زبانی کلامی

کہا جاتا ہے کہ انسان کو بولنا سیکھنے کے لئے چند سال لگتے ہیں جبکہ کب کہاں اور کیا اور کیسے بولنا ہے اس کو صیح طرح سے جاننے کے لئے ایک عمر درکار ہوتی ہے اور انسان غلطی پر غلطی کرتا رہتا ہے پھر بھی سیکھ نہیں پاتا کہ ابھی زبانی لڑائی میں پڑنا واقعی حق میں جاتا ہے کہ نہیں یا کسی نقصان کا باعث تو نہیں ہو گا لیکن انسان کو غلطی کا پتلا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ غلطی پر غلطی کئے جانا اور پھر غلطی کی ذمہ داری بھی نہ اٹھانا ہی اصل میں انسان کو نچلے درجے پر لئے جاتی ہے اور انسان جان بھی نہیں پاتا کہ وہ خود اپنی زبانی غلطیوں کی بناء پر ہی پوری زندگی میں غلطیوں کی تاریخ رقم کر رہا ہے۔

اس وقت ملک میں صرتحال کچھ یہی رخ اختیار کرتی جارہی ہے کہ غلطی پر غلطی کی جارہی ہے اور سب سے اہم غلطی زبان سے الفاظ کی ادائیگی غیر محتاط ہو کر اور غیر سنجیدہ ہو کر کی جاتی ہے جس وجہ سے ایک دوسرے سے گالم گلوچچ اور الزام تراشی کی صرتحال بھی جنم لیتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو بےعزت کرنا بھی برا نہیں سمجھتے اور غیر ملکی میڈیا کسی بھی بات کو کتنا اچھال رہا ہے اور کتنا رسوا کر رہا ہے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ جب بات ایک بار پھر دوسری بار اور تیسری بار اور لگا تار دہرائی جاتی ہے تو کچھ کی کچھ ہی بنا دی جاتی ہے۔

یہ سب زبان اور ایک دوسرے پر زبانی برتری حاصل کرنے کے ہہی کمالا ت ہیں کہ انسان ایک دوسرے کو اسقدر رسوا کر رہا ہےاور غلطی ماننے کے لئے بھی تیار نہیں ہے بلکہ غلطیوں پر اکڑ اکر کر فخر کا اظہار کیا جارہا ہے سنجیدہ طبقے منت کر کر تھک گئے کہ ملک کو تاریخی طور پر نقصان جو ہو رہا ہے دہشت گردی کے حوالے سے وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے کیونکہ آج جو صورتحال جنم لے چکی ہے اس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ بھی ایک تاریخ ساز سیچویشن ہے اور دور رس اثرات وقت کے ساتھ ساتھ نظر آئِیں گے۔

بات کے ساتھ ساتھ کس انداز میں اور کن الفاظ میں ایک بات کہی جارہی ہے بات کا کل مطلب ہی بدل دیتی ہے آخر کو انسان کوئی روبوٹ تو ہے نہیں کہ ہمیشہ ایک ہی طرح سے بات کہے گا اور اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا بلکہ ایک سادہ سی بات کو بھی خطرناک انداز میں کہہ کر آُ اسی بات کو مزید خطرناک بنایا جاسکتا ہے۔ اس خطرنا باتونی گولہ باری نے ہی ملک کو بدنامی اور سیاسی کشمکش میں لا کھڑا کیا ہے کہ انسان نہ چاہ کر بھی خود کو پوری دنیا کے سامنے بدنام محسوس کرنے لگے۔

جب انفرادی سوچ کے ساتھ کوئی کام کرنے کی ٹھان لی جائے چاہے وہ دوسروں کو بدنام کرنے سے متعلق ہی کیوں نہ ہو انسان ملک کو بھول جائے اور صرف سر عام بدلہ لینے اور ضد کرنے کی ٹھان لے تو نقصانات نسل در نسل منتقل ہوتے آتے ہیں آخر کو ایک انسان اکیلا نہیں ہوتا اسکے ساتھ ایک پوری قوم ایک پورا کنبہ اور ایم ملک ہوتا ہے کسی بھی بیرون ملک میں ایک پاکستانی کچھ برا کرے تو وہ ایک پورے پاکستان کو نیچا کرنے اور مشکوک کرنے کا سبب ضرور بنتا ہے اسی لئے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آج جو زبانی دھماچوکڑی مچائی جارہی ہے یہ ہمیں کہاں لے کے جارہی ہے۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 272677 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More