آفت زدہ کشمیریوں کے خلاف غیر انسانی سلوک!

کشمیر جنوبی ایشیا کا واحد خطہ ہے جہاں کی 6 ہزار سال کی تاریخ تحریری حالت میں موجود ہے۔ کشمیر کے ایک شہرہ آفاق مورخ پنڈت کلہن نے قدیم سنسکرت (نظم )میں ’’راج ترنگنی‘‘ (راجاؤں کا دریا) کے نام سے کشمیر کی تقریباً چھ ہزار سال کی معلوم تاریخ کو لکھا ہے ۔ ’’راج ترنگنی‘‘گیارہویں صدی میں لکھی گئی ہے۔ پنڈت کلہن اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’راج ترنگنی‘‘ (راجاؤں کا دریا) کے آغاز میں لکھتے ہیں ،’’زمانہ سابق میں ابتدائی کلپ سے لیکر وہ زمین جو ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے، ابتدائی چھ منوؤں کے عہد میں پانی سے ڈھپی ہوئی تھی ۔ یہاں ’’ستی سر‘‘ نامی جھیل واقع تھی۔ اس کے بعد جب موجودہ ساتویں منودیوسوت کا زمانہ آیا تو پرجانپتی کشپ نے دروہن (برہما) اور پندر (وشنو) رورد (شو) کی رہبری میں دیوتاؤں سے مدد حاصل کر کے جلود پھورا کھش کو جو اس جھیل میں رہتا تھا مروا ڈالا اور اس زمین کو جو جھیل کے باعث رکی ہوئی تھی’’ کشیر‘‘ کے نام سے آباد کیا۔اس زمین کا محافظ تمام ناگوں کا مالک نیل (نیل مت کا پانی)ہے۔ جس کے شاہی چتر کا بالائی حصہ نیل کنڈ (موجودہ ویری ناگ)گول تالاب اور ڈنڈی ونشنا (جہلم ) کا اس چشمے سے نکلنے والا دریا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے معروف ادیب،صحافی راجہ نذر ر بونیاری نے اپنے آزاد کشمیرکے دورے کے موقع پر ایک تقریب میں کشمیر میں آنے والے بڑے سیلاب کے حوالے سے کہا کہ کشمیر سیلاب سے ’ ستی سر ‘ کی جھیل بن گیا ہے۔نذر بونیاری نے سیلاب کی تباہ کاریوں اور وادی کشمیر کے عوام کے جانی وا مالی نقصانات ، کاروبار ، فصلوں اور باغات کی تباہی کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے تمام بڑے شہر اور قصبات دریاجہلم کے کنارے آباد ہیں ۔ جو حالیہ سیلاب سے برُی طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ کئی کئی منزلہ عمارات ، مکانات ہسپتال،سکول،کالج اورسرکاری دفاتر سیلاب میں ڈوب گئے ۔ کئی روز تک بجلی پانی کا نظام معطل رہا۔ اخبارات شائع نہیں ہوسکے، ریڈیو اور ٹیلی وزیژن کی نشریات مکمل معطل ہیں ۔ ٹیلی فون، ٹیلی فون ، موبائل سروس اور انٹرنیٹ سروس منقطع رہی ۔اس وجہ سے وادی سے باہر کی دنیا کشمیر کی صورت حال سے مکمل طور پر لا علم رہی۔ انہوں نے کہا کہ مالی نقصانات کا تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازالہ ہو جائے گا۔ لیکن یہ سیلاب وادی کشمیر کے تہذیبی ورثے کو بھی بہا کر لے گیا۔ جس میں نیشنل آرکایؤز کا ادارہ بھی شامل ہے جس میں دیگر تاریخی ،تہذیبی اور مذہبی اہمیت کے حامل نوادرات کے علاوہ حضرت عثمانؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن پاک کا نسخہ بھی شامل ہے سیلاب میں کشمیری تہذیب و ثقافت کی علامتوں کا ضیاع بہت بڑا نقصان ہے۔ جس کا ازالہ ممکن نہیں ۔اہل قلم کی اس تقریب میں پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں سے اپیل کی گئی کہ حکومت پاکستان اقوام متحدہ اور ہورپی یونین کے ممالک اور اداروں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے سیلاب زدگان کی مد دکے لئے وسائل اور مدد کی فراہمی کے اقدامات کرے ۔حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں رونما ہونے والے اس خوفناک انسانی المیئے کو سفارتی سطح پر عالمی برادری کے سامنے اجاکرکیا جائے۔یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ یورپ وغیرہ سے امدادی رقوم مقبوضہ کشمیر سیلاب زدگان کی مدد کے لئے بھیجی جائے۔
جموں و کشمیر جوائنٹ چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے صدر ذوالفقار عباسی نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان اور بھارت سے اپیل کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے سیلاب سے متاثرین کی مدد کے لئے لائن آف کنٹرول کو کھول دیا جائے ۔ ایل او سی کے آر پار تجارتی اشیاء کی فہرست میں امداد اور بحالی سے متعلق اشیاء شامل کی جائیں یا پھر عبوری فہرست جاری کی جائے۔انہوں نے بتایا کہ متاثرہ زون کے صرف سرینگر خطے میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو گیا ہے ۔ پانچ سو زیادہ شہری مارے گئے ہیں ۔ اسی فیصد سرینگر پانی میں ڈوب چکا ہے ۔ چھ اضلاع میں ہنگامی حالت ہے ۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری وہ واحد ادارہ ہے جسے پاکستان اور بھارت دونوں حکومتوں نے تسلیم کر رکھا ہے ۔ چنانچہ یہ ادارہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ تیسری پارٹی کی حیثیت سے بحالی اور امداد کی مہم شروع کرے ۔ پہلے مرحلے میں ایل او سی کو امدادی سرگرمیوں کے لئے کھول دیا جائے ۔ چکوٹھی اور تیتری نوٹ کے کراسنگ پوائنٹ کھولے جائیں ۔ امدادی سامان کو ایل او سی کے آر پار آنا جانے دیا جائے انہوں نے بتایا کہ یورپ مشرق وسطی اور کئی دوسرے ممالک سے لوگ امدادی سامان بھیجنا چاہتے ہیں ہمارا ان سے رابطہ ہے تاہم بھارتی حکومت نے بیرونی سامان کی مقبوضہ کشمیر میں آنے پر پابندی لگا رکھی ہے، وزارت خارجہ ، وزارت امور کشمیر ، کشمیر کمیٹی اور حکومت آزاد کشمیر کو خطوط کے ذریعے چیمبر کی عالمی مہم کے سلسلے میں مدد کی درخواست کی گئی ہے حکومت پاکستان کو چاہئے کہ فوری طور پر بھارتی حکومت سے رابطہ کر کے امدادی سامان کے لئے ایل او سی کھولنے پر بات چیت کرے ۔ حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں اور دیگر حریت تنظیموں نے بھی سیلاب کی سنگین صورتحال کے پیش نظر متاثرین کی مدد کے لئے کنٹرول لائین کے راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔آزاد کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں میں مقبوضہ کشمیر مین سیلاب کی شدت اور متاثرین کی مناسب مدد نہ ہونے کی سنگین صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہ بڑھ چڑھ کر مقبوضہ کشمیر کے سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن کشمیر میں سیلاب کی سنگین صورتحال اور متاثرین کی مناسب مدد نہ ہونے کے باوجود بھارت کی طرف سے کشمیریوں کی مدد کی کوششوں پر کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے اور نا ہی حکومت پاکستان کی طرف سے یہ معاملہ سفارتی سطح پہ اٹھایا گیا ہے۔

2ستمبر کو شروع ہونے والی برسات کی شدید بارش سے مقبوضہ کشمیر کے سے سے بڑے شہر سرینگر میں دریائے جہلم کی سطح تقریبا سات میٹر بلند ہوگئی اورضلع اسلام آباد (اننت ناگ) میں جہلم کی سطح دس میٹر تک پہنچ گئی۔سیلاب سے کشمیر کے وسیع علاقوں کی آبادیاں گہرے پانی میں ڈوب گئیں،اب تک پانچ سو کے قریب افراد کی ہلاکت ریکارڈ کی گئی ہے اور بڑی تعداد میں افراد لاپتہ ہیں ۔سیلاب سے اکثر مکانات کی پہلی منزلیں پانی میں ڈوب گئیں اور اب تک لوگ گھروں کی چھتوں پہ اپنی جانیں بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔چند علاقوں سے لوگوں کو کشتیوں سے نکالا گیا تاہم اب بھی بڑی تعداد میں لوگ سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔وادی کشمیر کے 390گاؤں برباد اور190شدید متاثر ہو ئے ہیں۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں سیلاب زدگان کی مدد سے زیادہ کشمیر میں موجود بھارتی افراد کو کشمیر سے نکال کر بھارت پہنچانے کی کاروائیوں میں زیادہ دلچسپی دکھائی اور کشمیر میں کام کے لئے آنے والے بھارتی مزدوروں کو مفت ہوائی جہازوں کے ذریعے بھارت پہنچایا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں لوگ سال بھر کا راشن گھروں میں ذخیرہ رکھتے ہیں لیکن سیلاب سے ان کا سب سامان تباہ ہو چکا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں اتنی وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے لیکن آفت زدہ کشمیریوں کی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔اسی تناظر میں حکومت پاکستان سے بھی کشمیریوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی امدادی تنظیموں کو بھارتی مقبوضہ کشمیر تک رسائی دلانے کے لئے وزارت خارجہ سرگرمی سے کام کرے۔

مقبوضہ کشمیر میں سیلاب سے اتنے وسیع پیمانے پہ تباہی ہوئی ہے کہ سیلاب کے خاتمے کے بعد بھی اس کے بھیانک اثرات کشمیریوں کو سالہا سال شدید متاثر کئے رکھیں گے۔مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے اس بات پہ بھی گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز مقبوضہ کشمیر کے شدید اور بھیا نک سیلاب کی بالکل بھی کوریج نہیں کر رہے ،کشمیری پاکستان کے ’’کشمیر گریز روئیے‘‘کے شاکی تو تھے ہی لیکن اب پاکستانی میڈیا کی کشمیر سے بے نیاز ی اور بھی واضح ہو رہی ہے۔آزاد کشمیر میں2005 ء کے ہولناک زلزلے کے اثرات ابھی بھی باقی ہیں،مقبوضہ کشمیر شدید سیلاب کی تباہ کاریوں میں سسک رہا ہے،عالمی برادری کے علاوہ خاص طور پر یہ پاکستان اور بھارت کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ سات عشروں سے سماجی،سیاسی اور جنگی آفات کے شکار کشمیریوں کی موجودہ قدرتی آفات کی تباہ کاریوں کے پیش نظر کشمیریوں پر آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر آنے جانے کی غیر انسانی پابندیاں ختم کرے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612077 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More