ضمنی انتخابات : ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟

نریندر مودی خوش قسمت تھے کہ جب کانگریس کی عدم مقبولیت بام عروج پر پہنچی تو بی جے پی نے پارٹی کی کمان اڈوانی سے چھین کر ان کے ہاتھوں میں تھما دی ۔ شومئی قسمت سے ان کی لاٹری لگ گئی اور وہ انتخاب جیت گئے لیکن مہورت ٹھیک نہیں نکلا۔ سنچری (سو دن )کے مکمل ہونے کا وقت آیا تو بہار سے ہار کی خبر آگئی۔ مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں بھی خزاں چھا گئی ۔ اپنی کنڈلی کو درست کرنے کیلئے انہوں نے نیپال کے پشو پتی ناتھ مندر کا رخ کیا۔ وہاں کروڈوں کے صندل کا ہون کیا لیکن وہ کوشش بھی اکارت گئی۔ گجرات سے دہلی آنے کے بعد جب وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی پہلی سالگرہ منانے کیلئے واپس احمدآباد پہنچے تو اس موقع پراترپردیش ، راجھستان اور گجرات سے شکست کی خبروں نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ غم کے کالے بادل ذرائع ابلاغ پر یوں چھا گئے کہ نریندر مودی کی حالت زار پر ساغر نظامی کا یہ شعر(محبت کے بجائے سیاست کی ترمیم کے ساتھ ) صادق آگیا ؎
رُودادِ سیاست کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دِن کی مسرت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

وزیر اعظم کے ستارے اقتدار سنبھالتے ہی اس وقت گردش میں آگئے تھے جب حلف برداری سے قبل شیوسینا اور ایم ڈی ایم کے نےپاکستان اور سری لنکا کے سربراہان کی شرکت پر علم بغاوت بلند کردیا۔ اس کے بعد وزیر مملکت وی کے سنگھ کا کمانڈر چیف کے ساتھ تنازع سامنے آگیا اس سے نکلے تو نہال چند میگھوال پر عصمت دری کا مقدمہ قائم ہوگیا اور اسی کے ساتھ اترانچل کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی ساری سیٹیں ہار گئی ۔ یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے ان واقعات سے پریشان ہو کر مودی نے اعتراف کر لیا کہ انہیں تو ہنی مون منانے کا موقع بھی نہیں ملا لیکن اب بات کس قدر آگےبڑھ گئی ہےاس کا اندازہ شیوسینا کے ادھوٹھاکرے کی بیان بازی سے لگایا جاسکتا ہے ۔

ادھو ٹھاکرے نے اپنے اخبار سامنا کے اداریہ میں بی جے پی کو مخاطب کرکے لکھا ’’ بیجا ہوس کا مطالبہ طلاق تک پہنچ سکتا ہے‘‘ اس کے جواب میں ایک بی جے پی رہنما نے چوٹ کی کہ ’’نامردی بھی طلاق کا سبب بنتی ہے‘‘ ۔ سینا بی جے پی کا الحاق ۲۵ سال پرانا ہے ۔ ازدواجی زندگی کی سلور جوبلی کے بعد بھی اگر کوئی جوڑا بھری محفل میں اس طرح دشنام طرازی کرے تو یہ قابل شرم بات ہے لیکن ہندوتو پریوار کے یہی سناتن سنسکار ہیں اس لئے کوئی بعید نہیں کہ بی جے پی والےآج جس طرح ادھو ٹھاکرے کونامردی کا طعنہ دے رہے ہیں کل وزیر اعظم پر بھی اسی طرح کا اعتراض کرنے لگیں اور نریندر مودی کو کہنا پڑے کہ
اڑتا ہوا غبار سر راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دئیے

تین لوک سبھا کی نشستوں پر حال میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ جن میں سے دوپر بی جے پی ہار گئی اور ایک پر کامیابی ملی ۔ اس طرح ٹسٹ میچ کی اس سیریز میں بی جے پی کا مین آف دی میچ امیت شاہ بین آف دی میچ بن گیا لیکن اس کے ساتھ ہی نہ صرف نام نہاد شاہ بلکہ اپنے آپ کو شہنشاہ سمجھنے والے نریندر مودی کا وقار بھی داؤں پر لگ گیا ہے۔ خودوزیر اعظم کے اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی میں واقع روہنیا سے حلیفِ بی جے پی اپنا دل کے صدر کو سماجوادی امیدوار مہندر سنگھ پٹیل نے دھول چٹا دی ۔ جاپان جانے کے

بعد نریندر مودی کوہندوستان کے بے شمار تیرتھ استھانوں میں سے کسی کی یاد نہیں آئی ۔ وہ رام کی جنم بھومی ایودھیا کو بھول کر وارانسی کو کیوٹو کی مانند بین الاقوامی سیاحتی مرکز بنانے کا معاہدہ کر کے لوٹ آئے لیکن اس کے باوجود روہنیا کے رائے دہندگان نے بی جے پی کو دھتکار دیا ۔ مرکزی وزیر اوما بھارتی خود اپنی چرکھاری سیٹ بھی نہیں بچا سکیں ۔ اتر پردیش میں فساد زدہ سہارنپور اور دو شہری حلقوں کے علاوہ تمام سیٹوں پر بی جے پی چاروں شانے چت ہو گئی ۔

اگر کوئی کہتا ہے کہ اس شکست کیلئے نریندر مودی ذمہ دارنہیں ہے تو وہ غلط ہے اس لئے کہ ؁۲۰۱۲ کے اندرمودی کی مدد کے بغیر بی جے پی نے ان ۱۱ حلقہ ہائے انتخاب پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ مرکز میں بی جے پی اقتدار کے چار ماہ کے اندر ملنے والی اس ہار کی سیدھی ذمہ داری مودی سرکار پر ہے۔ راجھستان میں بھی یہی ہوا ۔ وہاں پر گزشتہ سال وجئے راجے سندھیا نے زبردست کامیابی درج کرائی اور پھر پارلیمان میں ساری کی ساری نشستوں پر قابض ہو گئیں لیکن نئی مرکزی حکومت کے قائم ہوتے ہی چار میں سے تین پر ناکامی ہاتھ آئی ، اب اس کیلئے کون ذمہ دار ہوا ؟

گجرات میں نریندر مودی نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے جن نشستوں کو جیتا تھا ان میں سے تین پر وزیر اعظم بننے کے بعد مودی بی جے پی امیدوار کوکامیاب نہ کر سکے ۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ گجرات کی عوام کے نزدیک وہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے تو وہ قابلِ قبول تھے مگر وزیر اعظم بننے کے اہل نہیں ہیں۔ یہ نتائج نریندر مودی کے وارانسی اور گجرات کے ساتھ زبردست امتیازی سلوک کے باوجود برآمد ہوئے ہیں۔ گجرات کیلئے بولیٹ ٹرین کا معاملہ مودی نے جاپان میں طے کیا ۔ چینی سربراہ کو لے جانے کیلئے بھی انہیں گجرات کے علاوہ کوئی اورریاست نظر نہیں آئی لیکن اس کے باوجود گجراتی عوام نےتین نشستوں پر کانگریس کو کامیاب کرکے جتادیا کہ بی جے پی کے برے دن شروع ہو چکے ہیں ۔ بقول شاعر ؎
محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

بی جے پی کیلئے ایک خوشخبری مغربی بنگال کے بصیر ہاٹ سے آئی جہاں اس کے امیدوار شمک بھٹاچاریہ نے ترنمل کانگریس کے دیبیندو بسواس کو شکست دے کر کامیابی درج کرائی ۔ ۱۵ سال قبل ترنمل کی مدد سے بی جے پی کو مغربی بنگال کے اندرایک اسمبلی حلقہ میں کامیابی ملی تھی اب یہ دوسری بار ہوا ہے۔ پارلیمانی انتخاب میں اس حلقۂ انتخاب کے اندر بی جے پی کو ۳۰ ہزار ووٹوں کی برتری حاصل تھی جو اب پندرہ سو ووٹ تک سمٹ گئی گویا ۲۸ ہزار ووٹ کا نقصان ۔ اس بیچ مرکزی حکومت نے ممتا کو پریشان کرنے کیلئے سردھا چٹ فنڈ معاملے میں سی بی آئی کو پیچھے لگا دیا اس کے باوجود چورنگی حلقۂ انتخاب سے ترنمل امیدوار نینا بندو پادھیائے ۱۴ ہزار سے زیادہ ووٹ سے کامیاب ہو گئیں ۔

بنگال میں عرصۂ دراز تک حکومت کرنے والی سی پی ایم کیلئے یہ انتہائی تشویش کا مقام ہے۔بصیر ہاٹ سے لگاتار ۷ مرتبہ سی پی ایم کے نارائن مکرجی کامیاب ہوئے تھے اور ان کی موت کے ساتھ یہاں سے سی پی ایم کا جنازہ اٹھ گیا اور وہ تیسرے نمبر پر پہنچ گئی۔ بنگال کے اندر ؁۲۰۱۱ کےاسمبلی انتخابات میں سی پی ایم کو ۴۱ فیصد ووٹ ملے تھے لیکن پچھلے سال پارلیمانی انتخاب میں وہ تناسب گھٹ کر ۳۰ فیصد پر پہنچ گیا اور اسے صرف دونشستوں پر کامیابی ملی ۔ سی پی ایم نے جو ۱۱ فیصد ووٹ گنوائے وہ سیدھے بی جے پی کی کشکول میں چلے گئے اور اس کے رائے دہندگان کا تناسب ۴ فیصد سے بڑھ کر ۱۷ فیصد پر ہو گیا۔ اس حقیقت کا اعتراف خود پارٹی کے جنرل سکریٹری پرکاش

کرات نے کیا ۔ ان نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ انتخابی کامیابیوں کا فکری انقلاب سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے ورنہ یہ کیونکر ہو گیا کہ سی پی ایم کے ووٹرس نے اس قدر جلدی لال جھنڈا پھینک کر زعفرانی پر چم تھام لیا ۔

اتر پردیش میں یہی حشر بہوجن سماج پارٹی کا ہوا ۔ ایک وقت میں وزیراعظم بننے کا خواب دیکھنے والی مایا وتی کی بی ایس پی پارلیمانی انتخاب میں ایک بھی نشست نہ جیت سکی۔ ملک گیر سطح پر اس کے رائے دہندگان کا تناسب صرف دو فیصد کم ہوا مگر اتر پردیش میں گزشتہ پانچ سالوں کے اندر وہ ۲۷ فیصد سے ۲۰ فیصد پر پہنچ گئی ۔ مسلمانوں کے اندر جوسیاسی جماعتیں اٹھتے بیٹھتے مایاوتی کا حوالہ دے کر اپنے لئے جواز فراہم کرتی تھیں ان کیلئے اس میں عبرت کا سامان ہے کہ برسوں کی محنت سے پروان چڑھنے والے انتخابی درخت کی جڑیں اس قدر کمزور ہوتی ہیں کہ ہوا کہ ایک جھونکے سےوہ اکھڑجاتا ہے۔ اس بار مایاوتی نے ضمنی انتخاب سے اپنے آپ کو الگ رکھ کر دانشمندی کا ثبوت دیا ۔اس اقدام سے ان کی اپنی عزت بھی رہ گئی اور بی جے پی کی ہوا بھی اکھڑ گئی۔ سی پی ایم اور بی ایس پی کی حالتِ زار پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

اتر پردیش کے اندر بی جے پی کو اس منافقت مار گئی ۔ پارلیمانی انتخاب کے وقت اس نے یکسوئی کے ساتھ تعمیرو ترقی کے نعرے پر انتخاب لڑا تھا ۔ امیت شاہ نے اعظم گڑھ کو دہشت گردوں کی سرزمین اور مظفر نگر میں بدلہ کی بات کہہ کر جو غلطی کی تھی اس کا فوراً اعتراف کرکےاس طرح ازالہ کر دیا کہ کبھی کبھار ماہر بلہ باز بھی ہٹ وکٹ ہو جاتا ہے ۔ اس سے عوام کویہ خوش فہمی ہو گئی کہ اب کی بار بی جے پی واقعی سنجیدہ ہے ۔ نریندر مودی کی چکنی چپڑی باتوں سے بیجا توقعات وابستہ کر کے لوگ ان کے جھانسے میں آگئے۔ لیکن انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے عہدو پیمان بھول کربی جے پی نے پھر سےفرقہ پرستی کا پرانا کھیل شروع کردیا۔ اس کی ابتداء سنگھ سربراہ بھاگوت کے اس اعلان سے ہوئی کہ سارے ہندوستانی ہندو ہیں ۔

اس کے بعد بی جے پی نے پارلیمان کے اندر فرقہ پرستی پر ہونے والی بحث کا جواب دینے کیلئے اپنے سرکردہ رہنماؤں کو کنارے کرکے مہنت اویدیہ ناتھ نامی بدزبان کو میدان میں اتارا۔ اویدیہ ناتھ کا اس عزت افزائی سے دماغ ہی خراب ہوگیا ۔ اس نے لو جہاد کے نام پر ساری ریاست کی فضا مکدرّ کرنے کی بھرپور کوشش کرڈالی اور اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ شروع کردیا۔ اویدیہ ناتھ کیا کم تھا کہ ساکشی مہاراج بھی نیند سےبیدار ہوگئے اور انہوں نے مدرسوں کے خلاف محاذ کھول دیا ۔ اپنی ویب سائٹ پر اس احمق رکن پارلیمان نےہندو لڑکیوں سے شادی کرکے انہیں مسلمان بنانے کی خودساختہ انعامی رقم کی فہرست بھی شائع کردی ۔ بی جے پی اس بابت تذبذب کا شکار رہی اس لئے تمام تر تیاری کے باوجود متھرا کے اجلاس میں لو جہاد پر قرارداد پاس نہیں ہوسکی لیکن اس کی بنیاد پر نفرت کا بازار گرم ہوتا رہا ۔

اویدیہ ناتھ کو شکست کے بعد شکایت ہے کہ بی جے پی نے امیدواروں کے انتخاب میں غلطی کی ۔بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی غلط تھی اور اسے ساری ریاست کے اندر تشہیر کا موقع نہیں دیا گیا ۔ کاش کہ ا سارے امیدوار مہنت کی مرضی سے طے کئے جاتے اور وہ سب کے سب مہنت اور مہاراج ہوتے ۔ اس کو فرقہ پرستی کی بنیاد پر حکمتِ عملی بنانے کی موقع دیاجاتاتاکہ جن تین حلقو ں سے بی جے پی کامیاب ہوئی ہے وہاں سے بھی اس کا صفایہ ہو جاتا۔اویدیہ ناتھ کو سماجوادی پارٹی نے لکھنؤ اور نوئیڈا میں آنے سے روکا اور اس پر ایف آئی آر کرائی جس کے نتیجے میں دونوں مقامات پر بی جے پی جیت گئی یہی سہارنپور میں بھی ہوا ۔ اگر اویدیہ ناتھ کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی تو یہ تین نشستیں بھی بی جے پی ہار جاتی۔ اس لئے ممکن ہے آئندہ سماجوادی پارٹی اپنے جعلی کارکنان کی مدد سے ریاست بھر میں اویدیہ ناتھ کے جلسہ کروائے تاکہ بی جے پی کا صفایہ ہوجائے۔بھاگوت اور مہنت جیسے لوگوں کے بارے میں غالب نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

بی جے پی ویسے تو ساری دنیا کو احمق سمجھتی ہے لیکن حقیقت میں خود نہایت بے وقوف جماعت ہے۔ جس وقت لو جہاد کی گونج سارے عالم میں گونج رہی تھی بی جے پی کے سینئر رہنما اورمرکزی وزیر کلراج مشرا نے اعلان کردیا وہ نہیں جانتے لو جہاد کیا ہے ۔ چھوٹی اور درمیانہ صنعت کے وزیر کو اگر اس کی معلومات نہ ہو اس میں بڑی حیرت کی بات نہیں ہے لیکن وزیر داخلہ اور کابینہ میں دوسرے نمبر کے رہنما راج ناتھ نےمشراجی کی تائید کرکےساری دنیا چونکا دیا۔ یہ ایک ایسا سفید جھوٹ تھا جو کسی وزیر داخلہ کو زیب نہیں دیتا اور اگر وہ سچے ہیں تو انہیں اس اہم ترین وزارت کے قلمدان سے سبکدوش ہو جانا چاہئے۔ جو وزیر داخلہ اپنی آنکھ کان کھلے رکھنے کے بجائے افیون کے نشے میں دنیا و مافیہا سے بے خبر رہتا ہو اسے حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اس دوغلے پن کی وجہ سے بی جے پی کو نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔ اس فسطائی جماعت کوبشمول اتر پردیش سارے ہندوستان میں شکست کا منہ دیکھناپڑا بی جے پی کا فی الحال یہ حال ہے کہ اس میں شاہ اور شہنشاہ کے علاوہ سارے لوگ بے وقعت ہوگئے ہیں اور یہ دونوں اپنی من مانی کررہے ہیں ۔ انہیں لوگوں نے راج ناتھ کے خلاف افواہیں پھیلا کر انہیں خوار کیا۔ سارے بزرگ رہنماؤں کو کوڑے دان کی نذر کیا ۔پہلے اتر پردیش اور پھر قومی سطح پر پارٹی اور حکومت پر قبضہ کرلیا اس لئے جس طرح تمام کامیابیوں کا سہرہ زر خرید ذرائع ابلاغ ان کے سرباندھتا رہا اسی طرح دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ ناکامی کا کلنک بھی انہیں کے ماتھے پر لگنا چاہئے۔ لیکن جب صحافت تھارت بن جائے تو اس سے دیانت کا توقع چہ معنی دارد؟اس ناکامی نے مسلمانوں کے علاوہ اڈوانی سے لے جوشی تک اور راج ناتھ سے لے کر مشرا تک سارے لوگوں کو خوش کردیا ہے۔ ادھو ٹھاکرے کے تو وارے نیارے ہوگئے ہیں ۔

وزیر اعظم کو چاہئے کہ اب یوم اساتذہ پر طلباء کا وقت ضائع کرنے کے بجائے خود سیاست کی ابجد سیکھیں۔ اگر مودی اور شاہ نے اس ناکامی سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا تو بہت جلد ان کا نام سیاست کی اسکول سے خارج کردیا جائیگا ۔ مودی اپنی کلاس میں جو مستقبل کے رائے دہندگان تیار کررہے ہیں اگر انہیں روزگار کے بجائے وچن اورپروچن پر گزارہ کرنا پڑے تو وہ بی جے پی کا بھی وہی حشر کریں جو کانگریس کا کیا ہے ۔ چھپن انچ کی چھاتی بھی ایک دن پچکے گی اس کا یقین تو سب کو تھا لیکن ان اچھے دنوں کا آغاز اس قدر جلد ہو جائیگا اس کا وہم و گمان کسی کو نہیں تھا ۔ دراصل’ ہوا‘ کا کیا ہے کہ جس قدر تیزی سے بھرتی ہے اسی سرعت سے نکل بھی جاتی ہے ۔ ان پے درپے ناکامیوں کے سبب نریندرمودی کی حقیقت اس شعر کی مانند کھلتی جارہی ہے ؎
اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1207457 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.