رشتہ کرنے سے پہلے لڑکیوں سے مشاورت ضروری

اسلام فطری دین ہے لہٰذاوہ شادی کے معاملے میں لڑکیوں کو فطری حق سے کیسے محروم کرسکتاہے؟

ہمارے معاشرے میں شادی اوراس سے پہلے لڑکے اورلڑکی کے ایک دوسرے کودیکھ لینے سے متعلق دوطرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں ۔ایک طرف لڑکے، لڑکیوں کواتنی آزادی ہے کہ وہ کھلے طورپرایک دوسرے سے ملتے جلتے،سیروتفریح کرتے اوراسی کے بہانے حدسے گزر جانے میں بھی عارمحسوس نہیں کرتے ہیں ۔موبائل اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس نے اس میں بڑااہم کردار ادا کیا ہے ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اورطالبات نیزآزادگھرانوں میں یہ سب بہت عام اورمعمولی سی بات ہے ۔ظاہرہے اسلام اس کی اجازت کیسے دے سکتاہے ،وہ توایک ایسے معمولی روزن کوبھی بند کردیتاہے جس سے مفسد اور زہریلی ہوائیں گھرکے اندرداخل ہوں۔

دوسری طرف ہمارے کچھ گھروں میں کچھ ایسا’’دینی ماحول‘ ‘ ہے کہ خاص طورپرلڑکی شادی کے معاملے میں خودکوایک طرح سے مظلوم محسوس کرتی ہے۔ہمارے گھرانے عام طورپرشادی سے پہلے لڑکی سے مشورہ کرناتودرکناراس کی رضامندی اورخواہش بھی نہیں جاننا چاہتے۔اس بزم میں ہم اسی موضو ع پرگفتگوکریں گے۔آئیے ہم اپنے دین سے پوچھیں کہ نبیِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کااس سلسلے میں کیاموقف ہے۔
(۱)عَنْ عَائِشَۃَ، أنَّہَا قَالَتْ:قَالَ رَسُوْلُ الْلّٰہِ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :رَأیْتُکَ فِیْ الْمَنَامِ ثَلاثَ لَیَالٍ، جَاءَ نِیْ بِکَ الْمَلَکُ فِیَ سَرْقَۃِ مِنْ حَرِْیرٍ، فَیَقُوْلُ:ہٰذِہٖ اِمْرأتُکَ، فَأکْشَفُ عَنْ وَجْہِکَ فَإذَا أنْتَ ہِیَ، فَأقُوْلُ:إنْ یَکُ ہٰذا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ، یَمُضُّہٗ۔
(صحیح مسلم:باب فی فضل عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،جز۴،حدیث نمبر۱۸۸۹)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( نکاح سے پہلے )میں نے تمہیں تین بار خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ (جبریل علیہ السلام ) ریشم کے ایک ٹکڑے میں تمہیں لپیٹ کر لایا ہے اور مجھ سے کہہ رہا ہے کہ یہ تمہاری بیوی ہے ۔ میں جب چہرے سے کپڑا ہٹاتاہوں تو تمہیں دیکھتاہوں تو میں کہتاہوں کہ اگر یہ خواب اﷲ کی طرف سے ہے تو وہ اسے خود ہی پورا کردے گا ۔

(۲) عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ امْرَأَۃً جَاء َتْ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:یَا رَسُولَ اللَّہِ جِئْتُ لِأَہَبَ لَکَ نَفْسِی، فَنَظَرَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَصَعَّدَ النَّظَرَ إِلَیْہَا وَصَوَّبَہُ، ثُمَّ طَأْطَأَ رَأْسَہُ، فَلَمَّا رَأَتِ المَرْأَۃُ أَنَّہُ لَمْ یَقْضِ فِیہَا شَیْئًا جَلَسَتْ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہِ، فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنْ لَمْ یَکُنْ لَکَ بِہَا حَاجَۃٌ فَزَوِّجْنِیہَا، فَقَالَ:ہَلْ عِنْدَکَ مِنْ شَیْء ٍ؟ فَقَالَ:لاَ وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ، قَالَ:اذْہَبْ إِلَی أَہْلِکَ فَانْظُرْ ہَلْ تَجِدُ شَیْئًا؟ فَذَہَبَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ:لاَ وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا وَجَدْتُ شَیْئًا، قَالَ:انْظُرْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِیدٍ فَذَہَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ:لاَ وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَلاَ خَاتَمًا مِنْ حَدِیدٍ، وَلَکِنْ ہَذَا إِزَارِی-قَالَ سَہْلٌ:مَا لَہُ رِدَاء ٌ -فَلَہَا نِصْفُہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا تَصْنَعُ بِإِزَارِکَ، إِنْ لَبِسْتَہُ لَمْ یَکُنْ عَلَیْہَا مِنْہُ شَیْء ٌ، وَإِنْ لَبِسَتْہُ لَمْ یَکُنْ عَلَیْکَ شَیْء ٌ فَجَلَسَ الرَّجُلُ حَتَّی طَالَ مَجْلِسُہُ ثُمَّ قَامَ فَرَآہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُوَلِّیًا، فَأَمَرَ بِہِ فَدُعِیَ، فَلَمَّا جَاء َ قَالَ:مَاذَا مَعَکَ مِنَ القُرْآنِ؟ قَالَ:مَعِی سُورَۃُ کَذَا، وَسُورَۃُ کَذَا، وَسُورَۃُ کَذَا۔عَدَّہَا- قَالَ: أَتَقْرَؤُہُنَّ عَنْ ظَہْرِ قَلْبِکَ؟ قَالَ:نَعَمْ، قَالَ:اذْہَبْ فَقَدْ مَلَّکْتُکَہَا بِمَا مَعَکَ مِنَ القُرْآنِ۔
(صحیح البخاری:باب القراء ۃ عن ظہرالقلب،جز۶،ص۱۹۲/صحیح البخاری:باب النظرالی المرء ۃ قبل،جز۷،ص۱۴)
(ترجمہ) سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں اور عرض کی یا رسول اﷲ!میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو ہبہ کرنے آئی ہوں ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور نظر اٹھا کر دیکھا ۔ پھر نظر نیچی کرلی اورسر کو جھکا لیا ۔ جب خاتون نے دیکھا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو بیٹھ گئیں ۔ اس کے بعد ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کی یا رسول اﷲ!اگر آپ کو ان کی ضرورت نہیں تو ان کا نکاح مجھ سے کرادیجیے ۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے عرض کی کہ نہیں، یارسول اﷲ!اﷲ کی قسم ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھوشاید کوئی چیز مل جائے ۔ وہ گئے اور واپس آکر عرض کی کہ نہیں، یا رسول ا ﷲ!میں نے کوئی چیز نہیں پائی ۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اور دیکھ لو ،اگر ایک لوہے کی انگو ٹھی بھی مل جائے ۔ وہ گئے اور واپس آکر عرض کیاکہ یارسول اﷲ!مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی البتہ یہ میرا تہمد ہے ۔ سہل رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی (ان صحابی نے کہا کہ )ان خاتون کو اس تہمد میں سے آدھا عنایت فرما دیجیے ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے تہمد کا کیا کرے گی اگر تم اسے پہنو گے تو اس کے لیے اس میں سے کچھ باقی نہیں رہے گا ۔ اس کے بعد وہ صاحب بیٹھ گئے اور دیر تک بیٹھے رہے ۔پھر کھڑے ہوئے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں واپس جاتے ہوئے دیکھا اور انہیں بلانے کے لیے فرمایا ، انہیں بلایا گیا ۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا تمہارے پاس قرآن مجید کتنا ہے ۔ انہوں نے عرض کیا فلاں فلاں سورتیں ۔ انہوں نے ان سورتوں کو گنا یا ۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم ان سورتوں کو زبانی پڑھ لیتے ہو ۔ انہوں نے ہاں میں جواب دیا ۔پھرحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھر فرما یا جاؤ میں نے اس خاتون کو تمہارے نکاح میں اس قرآن کی وجہ سے دیا جو تمہارے پاس ہے ۔ ان سورتوں کو ا سے یاد کرادو ۔

اس پوری حدیث کوایک بارپھرغورسے پڑھ لیجیے ،اس سے بہت سی باتیں معلوم ہوئیں ،چندیہا ں درج کی جاتی ہیں:
(۱)خاتون نے حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں خودآکر حضور سے شادی کی خواہش کااظہارکیا۔
(۲)حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی خواہش کااحترام کرتے ہوئے اسے ایک نظردیکھااورپھرنظریں نیچے کرلیں۔اسے جھڑکانہیں ، اسے ڈانٹا نہیں ۔
(۳)فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ اَصْحَابِہٖ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ مجلس میں کئی صحابہ موجودتھے اس کے باوجوداس خاتون کی آمداوراس کی خواہش کے اظہارپرحضورناراض ہوئے اورنہ صحابہ مشتعل بلکہ حضور نے خاتون کے چہرے پرایک نظرڈال کرقیامت تک کے لیے شادی کے متعلق دینی موقف کی وضاحت فرمادی ۔
(۴)صحابی رسول کووہ خاتون بھاگئیں ،توانہوں نے حضورکی خاموشی کے بعدکھڑے ہوکراس خاتون سے شادی کی پیش کش کردی۔انہوں نے حضورکے سامنے اورصحابہ کے سامنے ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا،شرم محسوس نہیں کی۔

اس حدیث سے ایک بات واضح طورپرمعلوم ہوتی ہے کہ شادی میں لڑکی کی رضامندی کابھرپورخیال رکھاجائے گا۔بہت سارے کیسزایسے ہوئے ہیں کہ لڑکی تعلیم یافتہ ہے اوراس کے والدین کسی ایسے مردسے اس کارشتہ کرانے پربضدہیں جواس کے برابر پڑھا لکھا نہیں ۔ظاہرہے جب لڑکا،لڑکی کے معیارکاہے ہی نہیں تو لڑکی کیسے رضامندہوسکتی ہے۔لڑکاہویالڑکی،ہرکوئی اپنے ہم پلہ رفیق کے ہی خواب بُنتاہے ۔آج کل تقریباًہرمعاشرے میں ایسابہت ہورہاہے کہ لڑکی کا Status اونچاہے لہٰذاوہ اس سے کم والے پررضامندہی نہیں ۔ غورکیاجائے تو لڑکی ہویالڑکا ،یہ اس کافطری حق ہے کہ اس کاساتھی اسی کے معیار کا ہونا چاہیے۔ ہاں ،یہ بات صحیح ہے کہ والدین اورسرپرست کے مقابلے ان کی لڑکی کی سمجھ بوجھ کچی ہوتی ہے ،بچے بچیاں بہت جلدجذبات کے سہارے بہہ جاتے ہیں،یہ نہیں دیکھتے کہ آنے والا’’کل‘‘ ان کا ساتھ دے گایا نہیں لیکن کیامحض کچی عمر،کچی سوچ اورکچے شعور کو بنیاد بنا کر ان کی رضامندی اورمشورے کونظرانداز کیا جا سکتا ہے ؟

اس مسئلے کاایک پہلویہ ہے کہ اگرکوئی لڑکی بے باکی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خواہش اوررضامندی کااظہارکربھی دے توسماج کے کچھ افراداس پرآوارگی اوربدکرداری کے الزامات لگانے سے بھی گریزنہیں کرتے ۔مستقبل کے اسی تصورسے بے چاری لڑکیاں بھی اپنی زبان بندرکھنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتی ہیں،لیکن کچھ پر محبت کاجنون اس قدرسوارہوجاتاہے کہ انہیں اپنے آشناکے ساتھ فرارہونے کے سوااورکوئی راستہ نظرنہیں آتاکیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ والدین اجازت نہیں دیں گے، یہ الگ بات کہ اس شادی کی عمرکتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔

یہاں ایک سوال یہ ہے کہ والدین کی اطاعت کابھی توقرآن نے حکم دیاہے توکیااس طرح کی شادیوں میں بچے اپنے والدین کی عدم اطاعت کے مرتکب نہیں ہوتے؟

ہمیں سب سے پہلے اس سوال کاجواب تلاش کرناچاہیے کہ والدین کی اطاعت کی حدود کیا ہیں۔ اس باب میں بنیادی بات یہ ہے کہ تمام اطاعتیں اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کے تابع ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فرماں برداری گناہ قرار پائے گی جس کے نتیجے میں اﷲ تعالیٰ یا اس کے رسول محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی ہوتی ہو۔ چنانچہ والدین ہوں یا کوئی اور بڑا، حتیٰ کہ حکومت بھی یہ حق نہیں رکھتی کہ خداکے مقابلے میں اس کی اطاعت کی جائے۔ قرآنِ مجید کے مطالعے سے والدین کے حوالے سے اولاد کی اصل ذمہ داری یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اس کے لیے قرآن مجید نے وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (سورۂ بقرہ :آیت ۸۳)کی تعبیراختیار کی ہے۔ اس سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ والدین کی اطاعت کا تقاضا ان کے ساتھ حسنِ سلوک کے ایک حصے کی حیثیت سے ہے۔ والدین کی اطاعت اپنی مجرد حیثیت میں مطلوب نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ کافروالدین کے ساتھ حسنِ سلوک کاحکم دیاگیاہے ان کی اطاعت کانہیں۔
ہماری فہم ناقص میں اولاد اپنے والدین کے ہر حکم کو بے چون وچرا ماننے کی پابند نہیں ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ اولاد اپنی زندگی کے بارے میں مختلف فیصلے کرنے میں اگرچہ آزاد ہے لیکن اسے یہ فیصلے کرتے ہوئے ہر آن یہ ملحوظ رکھناہے کہ اس کے والدین کے جذبات جہاں تک ممکن ہو، مجروح نہ ہوں۔ وہ ان کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے حتی المقدور کوشاں رہے۔قرآن مجید نے اس معاملے میں بَرًّا بِوَالِدَیْہِ (سورۂ مریم:آیت۱۴) کی تعبیر بھی اختیار کی ہے۔ لفظ برکی اصل روح وفاداری ہے ۔اس سے حسنِ سلوک کے تقاضے کا منتہاے مقصود سامنے آتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اولاد کو آخری درجے میں والدین کا خیر خواہ،ان کے مفادات کا محافظ اور ان کی خواہشات کا احترام کرنے والا ہونا چاہیے لہٰذامحض اس بنا پر کسی نکاح کو باطل قرار دینا غلط ہے کہ اس میں والدین کی نافرمانی ہوئی ہے۔

اس میں شبہہ نہیں کہ عورتیں اپنی طبعی کمزوری کی وجہ سے مظالم کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بعض گھرانوں میں ان کے ساتھ انتہائی حقارت کا سلوک کیا جاتا ہے۔ بطور خاص شادی کے معاملے میں ان کی مرضی معلوم کرنا یا ان کی مرضی کو پورا کرنا والدین اپنی بے حمیتی کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کا نتیجہ نہیں بلکہ جاہلی تہذیبوں کے باقی بچ رہنے والے آثار ہیں، جن کا اظہار مختلف رسوم اور اقدار کی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گھرانوں میں تعلیم و تربیت عام ہے۔جن کے دلوں میں اسلام کاصحیح تصورراسخ ہوچکاہے وہ ضرورکسی نہ کسی طرح اپنی بچی کی رائے معلوم کرہی لیتے ہیں۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا اصل حل صحیح تعلیم و تربیت ہے۔ اس لیے معاشرے کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نئی نسلوں کی صحیح دینی اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کرے تاکہ جاہلیت کی باقیات کا خاتمہ ہو اور معاشرہ درست خطوط پر استوار ہو۔

اس وقت ہمارے ذرائعِ ابلاغ اور نام نہاد دانش وروں کا ایک پورا گروہ کچھ نئی اقدار کو روشناس کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ شادی سے پہلے لڑکے کا لڑکی کو اور لڑکی کا کسی لڑکے کو پسند کر لینا اور والدین کے سامنے اپنی پسند کا اظہار کرنا اگر شائستہ حدود( شرم و حیا)کی پاس داری کرتے ہوئے ہو تو دین کے خلاف نہیں، لیکن یہ لوگ ان کی آپس میں ملاقاتیں، اکٹھے سیر کو جانا اور اس طرح کی دوسری چیزوں کو ایک مطلوب عمل کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ والدین کو اس سارے عمل میں بخوشی شریک دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ مردوں کی عورتوں کے ساتھ دوستیاں ہوں اور عورتوں کی مردوں کے ساتھ دوستیاں ہوں۔عورتوں اور مردوں کے باہمی خلا ملا پر کوئی پابندی نہ ہو۔کوئی لڑکا کسی لڑکی کو پسند کرلے یا کوئی لڑکی کسی لڑکے کو پسند کر لے، وہ خود ہی ایک دوسرے کو شادی کی دعوت دے دیں۔ والدین اگر بخوشی شریک ہو جائیں تو فبہا اور اگر مخالفت کریں تو ان کے خلاف بغاوت اور گھر سے چوری چھپے نکاح کر لینا، ان کے مطلوبہ سماج کی اعلیٰ اقدار ہیں۔

بلاشبہہ دیکھ کراورپورے طورپراطمینان کرکے شادی کرنالڑکے اورلڑکی کافطری حق ہے مگرافسوس انہیں اپناحق تویادرہتاہے مگراپنے والدین کی محبیتں اورشفقتیں یاد نہیں رہتیں ۔ان سے پوچھاجاسکتا ہے کہ ایسی شادی کا فائدہ ہی کیاکہ والدین ،رشتے دار،بھائی بہن سب نارا ض ہوجائیں ۔یہ صورت حال انتہائی سنگین ہے۔ اس کے تدارک کی بہت بڑی ذمے داری علماے کرام پر بھی ہے کہ وہ لوگوں کے دینی شعور بیدار کریں، انھیں دین کی صحیح تعلیمات سے آگاہ کریں۔ ہمارا دین فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ اپنی صالح فطرت کے مطابق عمل کرنا چاہیں اور ہمارا دین ان کے لیے تنگی کا باعث ہو۔

یہاں ایک سوال یہ ہے کہ ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کو کسی لڑکی نے ایک بار دیکھا ہو ،اگرشادی سے پہلے اس کی رائے پوچھی جائے تووہ کیا رائے دے گی ۔؟اس بارے میں ماں باپ کا فیصلہ ہی ٹھیک ہوتا ہے ۔اصل میں حالات ایسے ہیں یابنادیے گئے ہیں کہ والدین اپنی بچیوں کے باہرنکلنے پرپابندی لگانے مجبورہیں ۔اگروہ ایساکرتے ہیں توبالکل صحیح کرتے ہیں۔بچے ان کے جگرکے ٹکڑے ہوتے ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ شادی کے بعدان کے بچے ناخوش رہیں ۔وہ بہت چھان پھٹک کررشتہ تلاش کرتے ہیں تب جاکراپنی بیٹی کوبیاہتے ہیں ،اگرچہ بعض لوگ اس عمل میں اپنی بیٹی کی رائے نہیں لیتے مگرانہیں ہرآن اپنی بیٹی کی خوشی کی تلاش رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ بیٹی کے حق میں اس کے سسرال والوں کی ہلکی سی بھی اونچی گفتگووالدین کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں بہت کچھ اسلام کے نام پر’’غیر اسلامی‘‘ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو لڑکوں سے شادی کے وقت ان کی مرضی نہیں معلوم کی جاتی ہے لڑکیوں سے مشاورت کی بات توبہت دورکی ہے ۔ہماری شریعت مطہرہ میں لڑکی یا عورت کی مشاورت ہی نہیں بلکہ اس کی مکمل رضا مندی کے بغیر اس کا نکاح کرنے کی اجازت نہیں دی گئی،گو کہ وہ نکاح شرعی طور پر واقع تو ہو جاتا ہے لیکن اس لڑکی یا عورت پر ایک یقینی ظلم ہوتا ہے ، کروانے والوں کے لیے گناہ ہوتا ہے۔آئیے دیکھیں اسلام اس متعلق کیاکہتاہے :
(۱)حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و علی آلہ وسلم کا حُکم مبارک ہے :لاَ تُنْکَحُ البِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ، وَلاَ الثَّیِّبُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ
یعنی کنواری کی اجازت لیے بغیر اس کا نکاح نہ کیا جائے اور (پہلے سے شادی شدہ لیکن)بغیر شوہر والی عورت سے فیصلہ لیے بغیر اس کا نکاح نہیں کیا جائے ۔
صحابہ رضی اﷲ عنہم اجمعین نے عرض کیا:یا رَسُولَ اللَّہِ وَکَیْفَ إِذْنُہَااے اﷲ کے رسول! کنواری کی طرف سے اجازت کیسے ہو گی ؟اِرشاد فرمایا: إِذَا سَکَتَتَ (کنواری کی اجازت)یہ ہے کہ وہ خاموش رہے۔
(صحیح البخاری :باب فی النکاح، جز۹،ص۲۵)
(۲)خنساء بنت خِدام رضی اﷲ عنہا کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا (اور وہ کنواری نہ تھیں)لیکن وہ اس پر راضی نہ تھیں تو خنساء رضی اﷲ عنہا نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہو کراس کی شکایت کی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان کا نکاح منسوخ قرار دے دیا۔
(صحیح البخاری:کتاب انکاح)

عقل، منطق اور توجیہ بھی ہم کو یہی سکھاتی ہے کہ جس شخص (مرد یا عورت)کے ساتھ آپ کواپنی زندگی گزارنی ہے تو اس زندگی کو خوشگوار رکھنے کے لیے لڑکا لڑکی کو پسند کرتا ہو، لڑکی کے ساتھ زبردستی نہ کی جائے، مہر ادا کیا جائے۔ لڑکی اس مہر کو قبول کرکے رضامندی کا اظہار کرے اور اگر کچھ چھوڑ دے تو یہ اس کی خوشی کا بڑا اظہار ہوگا۔ خاندان والوں کی اجازت سے یہ شادی کی جائے۔ لڑکی کے خاندان والے آپس میں لڑکی کو شامل کرکے باہمی مشورہ کریں۔ لڑکے کے خاندان والے بھی آپس میں باہمی مشورہ کریں تاکہ ان دونوں کی ازدواجی زندگی اچھی گزرے۔
sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 170388 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More