسم ہی بے پناہ توانائی کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کی تین بنیادی ضروریات یعنی کھانا، ازدواجی تعلقات اور سونے میں افراط و تفریط سے کام لیں تو اس سے ہماری صحت اور ذہنی سکون بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ یاد رکھیے کہ "کامیابی کا 1% انحصار آپ کے جذبہ عمل اور 99% انحصار آپ کی مسلسل جدجہد سے تعلق ہوتاہے ۔

تفکر و تدبر کی اہلیت:
اللہ تعالی نے ہم میں سے ہر ایک کو بے پناہ تخلیقی قوت ،فکر و نظر کی دولت عطا کی ہے۔ مگر یہ قوت ہماری شخصیت کی کسی گہرائی میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح ایک نگینہ ساز کو اپنے اوزاروں کی مدد سے پتھر کو تراش کر اس کے اندر سے ایک قیمتی پتھر برآمد کرنا پڑتا ہے، بالکل اسی طرح ہمیں اپنی تخلیقی صلاحیت کو دریافت کرنے کے لئے اپنی شخصیت کی تراش خراش کر کے روایتی طرز فکر سے نجات حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہاں ایک نکتہ عرض کرتا چلوں کہ اگر آپ وہی کچھ کرررہے ہیں جو آپ معمول کے مطابق کرتے ہیں تو پھر آپ وہی کچھ ہی حاصل کر پائیں گے جو آپ اس وقت حاصل کر رہے ہیں۔

اعتماد کامیابی کا زینہ ہے:
ایک چیز میرے مشاہدے میں آئی کہ ہماری اک تعداد ہے جو اپنے زعم میں بہت کچھ کرگزرنے کا عزم رکھتی ہے لیکن وہ اپنے عزم کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے کیوں؟کبھی غورکیا۔؟ایک ایسا باصلاحیت شخص جس میں خود اعتمادی کی کمی ہو، اس کار کی طرح ہے جس میں اسپارک پلگ نہ لگے ہوئے ہوں۔ خود اعتمادی ایسا کشتہ ہے جو ہماری توانائی کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ یاد رکھیے، "وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ واقعتاً کچھ کر سکتا ہے۔''

قادرالکلام:
جس جس کو قدرت نے قوت گویائی عطافرمائی ہے ۔یقینا وہ بولتاہے ،گفتگوکرناہے اپنا مافی الضمیر دوسرے تک پہنچاتاہے ۔لیکن ہر کلام کا اثر اور اس کے ثمرات جداجداہوتے ہیں ۔بعض لوگ کوئی بات کرتے ہیں لیکن کوئی ان کی بات پر کان نہیں دھرتالیکن اسی بات کو کوئی ایک قادر الکلام شخص کہتاہے جو گفتگوکے گُر کو جانتاہے جو الفاظ کی ترتیب اور بات کرنے کے سلیقہ سے واقف ہے ۔اس کی بات کو نہ صرف سنا جاتاہے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کیاجاتاہے اور ایک اچھاتأثر بھی باقی رہتاہے ۔یہ وہ ہنر ہے جس کی بدولت آج دنیا میں لوگ ترقی کے زینے طے کررہے ہیں ۔معاشرے میں مقام حاصل کررہے ہیں ۔اسی فن کی بدولت آپ کے پاس دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیت آ جاتی ہے۔ یاد رکھیے کہ "خوبصورت آواز رکھنے والا پیدائشی طور پر اس نعمت سے مالا مال ہوتاہے ۔لیکن ایسا نہیں کہ جس کی آواز ویسی نہیں وہ فن ترنم سے محروم وہ جائے گابلکہ جستجواور محنت کی بدولت اس فن کا حصول بھی ممکن ہے ۔جو سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس الفاظ کا چناو درست نہیں ،لہجہ میں کمی ہے ۔بات بات پر رکاوٹ محسوس ہوتی ہے وہ اس کمی کو پوراکرنے کی کوشش کریں اور درست اور پرتاثیرکلام کرنے والوں کی معیت اختیار کریں ۔جلد ہی اپنے اندر بہتری محسوس کریں گے ۔میں اپنی ہی بات کرتاہوں ۔میری بیٹھک ادیب اور شعرا ء طبع کے لوگوں کے ساتھ ہے ۔جہاں ثقیل گفتگو کا رجحان ہے ۔اب اکثر گھر میں بھی کبھی بات ہوتی ہے تو میں کوئی لفظ یاپھر ضرب المثل ایسی داغ دیتاہوںجو شاید ہی عوام کی سماعتوں سے گزری ہو۔لیکن کیوں کہ اہل خانہ مزاج کو سمجھ گے ہیں اب میں دیکھتاہوں کہ میری ہمشیرہ بھی بعض لفظ اردو کے ایسے استعمال کرتی ہیںجو کافی ثقیل ہوتے ہیں ۔بہر حال مشکل لفظ کا استعمال کوئی طرہئ امتیاز نہیں ۔یہاں میرامقصود آپ کو معیت و رفاقت کے اثرات کی نظیر بتلانا تھا۔شاعر تو پیدائشی شاعر ہوا کرتے ہیں مگر ایک عام شخص کو بھی تربیت دے کر ایک اچھاخطیب بنایا جا سکتا ہے۔

اپنی ترجیحات پر غورکریں :
انسان کسی بھی چیز کو اگرترجیحات کی بنیاد پر اہمیت دیتاہے ۔کبھی محسوس کیا ہوگا کہ آپ ایک شادی ہال میں بیٹھے ہوں تو ایک شخص میز کے گرد بیٹھے افراد سے بات کر رہاہوتاہے لیکن ان پانچ لوگوں میں ترجیحات کی بنیاد پر کسی ایک کی جانب اس کا التفات زیادہ ہوگاجس کی جانب ہو چہرہ کرے اسے مخاطب کرے گایاپھر اس کی بات کو توجہ سے سنے گا۔اور جسے وہ ترجیح نہیں دے رہاہوگا اس کی بات کو سنی ان سنی کردے گا۔اب یہ ترجیح کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے ۔اسی طرح جب انسان کے ذہن میں کوئی مقصد تشکیل پا جاتا ہے تو اس مقصد کے حصول کے لئے انسان عمل کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے۔جو اس کی ترجیحات ہوتی ہیں اس کی جانب پیش قدمی شروع کردیتاہے اور اسی شدت سے کوشش کرتاہے جتنی اس چیز کی اہمیت اس کے دل میں آراستہ پیراستہ ہوگی ۔اپنے اندر وہ جنوں پیدا کیجیے ۔خود کو اپنے ہدف کو پانے کے لیے عمل کی بھٹی میں کندہ بنانے کے لیے تیارکرلیں ۔جتنا بڑامقصد ہوگااتنی بڑی آزمائشیں اور تکالیف راہوں میں استقبال کررہی ہوتی ہیں ۔

کامیابی میں حافظہ بھی ایک اہم عنصر ہے :
یادداشت ہی ہمارے ذہن کے استعمال کا پیمانہ ہے۔ اچھی یاداشت کا راز یہ ہے کہ ہم معلومات کو ذہن میں منظم انداز میں رکھیں تاکہ ضرورت پڑنے پر ان معلومات کو فوراً ذہن سے اخذ کیا جا سکے۔ عمر، تعلیم اور ذہانت سے قطع نظر ہم میں سے ہر ایک اچھی یادداشت کا مالک ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اس یادداشت کو استعمال نہیں کریں گے تو جلد ہی اس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی خامیوں پر غورکرنا ہوگا:
اپنی خامیاں اور کوتاہیاں اپنے سامنے لائیں اور انکو اپنی بری حرکتوں سمیت ایک گڑھا کھود کر اس میں دبا دیں اپنے اردگرد لوگوں پر نظر دوڑائیں کامیاب اور مثالی زندگی گذارنے والوں کی خوبیاں نوٹ کریں اور پھر انہیں اپنے اندر سمیٹ لیں اپنے راستے کا تعین کریں اور پھر ایک بار پوری ایمانداری کے ساتھ اس پر چل پڑیں آپ کو ایسے محسوس ہوگا کہ جیسے مشکلات کا یک پہاڑ آپ کے سامنے کھڑا ہے۔

مگر ہمت اور حوصلے سے آپ اس پہاڑ کو عبور کرنا شروع کردیں اسکے بعد پھر کامیابیاں آپ کے ساتھ ساتھ چلنا شروع ہو جائیں گی آپ ثابت قدم رہے تو پر آپ کے ساتھ چلنے والی وہی کامیابیاں آپ کے قدم چوم لیں گی اسکے بعد آپ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے مرنے کے بعد بھی آپ کی تاریخ کے جھرکوں سے باہر جھانکتے رہیں گے اور لوگ آپ کی کامیابی کے قصے سنایا کریں گے مگر شرط صرف ایمانداری ہے کیونکہ یہی کامیابی کا راز ہے۔

محترم قارئین:امید ہے کہ میرے ان معروضات پر ضرور غور فرمائیں گے۔میں اگرچہ خود کو کامیاب انسان تصورنہیں کرتالیکن کامیاب ہونے کی امنگ مجھ میں ضرور ہے ۔ناکامیوں میں مجھے کامیابی حاصل کرنے کا سلیقہ سیکھادیاہے ۔مایوسی کو زندگی سے نکال دیں ۔اور امیدکو ماتھے کا جھومر بنالیں ۔سب کو کامیابیاں عطافرمانے والے رب پر توکل کرلیں ۔تو ان شاء اللہ عزوجل جلد آپ کا شمار بھی کامیاب لوگوں میں ہوگا۔جی ہاں !یہ وہ سچ ہے جس پرتاریخ اور سیرت کی کتب میں دیوان کے دیوان موجود ہیں ۔ناکامی کے حصار سے کیسے چھٹکاراملااورلوگوں نے کامیابیاں کیسے حاصل کیں ۔اپنے آپ سے وفاکرنا سیکھیں ۔اپنے اندر کے موسم کو خوشگوار بنائیں ۔باہر کا موسم بھی اچھا لگنے لگے گا۔مسکرانے کا ہنر اپنا لیجیے ۔میں دعا گو ہوں اللہ عزوجل ہم سب کو دنیا و آخرت کی کامیابیاں عطافرمائے ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544279 views i am scholar.serve the humainbeing... View More