’داعش‘ کی پاکستان میں پیش قدمی !

ایران کے سپریم سلامتی کونسل کے سیکڑٹری نے امریکہ پرالزام عائد کیا کہ امریکا دولت اسلامیہ کیخلاف کاروائی کے بہانے قوموں کی خودمختاری کو پامال کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل کرنا چاہتا ہے علی شامخانی کا کہنا ہے کہ امریکا شام اور عراق میں اپنی پالسیاں مسلط کرنا چاہتا ہے اور شامی حکومت کیخلاف باغیوں کی حمایت کر رہا ہے ۔ایران کیجانب سے پہلی بار ایسا بیان اُس وقت سامنے آیا جب امریکا کی سربراہی میں دولت اسلامیہ کیخلاف بنائے جانے والے عالمی اتحاد میں ایران کی اس پیش کش کو مسترد کردیا گیا جس میں اس نے اپنے خلاف عالمی پابندیوں اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا ، ویسے بھی دولت اسلامیہ کیخلاف ایران، عراقی حکومت کیساتھ ملکر سخت مزاحمت کر رہا ہے اور فرقہ وارانہ اس جنگ میں دولت اسلامیہ کیجانب سے ہر متنازعہ عمل کے باوجود ، یہ منصوبہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایران ،دولت اسلامیہ کا بہانہ بنا کر عراق پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی اور ماضی میں ایران ، عراق جنگ کا بدلہ لینا چاہتا ہے ، اسی کیساتھ مخصوص مسلک کیساتھ سعودی عرب کیخلاف ایران مشترکہ گروپ تشکیل دینا چاہتا ہے ۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امیر عبدالحیان نے سرکاری ٹی وی کو بیان دیا ہے کہ ایران دہشت گردی کیخلاف ہونے والی اس عالمی کانفرنس میں شرکت کا خواہش مند نہیں ہے ، ان کے مطابق تہران خطے اور دنیا میں دہشت گردی سے لڑنے کی حقیقی جنگ لڑنا چاہتا ہے ۔مصر جیسی مملکت دولت اسلامیہ کیخلاف عسکری کاروائیوں میں عملی طور پر کوئی کردار نہیں کرنا چاہتی لیکن امریکا ، مصر کی جامعہ الازہر کو مذہبی محاذ پر دولت اسلامیہ کا مقابلہ کیلئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دولت اسلامیہ نے عراق میں سخت گیر پالیسیوں کے تحت ، غیر مسلموں سے جزیہ وصولی یا نقل مکانی کے احکامات اور مصری خواتین کے ختنہ پر پابندی سمیت ، دولت اسلامیہ کے سپاہیوں کی شادی کیلئے گھر گھر ، غیر شادی شدہ لڑکیوں کی فہرست مرتب کے ساتھ ساتھ انھیں اس بات کی ترغیب (احکامات) دئیے گئے کہ وہ دولت اسلامیہ کے مجاہدین کیساتھ نکاح کریں ، اسی کیساتھ دولت اسلامیہ کیجانب سے مخالف فرقہ کی مساجد اور انبیا و اہل بیت کے مزارعات کو مہندم کرنے کے واقعات سمیت امریکی صحافیوں کی گردن زنی کی ویڈیو جاری ہونے کے بعد پوری دنیا میں ایک پیغام دیا ہے کہ دولت اسلامیہ اپنے منصوبے کے مطابق ، شام اور عراق کے بعد محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کی سرگرمیاں بتدریج بڑھتی چلی جائیں گی ۔چونکہ دولت اسلامیہ کی سرگرمیاں خود مسلم امہ کیلئے حیران کن ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر اس قدر متشدد رویہ کیوں اپنائے ہوئے ہے القاعدہ کی جانب سے بھارت اور کشمیری مسلمانوں پر ہونے ہونے ظلم و ستم کے نام پر بھارتی شاخ کے قیام نے ہندوستانی حکومت میں سراسمیگی پیدا کردی ہے۔ انڈین میڈیا کے حوالے سے یہ خبر بھی آئی کہ دو زیر تعلیم انجیئنر طلبا کو کلکتہ سے گرفتار کیا گیا جو بنگلہ دیش میں دولت اسلامیہ کی خلافت کے حامی تھے تو دوسری جانب بھارت اور کشمیر کی عسکریت پسند مسلم تنظیموں کے علاوہ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کو بھارتی ہندو انتہا پسندی سے نجات یا سبق دلانے کیلئے القاعدہ کے اعلان میں بڑی کشش پائی جاتی ہے ، ابھی اس حوالے سے چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ دولت اسلامیہ کیجانب سے افغانستان اور پاکستان میں بھی کاروائیوں کیلئے قدم رکھ دیا گیا ہے اوردولت اسلامیہ کیجانب سے تشہیری مہم شروع کردی گئی ہے جس میں پاکستان میں مقیم لاکھوں کی تعداد میں موجود افغان مہاجرین کی بستیوں ، میں دولت اسلامیہ کیجانب سے ایک کتابچہ تقسیم کیا گیا ہے کہ وہ ’اسلامی خلافت‘ کے قیام کیلئے حمایت کریں۔دولت اسلامیہ کیمطابق وہ خراسان میں خلافت قائم کرنے کیلئے جدوجہد کریں گے ۔ جس میں پاکستان ، افغانستان ، ایران اور وسطی ایشیا ئی ممالک شامل ہونگے ، پشتو اوردری زبان میں چھاپے گئے اس کتابچے میں افغان باشندوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔اہم پہلو یہ ہے کہ بیشتر افغان باشندے جہاں ملا امیر کی قائم کردہ عسکری جماعت طالبان کو سپورٹ کرتے ہیں وہاں دولت اسلامیہ کی جانب سے عراق میں مسلسل کامیابیوں کے بعد ان میں دولت اسلامیہ کیلئے حمایت کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے ، چونکہ پاکستان میں طالبان مختلف گروہ بندیوں کا شکار ہوکر مسلسل دھڑوں میں تقسیم ہو رہے ہیں اس لئے طالبان کی جانب سے کاروائیاں بھی ماند پڑ گئیں ہیں، جس کی اہم مثال عصمت اﷲ معاویہ پنجاب طالبان کی جانب سے پاکستان میں عسکری جنگ ختم کرنے اور افغانستان تک محدود رہنے کا خوش آیند اعلان ہے تاہم اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے اور شمالی وزیرستان پاک فوج کی کامیاب کاروائیوں اور پیش رفت کے بعد طالبان اتحادیوں نے’ جماعت الاحرار ‘کے نام سے ایک نئی تنظیم بنا لی ہے ، یہ تنظیم امیرملا محمدعمر کو اب بھی اپناا میر تسلیم کرتی ہے لیکن دولت اسلامیہ کی کوششوں کو بھی سراہاتی ہے جس لگتا ہے کہ اگر دولت اسلامیہ کی سرگرمیاں پاکستان میں بڑھنے لگیں تو انھیں کامیابیاں مل سکتی ہیں اور قبائلی عوام کی محرومیوں کے جواز پر القاعدہ ، طالبان سے بڑھ کر دولت اسلامیہ کو بھی قدم جمانے کا موقع مل سکتا ہے۔دوسری جانب ایران کی جانب سے دولت اسلامیہ کے خلاف سخت گیر فرقہ وارنہ رویہ بھی متنازعہ بن رہا ہے ۔

’ دعوت جہاد‘نامی پشتو اور دری زبان میں لکھے بارہ صفحات پر مبنی اس کتابچے میں کلاشنکوف پر لگے کالے رنگ کے پرچم پر کلمہ اور مہررسول ﷺ کے ساتھ نمایاں انداز میں فتح لکھا ہوا ہے جبکہ کاروں پر اسٹیکر بھی دیکھے جا رہے ہیں، ذرایع یہ بتا تے ہیں کہ یہ مواد افغانستان کے علاقے کنٹر سے آئے ہیں۔ فی الحال یہ کتابچے پشاور ، نوشہرہ اور دیگر علاقوں میں افغان مہاجرین کی بستیوں میں دولت اسلامیہ کیجانب سے نامعلوم افراد نے تقسیم کئے ہیں ۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بار بار آپریشن کے باوجود کچھ وقفے کے بعدکوئی نہ کوئی عالمی عسکری شدت تنظیم قدم جمانے میں اس لئے کامیاب ہو جاتی کیونکہ ان علاقوں کو ملک کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت پس ماندہ رکھا گیا ہے ، انگریزوں کا دیا ہوا کالاقانون ایف سی آر کی وجہ سے بنیادی حقوق عام قبائلی کیلئے ممنوع ہیں ، پولیٹیکل ایجنٹ ، علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے اور یہاں سیاسی سرگرمیوں کی دیگر ملک کے حصوں کی طرح اجازت نہیں ہے خواتین کا کردار صرف پختون روایات اور اسلامی نقطہ نظر سے صرف گھروں تک محدود ہے ، تعلیم اور دیگر بنیادی حقوق مہیا نہیں کئے جاتے ، روزگار سمیت معاشی مسائل ان علاقوں کا مقدر بن چکا ہے ، وفاق کے ماتحت ہونے کے سبب صوبائی حکومت کی عمل داری نہیں ہے ، گورنمنٹ کی رٹ کے بجائے قبائلی روایات کے مطابق ہی یہاں تمام فیصلے کئے جاتے ہیں اس لئے حکومتی انتظام و انصرام نہ ہونے کے سبب یہ قبائلی علاقے عالمی عسکریت پسند تنظیموں کیلئے ایک جنت کا درجہ رکھتی ہے۔ پھر افغانستان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ بغض کے سبب ان عناصروں کی سر پرستی اور ملک دشمن ممالک کی جانب سے پاکستان کی بقا اور سلامتی کے خلاف سازشیں ، دولت اسلامیہ جیسی عالمی تنظیم کو جلد ہی پاکستان میں اپنے قدم جمانے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔ گو کہ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے دولت اسلامیہ کی پاکستان میں کسی سرگرمی سے قطعی لاعملی اور تردید کی گئی ہے لیکن وزرات خارجہ کی’ کم لاعلمی ‘ ماضی کی طرح صرف رسمی بیانات کی حد تک محدود ہیں ، اگر پاکستان افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بعد پاکستان کو ایک نئی جنگ سے بچانا چاہتی ہے تو اسے ابھی سے اس اہم معاملے پر توجہ دینی ہوگی ، افغان مہاجرین کی جلد از جلد واپسی کو ممکن بنانا ہوگا ، غیر ملکیوں کی سرگرمیوں کو قانون کی گرفت میں لا کر رجسڑڈ افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھا جائے۔ورنہ حکومت ایک نئی نہ ختم ہونے والی جنگ کے لئے تیار ہوجائے کیونکہ قبائلی علاقوں میں مسلسل آپریشن کے بعد انھیں حکومت اور سیاسی جماعتوں نے جس طرح نظر انداز کیا ہے اس سے خدشہ ہے کہ نوجوانوں کے رجحانات اس تنظیم کی جانب ہوسکتے ہیں کیونکہ احساس محرومی کے شکار کسی بھی فرد یا قوم سے ردعمل نہ صرف فطری ہوتا ہے بلکہ اس میں بدلے اور ناراضگی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔حکومت کو اس کے مکمل خاتمے کیلئے اور ایسی تنظیموں کا راستہ روکنے کیلئے ابھی سے اقدامات کرنا ہونگے ۔ پاک فوج سرحدوں کی حفاظت کررہی ہے لیکن سیاسی انداز میں بے چین اور احساس محرومی کے شکار عوام کے ساتھ کب تک اکیلے نبر آزما رہے گی ، فوج اپنے حصے سے بڑھ کر کام کر رہی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں ، صوبائی اور وفاقی حکومتیں محاذ آرائیوں سے بیزار ہونے ہونے والی عوام کی زیادتیوں کا ازالہ فوری نہیں کیا گیا تو مستقبل میں دولت اسلامیہ کا وجود پاکستان میں طالبان اور القاعدہ سے انتہائی زیادہ خطرناک ہوگا ۔ عراق و شام کے حالات سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔یہ انتہائی اہم معاملہ ہے کیونکہ دولت اسلامیہ کے ساتھ صرف ہمدردی افغانستان کے عوام کو ہی نہیں ، بلکہ پاکستان میں بھی کئی تنظیمیں اور گروہ ہیں ، جو دولت اسلامیہ کی جانب سے شام و عراق میں کی جانے والی کاروائیوں کو درست سمجھتے ہیں اور پاکستان میں دولت اسلامیہ کو قدم جمانے میں مشکل نہیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 656969 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.